چور، ٹھگ اور ڈاکو
از، ملک تنویر احمد
اردو میں چور، ٹھگ اور ڈاکو کے لفظوں کے ذریعے چوری اور لوٹ مار کو تین طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔ چور عام طور پر چھوٹے جرائم کرتا ہے اور معمولی نوع کی چوریاں کرنا اس کا کام ہے۔ یہ کام وہ آبادی میں رہتے ہوئے کرتا ہے، مگر وہ قانونی گرفت سے بچنے کے لیے اپنی شخصیت کو چھپائے رکھتا ہے۔ معاشرے میں اس پر اس وقت تک شبہ نہیں ہوتا جب تک وہ گرفتار نہیں ہو جاتا۔
چور، ٹھگ اور ڈاکو کے مقابلے میں سماجی طور پر کم تر ہوتا ہے اس لیے اسے چور، اُچَکا اور اس نوع کے ذلالت بھرے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ چور کے مقابلے میں ٹھگ ، دھوکہ دہی، فریب اور ورغلانے والا ہوتا ہے۔ یہ اپنی باتوں اور ہتھکنڈوں سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر ان سے پیسے وصول کرتا ہے یا زبردستی چھین لیتا ہے۔
ہندوستان میں عہدِ برطانیہ میں ٹھگوں کے باقاعدہ گروہ ہوتے تھے جو مسافروں سے کو اپنی باتوں سے پھنسا کر، انہیں قتل کر کے ان کے مال پر قبضہ کر لیتے تھے۔ یہ اپنی شخصیت کو چھپائے رکھتے تھے۔ جب عام آبادیوں میں رہتے تھے تو کسی نہ کسی پیشے سے وابستہ رہتے تھے تاکہ لوگ ان پر شک و شبہ کر سکیں۔ ٹھگ اور چور کے مقابلے میں ڈاکو کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزی کرتا تھا، اپنی شخصیت کو چھپاتا نہیں تھا، بلکہ اس کا پروپیگنڈہ بھی کرتا تھا۔
ڈاکو اپنے جرائم کو چھپاتے نہیں تھے۔ وہ قتل کر کے لاشوں کو چھوڑ کر فرار ہو جاتے تھے۔ ان کے ہاں خون بہانا حرام نہیں تھا اس کا اظہار وہ صاف صاف کرتے تھے۔
مندرجہ بالا سطور معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف “تاریخ: ٹھگ اور ڈاکو” سے مستعار لی گئی ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی نے اس تصنیف میں ان تین جرائم پیشہ افراد چور، ٹھگ اور ڈاکو کو تاریخی پس منظر میں بڑی صراحت سے بیان کیا ہے۔ اس کالم میں ان سطور کو بیان کرنے کا مقصد اس ملک کی نام نہاد سیاسی اشرافیہ کے چہرے سے نقاب سرکانا ہے جس میں ہر نوع کے ٹھگ، چور اور ڈاکو با افراط پائے جاتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد گھر رخصت ہو چکی ہے اور ملک میں آئندہ انتخابات کا طبل بن چکا ہے۔ اس ملک کے عوام نے پچیس جولائی کو اپنے نئے حکمرانوں کا انتخاب کرنا ہے جو آئندہ پانچ برسوں تک اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر ان کے مقدر کا فیصلہ کر رہے ہوں گے۔
قوم اگلے انتخابات میں کیا فیصلہ دیتی ہے اس کے لیے “پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔” تاہم اس ملک میں متحرک سیاسی جماعتوں کے اندر چور، ٹھگ اور ڈاکو جتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں اس کا تصور کرتے ہوئے دل میں ہول اٹھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اگلے انتخابات میں ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ان تینوں جماعتوں کے نظریات میں بعد المشرقین ہو سکتا ہے لیکن ان کی صفوں میں موجود ہیومن میٹریل تقریباً یکساں ہی ہے۔
مزید دیکھیے: عام انتخابات 2018 نصیرآباد ، جعفرآباد میں سیاسی دنگل کا پیش منظر
ملک تنویر احمد کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں
