چین کی چِیں چِیں اور پروپیگنڈہ کے کھٹے دانت
از، یاسر چٹھہ
حالیہ شادیوں اور جنسی استحصال کے (مبینہ) واقعات اور ان سے ابھرنے والی خبروں کی بنیاد پر چین پریہاں عوامی سطح پر بہت دباؤ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ کسی بڑے سرمایہ کار کے لیے کسی طور پر بھی اچھا شگون نہیں ہو سکتا۔
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اس عوامی حلقوں میں موجود دباؤ کو چین کی جانب سے انتہائی پُھسپُھسے طریقے سے ہینڈل کیا جا رہا ہے۔ محض پریس ریلیزیں جاری کر دینا بہت پرانا اور محض جُزوی طریقہ ہے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ عمومی طور پر بھی چین کو عوامی sphere میں کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ People to people سطح کی ڈپلومیسی کے مختلف مروجہ طریقے برتنا ہوں گے۔ اسے چھوٹے دکان دار کے اچانک حالات بدل جانے، مال دار بن جانے کے بعد اپنا جگرا بھی تھوڑا بڑا کرنا ہو گا۔
جس انداز سے شادیوں اور جسم فروشی کے معاملے پر سست روی سے چینی سفارت خانہ ابلاغی طور پر چلا ہے، اس سے یہ واضح ہو گیا کہ چین کو پروپیگنڈا اور تعلقاتِ عامہ کا کام (نسبتاً) کھلی فضاؤں اور معاشروں میں کرنا نہیں آتا۔ چین میں تو کافی عرصہ سے عوام پر کُن فیکُن والا معاملہ ہی رکھا گیا ہے؛ تقریباً اسی طرح ہمارے یہاں کا ففتھ جنریشن ابلاغی arsenal کر رہا ہے، یعنی آپ قائل نا کریں بَل کہ cajole کریں، بازو مروڑیں کہ
“مَندا کیوں نئیں اُؤں غدارا”
ہمارے 5th Gen والے بھی جان رکھیں کہ اپنی عوام کو بہ زورِ بازو فتح کرنے کا ایک ضمنی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بازو مروڑنے والے نفسیاتی طور پر، اور ان کی قدرے بہتر ذہنی صلاحیتیں ridiculousness کی آخری حدوں کو چُھونے لگتی ہیں۔ انہیں بہتر طور پر سوچنا اور قائل کرنا بھول جاتا ہے۔
مختصراً، اپنی عوام اور معاشروں سے سنیے، اُن کی سنیے، انہیں گلے سے لگائیے، ان کے گلے نہیں کاٹیے۔ قالین کے نیچے کچرا پھینکتے جانے سے آپ ستھرے ہونے کی صرف قسم کھا سکتے ہیں، ہو نہیں سکتے۔