انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط دہم)
ترجمہ، نصیر احمد
فوکو: جی ہاں، لیکن میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا۔ ریاست ہائے متحدہ میں جب آپ کوئی غیر قانونی حرکت کرتے ہیں تو کیا آپ اس حرکت کے جواز بَر تر قانونیت اور انصاف کی اصطلاحوں میں مہیا کرتے ہیں، یا طبقاتی جد و جہد کے لازمی ہونے میں اس کے جواز ڈھونڈتے ہیں، یا کہ یہ موجودہ زمانے میں پرولتاریوں کے لیے ان کی حکم ران طبقوں کے خلاف جد و جہد کے لیے لازمی ہے؟
چومسکی: خوب، میں وہ نقطۂِ نظر اپنانا پسند کروں گا جو امریکی سپریم کورٹ اور شاید دوسری عدالتوں نے ان حالات میں اختیار کیا ہے۔ وہ یہ ہے، محدود ترین ممکنہ حقائق کی بنیاد پر معاملہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے خیال میں بہت سارے کیسز میں بِالآخر ایک معاشرے کے قانونی اداروں کے خلاف عمل کرنا سمجھ داری کی بات ہو گی اگر اس عمل سے آپ اس معاشرے میں جبر و طاقت کے منبعوں پر وار کر رہے ہیں۔
تاہم بہت بڑی حد تک موجودہ قانون خاص انسانی اقدار کی نمائندگی کرتا ہے، جو مہذب اقدار ہیں، اور موجودہ قانون کی اگر درست تفسیر کی جائے تو موجودہ قانون آپ کو بہت کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو ریاست آپ کو نہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔
فوکو: ہاں جناب۔
چومسکی: قانون کے ان حصوں کو استعمال کرنا اہم ہے جو مناسب طریقے سے ترتیب دیے گئے ہیں؛ اور پھر قانون کے ان حصوں کے خلاف بَہ راہِ راست حرکت میں آنا بھی اہم ہے جو طاقت کے کسی نظام کی توثیق کرتے ہیں۔
فوکو: مگر… مگر… میں … میں …
چومسکی: بات جاری …
فوکو: میرا سوال… میرا سوال یہ تھا جب آپ صاف صاف ایک غیر قانونی حرکت کرتے ہیں …
چومسکی: جسے میں غیر قانونی سمجھتا ہوں،محض ریاست نہیں …
فوکو: نہیں نہیں، ریاست کی …
چومسکی: جسے ریاست غیر قانونی گردانتی ہے …
فوکو: جسے ریاست غیر قانونی سمجھتی ہے۔
چومسکی: ہاں ناں۔
فوکو: تو کیا آپ یہ غیر قانونی عمل مثالی انصاف کی خوبی کے اثر میں کر رہے ہیں، یا اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ طبقاتی جد و جہد کے لیے مفید ہے؟ کیا آپ مثالی انصاف کا حوالہ دے رہے ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے؟
چومسکی: پھر، زیادہ تر تو اگر میں کچھ ایسا کرتا ہوں جسے ریاست غیر قانونی سمجھتی ہے، میں اسے قانونی سمجھ کر کرتا ہوں۔ ایسا ہے میں ریاست کو مجرم سمجھتا ہوں۔ لیکن کچھ حالات میں یہ سچ نہیں ہوتا۔ مجھے اس کے بارے میں ٹھوس بات کرنے دیں اور طبقاتی جنگ سے سلطنتی جنگ کی طرف بڑھنے دیں جہاں صورتِ حال کسی حد تک واضح اور سہل ہے۔
عالمی قانون کو لے لیں، ہماری نظرمیں یہ ایک نا تواں اوزار ہے، بہ ہر حال، اس نا تواں اوزار کے اندر چند بہت ہی دل چسپ اصول شامل ہیں۔ خوب، بہت سے حوالوں سے عالمی قانون طاقت ور کا اوزار ہے۔ یہ ریاستوں اور ان کے نمائندوں کی تخلیق ہے۔ عالمی قانون کا موجودہ مجموعہ ترتیب دیتے وقت دہقانوں کی عوامی تحریک کی کوئی شرکت نہیں ہوئی تھی۔
عالمی قانون کی ساخت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسے ہے کہ عالمی قانون طاقت کے موجودہ ڈھانچوں جو خود کو ریاستیں قرار دیتے ہیں کی حمایت میں عوام کے ایسے اجتماعوں، جو ریاستوں کی مخالفت میں منظم ہوتے ہیں، کے خلاف زبردست مداخلت کی ایک بہت ہی وسیع رینج کی اجازت دیتا ہے۔
