خواب راستے پر تھمے قدم
کہانی از، محمد عاطف علیم
ایک طرف چمکیلے سبز مٹروں کا ڈھیر تھا اور دوسری طرف چھلکوں کی ڈھیری اور وہ ان کے بیچ جنگ زدہ سی بکھری بکھرائی، گھٹنوں پر پرات ٹِکائے ایک منتشر عزم کے ساتھ دیر سے مٹر چھیلے جارہی تھی۔
اس بار جو اس نے ناخن گاڑ کر مٹرکی پھلی کو کھولا تو دیکھا کہ تین رسیلے دانوں بیچ ایک ہرے رنگ کا کیڑا نیم دائرے میں سِمٹا ہوا اُونگھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر محویت سے کیڑے کو دیکھتی رہی اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز پر جھرجھراتے ہوئے مٹر کو دور اچھال دیا۔
خشک پتوں کا طوفان اسے گھر تک چھوڑنے آیا تھا۔ اس کے اندر داخل ہونے پر طوفان نے پیٹھ موڑی اور پوری گلی کو شور اور پتوں سے بھرتے ہوئے کہیں اور نکل گیا۔
جب تک وہ صحن میں داخل ہو کر دروازہ بند کرتا بہت سے آوارہ پتے کھلے دروازے کی راہ صحن میں بکھر چکے تھے۔ عورت کے ہاتھ میں ان چھلا مٹر دبارہ گیا کہ اب اس کی نگاہیں مرد پر جمی تھیں۔ وہ اس کی آنکھوں میں کوئی خبر تلاش کر رہی تھی جو اگر نہ ہوتی تو اس گھر میں پھر سے امید کے چراغ جل سکتے تھے۔
وہ وقت کی مار کھایا ہوا مُنحنی سا وجود، دروازے پر کُنڈی چڑھانے کے بعد پلٹا اور بے ڈھنگا سا چلتا ہوا صحن کے بیچ میں رک گیا، جیسے طے کر رہا ہو کہ صحن میں بہتی ہوئی اذیت سے بچ بچا کر کیسے گزرا جائے۔ اس نے یونہی آسمان کی جانب نظریں گھمائیں اور دور بلندیوں میں چکراتی ایک چیل کو دیکھ کر قطعی بے موقع ہنسی ہنسا۔ یہ اصل میں نظریں جمائے دیکھتی عورت کا سامنا کرنے کی مشکل کو ٹالنے کے لیے کچھ نہ سوجھنے کی جھنجھلاہٹ سے جنم لیتی بے وقوفی تھی۔ قریب پہنچ کر اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا اور پھر ارادہ ملتوی کرکے کمر پر پتلون کو درست کرتا کچھ کہے بغیر صحن کے ایک جانب بنے غسل خانے میں گھس گیا۔
عورت جو کہ اس آدمی کی بیوی تھی، جانتی تھی کہ وہ اب کا غسل خانے میں گھسا دیر سے لوٹے گا کہ اس کی دائمی قبض ان دنوں پھر عود کر آئی تھی۔ سو اس نے ماتھے پر جھولتی بے جان بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا اور مٹر چھیلنے میں مصروف ہوگئی۔
وہ صبح سے بلکہ پچھلے کئی دنوں سے بے طرح مصروف تھی۔ دو کمروں کا یہ معمولی سا گھر جس میں دو جی رہتے تھے، خود کو مار دینے والی مصروفیت کے لیے بہت چھوٹا تھا۔ کام تھا ہی کتنا، لیکن اس نے اپنی ناتوانی کے باوصف کیا کچھ نہیں کیا تھا ان دنوں۔ کبھی بیڈ کو سرکا کر ایک جانب لگایا تو کبھی دوسری جانب گھسیٹ دیا۔
لکڑی کی پرانی الماری کہ اس کی ماں کے جہیز میں سے بچ رہنے والی واحد چیز تھی اور اس کی یادوں سے لبالب تھی ہمیش طے شدہ جگہ پر کھڑی رہتی تھی۔ وہ اسے بھی کبھی یہاں اور کبھی وہاں گھسیٹتی پھری تھی۔ یہی ماجرا گھر کی دوسری چیزوں کے ساتھ بھی ہوا۔ ہر چیز کو اپنا مدتوں پرانا ٹھکانا بار بار بدلنا پڑاتھا۔ اس کے ساتھ ہی صفائی کا عمل تھا جو شروع ہوا تو ایک ناممکن پرفیکشن کے ساتھ چلتا رہا تھا۔ وہ جھاڑو چھوڑتی تو جھاڑن پکڑ لیتی، جھاڑن ہاتھ سے رکھتی تو نامعلوم جالوں کو اتارنے کے لیے ڈنڈے پر کپڑا باندھنے لگتی۔
