چیونٹیوں کو پر نکل آئے
(رضا علی عابدی)
برطانیہ میں ان دنوں گرمی ہےوہ تو ہر سال ہوتی ہے مگراپنے ساتھ ایک سوغات ضرور لاتی ہے، سو طرح کے کیڑے مکوڑے۔ ہوا میں ہر طرف ان ذرا ذرا سے بھنگوں سے لے کر موٹے اور توانا بھنوروں تک سب ہی اڑان بھر رہے ہوتے ہیں۔ مکڑیاں خدا جانے کہاں سے نکل آتی ہیں اور کاروں کے شیشوں کے ارد گرد جالے تان لیتی ہیں۔ یہ بڑی بڑی مکھیاں اور بھنورے اڑتے اڑتے ہمارے گھروں میں چلے آتے ہیں۔ یہاں کے گھر ہر طرف سے بند ہوتے ہیں۔ اندر آکر انہیں احساس ہوتا ہے کہ پھنس گئے ہیں، اس پر یہ باہر نکلنے کی صحیح معنوں میں سر توڑ کوشش کرتے ہیں ۔ ان کو شیشے نظر نہیں آتے اور یہ گولی کی طرح اڑتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر جو یہ شیشوں سے ٹکراتے ہیں تو ٹکرانے کی آواز آتی ہے۔ اس طرح بار بار سر مارتے ہوئے خود بھی مر جاتے ہیں۔ ہم اپنی کھڑکیاں دروازے وا کر دیتے ہیں جو انہیں سجھائی نہیں دیتے۔ مشکل سے یہ اڑتے ہوئے تیزی سے باہر نکل جاتے ہیں اور وہ بھی یوں کہ ہمیں لگتا ہے ہم کو بھی رہائی مل گئی۔ جب یہ باہر نکل کر اڑتے ہی چلے جاتے ہیں تو ہم اکثر سوچتے ہیں کہ یہ اب کہا ں جائیں گے۔کیا ان کا کوئی ٹھکانا ہوگا یا بس یوں ہی اڑا کریں گے ۔ کچھ پتہ نہیں۔
لیکن کیڑو ں مکوڑوں کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں کو قرار نہیں۔ وہ ان سار ے سوالوں کے جواب کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ ہم نے حشرات الارض کی سائنس کے ایک رسالے میں ایک مضمون پڑھا ہے اور ہم حیران ہیں کہ قدرت نے انسان کو کھوج لگانے کی کیسی خوبی عطا کی ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے موسم کے حساب سے ایک اور مخلوق کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے، ایسی مخلوق کہ اصولاً اس کا ذکر شروع ہی میں ہونا چاہیے تھا۔ مضمون میں احوال ہے ان چیونٹیوں کا جن کے اس موسم میں پر نکل آتے ہیں۔
ہمارا تو کبھی کبھی گھر سے قدم نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ادھر باہر نکلے، ادھر وہ چیونٹیاں بالوں میں الجھنے لگیں جن کے پر نکل آتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں جیب میں کنگھا ڈال کر نکلتا ہوں کیونکہ یہ اڑنے والی چیونٹیاں بالوں میں الجھ جاتی ہیں تو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ ویسے بھی بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ جب چیونٹیوں کی موت آتی ہے تو ان کے پر نکل آتے ہیں۔ یوں بھی سناکہ چیونٹیوں کو بھی پر لگے، خدا خیر کرے۔
سائنس داں معاملے کو اس طرح نہیں دیکھتے۔ انہوں نے ان کو خورد بین کے نیچے رکھ کر ان کی اس قدرتی عادت کو سمجھا ہے جسے درسی کتاب کی زبان میں جبلّت کہا جاتا ہے۔ یہ جو پتھروں کے نیچے چیونٹیوں کے غول پل رہے ہوتے ہیں انہیں ہم مادہ مزدور کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب پیٹ پالنے کی فکر میں رہتی ہیں۔ البتہ جب ان کی بستی بہت بڑی ہو جائے تو پھر ا ن پر نئی نسل پیدا کرنے اور نئی بستی آباد کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔مشکل یہ ہے کہ وہ مزدور چیونٹی بچّے پیدا نہیں کر سکتی۔ یہ کام وہ بڑی چیونٹی کرسکتی ہے جو ان کی ملکہ کہلاتی ہے اور جس کے کسی دوسری بستی کے نر چیونٹے سے مراسم ہوتے ہیں۔
