بچپن مین پڑھے رسالے اور بھولی بسری کہانیاں
از، حسین جاوید افروز
کبھی کبھی جب گزری زندگی پر نگاہ ڈالنے کا موقع ملے تو بچپن کا دور بہت شدت سے یاد آتا ہے ۔ایک ایسا دور جب ہر طرف بے فکری کا راج ہوا کرتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں کرکٹ، کیرم اور کہانیوں سے وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ لیکن افسوس آج کے بچے ہمارے مقابلے میں ان تمام چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔
جہاں ہمارے لیے بیٹ بال سے کھیلنے یا مزے مزے کی کہانیاں پڑھنے کے لیے وافر ٹائم ہوا کرتا تھا، بدقسمتی سے اب بچے وہی وقت پلے سٹیشن، ایکس باکس کے جوائے سٹکس پکڑے بے مقصد گزار رہے ہوتے ہیں۔
لیکن بات کو وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ کم از کم ہماری نسل تک ہمارے والدین نے خود ہمیں بک سٹال کی راہ دکھائی اور یوں ہم بچوں کی کہانیوں اور رسائل کی عجب غضب دنیا سے رُو شناس ہوئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ سات سال کی عمر سے ہی مجھے تعلیم و تربیت سے شغف ہوا اور اگلے پانچ سے چھ سال تک میں نے اس سے خوب فیض حاصل کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ تعلیم و تربیت واقعی اپنے نام کی طرح بچوں کو تعلیمی انداز میں بہترین تربیت فراہم کرتا رہا ہے۔ اس دور میں جس طرح ڈاکٹر عبدالرؤف نے تصویری کامکس کی مدد سے محمد بن قاسم، شیر شاہ سوری، ٹیپو سلطان اور قائدِ اعظم پر کام کیا وہ آج بھی دل و دماغ پر نقش ہے۔
آج بھی یہ کامکس کتاب میلے پر دست یاب ہیں۔ اسی طرح ذکیہ بلگرامی کی مزاحیہ چچا بھلکڑ سیریز کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب یہ سیریز بھی کتابی شکل میں دست یاب ہے۔ غرض یہ کہ اے حمید، مقبول داؤدی، مقبول جہاں گیر، میرزا ادیب اور یونس حسرت سب نے ہی اپنی اثر انگیز تحریروں سے تعلیم و تربیت کے پلیٹ فارم سے بچوں کی آب یاری کی۔
یہاں اے حمید کی سیریز انگوٹھی کہاں گئی؟کا حوالہ بھی بہت ضروری ہے جس میں مرکزی کردار فاران ایک انگوٹھی پہن کر محمد بن قاسم سے سلاطینِ دہلی اور وہاں سے مغلیہ دور کا خود مشاہدہ کرتا ہے۔ اس سیریز میں کمال خوب صورتی سے فکشن کے ساتھ تاریخ کا درس دیا گیا اور یوں اوائلِ عمری میں ہی تاریخ پڑھنے کا چسکا لگ گیا۔
اس کے ساتھ حکیم محمد سعید کے نونہال نے بھی اپنے دور کے نونہال بچوں کو کئی سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں دیں۔ خصوصاً نونہال میں مسعود احمد برکاتی نے چارلس ڈکنز، الیگزینڈر ڈوما کے ناولوں کا کیا ہی خوبطصورتی سے ترجمہ کیا اور بچوں کو جس طرح مغربی لٹریچر سے کم عمری میں ہی رُو شناس کرایا وہ اپنی مثال آپ تھا۔
مزید دیکھیے:
بچوں کی پرورش کتابوں کے ساتھ کرنے کے تین اہم فوائد
بچوں کے لیے سائنسی ادب کی ضرورت اور اہمیت از، ذوالفقار علی
ان ناولوں میں تین بندوقچی، آلیور ٹوئسٹ، ہزاروں خواہشیں اور مونٹی کرسٹو کا نواب اپنے آپ میں کسی سوغات سے کم نہیں تھے۔ جب کہ ان رسائل کے سال نامے جو عام رسالے سے خاصے بھاری بھرکَم ہوا کرتے تھے، بچوں کے لیے بلا شبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک مکمل پیکج ہوا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھ مچولی، بچوں کی دنیا اور پھول نے بھی بچوں پر خاصے گہرے اثرات چھوڑے۔
