مجال ہے جو میرے دوسرے جنم کو کوئی لیر لیر کرے
(نسیم سید)
یہ جو میں نے سا ری دھو پ، تمام با رشیں، برف کے سب طوفاں اپنی ہتھیلیوں پر روک رکھے ہیں، یہ جو بھنور کے بیچ و بیچ کسی چٹان کی طرح پیر
گا ڑے کھڑی ہوں سب کچھ یوں نہیں تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کبھی ایک لمحہ ہم میں سینکڑوں صد یو ں جیسا لق و دق پھیل جا تا ہے، اور کبھی تما م پس اندا ز کئے ہو ئے ماہ و سا ل یوں ریت کی طر ح اپنی مٹھی سے پھسل جا تے ہیں جیسے تھے ہی نہیں۔ تب کچھ ایسے ہی دن تھے۔ میرے پا ئی پا ئی جو ڑے ہو ئے۔
پس انداز کئے ہوئے ما ہ و سا ل اور ان کے سا تھ میں خود بھر بھری ریت کی طر ح مٹھی سے پھسل کے آ نگن کی مٹّی میں مل رہے تھے، مگر مجھے اپنے یوں مٹّی میں ملنے کی ایسی کو ئی پروا بھی نہیں تھی۔ بلکہ روزانہ گھر کی صفا ئی کر تے ہوئے، کونے کونے سے کو ڑا نکالتے ہوئے مجھے اگر اپنی کوئی پھٹی ہو ئی کترن، کوئی کٹا ہوا ٹکڑا مل جا تا تو اسے بٹور کے کونے میں دھر ے ہوئے کوڑے کے ڈبّے میں ڈال آ تی۔ میں نے اپنی ماں کو بھی گھر کی آرائش کرتے ہو ئے اپنی کترنیں بٹور کے کوڑ ے کے ڈ بّے میں ڈالتے ہو ئے دیکھا تھا۔ وہ بھی بڑی بے پروائی سے بھربھری ریت کی طر ح اپنی مٹھی سے پھسل کے مٹّی میں ملتی رہتی تھی۔ پھر ایک دن اچا نک اس نے اپنی مٹھّی کھو لی اور خو د کو جھا ڑ دیا اپنے ہا تھو ں سے۔
شا م تک لو گو ں نے اس کی مٹّی بٹوری اور گھر کے پچھوا ڑ ے جو میدا ن تھا ۔۔۔جہا ں دو دو گز کی جا گیر وا لے بہت سے پرا نے اور نئے گڑ ھے تھے انہی کے درمیان اس کے نا م کی دو گز کی جاگیر میں اس کی مٹّی دبا دی اور پھر اس کی پہلی اور آ خر ی جا گیر پر اس کا نا م سنگ
مرمر کی تختی پہ لکھ کے لگا دیا۔اس گھر کی بڑ ی بو ڑھیوں گہر ی سا نس لیکے بڑ ے عجیب لہجے میں کہا تھا:
’’چلو مٹّی سوا رت ہو ئی‘‘
میر ی ما ں کی مٹّی تو سوا رت ہو ئی اب میر ے ارد گرد موجود بہت سی منمنا تی ہوئی
آ وا زوں میں میرے لئے ہمدر دی اور پر یشا نی تھی
’’ کہیں اس کی مٹّی اکا رت نہ جا ئے‘‘
اس لئے ان آ وا زو ں نے مجھے کھر چ کھر چ کے اندر اور با ہر سے پا ک صا ف اور نیک بنا یا انہو ں نے مجھے گھر کے روا جو ں کی دھو نی دی، میری
سوچوں پر تا کید وں کا ابٹن ملا اور مجھے اندر با ہر سے نکھا ر دیا ۔انہو ں نے میر ے پلّو کے چا روں کونو ں میں سوجھ بوجھ کے
