باز گشت
از، معصوم رضوی
آج سے تقریبا 100 دن پہلے قصور کی معصوم زینب کو زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتارا گیا اور پانچ روز پہلے چیچہ وطنی کی بارہ سالہ نور فاطمہ بھیڑیوں کا نشانہ بن گئی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں ان سو دنوں میں ایک، دو نہیں، صرف پنجاب میں 9 معصوم کلیوں کو کچل دیا گیا۔
زینب کے الم ناک قتل پر کالم لکھا تھا درحقیقت یہ کالم اسی کی باز گشت ہے، کیوںکہ ہماری یادداشت نہایت مختصر ہے، تو سوچا کیوں نہ اس درد میں آپ کو بھی شریک کیا جائے۔
خدا جانے کیسا معاشرہ ہے، ہم کس سماج میں سانس لے رہے ہیں۔ مذھب، تہذیب، انسانی اقدار سب بے معنی اور بے کار، منافقت اور بے حسی سے دوچار اس جس معاشرے میں بچے درندوں سے محفوظ نہ رہ سکیں، اسے کس نام سے پکارا جائے۔ کوئی بھی انسانی معاشرہ اتنا بے حس، بد اخلاق، ظالم اور نے درد نہیں ہو سکتا، ایسی بے حسی تو حیوان کو بھی میسر نہیں، کمزور جانور بھی اپنے بچوں کو بچانے کے لیے شیر سے بھڑ جاتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا اس معاشرے کو کسی طور بھی مذھبی یا انسانی کہا جا سکتا ہے؟
یہ درست ہے کہ ایسے واقعات پنجاب میں سب سے زیادہ ہیں مگر دیگر صوبے بھی کم نہیں، کیا جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے روزانہ گیارہ واقعات ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی کے سامنے پیش کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 17 ہزار 862 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جس میں 10 ہزار 620 لڑکیاں اور 7 ہزار 242 لڑکے شامل ہیں۔
یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ کیے گئے ہیں جبکہ بڑی تعداد بدنامی کے خوف سے ایسے گھناؤنے واقعات کو پوشیدہ رکھتی ہے۔بچوں کے لیے کام کرنے والی این جی او ساحل کے مطابق 2017 میں جنوری تا جون، یعنی چھ ماہ کے دوران پنجاب میں 1089، سندھ میں 490، بلوچستان میں 76، اسلام آباد 58، خیبر پختونخوا 42 اور آزاد کشمیر میں 9 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ یہ اعدادوشمار یقینی طور پر آپ کے لیے بھی تکلیف دہ ہوں گے مگر معاملے کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
قندوز میں بچوں کے مدرسے کو افغان طیاروں نے بمباری کا نشانہ بنایا، 50 سے زائد ہلاکتیں، احتجاج اور مظاہرے، شام میں کیمیائی حملے میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا تو سوشل میڈیا کے شیر روس و امریکہ پر دھاڑتے رہے۔ روہنگیا میں بدھوں کے مظالم کے خلاف احتجاج، امدادی کیمپ لگتے رہے۔ یہ سب درست، انسانیت سوز واقعات پر ہر درمند دل افسردہ ہوتا ہے، ہونا بھی چاہیے، جذبات کا اظہار بھی کرنا چاہیے، مگر سمجھ یہ نہیں آتا کہ پاکستان کے ان معصوم بچوں کے لیے کون آواز اٹھائے گا، کون احتجاج کریگا۔
یاد نہیں کہ جن بچے اور بچیوں کو درندے چیر پھاڑ گئے ان کے لیے کسی سیاسی جماعت نے کوئی ریلی نکالی ہو، کسی مذھبی جماعت نے دھرنا دیا ہو، سول سوسائٹی نے کوئی مہم شروع کی ہو۔ ٹی وی چینلز جو دنیا کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اس بارے میں کوئی سنجیدہ بحث چھڑی ہو، اسکولوں میں بچوں کو حفاظتی اقدامات کے بارے میں غور کیا گیا ہو، حتیٰ کہ سوشل میڈیا کے شیر بھی منھ موڑے پڑے رہے۔ دنیا بھر کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے اپنی تکلیف پر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں، کیا ہم واقعی اتنے مادیت پرست ہو چکے ہیں کہ اپنے نسل کے لیے بھی نہیں لڑ سکتے۔
