بچوں سے قرآن حفظ کرانے کی بدعت
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
مذہبی علماء اور خطباء کی جانب سے طویل عرصے سے مسلسل یہ باور کرایا گیا ہے کہ حفظِ قران کی سعادت حاصل کرنے کی بہترین عمر بچپن کی ہے۔ گھرانے کا ایک حافظ بچہ خاندان کے دس ایسے افراد جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی، جنت میں لے جانے کا سبب بنے گا۔ حافظِ قرآن کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ یہ تمام ضعیف روایات ہیں، جن کے ذریعے سے والدین کے جذبات کو انگیخت کیا جاتا ہے، چُوں کہ جہنم کی آگ کا خوف دنیا کے کسی بھی خطرے کے مقابلے میں کم مانا جاتا ہے، اس لیے والدین ہر خطرہ مول لے کر بچے کو حفظ کرانے پر تُل جاتے ہیں۔
حافظِ قرآن، جنت کا وہ ٹکٹ نہیں بن سکتا جو خدا کے عدل کے قانون کو توڑ کر ایسے افراد کو بھی جہنم سے بچا لے جائے گا جن پر ان کے اعمال کے سبب جہنم واجب ہو چکی ہو۔ اس قسم کی ضعیف روایات دین کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف ہیں۔ قرآنِ مجید ہر شخص کو اس کے اپنے اعمال کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کا ضامن بن سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا بوجھ ہی اٹھا سکتا ہے، اور نہ ہی خدا کے حضور کسی کی سفارش بغیر میرٹ کے کی جا سکتی ہے۔
بچوں سے حفظِ قرآن کرانے کی دوسری وجہ سماجی عزت کا حصول ہے۔ گھرانے میں حافظ بچے کی موجودگی خاندان اور سماج میں عزت و شرف دلاتی ہے۔ چُناں چِہ کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی بچوں کو بھی حفظ کرانے کا رجحان بڑھتا جا تا ہے۔
تیسری وجہ یہ معاشی بندوبست ہے۔ غریب گھرانوں کے بچے مدرسے میں مفت تعلیم، رہائش، اور خوراک کے حصول کے بعد اگر حافظ، عالم بن جائیں تو کسی مسجد، مدرسے میں حفظ، یا مدرس کی ملازمت مل سکتی ہے، ورنہ کسی گلی محلے، یا ممکن ہو تو پوش علاقے میں اپنا مدرسہ کھول کر مستقل آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کے حفظِ قرآن کے مدارس مذہبی طبقے کے معاش اور اپنے مذہب و مسلک کے لیے خام مال فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔
مشاہدہ ہے کہ ان ترغیبات کے زیرِ اثر بچوں کو حفظ کرانے کی والدین کی خواہش اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے کم سِن بچوں کو ماں باپ کی نگرانی اور بر وقت با خبر رہنے کے امکانات سے دور، مدارس میں چھوڑ آتے ہیں۔ اپنے گاؤں، محلے اور گھر سے دور کے مدرسے میں داخل کرانے کو ترجیح دی جاتی ہے کہ اپنے علاقے کے مدرسے میں بچے کی توجُّہ اپنے گھر، والدین، بہن بھائیوں، رشتے داروں، کزنز اور مقامی دوستوں، وغیرہ کی یاد اور ملن کی تڑپ میں منتشر رہتی ہے، اس لیے بچے کو ان تمام رشتوں ناتوں سے دور رکھ کر باہر کے مدرسے میں بھیجا جائے، جہاں وہ کوئی شناسا نہ پائے اور پوری توجہ سے قرآن مجید حفظ کرنے پر مجبور ہو جائے۔
یوں اس کا پچپن اور سماجی تعامل سیکھنے کے مواقِع تو ضائع ہو ہی جاتے ہیں، اجنبی ماحول اور مختلف عمر اور مزاج کے لڑکوں اور اساتذہ کے درمیان اس کی معصومیت بھی ہمہ وقت خطرے میں رہتی ہے۔ بچہ جتنا کم عمر اور خوش شکل ہوتا ہے، اس کے استحصال کے امکانات اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔
اپنی آخرت کے مزعومہ تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قرآن حفظ کروانے کے لیے والدین نہ صرف خود بچے پر تشدد کرتے ہیں بَل کہ اساتذہ کو بھی اس کی کھلی اجازت دیتے ہیں۔ اس کے لیے یہ بے بنیاد روایت بھی مشہور کرا رکھی ہے کہ جسم کے جس حصے پر استاد کی مار پڑتی ہے، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔
یہ معاملہ یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ تشدد کی صورت میں بچہ اگر زخمی ہو جائے یا اس کی موت بھی واقع ہو جائے تو والدین عموماً استاد کو معاف کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق بچہ خدا کی راہ میں شہید ہو گیا۔ گویا والدین کی آخرت کے تحفظ کا نصب العین جلد حاصل ہوگیا۔ بچہ ان کے لیے آخرت کا ذخیرہ بن گیا۔ استاد کی اس” خدمت” کے لیے استاد کو سزا کیوں دی جائے! قانون اور سزا سے یہ بے خوفی تشدد پر آمادہ طبائع کی کتنی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
راقم کو ایسے والدین دیکھنے کا موقع ملا ہے جن کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی، انھیں خبر کی گئی، وہ آئے اور بچے کو تسلی دے کر پھر اسی مدرسے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت ہوا تو ایسے ہی کسی دوسرے مدرسے میں اسے داخل کرا دیا، مگر حفظ مکمل کرائے بغیر وہ اسے واپس لے جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔
ایسے والدین کے ساتھ ان کے بچوں کے جذباتی تعلق کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کم سِن بچوں کو والدین کی نگرانی اور بروقت با خبری کے امکان سے دور رہائشی مدارس میں چھوڑنا ہی یہ بتاتا ہے کہ ان والدین کے نزدیک ان کے بچے کیا کیا اہمیت ہے۔
ایسے طلباء بھی مشاہدے میں آئے جو ذہنی طور پر حفظ کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان کی یاداشت اس درجے کی نہیں تھی کہ پورا قرآن زبانی کر سکیں۔ والدین کو بتایا گیا کہ بچے کو حفظ پر مجبور مت کریں، مگر وہ بضد رہے کہ بچے کو ہر صورت حفظ کرایا جائے۔ ان کے مطابق، حفظ کرنے کی محنت سے خدا دماغ کو تیز کر دیتا ہے۔ ان بچوں کو برسوں اس چکی میں پیسا جاتا اور سبق یاد کرنے سے قاصر رہ جانے کی وجہ سے تشدد اور ذلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھیں یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے گناہوں کے سبب سے ان کی یاد داشت کام نہیں کر رہی۔ بتایا جاتا ہے کہ حافظ کے ساتھ عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ شیطان لگے ہوتے ہیں جو اسے گُم راہ کرتے ہیں۔ یہ خود ساختہ تصورات دین کے نام پر بے دریغ استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ صورت حال کسی اذیت گاہ (ٹارچر سیل) سے مختلف نہیں جہاں بچہ ہرصبح یہ سوچ کر اٹھتا ہے کہ تشدد اور ذلّت کا ایک اور طویل دن اس کا منتظر ہے۔ ایسے بچے مدرسے اور گھر سے بھاگ جاتے ہیں تو پکڑ کر پھر لائے جاتے ہیں اور بھاگنے پر تشدد اور ذلت الگ سہنا پڑتی ہے۔ بہت سے طلباء کے ذہنوں میں انھی وجوہات سے قرآنِ مجید سے بد مزگی پیدا ہو جاتی ہے، جو تا عمر دور نہیں ہو پاتی۔
یہ حقیت ہے کہ قرآن مجید کے متن کی حفاظت اور اس کے اگلی نسلوں کو بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے انتقال کے عمل میں حفظِ قرآن کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔ تاہم، اس عمل میں چند افراد یا کسی ایک طبقے کے حفظِ قران پر اکتفا نہیں کیا گیا تھا، بَل کہ پوری امت کے اجتماعی حافظے سے کام لیا گیا۔ ادھر علماء، مفسرین، فُقَہاء، مدرّسین مسلسل اس کی تعلیم، تحقیق، اور تفسیر میں مصروف رہے۔ یوں قرآن پوری حفاظت سے نسلوں کو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا۔