شگن با ند ھے
’’لیر لیر ہو جاؤ مگر خود کو کبھی جوڑنا بٹونا مت‘‘
’’اپنی آنکھیں اور اپنے ہو نٹ ہمشہ جا ئے نما ز وا لے طا ق پر رکھنا‘‘
’’اپنی پیشانی کو گھر کی دہلیز پر بچھا دینا ‘‘
’’گھر کو صا ف ستھرا رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنی کتر نیں بٹور کے کو ڑے کے ڈبّے میں ڈا ل دو۔۔۔اس طر ح ہما رے گھر مقدّس رہتے ہیں‘‘
وہ آوازیں اٹھتے بیٹھتے مجھے جتاِتیں
’’تمہیں پرا ئے گھر جا نا ہے‘‘
حالانکہ مجھے ’’پرا ئے گھر‘‘ کی دہشت اور پریشانی اندر سے اس طر ح توڑتی اور جھنجھوڑتی جیسے کسی نا زک سی شاخ کو غضبناک آ ند ھی تو ڑ تی اور جھنجھو ڑ تی ہے مگر میں نےکسی سے کو ئی سوا ل اس ’’پرا ئے گھر‘‘ کی تر کیب کی و ضاحت کے حوا لے سے اس لئے نہیں کیا کہ مجھے تا کید تھی کہ میں کبھی کو ئی سوال نہ کروں۔ میر ے بچپن کا وہ پرا یا گھر جہا ں میں رہتی تھی اس کے ایک کو نے میں، کھو نٹے سے بند ھی ، چا رہ کھا تی ، دو دھ دیتی جو گائے تھی شا ید میرے گھر کے مردوں کو اس کی خصلتیں بہت پسند تھیں۔ تبھی تو میں نے اپنے گھر کی تما م عور تو ں اور لڑکیوں کو ہمیشہ اس گائے کی خصلتوں میں ڈھل جا نے کی تگ و دو میں مشغو ل دیکھا۔ لہذا اگر کبھی ان کا کو ئی وارث ’’بالکل گا ئے جیسی ہے‘‘ کہہ کے کسی ایک کو تہنیت پیش کر تا تو خوشی سے اس کا چہرہ تمتما اٹھتا۔ اور باقی سب رشک سے اس عو رت کو گھنٹوں تکتیں جسے اس اعزا ز سے نوازا گیا ہو۔ سومیں نے یہ با ت بھی اپنے پلو سے با ندھ لی کہ اپنے اپنے ما لک کو خوش رکھنے کے لئے ہمارا گائے کی خصلتوں میں ڈھلنا ضروری ہے۔ نہ جا نے اس وقت میر ی عمر کیا تھی۔ تربیتو ں کی عمر سے تو میں گزر چکی تھی۔۔۔۔شا ید حیر تو ں کی عمر تھی۔۔۔ایک شا م نہ جا نےکیوں اورکیسے۔
ہار سنگھار کے ایک درخت نے اپنے تما م نا رنجی پھو ل مجھ میں بکھیر دیئے۔ اتنا گہر ا رنگ تھا ان نا رنجی پھولوں کا کہ میرا مٹیالا سا رنگ نارنجی ہو گیا۔ ہارسنگھار کی خو شبو مجھ میں یو ں کھلکھلا کے ہنستی کہ میں گھبرا گھبرا کے اپنے سا رے کو ا ڑ بند کر تی جا تی ۔۔۔۔کہیں کو ئی اس