تو یہ عالمی قانون کا ایک بنیادی نقص ہے اور میرے خیال میں کسی کے پاس یہ سمجھتے ہوئے کہ قانون کے اس زاویے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس کی مخالفت کرنے کا جواز ہے۔ عالمی قانون کے اس زاویے کا ایسے ہی کوئی اعتبار نہیں ہے جیسے بادشاہوں کے حکومت کرنے کے اُلُوہی حق کا۔ عالمی قانون کا یہ زاویہ سیدھا سیدھا طاقت وروں کا ان کی طاقت برقرار رکھنے کا اوزار ہے۔
لیکن در حقیقت عالمی قانون صرف اسی قسم کا نہیں ہے۔ اور عالمی قانون کے دل چسپ عناصر ہیں: مثال کے طور پر نیورم برگ اصولوں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں رچے ہوئے عناصر جو اجازت دیتے ہیں، در حقیقت، مجھے یقین ہے، ایک شہری کے لیے لازمی ٹھہراتے ہیں کہ وہ اپنی ریاست کے خلاف ایسے طریقوں پر عمل کرے جسے ریاست مصنوعی طور پر مجرمانہ گردانتی ہے۔ یہ شہری قانونی عمل کر رہا ہوتا ہے کیوں کہ عالمی قانون بھی تو عالمی معاملات میں طاقت کے استعمال یا استعمال کی دھمکی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ چند محدود حالات میں استثناء ہے مگر مثال کے طور پر ویت نام کی جنگ اس استثناء (یا استثنیٰ) میں نہیں آتی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ویت نام کی جنگ کے خصوصی کیس میں، جس میں میں بہت دل چسپی لیتا ہوں، امریکی ریاست ایک مجرمانہ حیثیت میں کام کر رہی ہے۔ اور عوام کا یہ حق ہے کہ وہ مجرموں کو قتل کرنے سے روکیں۔ محض اس لیے کہ مجرم آپ کے عمل کو غیر قانونی کہہ رہا ہوتا ہےجب آپ اسے روک رہے ہوتے ہیں، آپ کا عمل غیر قانونی نہیں ہو جاتا۔
ریاست ہائے متحدہ میں موجودہ کیس میں پینٹاگون پیپرز کا کیس کاملًا واضح ہے جس سے، میں فرض کرتا ہوں، آپ آگاہ ہیں۔ قانونی مُو شگافیاں فراموش کرتے ہوئے، اس کیس کو اس کے لوازم تک محدود کرتے ہوئے، یہی بات سامنے آتی ہے کہ ریاست لوگوں کے خلاف قانونی کارِروائی اس لیے کر رہی ہے کہ انھوں نے ریاست کے جرائم فاش کر دیے ہیں۔
اب یہ تو ظاہر ہے کہ لَغو ہے۔ ایک عقل مندانہ عدالتی عمل کو کیسے ہی کیوں نہ مسخ کیا گیا ہو، کسی کو اس پر بالکل توجہ نہیں دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں قانون کا موجودہ نظام اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ لَغو کیوں ہے۔ لیکن اگر وضاحت نہیں کرتا تو ہمیں اس قانونی نظام کی مخالفت کرنی پڑے گی۔
فوکو: تو آپ پاکیزہ ترین انصاف کے نام پر انصاف کے طریقِ عمل پر تنقید کرتے ہیں؟
یہاں ہمارے لیے ایک اہم سوال ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام معاشرتی کش مَکَشوں میں انصاف کا سوال شامل ہوتا ہے۔ اس کو زیادہ درست انداز میں پیش کرتے ہوئے میں کہوں گا کہ طبقاتی انصاف، اس کی نا انصافی کے خلاف جنگ کرنا معاشرتی جد و جہد کا ہمیشہ حصہ رہے ہیں۔ ججوں کو معطل کرنا، ٹرائیبیونلز کو تبدیل کرنا، جیلوں کے دروازے کھولنا، ہمیشہ سماجی تبدیلیوں کا حصہ رہا ہے، جُوں ہی وہ تھوڑی متشدد ہوتی ہیں۔ موجودہ وقت میں فرانس میں انصاف اور پولیس کا کردار ان لوگوں کے کئی حملوں کے نشانے پر ہے جن کو ہم کَھبّے کہتے ہیں۔ اگر کسی جد و جہد میں انصاف نشانے پر ہے تو یہ طاقت کا اوزار ہے۔ اس کی امید نہیں ہے کہ آخرِ کار ایک روز اس یا کسی دوسرے سماج میں لوگ میرٹ پر جزا پائیں گے یا خامیوں کی سزا پائیں گے۔ کسی کو سماجی جد و جہد کو انصاف کی اصطلاحوں میں سوچنے کی بَہ جائے انصاف پر سماجی جد و جہد کی اصطلاحوں میں زور دینا پڑے گا۔
