چار درویش اور ایک کچھوا
تبصرۂِ کتاب از، نعیم بیگ
“آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھُس گھسا چکا ہے۔” ژاں بوردریاغ (ناول کا پہلا جملہ)
سماج کا امیج ہے کیا؟ کیا انسان کا اپنا امیج اس کا حصہ ہے یا الگ اپنی اکائی کا مظہر؟ سماج کے نقوش کو پیش کرتے ہوئے تخلیق کار کے سامنے انسان کی اکائی کی مظہریات کا ثقافتی اجتماعی وجودیت میں ادغام ہے، یا پھر دونوں الگ الگ ایک ہی دشمن سے نبرد آزما ہیں؟ پہلے جملے کو پڑھتے ہی بہت سے سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں۔
ژاں بوردریاغ ایک ایسے ہی فلسفے کو پیش کرتا ہے جس میں کسی شے کے امیج اور امیجری کی اِمیٹیشن / یا اس کی ڈیسپٹونس دونوں کے ادغام سے جو سماجی و انسانی کیفیات ابھر کر سامنے آتی ہیں، وہی معروف حقیقت ہوتی ہے۔ یہ انسان کے تعلق کو اس کے سماجی ، ثقافتی جوہر سے نہ صرف جوڑے رکھتی ہے، بل کہ رئیلزم کے عکسی سوتے جو انسانی اعمال سے پھوٹتے ہیں، در اصل اسی ربط اور تعلق کی اَن دیکھی بحر ہوتی ہے جس سے سوسائٹی اپنی ہیئت کو مکمل کرتی ہے۔
سید کاشف رضا جب اس بحر کی تلاش میں نکلے تو سامنے چار درویشوں کا ایک ٹولہ نظر آ گیا۔ کاشف ایک دانا لکھاری ہیں، انھیں معلوم تھا کہ اگر وہ خود راوی بنے تو رئیلزم کے دشوار گذار رستوں میں کہیں منزل نہ کھو دیں، سو انھوں نے آرشمیدس کو کراچی کے صدر سے تلاش کر لیا، جو اپنے غیر مرئی وجود کی وجہ سے بصری حقیقت کی دنیا سے معدوم ہے، لیکن موجود ہے اِس طلسم خانے میں، جہاں اسے راوی کا کردار ادا کرنا ہے، اِس کی کئی ایک برسوں کی ارتکازی مشقت اب کامیابی کی منزل پر کھڑی، پھر سے بصری حقیقت سے نامعلوم کی طرف سفر کرنے والی تھی ،کہ کاشف نے اسے راوی کا کردار دے کر روک لیا۔ یہ جاوید اقبال کے بعد اِس ناول کا دوسرا کردار بنا۔
ناول شروع ہوا تو مسئلہ پھر وہیں کھڑا تھا۔ ایک راوی کی اور ضرورت پیش آتی ہے، جو پیرا مِڈ کے اوپر سے نئے زاویہ کو سامنے بھی لائے۔ اب اس نئے راوی کو کہاں سے لایا جائے؟
“میرے سامنے جیسے اِن پانچ کرداروں کے بارے میں پانچ کہانیاں لکھی ہوئی پڑی ہوں اور مجھ اب ان میں سے اپنے مطلب کی کہانی نکالنی ہو۔ میرے لیے تو ایسا ہے جیسے کسی ناول نگار نے ان کرداروں کی کہانیاں لکھ کر نتائج قاری پر چھوڑ دیے ہوں اور میں کسی متجسس( اور ظاہر ہے حریص) قاری کی طرح ان نتائج کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا ہوں اور وہ ناول نگار کون ہے؟ شاید خدا۔ شاید فطرت کے ازلی اور ابدی قوانین کا کوئی پیچیدہ سلسلہ؟ کیا خبر؟ ” (صفحہ 14)
یوں مصنف نے ایک اور راوی کو بیانیہ میں شامل کر لیا۔ اب آگے چلتے ہیں۔ میں نے یہ انداز بھی ابھی ابھی کاشف سے مستعار لیا ہے۔ کہانی کے چار درویش یوں تو آپس میں جڑے ہوئے ہیں ، لیکن سچ پوچھیے الگ الگ شناخت رکھتے ہوئے کہیں کہیں علامتی اساطیری صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اب یہاں میں چار صوبوں کی بات نہیں کر رہا بل کہ اِن چار جبلتی خواص کی بات کر رہا ہوں جس پر انسان جیتا ہے۔