ہنستی ہوئی خو شبو کو سن نہ لے۔۔۔میر ے اندر اگی ہو ئی، الجھی ہوئی جھا ڑ یا ں نا رنجی پھولوں سے ڈھک گئیں۔۔۔۔ میر ی حیرتوں کی عمر کا ایک انجاں سا ۔۔حیراں سا لمحہ مجھ میں لق و دق۔۔۔۔صدیوں جیسا پھیل گیا ۔۔۔میں ہر صبح اس کے سنہری اجالو ں میں طلو ع ہوتی اور ہر شا م اس کی نا رنجی سرخی میں غر و ب ہو تی ۔اس حیرا ن کن سر خو شی کے با وجو د مجھے اپنے پلو کے کو نو ں میں بند ھی تما م تا کید یں یا د تھیں۔۔ مجھے معلو م تھا کہ اگر میرے گھر کی دیوا ریں اس خو شبو کی سن گن بھی پا گئیں تو میر ی سا نسیں اپنی اینٹو ں کے بیچ رکھ کے انہیں پیس دیں گیں ۔۔۔ مجھے ان سے بہت خو ف آ تا تھا اگر وہ خفا ہو جا ئیں تو ہما را زندہ بدن ۔۔۔ کروٹ بد لتی سوچیں۔۔۔سا نس لیتی آ نکھیں۔۔۔سب اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں اور ہما رے پا س ہما را کچھ نہیں بچتا ۔۔۔ اس لئے میں نے اس خو شبو کو تہہ بہ تہہ اپنی ایک سا نس لیتی ہو کتر ن میں لپیٹا اور اپنے اندر کی اند ھیری کو ٹھڑ ی میں رکھ کے خو د پر تا لا ڈا ل دیا۔
پھر مجھے اسُ پرائے گھر بھیج دیا گیا جس کے با ت با ت پر بچپن سے حوا لے دیئے جا تے تھے، اب ایک دو سرا نام میر ے نام کا وارث ٹھہرا۔۔۔اور ایک اور
پرایا گھر میرا ٹھکانہ قرار پا یا ۔ میرا قد اچانک ان عورتو ں میں بہت اونچا ہو گیا جو میری مقدّس کتاب کی منکوحہ تھیں۔۔۔وہ ایسی بد نصیب تھیں کہ گا ئے جیسی تما م خصلتیں رکھنے کے با وجو د انکا اپنا کو ئی کھو نٹا نہیں تھا ۔۔۔مگر میرا اب اپنا ایک کھو نٹا تھا۔ جب شا دی بیا ہ کی رسو م ہو تیں تو وہ سر جھکا کے اس جگہ سے دور ہٹ جاتیں کہ کہیں اں کا سایہ کسی شگن پر نہ پڑ جا ئے۔ ان بد شگن عورتو ں کے در میاں اب میں سر او نچا کر کے نیک شگن
والی مسند پر پیر دھر سکتی تھی ایک احسا س ِ ممنونیت تھا اور میں۔۔۔سو میں نے اپنی تمامسانسیں منّتو ں کے دھا گے کی طر ح اس کھو نٹے سے لپیٹ دیں۔۔۔۔اپنی آ نکھیں او ر اپنے ہونٹ جائے نما ز والے طا ق پر چڑھا دیئے۔۔۔اور اپنی پیشانی گھر کی دہلیز پر بچھا دی۔۔دن بھر سب اپنے کیچڑ بھر ے جوتوں سے میری پیشا نی پر چلتے پھرتے، آ تے جا تے۔۔۔اور میں ان ُ قد مو ں کی ممنو ں ، اپنی بے وقعتی میں با وقا ر گھر کو سجا نے بنا نے میں مصر و رہتی۔
شا ید میر ے ہو نٹ بین کر تے ہو ں۔۔۔۔شا ید میر آ نکھیں رو تی ہو ں جب کیچڑ بھرے جو تے میر ی پیشا نی کو رو ند تے ہو ں لیکن ان کی آ وا ز مجھ تک نہیں آ تی تھی۔ یا شا ید میر ی آنکھیں سو کھے آ نسو رو تی ہو ں۔۔۔شا ید میر ے ہو نٹ سا رے بین ، سب منا جا تیں، سب دریا ، سا رے سمندر اپنے صحر ا میں جذ ب کر لیتے ہو ں۔۔۔پتہ نہیں۔۔میرا کیونکہ ان سے کو ئی را بطہ نہیں تھا اس لئے ٹھیک سے پتہ نہیں۔
