آؤ سب لنگڑے گنگا جمنا نشانوں پر چڑھ دوڑیں
از، فاروق احمد
الہٰ آباد سے جو لنگڑا چلا تھا وہ لاہور تک آیا تھا۔ لیکن لاہور سے جو واپس لوٹے گا تو الہٰ آباد نہ پہنچ پائے گا، پریاگ راج پہنچ جائے گا اگر رستہ نہ بھول بیٹھا۔ دوبارہ پریاگ راگ سے جو کبھی چلنے بھی پایا تو کون جانے لاہور پہنچے گا یا خادم رضوی آباد۔
شاید ایک آدھ بار پہلے بھی عرض کیا تھا ہمالہ سے امڈے چلے آتے ہر خاص و عام دریا کے پانی کا تجزیہ نفسی کروانا چاہیے کہ پتا لگ سکے اس خطے کے طول و عرض میں پیوست و پنہا “چ” پنے کے سوتے کہاں سے اور کیوں کر پھوٹتے ہیں۔
کہیں سلاجیت کی طرح پانیوں کے ساتھ بہہ بہہ کر ترائیوں کے جنگلات میں بسے الوؤں کے سدھائے پٹھوں کے فاضلات تو بر صغیر کی مٹی میں رچ بس نہیں گئے کہ جہاں تک ان دریاؤں کے پانی کے بہاؤ اور اثر و رسوخ کی حدود استوار ہیں وہاں تک اس مٹی سے اگے، اس مٹی میں چلے، اس مٹی سے اٹے، اس مٹی سے اٹھے خمیر میں تنگ دلی و تنگ نظری کے سبب ذہن مفلوج ہیں۔
البتہ کچھ جہنمی اور نرگی ابھی ہیں جو تنگ نظری جیسے خصائل سے یک سر محروم ہیں، لیکن ایسے مورکھ ہیں ہی کتنے۔ آٹے میں آئیوڈین ملے نمک کی مقدار سے بھی کم۔ بہت عظیم الشان ایک جمِ غفیر ایک ہجوم بے ہنگام ہے جو تنگ نظری و نفرت جیسے نسخہ ہائے داخلہ برائے بہشت و سوؤرگ میں نہ صرف خود کفیل ہے بَل کہ صدقہ جاریہ جان کر فی سبیل اللہ بانٹتا پھرے ہے۔
شاید جب ایک عرصے تک نفرت کی نکاسی کو قتل و خوں جیسی پُر شِکَوہ راہِ نکاس نہیں ملتی تو برق گرتی ہے بے چارے شہروں اور سڑکوں کے ناموں پر۔ ایک وقت تھا کہ الحمد للہ ہم ہمالے کے سندھو دریا کا پانی پینے والے اس معاملے میں اپنے گنگوی جمنوی دیویو اور سجنو سے بازی لے جا چکے تھے۔
ہم نے رام باغ کو آرام باغ کر لیا تھا، الفنسٹن اسٹریٹ کو زیب النساء، وکٹوریہ روڈ کو عبداللہ ہارون کر کے، نہرو اور گاندھی کے ناموں کی تختیاں ہٹا کر، کراچی اور لاہور کے تاریخی عنوان مٹا مٹا کر اپنے عربی مکی مدنی نام ان کے اوپر چسپاں کیے تھے۔
لیکن پھر دوسری طرف کلکتہ، بمبئی، مدراس اور اَن گِنَت شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے جانے لگے۔ یہ گنگوی جمنوی تھے جو ہمارے ہم پَلّہ ہی نہیں ہم سے آگے نکل گئے تھے۔ کوسوں آگے۔ لیکن اپنی تاریخ مٹانے کی جنگ میں کبھی وہ آگے نکل جاتے ہیں تو کبھی ہم۔ کبھی ہم معرکے پر معرکہ مارے جاتے ہیں اور کبھی وہ منزل پہ منزل فتح کیے جاتے ہیں۔
مزید و متعلقہ: آئیڈیا آف جسٹس، اگر سَر گنگا رام جنت نہیں جاتے تو۔۔۔؟ از، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد
بر صغیر کا ایک عظیم انجینئر اور محسن’’سر گنگارام‘‘ از، گوہر قیوم
ہم دونوں ہی ہمالہ کے دریاؤں کے پینے سے اپنے اناج اور غلے کو سیراب کرتے ہیں اور انہی ہمالیائی دریاؤں کے پانیوں سے اپنی پیاس کو زہرآب۔ کیا نفرت اور خباثت اس خطے کی مٹی میں رچی بسی ہے۔ کیا سبب ہے کہ انسانی تہذیب کے ان دو اولین عظیم گہواروں میں انسانی ذہن کے ارتقاء کا عمل رک سا گیا ہے بَل کہ پلٹ کر اپنے ماخذ کی جانب واپسی کے سفر پر گامزن ہے۔
الہٰ آباد کا نام بدل کر اب وہ ایک بار پھر ہم سے ایک قدم آگے نکل گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس دہلے پہ ایک عدد گہلا دے ماریں۔ بہت سے نام ابھی باقی ہیں جن سے ہماری تہذیب کی بُو آتی ہے۔
ان ناموں کو مٹانا لازم ہے۔ لائل پور تو عرصہ ہوا تیل کے کنوؤں تلے تلف ہو گیا۔ جہالت مرنی نہیں چاہیے۔ نفرت مٹنی نہیں چاہیے۔ تاریخ کے اوراق در میان سے پھاڑ پھینکنے کا جہاد جاری رہنا چاہیے۔ ہم دونوں، سندھو دریا والے اور گنگا جمنا والے، مل جل کر اپنے ماضی کے ایک دوسرے سے عبارت عضو یوں ہی کاٹ کر پھینتے رہیں گے۔ ہم ہوں گے کام یاب ایک دن۔ پورا ہے وشواس ہم ہوں گے کام یاب ایک دن۔