آج صبح اپنے شوہر کے کچہری جانے کے بعد تو اس نے خود کو اگلے کئی دنوں تک بستر پر بے سدھ پڑا رہنے جوگا کر لیا تھا۔ ادھر ناشتے کے بعد سے تو وال کلاک کی سوئیوں کو جیسے موت پڑگئی تھی کہ کم بخت رینگنا بھول گئی تھیں۔ سو وقت کے بوجھل ٹھہراؤ سے خود کو لاتعلق رکھنے کو کبھی یہ کام تو کبھی وہ کام اور آخر میں مٹروں کا ڈھیر چھیلنے کی بیکار مشقت جو پکائے جاتے تو ان دونوں جیوں کو اگلے کئی روز کے لیے کافی ہوتے۔ یہ ریاضت یکسر بیکار تھی کہ ان مٹروں نے چھیلے جانے کے بعد پڑے پڑے خشک ہو جانا تھا کیونکہ وہ دونوں مٹر نہیں کھاتے تھے۔
اس کی اس جان توڑ مشقت کا مقصد خود کو بھلانے کے سوا اور کیا تھا لیکن بھولنا بھلانا کیسا کہ تمام تر ضبط کے باوجود دونوں کمروں میں، باورچی خانے میں، غسل خانے میں اور چار چھ قدم چوڑے صحن کے کونوں کھدروں میں اس کی گھٹی ہوئی چیخوں کے چیتھڑے بے خیالی میں پڑے رہ گئے تھے جنہیں اس کے شوہر نے اپنی قبض کے ساتھ لڑائی میں ہارنے کے بعد دریافت کرنا تھا۔
وہ بہت دیر بعد باہر نکلا تو اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے اور غسل خانے میں گزری لاحاصل تکلیف سے چہرہ سرخ تھا۔ وہ گیلے ہاتھوں کو ہوا میں جھٹکتا ہوا سیدھا اس کے پاس آ بیٹھا۔
بات بہت ضروری تھی جو ایک بار کہہ دی جاتی تو اچھا تھا، بوجھ اتر جاتا حالانکہ اب کہنے سننے کو رہ کیا گیا تھا کہ ایک امید تھی سو وہ بھی گئی۔ پھر بھی وہ کہنا ضرور چاہتا تھا اور جانتا تھا کہ وہ جاننا ضرور چاہتی ہے لیکن اس بھاری پتھر کو کون اٹھائے؟
’’اتنے ڈھیر سارے مٹر؟‘‘ اس نے ہلکا سا کھانس کر یونہی بات چلانے کے لیے کہا، ’’کون کھائے گا؟‘‘
عورت نے اس کی جانب دیکھنے سے گریز کیا اور چپ چاپ مٹروں میں سے دانے نکالتی رہی۔
اس نے ایک کھلا ہوا چھلکا اٹھایا اوراسے دو انگلیوں پر احتیاط سے جماکر پٹاخہ سا بجایا۔
’’بچپن میں جب ہمارے گھر میں مٹر آتے تو ہم اسی طرح ماں کے پاس آبیٹھا کرتے تھے۔ ‘‘ اس نے اپنے لہجے میں بشاشت بھرتے ہوئے کہا، ’’اماں مٹر چھیلتی جاتی تھی اور ہم ایسے ہی پٹاخے بجایاکرتے تھے، بہت مزا آتا تھا۔ ‘‘
’’قبض کو آرام آیا؟‘‘ عورت نے کہ شاید کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی، یونہی سے لہجے میں کہا۔
’’تمہارا اسپغول کا چھلکا تو کسی کام کا نہیں، کچھ اور کرنا پڑے گا۔ ‘‘
’’ہاں، شاید۔ ‘‘
اس کے بعد پھر ایک لمبی اور کندھوں پر بوجھ ڈالتی خاموشی۔
’’جو بات یہ پوچھنا چاہتی ہے کیوں نہیں پوچھ لیتی؟‘‘ اس نے خاموشی کے اس وقفے میں جھنجھلا کر سوچا۔
تب اس نے ایک گہرا سانس بھرنے کے بعد بات چلانے کی مشقت کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’بچپن بھی کیا چیز ہے۔ ہم کہا کرتے تھے کہ فکر نہ فاقہ، نائیاں گھر ہویا کاکا۔ ‘‘
بچپن کی ایک فضول بات دُہرانے سے اسے ہنسنے کا جواز ملا تو وہ کچھ دیر حلق سے بے معنی آوازیں نکالتا رہا۔ عورت نے ایک لحظہ سر اٹھا کر اس کی بے موقع ہنسی پر اسے ترحم سے دیکھا اور کچھ کہے بغیر اپنے کار بیکار میں جتی رہی۔