ان دنوں اڑنے والی جن چیونٹیوں کے دَل ہمیں نظر آرہے ہیں وہ مادہ ملکائیں ہیں جن کی اڑان کے دوران نر چیونٹوں سے مڈ بھیڑ ہوجاتی ہے۔ وصل نتیجہ خیزہو تو وہ اڑنا بند کردیتی ہیں اور نئی بستی بسانے کی تیاری شروع کر دیتی ہیں لیکن زیادہ تر یا تو پرندوں کی غذا بنتی ہیں یا بیٹی پیدا کرنے سے پہلے مرجاتی ہیں۔ مگر بعض ایک نئی بستیوں کی بنیاد رکھ دیتی ہیں جہاں آگے چل کر نئی اڑنے والی چیونٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔
برطانیہ میں یہ سلسلہ جون کے شروع دنوں سے لے کر اگست کے آغاز تک چلتا ہے۔ ان کے دَل یا غول شمال کی طرف یا مغرب کی جانب اڑتے ہیں۔یہ صرف اسی وقت اڑتی ہیں جب درجہ حرارت تیرہ سینٹی گریڈ سے اوپر ہو اور ہوا کی رفتارچھ اعشاریہ تین میٹر فی سیکنڈ سے کم ہو ۔ تحقیق کرنے والوں کو یقین ہے کہ چیونٹیوں کو موسم کے حال کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ بخوبی جانتی ہیں کہ موسم بہتر ہونے والا ہے یا خراب۔ موسم اچھا نہ ہو تو وہ بہتر لمحوں کا انتظار کر لیتی ہیں۔
قدرت کے نظام میں وہ ایک کام خوب کرتی ہیں، وہ پرندوں کا پیٹ بھرنے کے کام آتی ہیں۔ مٹی میں اپنے گھروندے بناکر اس کو بھُربھُرا اور زرخیز بناتی ہیں اور کسان لوگ ان کو دیکھ کر موسم کا حال جان لیتے ہیں۔
ہمیں بچپن میں تجسس کے وہ دن یاد ہیں جب کتابوں میں پڑھ کر ہم نے چیونٹیوں کا مشاہدہ شروع کیا۔ ہم نے دیکھا یہ سینکڑوں چیونٹیاں خوراک کا ایک ریزہ اٹھائے ایک قطار میں چلی جارہی ہیں۔ کیا مجال کہ کوئی اس قطار سے باہر ہوجائے۔ وہ کہیں سے اپنی خوراک لاکر اپنی بستی میں جمع کر رہی تھیں تاکہ خراب موسم میں ان کے پیٹ بھرنے کا سامان موجود ہو۔ ہم نے پڑھا کہ پہلے ان کی ملکہ اس قطار کا راستہ بناتی ہے، وہ اپنی بو یا کوئی لعاب جیسا مادّہ چھوڑتی جاتی ہے۔ پھر ساری چیونٹیاں اسی کے سہارے قطار میں چلتی ہیں۔
پھر ہم نے ایک شرارت کا احوال پڑھا، وہ یہ کہ اگر آپ ان کی قطار کو ایک انگلی سے مٹادیں تو پیچھے آنے والی چیونٹیاں بھٹک جائیں گی، ان کی قطار بکھر جائے گی اور سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ہم بچّے یہی کرتے تھے۔ان کی قطار توڑ کر خوش اور حیران ہوتے تھے۔ اب سوچتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ قدرت ان کو سیدھی راہ پر چلانے کی دعا قبول کر رہی تھی اور ہم اس میں رخنہ ڈال کر سرشار ہورہے تھے۔
آنکھیں کھلی رکھی جائیں تو ظلم کو سمجھنا کچھ اتنا مشکل نہیں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ستّر پچھتّر سال بعد جب ہم فٹ پاتھ پر چلتے ہیں اور وہاں ان چیونٹیوں کو بھی چلتا دیکھتے ہیں جن کو پر نکل آئے ہیں تو ہم اس خیال سے کہ وہ ہمارے پیروں تلے کچل نہ جائیں، بچ بچا کر چلتے ہیں۔ شاید اس طرح پرانا کفارہ ادا کرتے ہیں یا اپنی دانست میں اس چھوٹی سی مخلوق کی دعا لیتے ہیں۔ اسماعیل میرٹھی نے سچ ہی کہاتھا:
اری چھوٹی چیونٹی تجھے آفریں ہے