بچے سائنس دان ہوتے ہیں
بچے فطری دنیا کے اوّلین دور کی دنیا کے سائنس دان ہوتے ہیں۔ ان ابتدائی سالوں میں وہ کششِ ثقل کے قوانین، وقت کے بے ترتیب بہاؤ، محبت و انسیّت کے پہلے اصول سیکھتے ہیں۔ peanut butter سے لے کر طوفانی بارش تک ہر چیز کو دریافت کرنا ضروری ہے، اور سبھی چیزیں جادو بھری ہی تو ہوتی ہیں؛ اور پھر، جیسے جیسے بچوں کی عمر بڑھتی ہے، جادو کے اس احساس کو پا لینے کی فطرت ان سے چِھنتی جاتی ہے۔
یہ احساسِ زیاں کچھ بچوں میں تیزی سے اور کچھ میں تھوڑا دھیرے سے چِھنتا ہے۔ انھیں گھر گرہستی کے خیال اور دنیا کی ذمے داریاں اپنے بوجھ تلے دبا لیتی ہیں۔
جیتی جاگتی اور سِحر خیز دنیا ان کے سامنے اپنے رنگ پھیکے کرنے لگتی ہے۔ پریاں جھوٹ بن جاتی ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دن گو کہ لمبے ہوتے ہوں گے، مگر زندگی چھوٹی سی ہی تو ہوتی ہے، اور خوابوں کو پانا، خوابوں کو اشتہاروں میں جنم دینے سے کہیں مشکل کام ہوتا ہے۔
ہمیں عام عموم کی ہر چیز خاص بن کر متأثر کرنا چھوڑ دیتی ہے، ہم پر مایوسی کے بادل گھنے ہوتے جاتے ہیں۔ ہم شیشے کی چھوٹی چھوٹی مستطیلوں میں قید رہنے کے لیے زمینی زندگی سے کَٹتے جاتے ہیں، یہ سکرین ہماری دنیا کے لیے نیا افق ہے۔ بچپن کی اس جادوئی دنیا کے نقش مٹنے لگتے ہیں۔
گزرنے والا ہر دن دریافت کرنے کو دینے کے لیے کم سے کم چیزیں ہمارے سامنے لانے لگتا ہے، سوائے چند ایک نایاب لمحات کے؛ آج بھی ایسا ہی دن ہے۔ اس دن صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی تقریب کے دوران جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی نقاب کشائی کی ہے۔
اس دُور بین نے آج وقت کے دریا کے کنارے سے روشنی دیکھی ہے اور وہ روشنی ہم تک پہنچی ہے۔ آج ہمارے اندر حیرت نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ نئی دنیاؤں کے لیے ہماری آنکھ آج پھر وہی پریاں دیکھنے والا اور حیرت سے بھری جھولی والا بچہ آنکھیں مَل رہا ہے۔
گزرنے والا ہر دن دریافت کرنے کو دینے کے لیے کم سے کم چیزیں ہمارے سامنے لانے لگتا ہے، سوائے چند ایک نایاب لمحات کے؛ آج بھی ایسا ہی دن ہے۔ اس دن صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی تقریب کے دوران جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی نقاب کشائی کی ہے۔اس دُور بین نے آج وقت کے دریا کے کنارے سے روشنی دیکھی ہے اور وہ روشنی ہم تک پہنچی ہے۔ آج ہمارے اندر حیرت نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ نئی دنیاؤں کے لیے ہماری آنکھ آج پھر وہی پریاں دیکھنے والا اور حیرت سے بھری جھولی والا بچہ آنکھیں مَل رہا ہے۔
خلا میں SMACS 0723 کے نام سے جانے جانے والے ایک خطے کی طرف جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی دھیمی نگاہوں نے ایک لمحہ محفوظ کیا۔ اس پہلی فاتحانہ تصویر ستاروں کے پیدا ہونے لمحوں کی روشنی، اور کہکشاؤں ابتدائی افراتفری بعد اکٹھی ہوتی دکھاتی ہیں۔
صرف ناسا اور یورپی اور کینیڈا کی خلائی ایجنسیوں نے ہی نہیں، بل کہ پوری انسانیت نے ساتھ مل کر، اس کائنات کے بننے کے لمحے کی کہانی سنانے کے لیے جیمز ویب ٹیلی سکوپ بنایا، اور ہم سب اس عظیم کہانی کا حصہ ہیں۔
