چریا ملک

رفاقت حیات

چریا ملک

از، رفاقت حیات

 

ملک محمد حاکم بیساکھی پر قبضے کی دکانوں کا پھیرا لگا کر شبیر کے ہوٹل پہنچا۔ اس کی مختصر گٹھڑی میں پتی کی پڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ اس نے بینچ پر گٹھڑی پھینکی، دائیں پیر کے فوجی بوٹ کا تسمہ کھولا اور نڈھال ہو کر گر گیا۔ ٹھنڈے پانی کا گلاس چڑھا کر طبیعت بحال ہوئی تو اسے یاد آئی، سِگریٹ پیے ہوئے دیر ہو گئی ہے۔

اس نے جیب سے ایمبیسی فلٹر کا ٹوٹا نکال کر سلگایا۔ کَش لیتے ہی وہ حساب کے دقیق مسئلے میں الجھ گیا۔ اس نے ان دُکانوں کو شمار کیا، جن سے ہو کر آیا تھا۔ غیر یقینی تعداد میں سے ان کو منفی کیا، جہاں سے خالی لوٹایا گیا تھا۔ پھر اس نے چیزوں کی گنتی شروع کی اور مقدار کا اندازہ کرنے لگا۔ چیزیں چھوٹی تھیں اور مقدار اتنی کم کہ وہ گڑ بڑا گئی۔ گھنٹے کے عمل کی رفتار کچھ دنوں سے تیز ہو گئی تھی۔ اس نے بے چارگی ے گٹھڑی کی طرف دیکھا، اسے ٹٹولا مگر بات سلجھ نہیں سکی۔ وہ ہوٹل میں گٹھڑی کھولنا نہیں چاہتا تھا۔ ٹھنڈا سانس بھر کے رہ گیا۔

یہ درد سری وہ وہ بن کے لیے مول لیتا تھا جس کی طبیعت لا ابالی ہو گئی تھی۔ وہ دن بھر گٹھڑی کے انتظار میں رہتی، گھر پہنچتے ہی وہ اس پر جھپٹ پڑتی۔ چیزیں ایسے میں زمین پر گر جاتیں۔ کل نمک کی تھیلی اور چینی کے مٹی میں ملنے کا واقعہ اسے یاد آیا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ آج اسے گٹھڑی نہیں چھونے دوں گا۔ بغل میں دبا کر اسے چیزوں کے بارے میں ایسے بتاؤں گا کہ وہ دھندلائی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگ جائے۔

ملک نے گالی دے کر شبیر کو بلایا۔ جواباً اس نے بھی موٹی گالی دی۔ ملک نے قہقہہ لگا کر اس کی گالی کو سراہا اور اس کی خاموش ہنسی کو نظر انداز کرتے ہوئے سالن کے متعلق پوچھنے لگا:

’’بُھوتنی کے، ایسے پوچھ رہا ہے کہ باپ کا ہوٹل ہو!‘‘ اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اس نے دال ماش لانے کو کہا اور ملک کے سامنے والی بینچ پر بیٹھ گیا۔ ’’اور ملک جنگ کی کیا خبر ہے؟‘‘ اس نے ملک کو چھڑا۔ بھم بھوسڑی کے جنگ میں ٹانگ چلی گئی۔ پھر بھی چاہتا ہے کہ نحوست آئے۔ اچھی خاصی امن سے گزر رہی ہے۔ سوچ لے اب کہ ہوئی نا، تو نہیں بچے گا۔ وہ پھر خاموش ہنسی میں لوٹنے لگا۔
ملکہ کے لیے جنگ کی بات نازک حیثیت رکھتی تھی۔ اس نے دال ماش فرائی کی وجہ سے شبیر کی دخل اندازی کو برداشت کیا۔

