انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط دوم)
ترجمہ، نصیر احمد
فُوکو: اگر آپ لوگ برا نہیں مانتے تو میں فرانسیسی میں جواب دینا پسند کروں گا۔ میری انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے، خواہ مخواہ مجھے شرمندگی ہوتی رہے گی۔
یہ سچ ہے کہ انسانی فطرت کے اعتقاد پر مجھے کچھ زیادہ بھروسا نہیں ہے جس کی وجوہات میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی سائنس جو خیالات اور تصورات استعمال کر سکتی ہے، ان کی وضاحت کے مدارج ایک سے نہیں ہیں۔ اور عمومی طور پر ایک سائنسی بحث میں نہ تو ان کے فنکشنز ایک سے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی اقسام ایک سی ہوتی ہیں۔
حیاتیات کی مثال لے لیں۔ اس میں آپ کو ایسے تصورات ملیں گے جو درجہ بندیاں بنانے کا کردار ادا کرتے ہیں، کچھ تصورات فرق انگیز بھی ہوتے ہیں اور کچھ تصورات تجزیاتی فنکشن نبھاتے ہیں، کچھ ہمیں مظاہر کی خصوصیت خیزی کے قابل بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے بافت ہوتی ہے۔ اور کچھ تصورات عناصر کو چھانٹنے کا ہمیں قابل بناتے ہیں مثلاً، موروثی فیچرز۔ اور کچھ ہمیں رشتے استوار کرنے کے قابل بناتے ہیں جیسے اضطرار۔
اسی سَمے ایسے عناصر بھی ہوتے ہیں جو مباحثے اور اس کے اندرونی قواعد اور عقلی طریقوں کے سلسلے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اور کچھ تصورات (مباحثے) کی سرحدوں پر موجود ہوتے ہیں اور ان تصورات کی مدد سے سائنسی پریکٹس اپنا تعین کرتی ہے اور دوسری پریکٹسوں سے رشتے کا فرق مقرر کرتی ہے، اور اپنے مظاہر کے سلسلۂِ کار کی حد کشائی کرتی ہے؛ اور اپنے مستقبل کے کاموں کی کاملیت طے کرتی ہے۔ زندگی کا عقیدہ ایک خاص زمانے میں حیاتیات میں کچھ حد تک یہ کردار نبھا چکا ہے۔
ستریویں اور اٹھارہویں صدیوں میں فطرت کے مطالعے میں زندگی کا عقیدہ بہت ہی کم استعمال کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں معدنیات اور انسان سمیت فطرت کا کوئی بھی مطالَعہ کرنے والا فطرت کی درجہ بندی ایک وسیع وضاحت نامے میں کرتا تھا، چاہے فطرت کے موجودات جان دار ہوں، یا بے جان۔ اگر حالیہ زمانے سے موازنہ کریں تو اس زمانے میں معدنیات، نباتات اور حیوانات کے درمیان (فطری عمل سے) جو فرق یا جدائی پیدا ہوتی تھی ان کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جاتا تھا۔
نظریۂِ علم کے حوالے سے ان (موجودات) کا مقام مستقل طور نا قابلِ اختلاف طریقے پر قائم کردیا جاتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں، پہلے سے بہت ہی بہتر آلات اور تکنیکوں کی مدد سے تجزیے اور وضاحتیں ہمارے سامنے مظاہر کے پورے کے پورے سلسلے، رشتوں کے مکمل شعبے اور پروسیسز لائے جن کی وجہ سے ہم اس کے قابل ہو گئے کہ علمِ فطرت میں حیاتیات کی تخصیص کی تعریف کر سکیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے حیاتیاتی سائنس میں زندگی کے بارے میں تحقیق اپنا ڈھانچا استوار کر چکی ہے؟
کیا زندگی کا تصور حیاتیاتی علم کی تںظیم کا ذمے دار ہے؟ میرے خیال میں ایسے نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ ایک طرف تو سائنسی مباحثے میں استعمال کے لیے نئے تصورات کے ایک مکمل سلسلے نے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں رُو نما ہونے والی تبدیلیاں ہمارے سامنے پیش کی ہیں، اور دوسری طرف انھی تصورات نے فطرت کے بارے میں ایسے خیالات کو بھی بلند کیا ہے جنھوں نے ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ ہم ایک خاص قسم کے سائنسی مباحثے کا تعین کر سکیں، اس کی حد کشائی کر سکیں اور اسے دوسری اشیا کے درمیان قائم کر سکیں۔