’’تم بھی تو بچپن میں۔۔۔ ‘‘
’’مجھ پر بچپن نہیں آیا۔ ‘‘ عورت نے الٹے ہاتھ سے ماتھے کو پونچھتے ہوئے روکھا سا جواب دیا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ایک کراہ کے ساتھ اٹھی اور پرات لے کر باورچی خانے میں چلی گئی۔
وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
وہ یونہی اپنے بوجھ میں دبا بے خیالا سا ان چھلے مٹروں اور چھلکوں کے پاس بیٹھا رہا ، اس دوران باورچی خانے میں بھی کچھ نہ کچھ ہونے کی آوازیں آتی رہیں اور اسے پتا بھی نہ چلا کہ کب دیوار سے دھوپ رخصت ہوئی اور کب رات ہوئی۔
وہ اپنی سوچوں میں الجھا ہوا آج دن کچہری میں ہونے والی واردات سے گزرتا جانے کہاں کہاں لٹا پٹا پھرتا رہا کہ اس کی بیوی کی نرم اور بے تاثر آواز اسے واپس کھینچ لائی۔
’’کھانا کھالیں!‘‘
وہ دونوں اپنے پرانے بیڈ پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کے عادی تھے۔ شوہر نے سونے والے کمرے میں بیڈ کی پٹی پر احتیاط سے خود کو ٹکانے کے بعد ڈونگے کا ڈھکن اٹھاکر دیکھا تو اس کی بھوک بالکل ہی مرگئی۔
’’سارا دن مصروف رہی تھی کچھ ڈھنگ کا پکا نہیں سکی۔ ‘‘ عورت نے معذرت خواہانہ لہجے میں آج کا پہلا مکمل فقرہ ادا کیا۔
’’نہیں ٹھیک تو ہے۔ ‘‘ مرد نے اس کا دل رکھنے کو کہا، ’’ویسے بھی قبض میں بھوک کہاں لگتی ہے؟‘‘
’’صبح سے بھوکے ہیں، دوچار نوالے تو لے لیں۔ ‘‘
بغیر کچھ کھائے یونہی اٹھ جانا اور اسے اکیلا چھوڑ دینا سخت بے وقوفی کی بات ہوتی۔ چلو دوچار نوالے ہی سہی۔ اور پھر کھانے میں شریک ہونے سے اسے بیوی کے سامنے کچھ دیر بیٹھے رہنے کا موقع بھی ملے گا جو ان حالات میں از بس ضروری تھا کہ وہ خود تو خیر تھا ہی گھر کا ماحول بھی قبضایا ہوا تھا۔ یہ والی قبض بھی اسے ہی توڑنا تھی ورنہ وہ دونوں ٹوٹ جاتے۔ سو اس نے لقمہ توڑا اور روٹی کے ٹکڑے کو دو انگلیوں بیچ دبائے اپنے پورے وجود کے ساتھ بظاہر کھانے میں مصروف اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو تھکن سے چُور تھی اور جس کے پچکے ہوئے گالوں میں بخار کی لالی جھلک رہی تھی۔
وہ عورت زبان سے کچھ کہے نہ کہے اس کے اندر چلتی چکی کی مشقت اس کے چہرے پر ابھر آئی تھی، اسی کی طرح ایک کمزور وجود اور خون بڑھا دینے والی خبروں سے مستقل محرومی کے باعث قدرے ستا ہوا اور بے رونق چہرہ، لیکن پچھلے چند روز سے جو چل رہا تھا اس باعث اس کا چہرہ زندگی کے رہے سہے آثار سے بھی محروم ہوگیا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ پچھلے چند روز کے یاس کی شدت سے اس کے گالوں کی ہڈیاں کچھ اور ابھر آئی تھیں اور ناک کا بانسا کچھ اور تیکھا ہوگیا تھا۔ اسی کی عمر ایسی بھی نہ تھی، اس سے دس بارہ سال چھوٹی تھی۔ اس حساب سے عمر کی پچاسویں دہائی میں داخل ہونے میں اسے ابھی تین چار سال پڑے تھے لیکن اس وقت یوں دِکھ رہا تھا جیسے وہ اس کی بڑی باجی ہو۔ اس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ جب بھی معمول سے بڑھ کر کوئی صدمہ ملتا تو وہ اس پر بڑھاپے کی تہہ بچھا دیتا تھا۔