’’سور توڈی ماؤنا جتھا‘‘

شبر کے پیٹ میں بَل پڑ گئے اورآنکھیں اندر دھنسنے لگیں۔ لیکن ملک سنجیدہ ہو گی تھا۔ ’’جنگ تو ہونے والی ہے۔ اس واسطے نہیں کہ سرحد پر کشیدگی ہے، یا اخبار شور مچا رہے ہیں۔ اس واسطے کہ ہوا بتا رہی ہے۔ آسمان اشارے کر رہا ہے۔ تم نے سورج کے غصے کو محسوس نہیں کیا۔ چاند ستاروں کی خفگی نہیں دیکھی۔‘‘ چیختے ہوئے اس کا سفیدہ چہرہ سرخ پڑ گی ااور آنکھیں دہک اٹھیں۔

شبیر کی ہنسی بند ہو گئی۔ وہ اسے گھوتے ہوئے بولا، ’’تو پھر اونگی بونگی ہانکنے لگا۔ ابے چر چوت، سورج چاند ستارے کیا تجھی سے بات کرتے ہیں؟‘‘

لڑکا دال ماش فرائی اور گرم روٹیاں رکھ کے چلا گیا۔ ملک نے نوالہ توڑا اور تھالی میں گھما کر مُنھ میں ڈال لیا۔

ہوٹل والا بڑبڑاتا ہوا اٹھ گیا۔

وہاں پولیس کے دو سپاہی اور ایک اسکول ٹیچر بھی کھانا کھا رہے تھے۔ وہ ملک پر فقرے اچھالنے لگے۔

آج ملک طیش میں نہیں آیا کیوں کہ قصبے کے بڑے سیٹھ کرم دین نے اسے چائے پلوائی تھی اور جنگ کے بارے میں پوچھتا رہا تھا۔ اس لیے ملک بے حیثیت لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔

ہوٹل سے نکل کر وہ قبرستان والی گلی میں چلنے لگا۔ سب دروازے بند تھے اور دیواروں کے سائے میں مویشی بندھے تھے۔ لُو کی حدّت سے گھبرا کر اس نے گٹھڑی والے انگوچھے کو سر پر اوڑھ لیا۔

وہ سورچ رہا تھا پہلے یہ بات تھی کہ ہفتے میں ایک پھیرے سے اتنا مل جاتا تھا کہ دس دن بازار نہیں آنا پڑتا تھا۔

وہ گلی کے بیچ کھڑا ہو گیا اور سفید آسمان کو دیکھنے لگا۔ اس نے سانس کھینچ کر لُو کو پھیپھڑوں میں بھرا۔ کوئی شے سونگھنے کے لیے نتھنوں کو پھڑکایا اور پھر بیساکھی زمین پر مار کر سورج کی آنکھوں میں گھوڑا۔

وہ مسکرایا، پھر بُڑ بڑاتا چل دیا، ’’ویل کول آ گیا، تھوڑے ددھیاڑے دن!‘‘

ملک پھیلے ہوئے بے دیوار قبرستان میں داخل ہوا۔ ایک کتا زبان باہر نکالے اس کی طرف لپکا، اس نے بیساکھی اسے کے جس پر ٹکائی۔ وہ قبریں پھلانگتا بھاگ گیا۔

ملک نے ہنستے ہوئے زمین سے اٹھتی گرم لہروں کو دیکھا۔ اسے لگا کہ مردوں کی روحیں آسمان کی طرف بھاگ رہی ہیں۔ وہ سوچنے لگا، ہڈیاں سیم زدہ مٹی میں رل چکیں۔ یہ ڈھیریاں تو نام کی ہیں۔ اب نئے مردے آباد ہونے چاہییں۔ اس نے جنگ کے بعد والے دنوں کا تصور باندھا۔ اسے ریلوے پھاٹک تک قبریں نظر آئیں۔ جن پر پھول نہیں تھے۔ اگربتیاں نہیں تھیں۔ اسے دکان داروں کی نَخوَت یاد آئی۔ وہ مسکرایا کہ بعد میں کوئی نہیں بچے گا، تمام کار و بار پر اس کا اجارہ ہو گا۔ لوگ اس کی تعظیم کریں گے۔


