چینی فلسفی لاؤ زو کہے، لیڈر لوگوں کو اپنے اندر کی گونج سناتا ہے
اخذ و ترجمہ، محسن رضا
وہ جو بمشکل اپنے پیرو کاروں سے جانے جاتے ہیں
اس کے بعد وہ جنہیں لوگ جانتے ہیں اور ان کے معترف ہوتے ہیں
اس کے بعد وہ جن سے یہ ڈرتے ہیں
اس کے بعد وہ ہیں جن سے یہ نفرت کرتے ہیں
بھروسا نہ دینے کا مطلب
کہ آپ پر بھی کوئی بھروسا نہ کرے
جب بھی کوئی کام ٹھیک طریقے سے سر انجام پا جائے
بغیر کسی خجلت اور گھمنڈ کے
تو سادہ لوح لوگ کہتے ہیں
‘اوہ ہم نے کر دکھایا’
لاؤ زو چھٹی قبل از مسیح کے ایک قدیم چینی فلسفی اور مصنف تھے۔ آپ نے مشہور کتاب ‘ٹاؤ ٹی چنگ‘ لکھی جس کا مطلب ہے ‘راستہ‘ یہ ٹاؤ ازم کی مذہبی مشق کی بنیاد ہے۔
میں بار ہا اس بات پر ششدر ہوتا ہوں کہ عصر حاضر کے کتنے ہی سیاست دان صرف اس بنیاد پر اپنے آپ کو لیڈر گردانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک عوامی دفتر و عہدہ ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ صرف عوامی دفاتر و عہدے رکھنے والے ہی وہ حقیقی لیڈر نہیں ہوتے جو تبدیلی لاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ‘Renaissance’ کے لیڈر کون تھے؟ کیا وہ عوامی دفاتر و عہدوں کے حامل تھے؟ کیا وہ لیڈر یورپی دارا لحکومتوں کے مئیر، گورنر اور صدر تھے؟ نہیں بالکل نہیں۔ یہ لیڈر آرٹسٹ ،مصنفین اور گلو کار تھے جنہوں نے اپنی روح و دل کو سنا اور پھر جو سنا اس کا اظہار کیا۔ جس نے لوگوں کو اپنے اندراٹھنے والی گونج سننے کی طرف راغب کیا نتیجتاً پوری دنیا میں ایک نئی آواز کے بارے می شعور بیدار ہوا جو کہ انسانی مطلق العنانی پہ انسانی وقار کی ذمہ دار ثابت ہوئی۔
اصل لیڈر شاذ و نادر ہی ایسے سرکاری عہدے دار ہوتے ہیں کہ جو کسی خطاب سے نوازے جاتے ہیں کیوں کہ اصل لیڈر خطابات سے نہیں جانے جاتے بَل کہ یہ توانا ہوتی ہے جو خطابات کو پسند کرتی ہے۔
مزید و متعلقہ: تخلیق سے بچھڑی قوموں کا مقدر تخریب ہی ہوتی ہے
ہماری سماجی دانش کے بنیادی تقاضے
پسے ہوئے طبقات کے دانشور اور لیڈر
لیڈر بننے کے لیے اپنی سچی قیادت کی خوبیوں کی مشق کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کو معطل انا پرستی کے زیرِ اثر سخت محنت کرنا ہے۔ سچے لیڈر دوسروں کے اعتماد سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو کہ مراعات، چاپلوسی اور طاقت سے محظوظ ہونے سے کہیں زیادہ دشوار کام ہے، حالاں کہ انا کی نظر میں لیڈر ہونے کی علامات یہی ہوتی ہیں۔ آپ کو دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہیں اعتماد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لاؤ زو یہاں ہمیں تین قسم کے لیڈروں کے بارے میں بتاتے ہیں:
ان میں سے اول وہ لیڈر ہیں جو اپنے پیرو کاروں سے کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ نے اسے میرے طریقے سے نہ کیا تو میں آپ کو سزا دوں گا۔’ ایسے لیڈرصرف ڈر کو بنیاد بنا کر ہی لیڈر بن پاتے ہیں جو کہ حقیقی قیادت کے لیے با لکل نا اہل ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اصل لیڈر وہ نہیں جو زبر دستی سے قیادت کرے بل کہ وہ ہے جو عملی نمونہ بن کر آپ کی راہنمائی کرے۔
دوئم درجے میں وہ لیڈر آ جاتے ہیں جو اپنے پیرو کاروں کو تحریک دے کر اپنا کام نکلواتے ہیں، جیسے کہ ‘اگر تم یہ کام اس طریقے سے کرو گے جو میں چاہتا ہوں تو میں تمہیں انعام و اکرام سے نوازوں گا’، لاؤ زو کے مطابق یہ بھی صحیح معنوں میں لیڈر نہیں ہوتے۔
