دہرے معیار اور بچوں کی نفسیات
از، عافیہ شاکر
نفسیات کے مطابق imprinting ایک ایسا عمل ہے کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد چند گھنٹوں تک critical time جو کچھ دیکھتا ہے اس کے ذہن پہ چھپ جاتا ہے یہ عمل عموماً جانوروں اور پرندوں میں زیادہ سرعت سے انجام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں میں کچھ مختلف انداز میں رونما ہوتا ہے۔ imprints کی ساری زندگی بہت اہمیت رہتی ہے۔ اگر ہم بڑے پیمانے (macro) پر جائزہ لیں تو imprinting کا یہی دورانیہ انسان کو ایدھی یا اسامہ بن لادن بناتا ہے۔
انسان کے imprints کا دورانیہ طویل ہے وہ ایک عرصے تک اپنے ماحول سے نقوش حاصل کرتا رہتا ہے۔انسان کی سوچ یا سائیکی پر genetics سے زیادہ ماحول اور معاشرے کا اثر ہوتا ہے بچپن میں بچے کی سوچ کو جس سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے وہ کہیں نہ کہیں اس کے ذہن کے لاشعورری حصے میں Feedہوجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان ’’خالی کاغذوں‘‘ پر کیا لکھ رہے ہیں؟ ہم صرف جھنڈے پر چاند والی قوم بن کے رہ گئے ہیں کہ چاند پہ جھنڈے گاڑنے والی قوم___؟
شاید ہمیں شروع سے ہی چاند اور زمین کا فاصلہ دگنا کر کے بتایا جاتا ہے۔ ہمیں اُلٹے ہاتھ سے کھانے پر تو جھڑکا جاتا ہے مگر معاشرت میں حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے ،کوئی نہیں بتاتا۔
ہمیں مذہب اور معاشرے کے رہن سہن کے حوالے سے اتنا بے لچک کر دیا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے سوا سب غلط نظر آتا ہے۔ ہم شروع دن سے اپنے معیارات بنا لیتے ہیں اور پوری زندگی انھی کے مطابق لوگوں کی پیمائش کرتے ہیں نفسیات میں اسےBaby-Duck- syndrome کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح بطخ کے بچے اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلنے کے عادی ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا معاشرہ بھی یہ تقلید کی عادت ہر بچے کی فطرت بنا دیتا ہے۔ اسے بھیڑ چال بھی کہتے ہیں۔ بھیڑیں بھی سر پھینک کے ایک دوسرے کے پیچھے چلتی رہتی ہیں۔ اپنا راستہ تراشنا اُن کے بس کا کھیل نہیں ہوتا۔
معاشروں میں یہ بھیڑ چال سوال کرنے پہ پابندی کی صورت میں جنم لیتی ہے۔ سوال کرنا اپنے ذہن کاا ستعمال ہے۔ اپنے ماحول میں اپنی شناخت متعین کرنے کا نام ہے۔جب سوال نہیں کرنے دیا جاتا تو ذہنوں میں تقلید اور بھیڑ چال کا تصور پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلنے میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ بچپن میں ہی بچوں کو ڈرانے یا خوش کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بڑے ہو کے بچے اس جھوٹ کو جان لیتے ہیں تو ان کا معاشرتی بھرم ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ معاشرے میں خود ایک فریبی یا دھوکہ دینے والے کردار بنتے ہیں۔سیاست دان اُنھیں بتاتے ہیں کہ اُن کا کام ملک کی خدمت و تعمیر ترقی ہے۔ خفیہ قوتیں بتاتی ہیں کہ وہ اصل محافظ ہیں۔ میڈیا بتاتا ہے کہ سچ ہم بتا رہے ہیں۔
استاد بتاتا ہے کہ علم وہی ہے جو وہ بتا رہا ہے۔ والدین بتاتے ہیں کہ اصل اخلاق اور دین و دنیا وہی ہے جو وہ سکھا رہے ہیں۔ریاست کے قوانین کچھ اور بتاتے ہیں اور لوگ اُن پرکسی اور طرح عمل پیرا ملتے ہیں۔ دین دارلوگ مذہب کی روحانیت کا درس دیتے ہیں مگر وہ سب سے بڑے مادہ پرست ثابت ہوتے ہیں۔ عدالتیں انصاف کا پرچار کرتی ہیں مگر انصاف کا خون بھی انھی کے ہاتھوں ہوتا نظر آتا ہے۔بچے سب کچھ دیکھتے ہیں اور پھر سب کچھ شعور کی پختگی کے ساتھ بکھرنے لگتا ہے۔ ان کے اندر سے تضادات جھانکنے لگتے ہیں۔
مغربی قوموں میں اب بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو وہی بتاتے اور سکھاتے ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے ۔ بچہ بڑا ہو کے اُن کے اندر تضادات تلاش نہیں کرتا۔ جاپانیوں نے اپنی قوم کو جنگ اور بدلہ لینا نہیں سکھایا بل کہ انھیں جدید ٹیکنالوجی سکھائی جس نے اُن کی قوم کو دنیا کی طاقت ور قوموں میں لا کھڑا کیا۔
ہم دہرے معیاروں کے ساتھ بچوں کو دہرا بنا رہے ہیں۔ کب ہمارے اعمال اور سوچیں ایک طرح کی ہوں گی۔
لاجواب
Bohat khoob kaha Madam! Hamary amaal ..aur sochen kb aik tarah ki hu gi