چومسکی: ہاں ناں، لیکن یقیناً کسی دوسرے موضوع کا تصور اپنانے کے لیے آپ مانتے ہیں کہ اس جنگ میں آپ کا کردار منصفانہ کردار ہے اور آپ یہ جنگ انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور یہ میرے خیال میں اہم ہے۔ اور اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ اَنیائے کے لیے لڑ رہےہیں تو آپ خرد کی اس طرز کی تفہیم نہیں کر سکتے۔
جو آپ نے کہا میں اسے ذرا نئی ترتیب دینا پسند کروں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ فرق قانونیت اور مثالی انصاف میں نہیں ہے، بَل کہ فرق قانونیت اور بہتر انصاف میں ہے۔
میں اس سے اتفاق کروں گا کہ اس وقت ہم یقیناً اس مقام پرنہیں ہیں کہ مثالی انصاف کا ایک نظام تخلیق کر سکییں جیسے ہم یقینی طور پر اس وقت اس مقام پر نہیں ہیں کہ اپنے ذہنوں میں ایک مثالی معاشرہ تخلیق کر سکیں۔ ہم اتنا جانتے نہیں، ہم بہت زیادہ محدود ہیں، ہم بہت زیادہ متعصب ہیں اور اس طرح کی ہر قسم کی دیگر چیزیں ہیں۔
لیکن ہم ایک مقام پر ہیں تو اور ہمیں اس مقام پر حساس اور ذمے دار انسانوں کی حیثیت سے کام کرنا ہو گا تا کہ ہم ایک بہت بہتر معاشرے اور انصاف کے ایک بہتر نظام کو تصور میں لاتے ہوئے اس کی طرف بڑھ سکیں۔ اب، یقیناً اس بہتر نظام کے اپنے نقائص ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی ایک بہتر نظام کا موازنہ موجودہ نظام سے کرتا ہے، اس کنفیوز کرتی سوچ میں پڑے بَہ غیر کہ ہمارا بہتر نظام ایک مثالی نظام ہے، تو پھر میرے خیال میں اس انداز میں دلائل دے سکتے ہیں۔
قانونیت کا تصور اور انصاف کا تصور ایک جیسے نہیں ہیں۔ لیکن ایک دوسرے سے پورے علیحدہ بھی نہیں ہیں۔ جہاں تک قانونیت بہتر انصاف کے حوالے سے بہتر انصاف کے سینس میں انصاف کو اپنے اندر شامل کرتی ہے وہاں تک ہمیں قانون کی اطاعت اور پیروی کرنی چاہیے، ریاست کو قانون کی اطاعت پر مجبور کرنا چاہیے اور بڑی کارپوریشنوں کو قانون کی اطاعت پر مجبور کرنا چاہیے اور اگر ہمارے پاس طاقت ہے تو پولیس کو بھی قانون کی اطاعت پر مجبور کرنا چاہیے۔
بے شک، جن علاقوں میں قانونی نظام بہتر انصاف کی نمائندگی نہیں کرتا بَل کہ جبر کی ان تکنیکوں کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی خاص آمرانہ نظام میں مروج ہیں، تو، خوب، ایک خِرد مند انسان کو چاہیے کہ اس نظام کا احترام نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے، کم از کم اصولی طور پر۔ وہ کسی وجہ سے چاہے تو اس کی عملی مخالفت نہ کرے۔
فوکو: میں صرف آپ کے پہلے جملے کا جواب دینا چاہوں گا جس میں آپ نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ پولیس کے خلاف اپنی جنگ کو منصفانہ جنگ نہیں سمجھتے تو آپ یہ جنگ نہیں لڑیں گے۔
میں آپ کو سپائی نوزا کی اصطلاحوں میں جواب دینا چاہوں گا اور کہوں گا پرولتاریہ حکمران طبقے کے خلاف اس لیے جنگ نہیں کرتی کہ وہ ایسی جنگ کو منصفانہ سمجھتی ہے۔ پرولتاریہ حکم ران طبقے کے خلاف اس لیے جنگ کرتی ہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار طاقت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ چُوں کہ حکم ران طبقے کا یہ تختہ الٹ دے گی اس لیے اس جنگ کو یہ منصفانہ سمجھتی ہے۔
چومسکی: ہونہہ، میں متفق نہیں ہوں …
فوکو: کوئی جنگ جنگ جیتنے کے لیے لڑتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ جنگ منصفانہ ہے۔