تیسرے درجے میں وہ لیڈر آ جاتے ہیں جو کہ لاؤ زو کے نزدیک اصل لیڈر ہیں۔ اس کے مطابق حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے کہ جس کے تمام عمل میں تشخیص ہونا بہت مشکل ہو۔ ایسے لیڈر دوسروں کو اعتماد، حوصلہ افزائی اور مبارک باد دیتے ہیں جب وہ اپنا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب ہمارے قانون دان ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیے یا وہ ہمیں ڈرانے دھمکانے کی ترکیبیں اپناتے ہیں یا یہ کہ وہ ہمیں سنگین نتائج کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ جب کہ یہ تما م اقدام کرنے میں ان کا مقصد صرف اور صرف ان کی اسی خواہش کی پیروی کرنا ہوتا ہے کہ ہم ان کی قیادت کو سراہیں۔ لاؤ زو کے مطابق یہ بھی حقیقی لیڈر نہیں ہوتے۔ ایک سچا لیڈر بننے کے معیار پر پورا اترنے کے لیے انہیں اپنے آپ کو خاموش رکھنا چاہیے اور دوسروں سے یہ سننا چاہیے کہ’ہاں! ہم نے یہ عظیم معیشت خود بنائی’ کیوں کہ اصل لیڈر وہی ہوتا ہے کہ جب اس کا کام پایۂِ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ‘ہاں ہم نے کر دکھایا۔’
حقیقی لیڈر خود کو شہرت سے بچانے کی مشق کرتا ہے اور جبھی ممکن ہو وہ آپ کو اعتماد دینے کے لیے مداخلت کر کے آپ کی قیادت کرتا ہے۔ وہ آپ کی انا کی کریڈٹ لینے والی خواہش پر ہمیشہ ایک شفیق مسکراہٹ دیتا ہے اور جب آپ وہ سنتے ہیں جو دوسرے کہتے ہیں، وہ خاموشی سے آپ کی قیادت کے بارے میں آپ کو مطلع کرتا ہے۔ اسی لیے لاؤزو کہتا ہے کہ لوگوں کی قیادت کرنے کے لیے ان کے پیچھے چلو۔
عقل مندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لاؤ زو کی چند تجاویز یہ ہیں۔
۱۔ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے ٹھہریے، اور خود سے پوچھیے کہ آیا آپ جو کہنے جا رہے ہیں اس سے نفرت، خوف، مدح سرائی یا خود شناسی پیدا ہوگی تو آپ سب کو چھوڑ کر ‘خود شناسی’ کی پرورش کریں۔
۲- اپنے حقیقی لیڈر بننے کی خواہش پر عمل پیرا ہوں اور جتنی خاموشی سے آپ دوسروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، آپ ہوں اور اس کے لیے کسی بھی ایسے شخص کو پکڑ لیجیے جو کچھ بھی ٹھیک کر رہا ہو۔
۳- با خبر رہیے کہ یہ آپ کی انا ہی ہوتی ہے جو آپ کو یہ تجویز دے رہی ہوتی ہے کہ آپ نا کام ہیں، حالاں کہ جب آپ کو اپنے راستے میں کوئی کریڈٹ نہ مل رہا ہو تو اس وقت بجائے اس کے کہ آپ اپنے آپ کو نا کام گردانیں آپ اپنے آپ کو کو باور کرائیں کہ آپ ایک لیڈر بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اپنی انا کو خوش گوار طریقے سے بتائیے کہ یہ ہے ایک کامیاب قیادت (لیڈر شپ) کا راستہ۔
کاش کہ ہم اپنے معاشرے کے ایسے تمام رانگ نمبرز کو جو نام نہاد لیڈر بنے پھرتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں، کو پہچان سکیں انہیں مسترد کر سکیں، انہیں اس نظام سے نکال باہر کریں اور ایسے لیڈر متعارف کروا سکیں جو حقیقی معنوں میں لیڈر ہوں کیوں کہ اصل لیڈر وہ نہیں ہوتے جو اپنے پیرو کار پیدا کریں بل کہ اصل لیڈر وہی ہوتا ہے جو مزید لیڈر پیدا کرے۔ خُدا ہمارے ملک پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین!
ویون ڈائر کی کتاب وزڈم آف ایجز کے باب ‘لیڈر شپ’ (لاؤ زو) سے اخذ کردہ