حالانکہ مجھ میں روا جو ں اور دستو رو ں کو سمجھنے کی بڑ ی سو جھ بو جھ ہے ۔۔با لکل اس پا نی کی طر ح جو کٹو رے میں کٹو رے جیسا ڈھل جا تا ہے اور گلا س میں اس کے قد و قا مت میں ڈو ب جا تا ہے، مگر اس سو جھ بوجھ کے با وجو د میر ے اس نئے ’’پرائے گھر‘‘ کا ایک دستور اتنا عجیب تھاکہ اس نے مجھے اندر باہر سے وا قعی لیر لیر کر دیا ۔ اس دستو ر کے سبب مجھے لگتا تھا جیسے میں کھو نٹے سے بندھی ایک با وقار عو رت نہیں بلکہ کو ٹھے پر بیٹھی کو ئی بے قیمت عورت ہو ں۔ ہو تا یہ تھا کہ آ نگن میں سویرے سویرے غیریت اور اجنبیت کی تیز دھوپ اتر آ تی اور پھر وہ میر ے گھر کے اور میرے کو نے کو نے میں پھیل جا تی، اس تیز دھو پ کی لپٹیں میر ے بدن پر چھالے ڈالتیں میر ے وجو د کو جگہ جگہ سے دا غتیں، میر ے وقا ر کی تمام تہوں میں چنگاریا ں بچھاتیں مگر رات اسی جلے ہو ئے چھا لو ں وا لے بد ن کو نرم گدوں والی مسہر ی پر اچھا ل دیتی اور پھر اس بد ن سے کھلکھلا کے ہنسنے کی فر ما ئش کر تی۔ میں غیریت اور اپنائیت کی چکّی کے دو پاٹوں میں پس کے گو ریزہ ریزہ ہو گئی تھی مگر پھر بھی بڑ ی عقید ت سے خو د کو مسہر ی پر بچھا دیتی۔۔۔دن اور رات کے اس قدر مختلف سلو ک سے کبھی کبھی۔۔۔۔نہیں!
کبھی کبھی نہیں بلکہ ہر را ت ۔۔۔۔۔میرا دل چا ہتا کہ میں بھی با لکل اچا نک ۔۔۔اپنی مٹھی کھولوں اور خو د کو جھا ڑ دو ں اپنے ہا تھو ں سے۔۔۔۔شا ید ایسا ہی ہوتا، مگر ایس نہیں ہوا۔ نہ جا نے اس وقت میر ی عمر کیا تھی۔ شا ید با ر شو ں کی عمر تھی۔سا ون کی با ر شیں ہو رہی تھیں مجھ میں ۔یہ مو سلا دھا ر با ر شیں۔۔۔اندر کے سب خس و خا شا ک بہا ے لئے جارہی تھیں۔ انہی با ر شو ں کی ایک لہر تھی جو میر ے لہو میں میر ا نیا جنم تحر یر کر رہی تھی۔ایک بو ند تھی ۔۔۔جو مجھ میں نئے اعلا ن لکھ رہی تھی۔ ان با ر شو ں میں سب کچھ دھل گیا اور میر اندر دور دور تک نو ر کی ہر یا لی پھیل گئی۔
میری انگلیاں سو چو ں کے گلا بی اون سے سا را سا را دن خوا ب بنتیں۔میر ی سا نسیں دھڑ کنو ں میں دھڑ کتی ہو ئی ایک مد ھم سی دھڑ کن کی تال پر محوِ رقص رہتیں۔ یہ عجبسرو ر تھا ۔۔عجب نشّہ تھا ۔۔۔عجب احسا س تھا جو مجھے مجھ میں نئے اندا ز سے سینچ رہا تھا۔ گھنا، اونچا اور سرسبز کر رہا تھا ۔۔۔بہت سے دن اس سر شا ری میں گزر گئے اور مجھے پتہہی نہیں چلا ۔۔۔لیکن ۔۔جس را ت میر ے اندر میرا اکھوا پھو ٹا۔۔۔۔جس را ت میں نے دو با رہ جنم لیا اس رات میر ے گھر کی تمام آوازو ں کو صد مہ سے سا نپ سونگھ گیا ۔