وہ چور، ٹھگ اور ڈاکو جو کبھی پی پی پی میں ہونے کے باعث راندۂ درگاہ بنے ہوئے تھے گزشتہ انتخابات سے پہلے پاکستان مسلم لیگ نواز میں پہنچے تو پوِتر ٹھہرے اور یہی بد عنوان جب پی پی پی اور نواز لیگ کی صفوں سے اڑ کر پی ٹی آئی میں ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہوئے تو وہ پاکستان کے صاف ترین اور اجلے کرداروں میں ڈھل گئے۔
جمہوریت بلاشبہ اس ملک کا مقدر ہے اور یہی وہ نظام حکومت ہے جسے اس ملک میں ہر صورت میں نافذ العمل رہنا چاہیے لیکن اس جمہوریت کا چہرہ ان عناصر کے سیاہ کرتوتوں سے اس قدر داغ دار ہو چکا ہے کہ لوگ جمہوریت پر ہی تھوکنے لگتے ہیں۔ اس ملک میں پی پی پی والے سب سے زیادہ مورد الزام ٹھہرائے جاتے ہیں کہ وہ ملکی وسائل کو ہڑپ کر گئے اور دھیلے کا کام بھی نہیں کروایا۔ نواز لیگ کو چوروں کی جماعت سمجھا جاتا ہے جو ترقیاتی فنڈز کا کچھ حصہ لگا کر باقی کی رقم چوری سے کھسکا لیتے ہیں۔
اگر یہ دو جماعتیں ڈاکو اور چور ہیں تو تحریک انصاف بجا طور پر ٹھگوں کی جماعت قرار دی جا سکتی ہے کہ جس کے اندر ٹھگوں کا ایک جم غفیر حالیہ دنوں داخل ہو چکا ہے۔ جنوبی پنجاب کے وڈیروں کے غول کے غول جس طرح تحریک انصاف میں اپنا آشیانہ بنا رہے ہیں اس نے اس جماعت کو ٹھگ بازوں کی جماعت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے جرائم میں کیا یہ افراد بھی شریک جرم نہ تھے؟ جو کبھی ان دونوں کے ہم رکاب بن کر ان کی حکومتوں کو دوام بخش کر حکومتی وسائل کی گنگا میں میں نہا رہے تھے۔
اس ملک میں کیا مثبت سیاسی تبدیلی کے امکانات بعید از قیاس ہو چکے ہیں؟ کہ اب یہی ٹھگ، چور اور ڈاکو جماعتیں بدل بدل کر ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے۔ کیا آج نواز لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی ایک ہی جماعت کا پَر تو نظر نہیں آتے؟ کیا ہمارے مقدر میں یہی ڈاکو، چور اور ٹھگ ہیں؟ کہ وہ کبھی پی پی پی میں رہ کر اس ملک کے وسائل کو ہڑپ کر جائیں تو کبھی نواز لیگ میں ٹھکانہ بنا کر قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث پائے جائیں اور کل کلاں کو یہی پی ٹی آئی کی حکومت میں وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوں گے۔
پاکستان کی بڑی بد قسمتی ٹھہری کہ ہمیں پچھلے تیس پینتیس برسوں میں چھوٹی اور بڑی برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ پہلے یہ پی پی اور نواز لیگ تھیں اور اب اس میں تیسری تحریک انصاف بھی شامل ہو چکی ہے۔ اس ملک کی اس سے بڑی اور کیا سیہ بختی ہوسکتی ہے ؟ کہ آج تک ہمیں اعلیٰ کردار اور بد کردار میں سے انتخاب کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ ہمیں ہر بار چھوٹی برائی اور بڑی برائی میں سے ایک کے انتخاب پر مجبور ہونا پڑا۔
ہمارے پاس چور، ٹھگ اور ڈاکو میں سے ایک کے انتخاب کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ اب کی بار میں بھی کچھ یہی آثار و قرائن ہیں کہ جو ڈاکو تھے اب چور وں میں بدل گئے اور جو چور تھے انہوں نے ٹھگوں کا روپ بدل لیا۔ اب نوا ز لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی میں سے آپ کو کون ڈاکو، چور اور ٹھگ لگتا ہے اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے لیکن آپ کی مجبوری ہے کہ آپ کو منتخب ان تینوں میں سے ایک کو کرنا ہے۔
اب یہ آپ کی قسمت ٹھہری کہ ووٹ کی پرچی ڈاکو کے حق میں نکلتی ہے یا پھر چور اور ٹھگ انتخابات کا میلہ لوٹنے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.