مزید دیکھیے:  لا وقت میں ایک منجمد مسافت  کہانی از، محمد عاطف علیم


لُو کا جھونکا چہرے سے ٹکرایا تو وہ چونکا۔ اس نے دو پہر مٹھل شاہ کے مقبرے میں گزری۔ شام کو حدت کم ہوئی تو وہ ریلوے اسٹیشن والے پل پر جا بیٹھا۔ پلیٹ فارم کے نزدیک میدان میں لڑکے کھیل رہے تھے۔ ذرا فاصلے پر اکھاڑے سے پہلوانوں کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ ملک، راشد کا منتظر تھا۔ راشد کالج میں طالب علم تھا اور ملک سے جنگ کی کہانیاں سنتا تھا۔ راشد کو دیکھ کر وہ مسکرایا، پھر ہنسنے لگا۔ اس نے کھسک کر اسے بیٹھنے کے لیے جگہ دی۔

ملک کی بڑھی ہوئی شیو اور میلا کرتا دیکھ کر وہ سرزنش کرنے لگا۔ پھر جیب سے ٹافیاں نکال کر دیں۔ ملک نے ایک ٹافی کھول کر مُنھ میں ڈالی۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ ہر طرح کی گفتگو میں جنگ کو گھسیٹ لاتا تھا۔ اس کی دہرائی ہوئی باتیں راشد غور سے سنتا۔

ملک ایک الوہی جوش میں بول رہا تھا، ’’جب ٹانگ پر گولیاں لگیں تو مجھے درد نہیں ہوا۔ اس حرامی کے سینے پر میں نے برسٹ مارا اور پیدل مورچے تک گیا۔ بہت خون نکلا۔ دو کنستر بھر جاتے۔ خون بہنے سے میں بے ہوش ہو گیا۔ اسپتال والوں نے بتایا کہ تین دن ہوش نہیں آیا۔ جب ہوش میں آیا تو با لکل ننگا تھا۔ الف ننگا دو نرسیں پاس کھڑی تھیں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ جنگ میں فتح کی خبر انہوں نے سنائی تھی۔ میں وہاں جتنے دن رہا۔ انہوں نے میری شیو بنائی، کپڑے بدلوائے اور نہلایا بھی۔ انہوں نے تو مجھے نا مرد سمجھ لیا تھا۔

’’بہت حسین تھیں دونوں،‘‘ اس نے آہ بھرتے ہوئے نسوار کی پڑیا نکالی اور ایک چُٹکی مُنھ میں ڈال دی۔ راشد میدان میں کھیل دیکھنے لگا ملک گُم سُم ہو گیا۔

کچھ دیر بعد ملک بڑ بڑا نے لگا، ’’تین میڈل ملے تھے۔ ایک حکومت نے فتح کی خوشی میں دیا تھا۔ غربت بڑی ظالم ہے میں نے وہ بیچ کھائے۔”

سورج قصبے کی عمارتوں کے پیچھے اتر گیا۔ مسجدوں میں مغرب کی اذان ہوئی تو راشد چلا گا۔ ملک نے بیساکھی پر ریلوے لائی عبور کی اور گٹھڑی سنبھالتا گھر کو چل دیا۔

صبح کی لالی ہوئی۔ بد نصیبی اور قصبے میں حاصل امتیاز کے ملیا میٹ ہونے کے سانحے سے بے خبر ملک محمد حاکم کبھی زمین اور کبھی آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر شکنیں تھیں اور آنکھوں میں نیند کا خمار۔ کچھ فاصلے پر اس کی بیساکھی پڑی تھی۔ اس کے کرتے پر مردہ مچھروں کے نشان زیادہ ہو گئے تھے۔

صبح کی آوازوں نے اس کی امید کو ختم کر دیا۔ اس نے جماہی لی اور گردن کھجانے لگا۔ اس نے چولہے پر جھکی بوڑھی بہن کو ایک نظر دیکھا۔ لگتا تھا وہ خود کو اس میں جھونک رہی تھی۔ اس نے لکڑیوں کی تڑتڑاہٹ سنی اور دھویں کی بُو کو سونگھا۔ اس نے صحن کا جائزہ لیا۔ نیم کے پتے کاغذوں کے ٹکڑے نا جانے کیا کیا بکھرا تھا۔