ساٹھ، ستر، اسے اور نوّے کی دھائی تک جاسوسی ناولوں کی بات کی جائے تو ابنِ صفی اور اشتیاق احمد کے ناولوں نے بھی بچوں کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ عمران سیریز، انسپکٹر جمشید اور انسپکٹر کامران مرزا کے کرداروں نے کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کے ناولوں سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں تک بھی داؤ پر لگ جایا کرتی تھیں۔
اسی طرح اس دور میں اگر انفرادی کہانیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو ایسے کئی جادوئی جرات سے بھر پُور کردار رہے جنھوں نے ایک عالم کو مہبوت کیے رکھا۔ ان کرداروں میں سب سے پہلے عَمرو عیار کا تذکرہ ہو جائے جو کہ جسمانی طور پر لاغر ہونے کے با وُجود ایک زنبیل کندھے پر لیے دنیا جہان کے خوف ناک جادوگروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہتا تھا۔
اس کا اصل حریف طلسمِ ہوش رُبا کا شہنشاہ افراسیاب ہوا کرتا تھا جو کہ عَمرو عیار کو ختم کرنے کے لیے کئی جادوگروں کو بھیجا کرتا لیکن سب کے سب عَمرو کی عیاری اور اس کی زنبیل جس میں دنیا جہاں کی چیزیں سما سکتی تھیں کے آگے ہمیشہ نا کام ہوطجاتے؛ اور افراسیاب خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔
تاہم دل چسپ بات یہ تھی کہ طلِسمِ ہوش رُبا کی بنیادوں کو تہہ و بالا کرنے والا عَمرو اپنی فربہ بیوی چاند تارہ سے پناہ مانگا کرتا تھا۔ لیکن بِلا شبہ عَمرو عیار ہمارے دور کا ایک رومانس رہا ہے۔ افسوس اس کیریکٹر کو کسی نے کبھی پردۂِ سکرین پر اتارنے کا نہیں سوچا۔
اسی طرح ٹارزن جو ایڈگر رائس کے قلم کی تخلیق تھا۔ اس پر لکھی گئی کہانیوں نے بھی بچوں میں خوب مقبولیت حاصل کی۔ افریقہ کے جنگلوں میں شیر کی کھال میں ملبوس کسرتی جسم کے مالک ٹارزن نے بھی مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ اپنے جنگل اور جانوروں کے تحفظ کے لیے خون خوار آدم خور قبائل اور گورے شکاریوں سے ٹکرا جانے والا ٹارزن جرات اور بہادری سے مزین ہمیشہ سے ہی بچوں کا ہیرو رہا ہے۔
اسی طرح آنگلو بانگلو کے مزاحیہ کرداروں کو بھی فراموش کرنا بہت مشکل ہو گا۔ ان دو بے ڈھنگے بھائیوں کو شادی کا جنون ہوتا تھا۔ اور اس مقصد کے لیے کیسی کیسی حماقتیں ان سے سر زَد ہوتی ہیں، ان کو پڑھ کر ہنسی کا طوفان تھمے نہیں تھمتا تھا۔
چھن چھنگلو سیریز بھی بچوں میں خاصی مقبول تھی۔ اس میں ایک بچہ اپنے سے کئی گنا بڑے دیووں اور جنوں کو ناکوں چنے چبوا دیتا ہے۔ جہاں اتنے کرداروں کی بات ہو رہی ہے وہاں چلوسک ملوسک کا بھی ذکر ہوجائے جو اپنے والد جو کہ ایک جرمن سائنس دان ہوتا ہے، اس کے تیار کردہ جہاز میں سوار مختلف سیاروں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں تو کبھی ٹائم مشین کے ذریعے ماضی میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ان میں سے بیش تر کہانیوں کو مظہر کلیم ایم اے اور صفدر شاہین نے تحریر کیا اور صحیح معنوں میں بچوں کے دلوں پر راج کیا۔
اب احساس ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں ہمارے لیے کتنی ضروری تھیں۔ جہاں پَل بھر میں ہم طلِسماتی دنیا میں پہنچ جایا کرتے اور جادوئی مناظر کی منظر کشی کا لطف اٹھاتے۔ انہی کہانیوں کے مطالعے سے مستقبل میں کتاب بینی کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اردو کے کئی الفاظ سے بھی آشناہی ملتی ہے۔ ان کہانیوں میں برائی پر سچائی کی جیت بچوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے نہایت دیر پا اثر چھوڑتی ہے۔
کہانیوں کی فینٹَسی مستقبل میں ہمارے شعور کو جلا بخشنے کا کام کرتی ہے۔ اپنے بچوں کی کہانیوں کی کتابوں سے دوستی کرائیے۔ ابتدائی عمر میں بچوں کے لیے اس سے بہتر اور کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا۔