ابتدا میں متنِ قرآنِ کریم کی حفاظت کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کی ضرورت اس لیے درپیش تھی کہ عرب معاشرت میں لکھنے پڑھنے کا رواج کم تھا۔ کتابت کے ذرائع ترقی یافتہ تھے اور نہ وافر طور پر دست یاب۔ رسم الخط بھی اس درجے ترقی یافتہ نہ تھا کہ بغیر قرأت کے متن کی درست پڑھائی ممکن ہوتی۔ بڑے پیمانے پر قرآنِ مجید کی حفاظت، تلاوت اور اس کی تعلیم و ترسیل کے لیے اسے زبانی یاد کر لینے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔ قرآن مجید سب کو لکھ کر دے بھی دیا جاتا تو بھی یہ ممکن نہ تھا کہ سب اسے دیکھ کر پڑھ سکتے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ قرآنِ مجید کی ترسیل اور تحفیظ کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کی حیثیت ایک انتظامی بندوبست کی تھی، اور اسی لیے حفظِ قران کی ترغیب بھی دی گئی۔ تاہم، نزولِ قرآن کے اس دور میں بھی جب کہ کتابت کے ذرائع کم یاب تھے اور زیادہ زور حفظ پر تھا، وحی کے تحفظ اور ترسیل کے ذریعے کے طور پر قرآن مجید قلم و کتابت کا ذکر کرتا ہے:
{اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ} [القرآن، 96: 3 – 5]
“اِنھیں پڑھ کر سناؤ، اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے یہ قرآن سکھایا۔ انسان کو اِس میں وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔”
{ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُون} [القرآن، 68: 1]
“یہ سورۂِ نون ہے۔ قلم گواہی دیتا ہے اور جو کچھ (لکھنے والے اُس سے) لکھ رہے ہیں (یعنی وحی)۔”
صحابہ نے قرآنِ مجید کے معاملے میں حفظِ قرآن اور تحریری قرآن دونوں کے ذریعے سے قرآنِ مجید کی حفاظت میں غیر معمولی حصہ لیا اور یہ وقت کی ضرورت تھی۔ تاہم، صحابہ کے ہاں بلا فہم حفظِ قرآن کا کوئی تصور نہ تھا۔ عربی ان کی زبان تھی اس لیے بلا فہم حفظِ قرآن ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ چُناں چِہ جب انھیں قرآن پڑھنے یا یاد کرنے کا کہا گیا تو اس سے بے سمجھ تلاوت یا حفظ مراد لینے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ بعد میں عجمی اقوام جب دائرۂِ اسلام میں داخل ہوئیں، تو پہلی بار ان کے ہاں بے سمجھ تلاوت اور حفظ کا رواج ہوا۔ اس نئی طرز کے حفظ کو انھوں نے اُس تلاوت اور حفظ کا مترادف باور کر لیا جس کی ترغیب احادیث میں وارد ہوئی تھی۔ امام ابوبکر الطرطوشی نے بَہ جا طور پر بلا فہم حفظ کے اس طرزِ عمل کو بدعت قرار دیا ہے:
“ومما ابتدعه الناس في القرآن، الاقتصار على حفظ حروفه دون التفقُّه فيه۔”
“قرآنِ مجید کے متعلق لوگوں کی ایک بدعت قرآن کے فہم و تفقہ کو چھوڑ کر محض اس کے الفاظ کو حفظ کرنے پر اکتفا کر لینا ہے۔”
قرآنِ مجید اور حدیث مبارکہ میں قرآن مجید کوسمجھ کر پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے اور بے سمجھے پڑھنے سے منع کیا گیا ہے:
{كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ} (القرآن، 38: 29)
یہ ایک با برکت کتاب ہے جو ہم نے، (اے پیغمبر)، تمھاری طرف نازل کی ہے۔ اِس لیے کہ لوگ اِس کی آیتوں پر غور کریں اور اِس لیے کہ عقل والے اِس سے یاد دہانی حاصل کریں۔
{أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا} [القرآن،(47: 24)
سو کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر اُن کے تالے چڑھے ہوئے ہیں؟
رسول اللہ ﷺ سے مروی صحیح حدیث ہے:
لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاث
اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا۔
یہ تعجب خیز امر ہے کہ اس روایت کی بِناء پر قرآنِ مجید کو تین دن سے کم میں ختم نہ کرنے کی طرح تو ڈالی گئی، مگر روایت کا جو مقصود ہے، یعنی بے سمجھ تلاوت کی حوصہ شکنی، اس کو باور نہیں کیا گیا اور تین دن کی بَہ جائے تمام عمر بے سمجھ تلاوت اور حفظ کو باعث اجر سمجھ لیا گیا!