پار سال بیٹی کی شادی کے بعد سے جیسے اس پر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔ تب سے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ اپنی ساڑھے پچیس سال کی ازدواجی زندگی میں وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے تھوڑا فاصلہ کر کے کھڑے رہے تھے، اتنا فاصلہ کہ اکثر وہ ایک دوسرے کے اندر چلتی سرگوشیاں بھی سن نہ پاتے تھے۔ یہ فاصلہ سمجھ میں آنے والا تھا کہ ایک گھُٹے ہوئے اور جنس کش ماحول میں پروان چڑھنے کے باعث عورت کے لیے وہ ہمیشہ سے ایک دوسرا آدمی رہا تھا جو کچی عمر میں اس کے ایک جذباتی فیصلے کے باعث اس کی زندگی میں چلا آیا تھا مگر اپنے ہارے ہوئے اور جھنجھلائے ہوئے والہانہ پن کے باوجود اس کی عادت نہ پایا تھا۔ ایک ان کی بیٹی تھی جس نے ان کے درمیان فاصلے کو اپنے وجود سے بھر رکھا تھا۔ اگر یہ گھر تھا تو صرف اسی کے دم سے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی اپنی مجبوریوں کے باعث جینے کے ڈھنگ سے دونوں ہی زیادہ آشنا نہیں تھے۔ دونوں جھینپے جھینپے اور کترائے کترائے رہنے کا مزاج رکھتے تھے۔
ان کے جھینپ جھینپ اور کترا کترا کر جینے کی ذمہ دار ان کی محرومیاں بھی تھیں جو نوع بہ نوع تھیں اور جو ان کے مزاج کی نئے سرے سے تشکیل کرنے اور ان کے باہمی رشتے میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنے پر بضد تھیں۔ ان میں وہ محرومیاں بھی تھیں جو معاش سے جڑی ہوئی تھیں۔ عورت نے چوتھائی صدی پہلے اس سے شادی کرکے اپنی ضد تو نبھاہ لی لیکن جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ ایک معمولی اکاؤنٹینٹ جس کی ترقی کے امکانات بھی یونہی سے ہوں اور جو رشوت میں سگریٹ کی ڈبیا تک وصول کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو ، اس کی خاطر سماج سے ٹکرا جانا سراسر گھاٹے کا سودا تھا جس کے آخر آخر میں پورے خاندان سے گھونگھٹ کر لینا اور تنہا پڑے پڑے تکیے کو اپنے آنسوؤں اور سسکیوں سے بھگونا لکھا تھا۔
یہی سہی لیکن کم از کم کوئی اپنا ٹھکانہ، کوئی مستقل پتا تو ہو۔ اتنے بہت سارے سال گزرنے کے باوجود اب بھی کسی شادی یا مرگ میں اسے اپنے خوشحال رشتے داروں کے ان پوچھے سوالوں کا سامنا تو نہ کرنا پڑے۔ اگر اسے اطمینان کی بات کہا جائے تو وہ یہ تھی کہ وہ کرائے داروں کے قدرے معزز اور محفوظ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، سرکاری ہائرنگ اور پکے ایگریمنٹ والے لوگ جنہیں ہر چوتھے ماہ سامان ڈھونا نہیں پڑتا تھا لیکن اس کے باوجود مختاری کا یہ عالم کہ اپنی مرضی سے دیوار میں ایک کیل تک تو ٹھونک نہیں سکتے تھے۔ بس یہی ایک محرومی تھی جسے وہ ان سارے برسوں میں عادت نہ بناسکی۔ وہ ساری محرومیاں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتے چلے جانا تھا، ان میں آزادی سے محرومی شامل نہ ہوتی اگر ان کے سر پراپنی چھت ہوتی۔ چلو نہ سہی لیکن وہ تو نہ ہوتا جس کا ہونا قدرت کی کھلی سازش کے سوا کیا تھا؟