بلغم کے لچھے پھینک کر اس نے نسوار کی چپٹی ہونٹوں کے پیچھے دبائی۔ نیند کا خمار اترنے لگا۔ اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کمر کے پٹاخے نکالے۔ پھر خفگی سے چار پائی کو دیکھا۔ جس کے جھول نے اس کے جسم کی دُرگت بنادی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے زمین پر جھک کر بیساکھی اٹھائی۔ اس نے گھڑ ونچی سے پانی نکال کر چھینٹے مارے۔ پیاس محسوس کرتے ہوئے اسے غصہ آیا۔ اس نے انگلی سے نسوار کو نکال پھینکا، کُلّی کے بعد پانی پیا۔

وہ چولہے کے نزدیک پِیڑھی پر بیٹھ گیا۔ بڑھیا نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ اس نے دو پٹے سے دیگچی کو اتارا۔ بغیر چَھنی ہوئی چائے پیالوں میں ڈالی۔

چائے کا سڑپا لگا کر بڑھیا نے بھائی سے نسوار مانگی۔

’’بڈھی ہو گئی۔ عادت نہیں بدلی،‘‘ وہ بہن کو پڑیا تھماتے ہوئے بولا۔

تین پیالے پی کر وہ بیساکھی کے سہارے اٹھا اور بہن کو سلام کر کے آج کی مہم پر نکل گیا۔ پرانے معمول کو دُہراتے ہوئے وہ پلیٹ فارم والے ٹی اسٹال پہنچا۔ کوئی ریل آنے والی تھی۔ لوگ جمع ہو رہے تھے۔ ٹی اسٹال والا افیم کی جھونجھ میں تھا۔ پیالوں کی صفائی کا اسے خیال نہیں تھا۔ بار بار دیگڑے سے چائے ابل کر گرتی تھی۔ وہ دو مرتبہ ملک کے نزدیک سے گزرا۔ اس نے جملہ بھی کَسا۔ اس کے ہاتھ میں پیالی دیکھ کر ملک حریصوں کی طرح اسے تکنے لگتا تھا۔

ریل کے جانے کے بعد ہجوم چھٹ گیا۔

ٹی اسٹال والے کو فرصت ملی تو وہ چرس کا سگریٹ بنانے لگا۔ ملک اس کی ہتھیلی پر تمباکو دیکھ کر بولا، ’’ایک نشہ کیا کر، نہیں تو مر جائے گا۔‘‘
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے سگریٹ لگایا۔

ملک کو سینک محسوس ہوئی مگر بیٹھا رہا۔ پرانی عادت کو چھوڑنا دشوار تھا وہ لوگوں کو چائے پیتے اور بسکٹ کھاتے دیکھ چکا تھا ڈھیٹ بن کر اس نے چائے کی فرمائش کر دی۔

ٹی اسٹال والے نے بر بڑاتے ہوئے پیالی اسے تھمائی۔

چائے پی کر وہ اٹھا اور بازار کی طرف چل پڑا۔ وہ حیران تھا کہ افیمی کو کیا ہوا۔ وہ بڑی خوش دلی سے ملتا تھا لیکن آج؟ اسٹیشن روڈ پر حجامت کی دکانوں کے نزدیک سے گزرتے ہوئے اس نے بڑھی شیو کی چُبھن کو محسوس کیا۔ آٹھ دن گزر گئے تھے۔

قادو حجام نے اسے نشست پر بیٹھے دیکھ کر نظر انداز کیا۔ ملک سر جھکائے بیٹھ گیا اس نے قادو کی آنکھوں میں نہیں جھانکا۔ وہ جانتا تھا کہ گاہکوں کے بعد اس کا نمبر آئے گا۔ وہ اخبار اٹھا کر سرخیاں دیکھنے لگا۔

