چینی جو میٹھی نہ تھی : ناول از، صفدر زیدی

چینی جو میٹھی نہ تھی

چینی جو میٹھی نہ تھی :  ناول از، صفدر زیدی

تبصرہ کتاب: نعیم بیگ

چند ماہ بیشتر ایک ناول کا ذکر میرے ہوا ،سوچا، موقع ملتے ہی کسی سے کہتا ہوں کہ یہ ناول مجھے بھجوا دیا جائے، اور اس تجسس کی بنیاد اس ناول کا عنوان تھا۔ تاہم یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ ابھی چند ماہ ہی نہ گزرے تھے کہ ناول مجھ تک پہنچ گیا۔

نطشے نے کہا تھا کہ ’’ جو ڈانس ہوتا دیکھ رہے ہیں انھیں وہ لوگ پاگل قرار دے رے ہیں، جنھیں میوزک کی آواز بھی سنائی نہیں دی رہی۔ ‘‘ ملک سے باہر رہنے والوں کی تخلیقات بھی کچھ ایسی ہی ہیں ۔ کسی بھی تخلیقی فن پارے یا تحریر کو اس وقت تک نہیں درست جانچا جا سکتا، جب تک ان پر مختلف اطراف سے متنوع فکری و علمی اور تاثراتی رائے سامنے نہ آئے۔

مجھے یاد پڑتا ہے، کچھ عرصہ پہلے’ چینی جو میٹھی نہ تھی‘ پر ایک تنقیدی رائے پر میری نظر پڑی تھی اور وہ معروف شاعر و نقاد ڈاکٹر سہیل احمد ( مقیم امریکہ) کی رائے تھی۔ مجھے وہ تحریر تو یاد نہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ انھوں نے اس پر بڑا متوازن تبصرہ کیا تھا۔

ناول درحقیقت دو پہلوؤں پر فوکس کرتا ہے۔ اولین تو وہ وفور تخلیق (جو کسی تحریر کے اندر بدرجہ اتم موجود ہونا لازم ہے) بڑی سہولت سے اس ناول کی ریڈیبیلیٹی کو برقرار رکھتا ہے،۔کہانی کا بہاؤ اور واقعات کا تسلسل، ان کا مربوط ہونا اور کہانی کے تاثر کو مرکزی خیال کے اندر رکھتے ہوئے ایک ایسی منظر کی تصویر کشی کرتا ہے کہ قاری اس کے زیر اثر کئی ایک روز تک رہتا ہے ، بلکہ کچھ پہلو ہمیشہ کے لیے قاری کے ذہن میں جاگزیں ہوجاتے ہیں ۔

دوسرا پہلو صراحت کا متقاضی ہے اور اس پہلو کی کئی ایک شاخیں ہیں، جنھیں میں اس مختصر رائے میں سمونے کی کوشش کرتا ہوں ۔ ناول کا مرکزی بہاؤ بیک وقت دو متوازن سطوں پر مرقوم ہے۔ ایک سوچ مابعد الطبعیات کی نشان دہی کرتی ہے دوسری طرف کرداروں کے حوالوں سے خیالات کا اظہار ترقی پسندانہ ہے۔

اس ناول کا مرکزی خیال، انیسویں صدی سے شروع ہوتی اتر پردیش اور بہار کے ہندوستانی علاقوں سے کریبین میں ولندیزیوں کی تاریخی کالونی’ سرینام‘ میں انسانی منتقلی جنھیں خود ہندوستانیوں نے ہجرت کا نام دیا، کو آشکار کرتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں یہ انسانی منتقلی کوئی نصف صدی پر محیط ہے۔ یہ نوآبادیاتی کلچر کا وہ پہلو ہے جسے مصنف نے بڑی توجہ سے اپنے ناول کا حصہ بنایا۔ سستے ہندوستانی مزدوروں کی مالی مفادات کے تحت ولندیزیی کالونی کو فراہمی جہاں یورپی اقوام کا باہم براعظمی اتفاق ظاہر کرتا ہے، وہیں نو آبادیاتی سطح پر امپرئیلسٹک سرمایہ دارانہ اور بورژوائی اشتراک کو تاریخی سطح پر ثابت کرتا ہے۔

مصنف نے کمال ہنرمندی سے تاریخی پہلو کو فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعے ناول میں پیوست کیا ہے ، جبکہ حقیقی کہانی، اس تاریخی پہلو کے منکشف ہونے سے پہلے کہانی کا مرکزی کردار راج اپنے انجان داخلی کرب ( مسلسل نظر والا خوفناک خواب، جس میں اسے کوڑوں سے پیٹا جاتا ہے، اور بالآخر اس کی ذاتی کامیاب ازدواجی زندگی کو ناکام کر دیتا ہے) سے مجبور ہو کر خودکشی کرنے شہر کے وسط میں بہتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اتفاق سے راج کو ایک انجان لیکن مہربان شخص عنایت خان مرنے سے بچا لیتا ہے اور اپنے گھر لے جاتا ہے جہاں راج مسلم اور ہندو تصوف ہرے راما ہرے کرشنا کے امتزاجی ماحول سے روشناس ہوتا ہے۔ راج جب عنایت خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ کچھ یوں جواب دیتا ہے۔