پھر بھی زمین پر ہم بہت سی فوری نوعیت کی مشکلوں کے درمیان ہیں؛ چاہے وہ وسیع پیمانے پر پھیلے وبائی امراض ہوں، آپسی حملوں میں مصروف فوجیں ہوں، یا موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب زمین کی طرف جَست بھرتے سمندر، ہوں؛ ان حالات میں ہم یہ پوچھنے میں بَہ جانبِ حق ہیں کہ کیا دُوربینیں بنانے کی کوئی معقول وجہیں باقی بچتی ہیں؟ اور ہم آسمانوں میں چھپے رازوں کی پرچھائیوں کی دریافتوں کے مہنگے کھیل پر پیسا کیوں خرچ کرتے ہیں؟
سمجھتا ہوں کہ یہ اُسی جادو کی تلاش کا سفر ہے جس سفر کا رستہ ہم سب بڑے ہونے کے گھن چکر میں پہلے ایک بار تو بھول چکے ہیں۔ ایسی تصویریں منظروں میں واپس لوٹ رہی ہیں جو پوری دنیا میں بچوں کے کمروں کی دیواروں پر چپکائی جائیں گی۔
ایسی دوربینیں بچوں کو دکھاتی ہیں کہ زمین پر زندگی میں جا بہ جا دِکھتی عدمِ مساوات اور مشکلات کے درمیان، ہم شیشے کو عدم کے اندھیرے کی جانب رُخ دے سکتے ہیں اور ستاروں کی دنیائیں پا سکتے ہیں، اور ان دنیاؤں میں روشنی کے جزیرے تلاش کر سکتے ہیں۔
بچے اب پھر ہر رنگ میں ڈوبے ہوئے برش سے نیبُولا کی پینٹنگز بنائیں گے۔ وہ حیرانی کو گَلے لگائیں رکھیں گے کہ جانے اس کے اندرون میں کیا کیا عجائبات ہیں، اس کے مقابلے میں زمین کتنی بڑی ہے، اور کیا ان نئے جنم لیتے سورجوں کے گرد کچھ اور اجنبی دنیائیں بن سکتی ہیں۔
کوئی بچہ سائنس کا مضمون اختیار کرنے واسطے حوصلہ افزائی حاصل کرے گا کیوں کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی وہ نئی تصویر صرف ایک کہکشاں نہیں ہے، بل کہ قدرت کی جادو گری کا ایک اور ثبوت ہے۔ وہ اگلی نسل کو یہ دکھانے کے لیے مائیکرو سکوپ، دوربینیں اور پارٹیکل کولائیڈرز میں پیش رفتیں لائیں گے؛ وہ سیکھیں گے، سکھائیں گے اور کچھ نیا بنائیں گے تا کہ ہم وقت کی ان تھک پیش رفت سے کس طرح معنی کھینچ لاتے ہیں۔ مکمل بدلاؤ لانے والی سائنس کا کیا کہیں، بس اتنا سُنیے کہ حیرت انسانی ترقی کا رہ نما ہے۔
اور یقینی طور پر، اس بات کی مضبوط دلیلیں موجود ہیں کہ دوربینیں قومی قیادت و سیادت اور سلامتی میں سرمایہ کاری کیسے اور کیوں ہیں۔ ہم انھیں زمین پر موجود زندگی ختم کرنے والے ایسے کسی سیارچے کا پتا لگانے کے لیے بناتے ہیں جو شاید پہلے ہی زمین کے اندر داخل ہو چکا ہو؛ ہم انھیں اپنی پیش رفتوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے تیار کرتے ہیں جن پیش رفتوں کی نئی اور ترقی پذیر ٹیکنالوجیاں اجازت دیتی ہی؛ انسانی ذہانت سے قابو میں آ جانے والے چیلنجوں کو اگلی نسلوں کو پیش کرنے، اور ایسی ایجادات کو جنم دینے کے لیے جن کے فوائد کئی گُنا زیادہ ہیں اور وہ کہیں زیادہ دیر پا ہیں۔
زمینی اور خلائی دوربینوں کی تعمیر اور استعمال ہماری قوم کے لیے کئی دھائیوں پر محیط ایک ایسا پُل ہے، جس کے ہر صورت میں فائدے ہیں۔ وہ با صلاحیت قومی افرادی قوت کے لیے مواقِع معدوم ہو جانے کے عمل کو روکتے ہیں، اور اہم تکنیکی علم کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے ہیں۔ اور طاقت ور دوربینیں سافٹ پاور میں ہماری سب سے زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری میں سے ہیں۔