سرحد پر کشیدگی کی خبر پڑھ کر مسکرایا۔ اس نے خون میں سرسراہٹ محسوس کی۔ اس کی آنکھوں سے اداسی چَھٹ گئی۔ چمک دار دھوپ اسے اچھی لگنے گلی۔

اس نے اخبار رکھ دیا اور سڑکوں پر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے کٹی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو مکمل آدمی سمجھا۔ وہ سوچنے لگا، ’’کشید گی شہروں تک بڑھ آئے گی، قصبوں، دیہاتوں میں پھیل جائے گی۔ میں بھی جنگ میں شامل ہو جاؤں گا۔ پھر مجھے اہمیت ملے گی۔ میرا مجسمہ اسٹیشن کی عمارت کے باہر نصب ہو گا۔‘‘

گاہک فارغ ہوئے تو وہ حجامت والی کرسی پر بیٹھ کر قادو سے مخاطب ہوا، ’’قادو میری شیو بنادے اور قلمیں بھی چھوٹی کر دے۔‘‘
قادو استرے کا بلیڈ نکالتے ہوئے غصے میں کانپنے لگا، ’’تو کرسی پر کیوں بیٹھ گیا، چریا ملک! پیسے ہیں تیرے پاس؟‘‘

’’تو میرا کام مفت کر دیتا ہے،‘‘ وہ حیرت میں و آہستگی سے بولا۔

’’اب تم عام گاہک ہو۔ پیسے دو گے کام کروں گا،‘‘ اس نے دو ٹوک کہہ دیا۔

’’کیوں؟‘‘

’’جھوٹی عزت بہت کروا لی۔ ہمیں پتا چل گیا ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’تم جنگ ہار کر آئے تھے۔ وطن کا نام ڈبویا اور علاقہ بھی گَنوایا،‘‘ اس نے اصل بات کہہ دی۔

ملک ششدررہ گیا، ’’ہماری فتح کتابوں میں سُنہری حرفوں سے لکھی ہے۔‘‘

’’جھوٹ نہیں چلے گا،‘‘ حجام نے آنے والے گاہک کو کرسی پیش کی اور کام میں لگ گیا۔

’’شیو نہیں کرنی مت کرو۔ یہ بکواس نہیں سنوں گا،‘‘ وہ دکان سے نکلتے ہوئے بولا۔

ملک سوچنے لگا۔ قادو لالچی ہو گیا ہے۔ رات اس نے تمام برسوں کی حجامتوں کا شمار کیا ہو گا۔ نقصان کے دکھ پر اس کا دل کِینے سے بھر گیا۔

وہ افسردگی کے عالم میں اسٹیشن روڈ پر چلتا رہا۔ اس کے دھیان میں نہیں تھا کہ کتنے ہوٹل اور دکانیں پیچھے رہ گئے۔ بھکاریوں کی ٹولی اس کے قریب سے گزری تو دو بچے اس کی دھوتی سے لپٹ گئے۔ ملک نے بیساکھی اور گالیوں کی مدد سے انہیں مار بھگایا۔
یہ خانہ بدوش باگڑی تھے۔ اسے پہنچانتے نہیں تھے، عورتیں اسے کوسنے لگیں۔ اس نے عورتوں کے مُنھ نہ لگنے کے خیال سے جوابی کارِ روائی نہیں کی۔

وہ ان سے اپنا موازنہ کرنے لگا: یہ قصبوں، گوٹھوں کی خاک چھانتے ہیں۔ لوگ انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ ان کی عورتوں سے فحش مذاق کرتے ہیں۔ لیکن وہ پروا نہیں کرتے۔ میں تو مدت سے یہاں رہتا ہوں۔ لوگ عزت کرتے ہیں۔ وہ بھیک نہیں دیتے۔ معذور سپاہی کی مدد کرتے ہیں۔