اِس مختصر سے ریویو میں آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیے گا کہ میں ابتدا سے انتہا تک کی ناولی داستان ایک خلاصہ کی صورت پیش کروں گا۔ یہ کام آپ خود بہ خوبی کر سکتے ہیں، شرط یہ کہ ناول پڑھیے۔ میرا کام صرف اتنا ہے کہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد میں کاشف کی گہری سوچ میں ڈوبی آنکھوں کے گرد لکیروں کا حساب کروں، اس کی فگار انگلیوں کو پہلے سرخ پھر سفید ہوتا دیکھوں۔ اس کے کرداروں کے برقعوں کا تنوع و نفاست دیکھوں اور برقعوں کے اندر کمر کی باریکی اور کولھوں کی گولائی کے ناپ کو کاشف کی آنکھ سے اس امیج کا ویسا ہی عکس پاؤں جیسے سلمیٰ* نے الگ سے عبایا کے اندر ڈھانپ رکھا ہو۔ وہ جماعتی ہو یا انسان لیکن اس کی رومانوی اپج کو نکال باہر لاؤں، بالکل ویسے ہی جیسے آفتاب اقبال اسے باہر نکال لایا تھا۔
رومانس ہو یا سیاست کی بھول بھلیاں، جاوید اقبال٭ یہی سمجھتا رہا کہ ” وقت کتنی تیزی سے تبدئل ہوتا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ یونیورسٹی کی لیکچرر شپ سے میرا استعفیٰ اور پھر وکالت شروع کرنا ہی میری زندگی کا سب سے بڑا انقلاب ہوگا لیکن زندگی نے میرے لیے کچھ اور حیریتیں بھی لکھ رکھی ہیں۔” (صفحہ 265)
کاشف کو اندازہ تھا کہ جوں جوں کہانی آگے بڑھے گی، کہانی کا مرکزی کردار جاوید اقبال اِس کی بات ماننے سے انکار کر سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے باپ کی طرح خوفِ زُعاف کا شکار ہو سکتا ہے (کلچرل فینومینن) سو کہانی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ،مصنف نے خود کو ، ارشمیدس کو ، اور تیسرے راوی کو نکال باہر کیا،کیوں کہ خود جاوید اقبال دنیا بھر کی بودی دلیلوں سے تنگ آ چکا تھا۔
” میرے وہ وکیل دوست جن کے ساتھ مل کر ابھی تین سال پہلے میں پرویز مشرف کے خلاف جلوس نکالا کرتا تھا، مجھے دیکھتے تو اِن کی آنکھوں میں خون اتر آتا۔ میں نے انھیں صرف یہ دلیل دی تھی کہ اگر کوئی وکیل توہینِ مذہب کے کسی کیس میں ملزم کی بریت کے لیے اس کی وکالت کرے تو کیا وہ وکیل خود بھی توہینِ مذہب کا مرتکب ہو جاتا ہے؟ سلمان تاثیر نے ایک ملزمہ کی وکالت ہی تو کی تھی، خود تو نہیں کی تھی مذہب کی توہین۔۔۔۔ اس مارنے کر بعد قاتل کو ہیرو بنا لینا کہاں کا انصاف ہے؟ لیکن کوئی میری بات سننے پر تیار نہ ہوا۔ ایک مرتبہ میری مری ہوئی ماں کا مذہب ڈھونڈ نکالا گیا اور اسے میری فیس بک وال پر تھوپ دیا گیا۔” (صفحہ 266)
اب ٹی وی کی اینکر مشعال ہو یا جاوید، صادق بھائی ہوں کہ زرینہ، سب نے قسم کھا رکھی ہے کہ ناول کے سٹیج پر لکھا ہوا سکرپٹ نہیں پڑھیں گے بل کہ وہ خود اندر سے نکلتی ہوئے انسانی جبلت و خواہشات تحت خوابوں کے اندر تیزی سے چلنے والی فلموں کی طرح انسانوں سے مخاطب ہوں گے ، نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ پرفارمرز کو نتائج کی پروا بھلا کہاں ہوتی ہے، انھیں سب کچھ کہہ دینا ہوتا ہے جو اندر کی آواز پر منافقت کے نقاب اوڑھے رکھنےکے با وجود زبان سے نکل جاتا ہے اور باعث تخریب بنتا ہے۔
اب کچھ بھی رہا ہو ،یہ طے ہے کہ سید کاشف رضا نے اپنے اس پہلے ناول میں ادب کی دنیا میں ایک زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ تاہم یہ سات ریکٹر سکیل سے کم کا ہے ورنہ سب کچھ تباہ ہو جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ ناول کے کرداروں کے نام