یہ رواج بھی اپنایا گیا کہ قرآن کی کسی آیت کو ادھورا نہ پڑھا جائے۔ پڑھتے ہوئے سانس درمیان میں ٹوٹ جائے تو دوبارہ سے مکمل آیت پڑھی جائے تا کہ آیت کا مطلب ادھورا نہ رہ جائے۔ مگر آیت کا مطلب ہے کیا، اس کی طرف التفات کم ہی برتا گیا۔
ایک روایت، جس میں الف، لام، میم کی تلاوت پر تیس نیکیاں ملنے کی ضمانت مذکور ہے، سے بے سمجھ تلاوت و حفظ کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔ استدلال یہ ہے کہ الف، لام، میم کا معنی معلوم نہیں، اس لیے بے معنی تلاوت بھی باعثِ اجر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس روایت کی صحت پر اطمینان ہو بھی جائے تو بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں موجود طرزِ تکلم شوق پیدا کرنے کے لیے ہے نہ کہ بے سمجھ تلاوت کی ترغیب دینے کے لیے۔ الف، لام، میم کو ثواب کا حجم بتانے کے لیے بَہ طورِ مثال ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بات کسی طرح معقول نہیں کہ کسی با معنی کتاب کو بے سمجھے پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔ خصوصاً قرآن مجید کے معاملے میں ایسا کہنا ممکن نہیں جو ایک ایسی ہدایت ہے جو اس کے سوا کہیں اور نہیں ملتی۔ اور پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ ایسی ترغیب ان لوگوں کو دی گئی ہو جن کے لیے قرآنِ مجید کی زبان سے واقفیت کی بنا اسے بے سمجھے پڑھنا ممکن نہ تھا۔
محُولہ بالا مفہوم کی تمام روایات میں سے کوئی روایت بھی سنداً صحیح یا حسن کے درجے تک نہیں پہنچتی، تاہم، انھی روایات میں سے بعض متون میں وہ پوری بات بھی بیان ہو گئی ہے جو دین اور عقل دونوں کے مطابق ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ اجر، محض بے سوچے سمجھے تلاوت کرنے پر نہیں، بَل کہ قرآنِ مجید پر غور و فکر کرنے، اسے سیکھنے، سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور دوسرے لوگوں کو سکھانے پر بتایا گیا ہے۔ روایت کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:
تَعلَّمُوا الْقُرْآنَ، وَاتْلُوهُ تُؤْجَروا بِكُلِّ حَرْفٍ عَشْرَ حَسَنَاتٍ، أَمَا إِنِّي لَا أَقُولُ: {الم} [البقرة: 1] ، وَلَكِنْ أَلِفٌ، وَلَامٌ، وَمِيمٌ ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قرآن مجید کو سیکھو، سمجھو اور اسے پڑھو، تمھیں ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی۔ یاد رہے میں یہ نہیں کہتا الم (ایک حرف ہے)، بَل کہ الف، لام اور میم (الگ الگ حرف) ہیں (یعنی تین حروف ہیں)۔”
بے سمجھ حفظ و تلاوت کا رواج ان احادیث کے غلط فہم کی بنا پر شروع نہیں ہوا، بَل کہ یہ رواج کسی طرح پڑ گیا تو اس کے جواز کے لیے کچھ متون سے استدلال بعد میں فراہم کیا گیا۔
بعض احادیث میں وارد “قرآن کا قاری” “حاملِ قرآن” اور”صاحبِ قرآن” کے الفاظ کا مصداق بھی بالکل غلط طور پر اس حافظ کو قرار دے دیا گیا جسے قرآن کے معنی و مفہوم سے کوئی سروکار نہیں۔ ان احادیث میں یہ القابات اس شخص کے لیے آئے ہیں جو قرآنِ مجید سے اشتغال رکھتا ہے، اس پر عمل کرتا، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے، یہ شخص ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید کو سمجھنے والا ہی ہوسکتا ہے۔