ملک نے قادو حجام کو چیخ کر گالی دی۔ وہ اپنی فوجی زندگی کی واحد یاد گار، ایک پاؤں کا جوتا، پالش کروانے جھنڈا چوک پر سچل موچی کے پاس چلا گیا۔ سچل اسے دیکھ کر جوتے کی سلائی میں مصروف رہا۔ ملک نے خاموشی سے تسمہ کھولا اور بوٹ اس کے آگے رکھ دیا۔ سچل سلائی کے بعد جوتے پر ہتھوڑی برسانے لگا۔

’’یار تجھے کیا ہو گیا ہے،‘‘ ملک نے استفسار کیا۔

’’ماں مر گئی۔‘‘

’’بکواس نہ کر۔ وہ دس سال پہلے مر گئی تھی۔‘‘

’’تیری طرح جھوٹ بولا تھا۔ آج واقعی مر گئی۔‘‘

’’میں نے کیا جھوٹ بولا؟‘‘

’’یہی کہ جنگ جیت کر آیا ہوں،‘‘ وہ تنک کر بولا۔

’’تو یہ بات نہ کر۔ قادو بھی یہی کہہ رہا تھا،‘‘ اس نے شکایت کی۔

’’اب سارے ایسی باتیں کریں گے،‘‘ اس نے مرمت شدہ جوتا ایک طرف پھینک دیا۔

’’کیوں؟‘‘ اس نے بے چارگی سے پوچھا۔

’’لوگ بھکاری کو پیسہ دے سکتے ہیں۔ عزت نہیں۔ چریا ملک، ہم تجھ پر فخر کرتے تھے، مگر تو بد بخت نکلا۔‘‘

ملک چپ رہ نہ سکا اور گالیاں دینے لگا۔ کچھ لوگ جمع ہو گئے اور ان کی شہ پا کر سچل ملک پر ٹوٹ پڑا۔ اس کی بیساکھی توڑنے کی کوشش کی اور جوتا نالی میں پھینک دیا۔

چند ایک لوگوں نے ہجوم کو دفع کیا۔ کوئی اس کی بیساکھی اور غلاظت میں سنا ہوا جوتا اٹھا لایا۔

ملک کا چہرہ اور کپڑے مٹی سے اَٹ گئے تھے۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور آنکھیں کسی بھی جذبے سے خالی تھیں۔ ملک ریلوے اسٹیشن والے پل کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔ مکانوں کے پیچھے غروب ہوتے سورج کی سرخی غیر معمولی تھی۔ آسمان پر شفق کا رنگ بھی گہرا تھا۔ سارا زمینی منظر دہک رہا تھا۔ مشرق میں چاند کی سفیدی پر بھی سرخ چھینٹے پڑ گئے تھے۔

پلیٹ فارم کے ساتھ والا میدان خالی تھا۔ پہلوانوں کے اکھاڑے میں خاموشی تھی۔ ریلوے اسٹیشن پر کوئی مسافر نہیں تھا۔ ٹی اسٹال والے افیمی نے دو پہر کے سانحے کو قیامت جان کر جیب میں رکھی ساری افیم کھالی تھی اور بیٹھا جھوم رہا تھا۔

مکانوں کی چھتیں اور گلیاں انسانی شور و غُل سے بھری ہوئی تھیں۔ لوگ نقصانوں کا تخمینہ لگا رہے تھے۔ کسی کی دیوار گر گئی یا چھت غائب ہو گئی تھی۔ اناج منڈی کی طرف شور تھا۔ دکانوں کے آگے اناج کی ڈھیریاں گڈ مڈ ہو گئی تھیں۔ اپنے اناج کی شناخت میں آڑھتی آپس میں الجھ گئے تھے۔ مسجدوں میں گمشدگی اور ہلاکت کے اعلانات ہو رہے تھے۔

ملک محمد حاکم کی آنکھوں میں چمک تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ، وہ آسمان اور زمین کو دیکھ رہا تھا کہ وہ اس کی دسترس میں ہوں اور اس کے اشارے پر زیر زبر ہو جائیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس سال سرما میں خوف ناک بارش بے سبب نہیں تھی اور کچھ روز پہلے کی شدید گرمی اور لُو بھی خواہ مخواہ نہیں تھی۔