پہلی بیٹی کے کئی برس بعد جب حیدر اور عباس پیدا ہوئے تو ان کا گھر پھولوں اور تتلیوں سے بھر گیا تھا۔ ان کی زندگی اچانک سے اتنی مصروف ہوگئی کہ ذاتی گھر، اپنی چھت وغیرہ وغیرہ، انہیں کچھ بھی یاد نہ رہا۔ ایک کِھلکِھلاتی بیٹی اور دو دمکتی پیشانیوں والے جڑواں بیٹے، اب وہ گھونگھٹ کاڑھے کیوں پھرے، کیوں نہ لوگوں کو مضبوط قدموں چلتی اپنے پر غرور ہونے کی خبر دے؟ سو وہی نہیں اس کا شوہر اور بیٹی بھی اڑے اڑے پھرتے رہے یہاں تک کہ کسی نے اچانک موم بتی کو پھونک ماردی اور گھر بھر میں گہری خاموشی اور ٹھنڈی ٹھار تاریکی چھاگئی۔
باپ کے ان دونوں شِینہ جوانوں کی عمر کا پانچواں برس پورا ہونے سے پہلے ایک قاتل دسمبر آیا تھا جب انسانی آبادیاں قدیم برفانی دور میں داخل ہوگئی تھیں۔ تب ساتوں براعظموں میں کئی روز تک برف کی بارش ہوتی رہی تھی۔ برسوں بعد لکھی جانی والی تواریخ میں مرقوم ہوگا کہ ان دنوں برفانی طوفانوں کی یلغار کا یہ عالم تھا کہ جہنم کے ساتوں طبقات بھی برف کی دبیز تہوں میں چھپ گئے تھے۔ ایسے میں ان کا گھر کیسے بچتا؟ سو ایک صبح انہوں نے دیکھا کہ رات بھر کی برفانی بارش نے ان کا صحن برف کے بڑے بڑے تودوں سے بھردیا تھا۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا کہ ان کے حیدر اور عباس اپنے بستر میں نہیں تھے۔ وہ جب انہیں اپنی بانہوں میں اٹھائے ہسپتال کی سمت ننگے پاؤں دوڑ رہے تھے تو ادھ راہ انہوں نے پتھرائی آنکھوں دیکھا کہ وہ دونوں سنو مین بن چکے تھے۔
ان کے خلاف نامعلوم وجوہ کی بنا پر روا رکھی جانے والی سازش میں یہ بھی شامل تھاکہ برفانی بارشیں جاتے جاتے تُند ہواؤں کو ان کے گھر کا قبضہ دیتے جائیں۔ سو اب وہاں برسوں تک شرلاٹے بھرتی ہواؤں نے چکرائے پھرنا تھا۔ جب سے ان کا گھر تند ہواؤں کی تحویل میں آیا تھا دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی کچھ زیادہ ہی برادرانہ تکلف کا حامل ہوگیا تھا، جب مل بیٹھے تو تھوڑی گپ شپ لگالی ورنہ اپنا اپنا کنج عافیت تو ہے ہی۔ خیر گزری کہ ان کی بیٹی جی دار نکلی۔ جب اس کے بھائی برفانی تتلیوں کے تعاقب میں گئے تو وہ بالڑی سی تھی جس کے لیے وہ دونوں پلاسٹک کے گُڈے تھے جن کی وہ روز شادی رچایا کرتی تھی اور اس کے لیے اسے جانے کس کس سہیلی کی منتیں کرنا پڑتی تھیں کہ اپنی گڑیائیں کسی اور کے نام نہ کریں۔ اس روز جب اس نے اپنی ماں اور باپ کو ہسپتال سے یخ بازو لیے لوٹتے دیکھا تو وہ دھک سی رہ گئی۔ بہت روئی کرلائی، بہت تڑپی تڑپائی لیکن تابکے؟ ہوتے ہوتے اس کا بین کرنا جب کبھی کبھار کی ہچکیوں میں بدلا تب بھی وہ اکثر آسمان کو دیکھ کر فریاد کیا کرتی تھی،’’اللہ جی،اِتے پالے پالے سے تو وہ تھے، یہ کیا کیا؟‘‘