میرے گھر پہ چھائی ہوئی گہری نا امید ی کے سنّا ٹے میں سر گو شیا ں مکھیو ں کی طر ح بھنک رہی تھیں:
’’پتھر جنا ہے نا مرا د نے ‘‘
یہ سرگوشیاں نہیں تھیں بلکہ سا زشو ں کے یہی وہ پتھر تھے جو ہمیں سنگسا ر کر تے آ رہے ہیں ایک جنم سے۔ میں ان پتھر و ں کے جا دو اور انکی قو ّ ت سےوا قف ہو ں۔ یہ سا نس لیتے ہیں ۔یہ گھر کی دیوا رں پہ اپنے فر ما ن کا سیسہ چڑھا کے جگہ جگہ ان میں زنجیر یں ٹا نگ دیتے ہیں۔ یہ جیتے جا گتے بدن کو چھو تے ہی پتھر میں تبد یل کر دیتے ہیں۔ نہ جا نے مجھ میں اس وقت اتنی ہمّت کہاں سے آگئی کہ میں نے ان پتھروں کو اپنی ہتھیلی پہ روک کے ان
ہونٹوں پر کھینچ کے ما را جنہوں نے ابھی سرگوشی کی تھی:
’’پتھّر جنا ہے ‘‘
میری کوکھ پر اترنے والی وحی جھو لے میں کلا م کر رہی تھی۔۔۔۔میں نے عقید ت سے اس کے ہونٹوں اور اس کی پیشانی کو چوما اور ایک جھٹکے سے اس مسہر ی سے اٹھ کھڑ ی ہوئی جس پر اپنا چھا لو ں بھرا بدن روز بچھا تی تھی۔
’’مجا ل ہے میر ے دو سرے جنم میں مجھے کو ئی لیر لیر کرے‘‘
جھولے میں کلا م کرتے ہوئے ننھے سے بدن کو سینے سے لگا کے اس کے گرد اپنے بازوؤں کی سلاخوں کا حصار کھینچا۔ دہلیز پر بچھی ہوئی پیشانی کو گھسیٹ کے اس ننھے سے بدن کے ماتھے سے چھلا کے اس دہلیز پر واپس اچھال دیا۔ اپنی آنکھیں اور ہونٹ طاق سے اٹھا کے اس کی آنکھو ں اور ہونٹو ں کا صد قہ اتارا اور پھر اپنی انگلیو ں سے مسل َ کے وہ تالا توڑ دیا جو حیرتو ں کی عمر میں میں نے خو د پر ڈا لا تھا۔
میر ی وہ سا نس لیتی ہو ئی کترن جو نارنجی خوشبو میں لپٹی مجھ میں قید پڑی تھی آزاد ہو تے ہی ایک کترن سے علم کے پھریرے میں تبد یل ہوگئی۔ میں نے اپنے پاؤں اس بھنور میں گاڑ دیئے جو میرے نئے جنم کو خود میں لپیٹ لے جانے کو بے تاب تھے۔ میں ایک ٹھیکری سے کوہسار میں بدل گئی اور اب ان آوازوں کے سامنے پورے قد سے کھڑی ہوں جنہوں نے سرگوشی کی تھی سازشوں والی سرگوشی۔۔۔’’پتھر جنا ہے‘‘ میں نے سا ری سیلابی بارشیں۔۔۔۔برف کے سب طوفان اپنی ہتھیلی پر روک رکھے ہیں۔
میں بھنور کے بیچ و بیچ پیر گاڑے کھڑ ی ہوں مجال ہے میرے دوسرے جنم کو کوئی لیر لیر کرے