وہ خوشی سے کھنکھارا۔ پھرسیڑھیوں سے بلغم کا لچھا پھینک کر اس کی پرواز دیکھتا رہا۔ دھوتی سے مُنھ صاف کرتے ہوئے وہ بڑ بڑایا۔ ’’ایسی آندھی کبھی نہیں آئی اور ایسی شام کبھی نہیں ہوئی۔‘‘

اگلی صبح کی تصویر نے اسے قہقہہ مارنے پر اکسایا۔ اس نے پو پھٹے آسمان کو زیادہ لال دیکھا اور قصبے کی جگہ صحرا کی وحشت کو محسوس کیا۔ اس نے متعفن ہواؤں کو سونگھا اور انسانی جسموں سے لبا لب کھائیوں کو ناپا۔ اس کے جی میں آیا کہ رقص کرتا گلیوں میں نکل جائے۔

سورج نکلنے سے پہلے کی روشی صحن میں پھیلی ہوئی تھی۔ کھاٹ پر سویا ہوا ملک مسکرا رہا تھا۔ وہ خواب میں قصبے کو بارود اور دھوئیں میں اٹا دیکھ رہا تھا۔ وہ پل پر مورچہ بند تھا اور پلیٹ فارم پر دشمن کے سپاہیوں پر گولیاں برسا رہا تھا۔ اس کی آدھی ٹانگ پوری ہو گئی تھی۔ دشمن۔ دشمن کے خاتمے کے بعد وہ دوڑتا اسٹیشن روڈ پہنچا تو گلیوں میں چھپے ہوئے لوگ باہر نکل آئے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہو گئے۔

چہرہ پر مکھیوں کی یورش سے ملک اٹھ بیٹھا۔ نئی صبح پچھلی صبحوں جیسی تھی۔ آسمان نیلا تھا اور زمین مٹیالی۔ پڑوس کے گھروں سے زندہ آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کی بوڑھی بہن چولہے پر جھکی بیٹھی تھی۔

وہ سر ہاتھوں میں لیے زمین پر پڑی بیساکھی کو دیکھتا رہا۔ بہن کو نسوار کو پڑیا تھماتے ہوئے اس نے تاکید کی کہ ایک چپٹی سے زیادہ نہ لے۔ بڑھیا نسوار آلود تھوک پھینکتے ہوئے بولی،’’کپڑے گندے ہو گئے اور تین دن سے تم نہائے بھی نہیں۔‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔ چائے پیتے ہوئے زمین پر کوئلے سے آڑی ترچھی لکیریں بناتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میں خانہ بدوش باگڑی نہیں کہ لوگ گالیاں دیں، ٹھوکر لگائیں۔ ’’ساریاں نی ماؤ نا جتھا،‘‘ وہ چیخا۔ اس کی بہن نے چادر منھ پر رکھ کے پوپلی ہنسی کو چھپایا۔

جب راشد آیا شام ڈھل رہی تھی۔ اس نے ملک کو سلام نہیں کیا۔ چپ چاپ سیڑھی پر بیٹھ گیا۔ ملک اسے قصبے والوں کے رویے کے متعلق بتانا چاہتا تھا مگر خاموش رہا۔ راشد پلیٹ فارم پر نیم کے درخت کو دیکھتے ہوئے بولا، ’’میں نے کل تاریخ کی کتاب پڑھی۔‘‘ اس میں کسی جنگ کا ذکر تک نہیں۔ تمہاری باتیں کہانیاں تھیں، چریاملک۔ ’’جھوٹی کہانیاں۔‘‘

’’اب میں بڑا ہو گیا ہوں،‘‘ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر اٹھا اور نیچے اترنے لگا۔

چریا ملک بیٹھا رہا، حتیٰ کہ رات کے اندھیرے نے اسے خود میں تخلیل کر لیا۔