تب اس نے ایک نظر ماں ا ور باپ کے سیاہ پڑتے چہروں کو دیکھا اور یک لخت بہادر بن گئی۔ اس نے الٹی ہتھیلی سے اپنے آنسو پونچھے اور انہیں دکھا دکھا کر مسکرانے لگی۔ وہ جماندرو سیانی اور زندگی سے لبریز تھی سو اتنی سی عمر میں ان کی بڑی آپا بن کر خود پر انہیں جینے میں مدد دینے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس نے اتنی شدت سے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی کہ ان کے لیے کھل کر سانس لینا ممکن ہوگیا۔ سنو مین آسیب کی صورت اب بھی گاہے گاہے گھر کا چکر لگایا کرتے تھے لیکن جیسے آتے ویسے چلے جاتے، بہت ہوا تو تھوڑا بہت رونا دھونا ہوگیا ورنہ زندگی ان کی بیٹی کی سیانپ کے طفیل معمول کی چال چلتی رہتی۔
جب وہ بھی رخصت ہوئی تو اس گھر نے ایک بار پھر لمبی چپ اوڑھ لی۔ وہ پھر سے اداس تھے اور خاموش تھے، ایسے میں کوئی بڑی آپا جیسی بیٹی نہ تھی جو بڑھ کر انہیں گدگدی کرکے کھلکھلانے پر مجبور کرتی۔ تب دونوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ کر ایک دوسرے کو تھام لیا۔ بہت کچھ ایسا بھی تھا جو نہیں بدلا تھا لیکن کچھ نہ کچھ تو ان کے درمیان ضرور بدلا تھا۔ اس کے لیے بیٹی کے سکھائے ہوئے اسباق ان کے بہت کام آئے تھے جنہیں اچھے بچوں کی طرح دُہراتے ہوئے انہوں نے کام چلاؤ حد تک ہی سہی رشتوں کے بغیر زندگی کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔
اب وہ دونوں بوڑھے ہو چلے تھے۔ مرد کی ریٹائرمنٹ کو بھی ایک ڈیڑھ برس ہی رہ گیا تھا۔ اب انہیں حیدر اور عباس کے آسیبوں کی پیہم یلغار سے بچنے کے لیے کسی بھاری مصروفیت کی ضرورت تھی۔ وہ مگن ہوتے تو ایسے کہ دکھن کا احساس ہی نہ رہتا۔ تب اس نے ایک بھولی بسری امید کو چمکا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھ دیا۔ بیوی نے بھی گہرا سانس لیا اور مسکرا دی۔
ریٹائرمنٹ پر ان کے گھر میں اتنا پیسہ تو ضرور آنا تھا کہ وہ ایک مختلف زندگی جی سکتے۔ بھلے سمے انہوں نے ایک نئی آبادی میں پانچ مرلے کا پلاٹ لے رکھا تھا۔ ان پیسوں سے وہ اس پرچھت بھی ڈال سکتے تھے اور کچھ پیسے بچا کر سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خرید سکتے تھے۔ اب ان کے پاس جی بہلانے کے لیے امکانات کے رنگ برنگے کھلونے تھے جن سے وہ روز خوب خوب کھیلا کرتے تھے۔ وہ کہ سنو مین کی یلغاروں سے تھکی ہوئی تھی، امید کے اس کھیل میں اپنی عادت کے برخلاف کھل کر شریک ہونے پر آمادہ تھی۔
’’ہم پتا ہے کیا کریں گے؟‘‘ وہ دریافت کی سنسناہٹ میں آئے بچے کے سے جوش کے ساتھ کہتا، ’’ہم اپنے گھر کے کچے صحن میں کچن گارڈننگ کیا کریں گے، ذرا سوچو کہ تازہ سبزیاں اور زہریلے پانی کے بغیر۔ ‘‘
’’اور پھل دار درخت بھی لگائیں گے جن پر پرندے بسیرا کیا کریں گے۔ ‘‘ وہ جس امید سے برسوں پہلے دستبردار ہوچکی تھی اس کے اچانک سے زندہ ہونے پرسہمی ہوئی خوشی کی دھیمی سی لے میں کہتی، ’’میں درختوں پر چڑھ کر امرود توڑا کروں گی۔ ‘‘
’’تم؟‘‘ وہ تصور میں اسے درخت پر چڑھے دیکھ کر خوب ہنسا، ’’تم درخت پر چڑھو گی اس عمر میں؟‘‘
’’کیوں اس میں عمر کا کیا ہے؟‘‘وہ کِھسیانی سی رہ جاتی۔
’’ارررے نہیں، میں تو یونہی۔ ‘‘وہ اس کا دل دکھنے کے خیال سے فوراً بات بدلتا، ’’ایسا نہ کریں کہ اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا پولٹری فارم بھی بنالیں؟ سٹیرائڈز والی مرغیوں سے تو نجات ملے۔ ‘‘