اس مضمون کے حصۂِ اوّل کا لنک:
انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسطِ اوّل)
میں کہتا ہوں کہ زندگی کا عقیدہ سائنسی خیال نہیں ہے۔ اس سے نظریۂِ علم کے حوالے سے درجہ بندی، حد گشائی اور سائنسی گفتگو پر دیگر فنکشنز کے اشارے تو ملتے ہیں لیکن یہ نہیں پتا چلتا کہ بات کیا ہو رہی ہے۔
اچھا، مجھے لگتا ہے کہ انسانی فطرت کا عقیدہ بھی اسی قسم کا ہے۔ انسانی فطرت کے مطالعے کے ذریعے لسانیات کے ماہرین نے ہم آہنگ اَصوات کی تبدیلیوں کے قوانین نہیں دریافت کیے۔ فرائیڈ نے بھی خوابوں کے تجزیے کے اصول انسانی فطرت کے مطالعے کے ذریعے نہیں دریافت کیے۔ اور ثقافتی علوم کے ماہرین نے بھی انسانی فطرت کے مطالعے کے ذریعے دیو مالا کا ڈھانچا بھی نہیں دریافت کیا۔
مجھے لگتا ہے تاریخِ علم میں انسانی فطرت کے عقیدے نے زیادہ تر نظریۂِ علم کے حساب سے زیادہ تر اشارے دینے کا کردار ادا کیا ہے جو تاریخ، حیاتیات اور الٰہیات سے رشتے، یا مخالفت میں ایک خاص قسم کے مباحثے کا تعین کرتا ہے۔ مجھے اسے ایک سائنسی تصور سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
چومسکی: اچھا، سب سے پہلے تو مثال کے طور پر اگر ہم انسانی تفہیماتی ڈھانچا جو ایک بچے کے لیے یہ ممکن بناتا ہے کہ وہ یہ پیچیدہ نظام حاصل کر سکے، اس ڈھانچے کے ان اجزاء کی عصبی نیٹ ورکس کی اصطلاحوں میں تخصیص کر سکے، تو مجھے ذرا بھی تامل نہیں ہو گا کہ میں ان اجزاء کو انسانی فطرت ترتیب دینے والے بنیادی عناصر کے طور پر بیان کر دوں۔
مطلب کہ اس کیس میں ہم اپنی دماغی قابلیتوں کے ساتھ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے لیے حیاتیاتی طور پر عطاء کردہ، نا قابلِ تغیّر ایک اساس موجود ہے۔ لیکن میں اس ڈیولپمنٹ کا تھوڑی دور اور پیچھا کروں گا جس کا خاکہ آپ نے پیش کیا ہے اگر چِہ در حقیقت مجھے اس بارے میں آپ سے مکمل اختلاف ہے کہ زندگی کے تصور کو حیتیاتی سائنسی منظم کرنے والا تصور سمجھا جائے۔
ابھی تو ہم ماضی کے بارے میں نہیں مستقبل کی بات کر رہے ہیں اس لیے مجھے لگتا ہے اس کیس میں ہمیں کچھ اور فکر کرنی چاہیے اور یہ سوال کرنا چاہیے کہ انسانی فطرت کا تصور، یا ان سیکھے تنظیمی میکانزم کا تصور، یا لازمی دماغی سکیمیٹزم کا تصور، یا اسے جو کچھ ہم کہنا چاہیں کہ مجھے تو ان سب تصورات میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا؛ لیکن اسے اختصار کے لیے ہم انسانی فطرت کا تصور کہہ سکتے ہیں، تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ یہ تصور شاید حیاتیات کی اگلی چوٹی سر کرنے میں ہماری مدد نہ کر پائے با وُجود یہ کہ یہ تصور کم از کم ماہرین حیاتیات کے ذہنوں میں موجود تھا۔
شاید کوئی یہ پوچھے بھی کہ اس تصور نے کچھ لوگوں کے لیے تو زندگی کیا ہوتی ہے جیسے سوال کا پہلے ہی اطمینان بخش جواب دے دیا تھا۔
دوسرے لفظوں میں، درست ہونے کے لیے یا مزید وضاحت کے لیے… کیا یہ ممکن ہے کہ طبیعاتی یا حیاتیاتی وضاحت دی جا سکے؟… کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچے کی علم میں پیچیدہ نظام حاصل کرنے کی صلاحیت کی طبیعاتی تصورات کی ان اصطلاحوں میں صفات سازی کی جا سکے جو ہمیں موجودہ زمانے میں میسر ہیں؟
علاوہ ازیں یہ بات بھی اہم ہے کہ علم کے ایسے پیچیدہ نظام حاصل کر نے کے بعد یہ بچہ مختلف آزادانہ اور تخلیقی طریقوں سے یہ علم استعمال کرتا ہے، کیا اس سارے عمل کی بھی طبیعاتی تصورات کی ان اصطلاحوں میں صفات سازی ممکن ہے جو ہمیں موجودہ زمانے میں میسر ہیں؟