’’اور جہاں تک تمہارا یہ سوال کہ میں کیا کرتا ہوں، تو بھائی میں ایک مسافر ہوں اور منزل کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ ویسے ہالینڈ کی تاریخ میں ہمارا خاندان ڈاکٹروں کے خاندان کے طور پر مشہور ہے، اپنے دادا اور پردادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے بھی طب کی تعلیم حاصل کی تھی، پر ایک دن مجھ پر یہ راز کھُلا کہ جسم کے بہت سے امراض صرف اس لیے لاحق ہوتے ہیں کہ ہماری روح بیمار ہوتی ہے اور جب مجھے اس بات کا ادراک ہوا تو میں نے طب کی پریکٹس چھوڑ دی اور ایک ایسے راستے کا راہی بن گیا جو مجھے اپنے آپ تک لے جاتا ہے۔‘‘

اس مقام پر راج اس مسلمان صوفی کا مرید بن جاتا ہے جو اس کا نہ صرف روحانی علاج کرتا ہے بلکہ اس کے ماضی میں جاکر اس کی خوابیدہ گزشتہ زندگی کو آشکار کرتا ہے، جہاں قارئین یہ جان جاتے ہیں کہ سرینام میں منتقل ہونے والے ہندوستانی کس قدر عذاب میں مبتلا تھے۔ کہانی کے اس حصے میں بھی مصنف جوگی بابا اور پنڈت کو کہانی میں شامل حال رکھتے ہیں جو اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ مصنف ہر دو سمت میں ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی صوفی ازم پر یقین کامل رکھتے ہیں، اور اپنے کرداروں لکشمی اور راج کو ری انکارنیشن (جنم در جنم ) اواگون کے فلسفیانہ رُو سے ایک صدی بعد دوبارہ انہی کرداروں کو جنم دیتے ہیں، جو ہندوستان سے سرینام ہجرت کر گئے تھے۔

ناول کے ایک حصے میں ایک کردار بیلا ( ہندو بیوہ) اور دین محمد ( مسلمان کِسان) کے درمیان پیدا ہونے والا تعلق محبت کے بندھن میں سمو جاتا ہے، تو اس موقع پر لکشمی کہتی ہے۔’’ ہماری پوجا، پراتھنا سب بھگوان کے لیے ہے، اسی لیے مسلمانوں کی نماز بھی اُن کے ایشور کے لیے ہے، پھر جھگڑا کاہے کا، یوں سمجھ لو کہ ہم سب کی پہلی منزل کلکتہ تھی تو کچھ لوگ ناؤ سے کلکتہ آئے، اور کچھ لوگ گھوڑا گاڑیوں پر کلکتہ پہنچے۔ منزل سب کی ایک ہی ہے۔‘‘

یہاں مصنف کی سوچ پروگریسو ہو جاتی ہے اور اپنے کرداروں سے ترقی پسند سوچ کو مہمیز دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے ناول کے پورے مرکزی خیال میں مصنف کی رغبت صوفیت اور مابعد الطبیعات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ مصنف نے بیک وقت دونوں فلسفوں کا اظہار ایک ساتھ لیے کیا ہو کہ اس کے ذہن میں ناول کی تکنیک میں دونوں کا اہتمام کرنا ضروری رہا ہو۔

بہرحال ناول کی تکنیک سے ہٹ کر یہ ناول ایک بار ضرور پڑھا جا سکتا ہے اور کی بڑی وجہ اس ناول کا وہ تاریخی پس منظر ہے جو مصنف نے کمال ہنرمندی سے اس میں قارئین تک پہنچایا ۔ ناول بڑے اہتمام سے مثال پبلشر نے فیصل ٓباد سے شائع کیا ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

1 Comment

  1. صفدر زیدی صاحب کے ناول ’’ چینی جو میٹھی نہ تھی‘‘ کے متعلق سنا تھا ۔ یہ ڈچ ( ولندیزی) زبان میں شائع ہوا تھا پھر محترم سہیل احمد کے ایک مضمون سے معلوم ہوا کہ اس کا اردو ترجمہ بھی آگیا ہے ۔ خود مجھے یہ ناول پرھنے کا موقع نہیں ملا ۔ لیکن یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ، ’’کسی بھی تخلیقی فن پارے یا تحریر کو اس وقت تک نہیں درست جانچا جا سکتا، جب تک ان پر مختلف اطراف سے متنوع فکری و علمی اور تاثراتی رائے سامنے نہ آئے۔‘‘ تو اس کے بعد اس ناول کو پڑھنے اور پھیکے چینی چکھنے کا شوق بڑھ گیا ہے ۔ آپ کی مندرجہ بالا رائے میرے لیے مقدم ہے اور اسی وجہ سے اب اس ناول کو حاصل کرنا اور اس کا مطالعہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ امید ہے ایسا ہو بھی جائے گا ۔

Comments are closed.