ظلم دنیا کے کسی خطے میں ہو قابل مذمت ہے، مقبوضہ کشمیر میں بارہ سالہ آصفہ بھی درندگی کا شکار بنی، دل خون کے آنسو روتا ہے، اف کیسا ظلم ہے ہندو انتہاپسند بھیڑیوں نے معصوم بچی کو بھی نہ بخشا، مگر جب اپنے ملک میں معصوم کلیوں کے ساتھ درندگی کا سلوک دیکھتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے، کیونکہ جو کچھ ٹھٹھہ، قصور، چیچہ وطنی، لاہور، پشاور، کراچی اور دیگر شہروں میں ہو رہا ہے۔ اسے یہود و ہنود کی سازش قرار دے کر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اسے کسی جنگ زدہ ملک کا فتنہ قرار نہیں دے سکتا، روس اور امریکہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔
یہ تو میرے اپنے ہیں جو میری ہی معصوم نسل کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کر رہے ہیں اور معاشرہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ متاثرہ والدین کی آنکھوں سے آنسو پونچھ سکے، ان بچوں اور خاندانوں کو تحفظ دے سکے اور کچھ نہیں تو ان کے لیے سڑکوں پر آ کر حکومت کو للکار سکے۔ ہمارے بچوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت پر کیسے انسانی حقوق کے چیمپئن دانشوروں کا ضمیر سلامت رہتا ہے، مسجد و منبر ہماری متبرک درس گاہیں ہیں وہاں سے اس سنگدلانہ فعل کے خلاف موثر آواز کیوں نہیں بلند ہوتی، پارلیمان کی تو خیر بات ہی چھوڑیں، انہیں اپنے مسائل سے فرصت ملے تو کچھ کیا جائے۔
عدالتیں سیاسی معاملات کی طرح ان مقدمات کی روز سماعت کیوں نہیں کرتیں؟ کیا پاناما اس سے بڑا مسئلہ ہے؟ معاف کیجیےگا شاید یہ ہماری ترجیح نہیں یا شاید اس سنگین معاملے سے کسی کا مفاد وابستہ نہیں، کوئی سیاسی معاملہ بھی نہیں جہاں شہرت اور دولت کی امید ہو۔
یہ بھی درست ہے کہ درندگی کے ایسے واقعات ساری دنیا میں ہوتے ہیں، غریب، امیر، پسماندہ اور ترقی یافتہ، سب ممالک اس سے دوچار ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک بھی محفوظ نہیں مگر رویوں میں فرق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے واقعات کو دبایا نہیں جاتا، متاثرہ بچے اور خاندان معاشرے کی ہمدردی، محبت اور ملزمان اجتماعی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔ گھروں اور اسکولوں میں بچوں کو مناسب تربیت دی جاتی ہے، اسکولوں میں اس خطرے سے آگاہ کیا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کتنا ہی با اثر، بارسوخ کیوں نہ ہو انصاف سے نہیں بچ سکتا۔ شاید ہمارے معاشرے میں یہ سب الٹ ہے، شاید بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں نہیں مگر جو ہماری بساط میں ہے کیا ہم وہ ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔
کیا اس سنگین معاملے کو صرف حکومت پر چھوڑ کر بیٹھا جا سکتا ہے، اگر میں غلط نہیں تو معاشرے کی اکائی فرد اور پھر خاندان، اس لیے اولین ذمہ دار تو ہم خود ہیں۔ کیا ہم بچوں کو ان درندوں سے محفوظ رہنے کی تربیت دیتے ہیں، ہم بچوں کو باوقار طریقے سے خطرات کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں، ایک لمس، اجنبی تحفہ، غیر معمولی بے تکلفی، اگر بچہ اس خطرے سے آگاہ کیا جائے تو لاعلمی کی بھینٹ نہیں چڑھے گا۔
کیا انہیں اتنا اعتماد فراہم کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسی صورت میں ماں، باپ، بہن، بھائی کو بتا سکیں، شاید ایسا نہیں ہے۔ کیا ہم خیال رکھتے ہیں کہ محلے کا بچہ کسی اجنبی کے ساتھ کیوں ہے، کیا ہم بھاری بھرکم فیسیں لینے والے اسکولوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ بچوں کو حفاظتی اقدامات کی تربیت دے رہے ہیں؟ میں اس مسئلے کا کوئی ماہر نہیں، تمام تر تفصیلات کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت مہیا ہے، ماہرین موجود ہیں بہتر طریقہ کار بتا سکتے ہیں، اس تحریر کو تو بس ایک باز گشت جانیے، جو ننھے فرشتے درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے وہ تو واپس نہیں آ سکتے مگر جو کلیاں ہمارے گھروں کو مہکا رہی ہیں انہیں تو بچایا جا سکتا ہے، یہ ذمہ داری میری، آپ کی اور ہم سب کی ہے۔