یہ وہ بہ ظاہر عارضی چیز ہے جس پر قومیں اجتماعی طور پر کھربوں خرچ کرتی ہیں: جوزف نائی کا یہ خیال اہم ہے کہ بہترین پروپیگنڈہ، پروپیگنڈہ نہیں ہے: اصل پروپیگنڈہ کھانے اور پانی سے لدے جہازی ہسپتال ہیں، یا ماسکو کے اخبارات کے صفحۂِ اول پر چھپی بلیک ہول کی پہلی تصویر۔ یہ سمجھنا ہے کہ حقیقی عالمی قیادت دوسری قوموں کو کسی سلطنت کی خواہشات کی پیروی کرنے پر مجبور کر کے نہیں بنتی، بل کہ زمین پر زندگی کی اجتماعی بہتری کے لیے مل جل کر کام کرنے کے طریقے تلاش کرنے میں مُضمر ہوتی ہے۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ ہمارے لیے نئی کائناتی صبح کی روشنی کی پہلی کرن لائی ہے۔ ہمیں اب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عمل کرنا چاہیے کہ یہ ایسی کسی دریافت کرنے کی ہماری صلاحیت کے دن کی شام نہیں۔ زمین سے جاری فلکیاتی جد وجہد خطرے میں ہے، گَھٹتے بجٹ اور آسمان پر طرح طرح کی بِھیڑ کا سامنا ہے۔ سنہ 2045 تک، ہمارے خلائی رصد گاہوں کا بیڑہ اپنی انتہائی مثبت سوچ کے تخمینے کی زندگیوں سے بھی گزر جائے گا۔ ہماری کائناتی دریافت کا دور ختم ہو جائے گا، اور امریکہ دوسری قوموں کو قیادت سونپ دے گا۔
لیکن اسے اس طرح ختم ہونے کی ضرورت نہیں ہے: نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی ایک نئی رپورٹ نے دریافت کے مستقبل کے لیے ایک جرأت مندانہ ویژن پیش کیا ہے۔ یہ زمین پر انقلابی نئی دوربینوں کے ساتھ عظیم رصد گاہوں کے ایک نئے بیڑے کی تعمیر کی سفارش کر رہا ہے: اس فوری قومی کھوج میں کہ تاریخ کی سب سے بڑی دریافتیں کیا ہوں گی؟ کائنات کیسے کام کرتی ہے؟ ہم یہاں کیسے پہنچے؟ کیا ہم اکیلے ہیں؟ ہاں، یہ اگلی دھائی کے دوران نیشنل سائنس فاؤنڈیشن اور NASA کے بجٹ میں معمولی سالانہ اضافہ مانگے گا۔ لیکن یہ چیزیں حیرت کدے میں سرمایہ کاری ہو گی؛ یہ متلاشیوں کی اگلی نسل سے ایک نیا وعدہ ہو گا کہ فطرت اتنی ہی جادوئی ہے جیسا یہ اسے کبھی جانتے مانتے تھے۔
آج کل آپ زیادہ تر شہروں میں ستارے بہ مشکل ہی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ مصنوعی روشنی سے آلودہ ہو گئے ہیں، دھویں اور خاک سے ان کی چمک مدھم ہو گئی ہے اور مصنوعی سیاروں کے جھنڈ میں وہ گم سے ہو گئے ہیں۔
بچے اوپر آسمان پر دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس سے آگے کیا ہے۔ ہم انھیں دکھانے کے لیے اور ان کے دلوں میں خوابیدہ سِِحر کو واپس لانے کے لیے دوربینیں بناتے ہیں۔ ہم ان تمام دور دراز کی دنیاؤں کو دیکھنے کے لیے دوربینیں بناتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ دنیا ہمارے لیے لڑنے مرنے کے آخری حربے کے طور پر مانے جانے کے قابل ہے۔ یہ دوربینیں ہمیں شور کے دور میں امکان تلاش کرنا سکھاتی ہیں: اندھیرے میں جھانکنا اور اپنے اندر اتنی روشنی تلاش کرنا۔
by, Grant Tremblay
He is an astrophysicist at the Harvard-Smithsonian Center for Astrophysics and vice president of the American Astronomical Society.
Webb’s Record-Breaking First Image Shows Why We Build Telescopes
Original at: Scientific American website
ترجمہ، یاسر چٹھہ