کیا ہم پہلے حیاتیاتی اور بعد میں طبیعاتی اصطلاحوں میں پہلے علم حاصل کرتے ان اجزاء کی اور بعد میں اسے استعمال کرتے ان اجزاء کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
میری نظر میں ایسی کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ یہ وضاحتیں ہم کر سکیں۔ ایسے ہے کہ یہ سائنس کے ایمان کا حصہ ہے کہ سائنس پہلے بہت ساری چیزوں کی وضاحت کر چکی ہے، اس کی بھی کر دے گی۔
ایک سینس میں تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ جسم اور دماغ کے مسئلے کی ہی ایک مختلف شکل ہے۔ لیکن اگر اس انداز میں ہم پیچھے دیکھیں جس انداز میں سائنس نے مخلتف چوٹیاں سر کی ہیں اور اس انداز میں بھی دیکھیں جس انداز میں سائنس نے آخرِ کار تصورِ حیات حاصل کیا جو کہ اس کے وژن سے ایک طویل عرصے تک دور رہا تھا، تو میرے خیال میں ہم تاریخ کے مختلف مقامات پر نوٹس کر لیتے ہیں، در اصل سترہویں اور اٹھارہویں صدیاں تو خاص طور اس بات کی واضح مثالیں ہیں کہ سائنسی ترقیاں ممکن ہی اس وجہ سے ہوئی تھیں طبیعاتی سائنس کا سلسلۂِ کار بڑھا دیا گیا تھا۔
نیوٹن کی کششِ ثقل کی قوتیں تو اس سلسلے میں کلاسیک کیسز ہیں۔ ڈیکارٹ کی پیروی کرنے والوں کے لیے تو دوری پہ ایکشن ایک دیو مالائی تصور تھا۔ در حقیقت، نیوٹن کے لیے بھی یہ عمل ایک جادوئی صفت اور دیو مالائی ہستی تھا جس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن بعد میں آنے والی ایک نسل کی عمومی ذہانت نے دوری پر ایکشن کو سائنس میں شامل کر لیا تھا۔
ہوا یوں تھا کہ جسم اور جسمانی (طبیعاتی) کا تصور بدل گیا تھا۔ ایک ڈیکارٹی کے نزدیک، ایک پکے ڈیکارٹی کے نزدیک اور اگر ایسا کوئی فرد آج کل نمُو دار ہوتا ہے، اس فرد کے نزدیک کائناتی اجسام کے افعال کی وضاحت نا ممکن ہو گی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان وضاحتی حقائق کی برقی مقناطیسی قوتوں کے حساب سے کوئی وضاحت ممکن نہیں تھی۔
لیکن بالکل نئے خیالات اور جو تصورات پہلے میسر نہیں تھے، ان خیالات کی طبیعاتی سائنس کی توسیع میں شمولیت کے بعد یہ ممکن ہو گیا کہ بہ تَدریج پیچیدہ ڈھانچے استوار کیے جا سکیں جو وضاحتی حقائق کا ایک وسیع سلسلہ ان ڈھانچوں میں شامل کرتے ہوں۔
مثال کے طور پر، یقیناً یہ سچائی نہیں ہے کہ ڈیکارٹی طبیعات واضح کر سکتی ہے… یعنی طبیعات میں بنیادی عناصر کے افعال۔ اسی طرح ڈیکارٹی طبیعات زندگی کے تصورات کی وضاحت بھی نہیں کر سکتی۔
اسی طرح میرے خیال میں کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ آیا حیاتیات سمیت موجودہ طبعیاتی سائنس میں ایسے اصول اور تصورات شامل ہیں جو اَن سیکھی انسانی صلاحیتیں بیان کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔
ذرا اور گہرائی میں جائیں کوئی یہ بھی سوال پوچھ سکتا ہے کہ کیا حیاتیات سمیت موجودہ طبعیاتی سائنس میں ایسے اصول اور تصورات شامل ہیں جو آزادی کے حالات کے تحت صلاحیتوں کے استعمال کی اس قابلیت کی اس انداز میں وضاحت کرتے ہیں، جس انداز میں انسان کرتے ہیں۔
مجھے اس بات کا یقین کرنےکی کوئی ایسی خاص وجہ نہیں دکھائی دے رہی کہ اب حیاتیات اور طبیعات میں ایسے تصورات موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے اگلی چوٹی سَر کرنے کے لیے، اگلا قدم اٹھانے کے لیے انھیں (سائنس دانوں)اس تنظیمی تصور پر توجہ دینی پڑے۔ اور اس موضوع پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے سکوپ بڑھانا پڑے۔
(جاری ہے…)