اس بار ہنسنے کی باری عورت کی تھی۔
’’بس کرو، اب اتنا اونچا بھی نہ اڑو کہ پر ہی اکھڑ جائیں۔ ‘‘ وہ اس کی بیوقوفانہ منصوبہ سازی پر خوب ہنستی، ’’پانچ مرلے کا پلاٹ ہے ایکڑوں کی جاگیر نہیں ہے ہماری۔ ‘‘
’’جاگیر ہی تو ہے۔ ‘‘ وہ رندھے ہوئے جذبات میں اس کا ہاتھ تھام لیتا، ’’ہم تو پانچ ایکڑ کے قابل بھی نہ تھے۔ ‘‘
کچھ دیر خاموشی رہتی جس دوران مہ و سال کی گزران ان میں دکھ کی تلخی بھر دیتی۔
’’ہم سارا پیسہ مکان پر خرچ نہیں کریں گے۔ ‘‘وہ جھرجھرا کر خاموشی کو توڑنے کے لیے ایک اور خوش کن خیال پیش کرتا، ’’ہم ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خریدیں گے اور پھر ہم گھر میں نہیں ٹکیں گے، خوب خوب گھوما کریں گے۔ ‘‘
’’لیکن آپ نے تو کبھی سٹیرنگ پکڑ کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’تو کیا ہوا، کسی بھی ڈرائیونگ سکول سے ہفتے بھر میں سیکھ لوں گا۔‘‘
’’ ٹھیک ہے لیکن کبھی پلاٹ کا چکر بھی لگا لیا کریں، آج کل قبضہ گروپ کتوں کی طرح سونگھتے پھرتے ہیں۔‘‘
’’فکر نہ کرو ہمارے پلاٹ پر چاردیواری بھی ہے اور ایک کمرہ بھی بناہوا ہے، ایسے پلاٹ پر ہاتھ مارنا اتنا آسان نہیں۔ ‘‘
وہ کہنے کو تو کہہ دیتا لیکن یہ دراصل خود کو دی جانے والی طِفل تسلی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ یہاں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔
ان کی ایسی ہی خیال آرائیاں اصل میں ایک کھیل تھا، خود کو یقین دلانے کا حیلہ کہ زندگی کا بوجھ انہیں کبھی توڑ نہیں سکے گا۔ انہیں پہلے کبھی ایسا کھیل سوجھا ہی نہیں تھا، اب جو سوجھا تو بیٹی کی رخصتی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لیے وہ دل سے اس میں شریک تھے کہ دونوں زندہ رہنا چاہتے تھے۔
اس کھیل کے دوران وہ بہت کچھ بھلائے جب ایک خواب میں اترے تو دیکھا کہ ایک جنگل تھا، چیڑ، دیودار اور بلیو پائن کی باوقار ترتیب سے سجا ہوا۔ وہاں چہار سمت گھاس اور ننھے پودوں کی گہری سبز دبازت سے بلند ہوتے اور کھردری ملائمت میں زمانوں کے اسرار کو چھپائے آسمان کی جانب نگران تنے تھے اور بہت اوپر ان میں سے پھوٹتی مضبوط شاخوں کے بازو تھے جن کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں میں اترتا ہوا سبز جمال تھا۔ اور پھر ان کے سر پر پھیلے گھنے پن میں اترتی روشن کرنیں، اس ایک سبز رنگ کو لاتعداد شیڈز میں تقسیم کرتی اور چاروں اور امڈتی دھند کے قلب میں صبح کے مقدس اجالے کو جگاتی ہوئی اس جنگل کو ناقابل تسخیر حسن کے وفورسے بھر رہی تھیں۔ وہیں تتلیوں کی لہراتی اڑان، لمبی لمبی نیلی دموں اور سنہری چونچوں والے پنکھیوں کی بے تکان چہکار اور حیران نگاہوں تکتی گلہریوں کی سبک روی بیچ نامعلوم کو جاتا ایک راستہ نکلتا تھا جس پر دھند کے مرغولوں کا پہرہ تھا، یہ راستہ دور کہیں ایک نرم روشنی کے گداز قلب میں اتر جاتا تھا۔
وہ اس اساطیری جنگل میں کھوئے ہوئے اس راستے پر اترے جہاں بس تھوڑی ہی دور چل کر ان کے خواب کو ٹوٹ جانا تھا۔