بلا فہم حفظِ قرآن امام ابو بکر الطوشی کے مطابق ایک بدعت ہے، دوسری “بدعت” بچوں سے قرآن مجید حفظ کرانے کی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور ان کے بعد صحابہ نے ایسی کوئی روایت نہیں ڈالی تھی۔ حفظِ قرآن ساری امت کا کام تھا۔ یہ عادت اور ذوق کا معاملہ تھا۔ سب لوگ اپنی استطاعت کے مطابق قرآن یاد کرتے تھے۔ بالجبر حفظ کا کوئی تصور نہ تھا۔ یہ رجحان بعد میں کہیں رائج ہوا کہ بچوں کو اس کام پر لگایا جائے۔ بچوں سے بالجبر کوئی مشقت نہیں کرائی جا سکتی۔ یہ ان کا استحصال اور قابلِ سزا جرم قرار پانا چاہیے۔ ان کی مرضی کا آزادانہ اظہار ان کے عاقل اور بالغ ہونے کے بعد ہی معتبر مانا جا سکتا ہے۔
کھیل بچوں کی عبادت ہے۔ کم سِن بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود میں بیتنا چاہیے۔ ایسی ہر تعلیمی سرگرمی جس کے اوقات کھیل کے اوقات سے زیادہ ہوں، بچوں کا استحصال ہے، خواہ وہ حفظِ قرآن کی مشقت ہو یا سکول کی تعلیم جو بہت کم سِن بچوں کو شروع کرا دی جاتی ہے۔ بچوں کے کھیل کھیل میں سیکھنے اور خود کھوجنے اور سوالات کرنے کی عمر کو رسمی تعلیم کی نذر کر دیا جاتا ہے، جو بچے اور اس کی فطری نشو و نما پر ظلم ہے۔
حفظِ قرآن کی بالجبر تعلیم کو عام تعلیم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی درجے کی عام تعلیم جو بچے کو بالجبر بھی دلوائی جاتی ہے، وہ زندگی برتنے کی بنیادی اور نا گزیر مہارتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ حفظِ قرآن ان بنیادی مہارتوں کے ذیل میں نہیں آتا۔ اسی بنا پر بنیادی تعلیم کے بعد ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی بچوں پر جبر کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
فہمِ قرآن کا ایک دائرہ اعلیٰ سطحی اور فنی نوعیت کا ہے، جسے کچھ مخصوص علمی ذوق رکھنے والی ذہانتیں ہی حاصل کرتی ہیں۔ تاہم، قرآن مجید کا عام فہم بھی مطلوب ہے۔ یہ فہم تذکیر اور تزکیہ کے حصول کے لیے ہوتا ہے اور تذکیر و تزکیہ ہی قرآن مجید کا اصل مقصود ہے۔ قرآن کا بیش تر حصہ اسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اس کے لیے کسی اعلی لسانی اور علمی مہارت کی ضرورت نہیں۔ قرآنِ مجید کے فہم کے مختلف درجات ہیں اور ہر فرد کو اپنی بساط کے مطابق اس میں سے اس کا حصہ ملتا ہے۔
قرآن مجید کے محفوظ ہو جانے کے دیگر ذرائع میسر آ جانے کے بعد حفاظتِ قرآن کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کی وہ اہمیت اور ضرورت باقی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ تاہم، اپنے ذوق، شوق اور عبادت میں حلاوت پانے کے لیے قرآن مجید کے جزوی یا مکمل حفظ کا فیصلہ با شعور فرد اپنے طور پر کر سکتا ہے۔ لیکن بچوں کو اپنے اس شوق کی نذر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