’’ہیلو، امی! وہ۔۔ دراصل آپ سے ایک بات کرنا تھی۔۔۔ ‘‘
’’ہاں، ہاں بولو۔ ‘‘
’’ وہ۔۔۔ یہ کہ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہی امی کیسے کہوں؟‘‘
’’کہہ بھی چکو کیا بات ہے۔۔۔ اور سنو! کہیں تم رو تو نہیں رہی ہو؟‘‘
شام کو شوہر نے اپنی قدیمی موٹر سائیکل صحن کی دیوار کے ساتھ ٹکا کر سونے کے کمرے میں تھکن سے نڈھال بستر پر نیم دراز ہوا تو بیوی کے ہاتھ میں پکڑی چھوٹی سی ٹرے میں دھرا پانی کا گلاس ہولے ہولے کپکپا رہا تھا جو نتیجہ تھا اس کپکپاہٹ کا جو شکست خواب کے باعث اس کے ہاتھوں میں اتری ہوئی تھی۔
’’داماد نے پلاٹ کا مطالبہ کیا۔ ‘‘اس نے دیوار پر رینگتی ایک چھپکلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اُچھو لگنے کے باعث آدمی کھانستے ہوئے ادھ موا ہوگیا۔
’’میں نے بہت کہا سنا، صاف انکار کردیا لیکن وہ تلا ہوا ہے۔ ‘‘
آدمی بیوی کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھے گیا۔
’’کہتا ہے کہ کاروبار میں گھاٹا پڑگیا ہے، پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘
تب بہت کچھ ہوا، بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ سنا گیا، کبھی کومل تو کبھی پنچم لیکن آخر میں وہی ’’طلاق دے دوں گا۔۔۔ پلاٹ پر بندے بھیج دوں گا،‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
اس رات وہ دیر تک کنول آسن میں ایک دوسرے کے سامنے گود میں ہاتھ باندھے بیٹھے رہے۔ پھر اس نے بخار میں پھنکتی بیوی کو دوا پلائی اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا کہ صبح اسے کچہری جاکر اپنا خواب ایک دوسرے آدمی کے نام لگانا تھا۔
اس کے ہاتھ میں نوالہ دبا ہوا تھا جسے کھائے بغیر اس نے واپس رکھ دینا تھا، اس دوران وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو تھکن سے چُور تھی اور جس کے پچکے ہوئے گالوں میں بخار کی لالی جھلک رہی تھی۔ اب تو اس کے پاس کوئی بہلاوا بھی نہ تھا کہ اپنے ساتھ ساتھ جینے والی بیوی کو بہلا سکے۔
’’یوں کتنے دن جی پائے گی یہ؟‘‘ مرد نے دکھ سے سوچا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
ان کے بیچ ایک طویل اور دم گھونٹ دینے والی خاموشی اتر آئی تھی، ایک خلا جسے عورت نے اپنی آواز سے بھرنے کو کہا:
’’اسپغول کا چھلکا بھی ختم ہوگیا ہے، میں جاکر لے آتی ہوں۔‘‘
’’کیوں، تم کیوں جاؤ گی؟ میں نے سگریٹ لینے بھی تو جانا ہے، وہ بھی لیتا آؤں گا۔‘‘
وہ اٹھنے کو تھا کہ دروازے پر بیل بجی جو ان کے لیے سخت غیر متوقع تھی۔ عورت نے سر اٹھا کر کچھ سوچا اور دھیرے سے کہا:
’’جائیے، حیدر اور عباس آئے ہوں گے۔‘‘
اس نے کمرے کے درمیان کھڑے ہو کر پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے اور ہولے سے مسکرایا:
’’نہیں ہماری بیٹی ہے۔۔۔ کچہری میں ملی تھی، بتارہی تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ رہنے آئے گی۔ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ حیدر اور عباس بھی آئیں گے ہمارے ساتھ رہنے کے لیے۔ ‘‘
* * *