انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط سوم)
ترجمہ، نصیر احمد
فوکو: ہاں ناں
ایلڈرز: شاید آپ دونوں کے جوابوں کو مد نظر کر مجھے ایک اور متعلقہ اور واضح سوال پوچھنا چاہیے ورنہ یہ مباحثہ بہت تکنیکی ہو جائے گا۔ میرا یہ تاثر بنا ہے کہ آپ دونوں کے اختلافات کی بنیاد مسئلے کی تفہیم کی طرف پیش رفت کا اختلاف ہے۔ آپ مسٹر فُوکو اس بات میں خصوصی دل چسپی لیتے ہیں کہ ایک خاص زمانے میں سائنس یا سائنس دان کس انداز میں اپنا کردار نبھاتے ہیں، جب کہ مسٹر چومسکی کیا، کیوں، کیسے، جیسے سوالوں میں دل چسپی لیتے ہیں، جیسے ہم زبان کیوں جانتے ہیں؟
نہ صرف یہ کہ زبان کیسے کوئی کردار نبھاتی ہے، بَل کہ، ہمارے زبان جاننے کی وجہ کیا ہے؟ ہم ان باتوں کو عام فہم انداز میں بھی اجاگر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ آپ مسٹر فُوکو اٹھارہویں صدی کی عقلیت پسندی کی حد کشائی کر رہے ہیں، اور آپ مسٹر چومسکی اٹھارہویں صدی کی عقلیت پسندی کو آزادی اور خلاقی سے جوڑ رہے ہیں۔ شاید ہم اس سب کی سترہویں اور اٹھارہویں صدی سے مثالوں کے ذریعے تصویر سازی کر سکتے ہیں۔
چومسکی: اچھا، پہلے تو مجھے یہ کہنا چاہیے کہ میں کلاسیکل عقلیت پسندی کی طرف فلسفے، یا سائنس کے مؤرخ کے طور پر نہیں بڑھتا، بَل کہ، اس مسئلے کو میں کسی ایسے فرد کے ذرا مختلف نقطۂِ نظر کے طور پر لیتا ہوں جس کے پاس سائنسی تصورات کا ایک سلسلہ ہے اور وہ اس بات میں دل چسپی لیتا ہے کہ ابتدائی سٹیجوں میں لوگ ان تصورات کی سَمت ڈگمگاتے لڑکھڑاتے کیسے بڑھ رہے تھے، اور شاید انھیں اس بات کی خبر بھی نہیں تھی وہ کس چیز کی طرف لڑکھڑاتے بڑھ رہے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں تاریخ کو کسی نوادارات پسند کی نظر سے نہیں دیکھ رہا جو سترہویں صدی کی فکر کو تلاش کر کے اس کی درست واقعۂِ نگاری میں دل چسپی رکھتا ہو۔
میں یہ نقطۂِ نظر پست نہیں ثابت کر رہا ہے، بل کہ، یہ بتا رہا ہوں کہ یہ میرا نقطۂِ نظر نہیں ہے، بل کہ، کہنے کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نقطۂِ نظر فنون کے ایک عاشق کا نقطۂِ نظر ہے جو سترہویں صدی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک خاص قدر رکھنے والی اشیاء ڈھونڈنا چاہتا ہے۔
اس سے، اسے ان کی قدر و قیمت کا ایک حصہ مل جاتا ہے، اس پرسپیکٹو کی وجہ سے جس کے ساتھ وہ ان اشیاء کی طرف بڑھتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی دوسرے طریقے پر اعتراض کیے بَہ غیر میرا طریقہ جائز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قطعی طور پر ممکن ہے کہ ہم اپنی موجودہ تفہیم کی بنیاد پر ہم سائنسی فکر کی ابتدائی سٹیجوں کی طرف واپس جا سکیں؛ یہ جان سکیں کہ ماضی کے مفکر کتنے عظیم تھے اور زمانے کی حدود میں رہتے ہوئے ایسے خیالات، تصورات اور تفہیم کی طرف لڑکھڑاتے ہوئے بڑھ رہے تھے جن کا انھیں خود بھی واضح شعور نہیں تھا۔
مثال کے طور پر، اپنی فکر کے بارے میں بھی کوئی بھی یہ کر سکتا ہے اور اسے اپنا ماضی کے عظیم مفکروں سے موازنہ کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی ایسا کر سکتا ہے۔
ایلڈرز: ہاں ہاں، کیوں نہیں کر سکتا؟
چومسکی: دیکھیں …
ایلڈرز: کیوں نہیں کر سکتا…
چومسکی: (ہنستے ہیں) بالکل، کوئی بھی اس بات پر غور کر سکتا ہے کہ وہ آج کیا جانتا ہے، اور بیس سال پہلے کیا جانتا تھا۔ اور ایک دھندلے انداز میں دیکھ سکتا ہے کہ وہ اسی چیز کی طرف کوشاں تھا جو وہ آج سمجھ سکتا ہے، اگر وہ خوش قسمت ہے۔
اسی طرح میں سمجھتا ہوں نگاہیں بگاڑے بَہ غیر، ہم ماضی جان سکتے ہیں، اور انہی شرائط کے تحت میں سترہویں صدی کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔
اب میں سترہویں اور اٹھارہویں صدیوں کی طرف دیکھتا ہوں تو جو بات خاص طور پر ٹکرتی ہے وہ ایک انداز ہے، مثال کے طور پر جس میں ڈیکارٹ اور ان کے پیروؤں کی یہ مفروضہ قائم کرنے کی طرف رہنمائی ہوئی کہ ذہن جسم سے آزاد ایک سوچنے والی شے ہے؛ اور اگر آپ اس دوسری شے، ذہن، سوچتی ہستی کا مفروضہ قائم کرنے کی وجوہات پر غور کریں تو وہ یہ ہیں کہ ڈیکارٹ نے اپنے ذہن میں یہ طے کر لیا تھا (ابھی یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ درست طے کیا تھا کہ غلط) کہ طبیعاتی دنیا کے واقعات، افعالی اور نفسیاتی دنیا کے واقعات جیسے محسوسات طبیعاتی خطاء کے تناظر میں واضح کیے جا سکتے ہیں، جیسے ہم آج کل چیزوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے، مڑنے اور آگے بڑھنے کے تناظر پر یقین رکھتے ہیں۔
وہ میکانکی اصول کے تناظر میں سوچتے تھے اور وضاحتی حقائق کے ایک خاص سلسلے کو بیان کر سکتے تھے۔ لیکن پھر ان کے مشاہدہ شدہ وضاحتی حقائق کا ایک ایسا سلسلہ بھی تھا جس کے حق میں وہ دلائل دیتے تھے لیکن اس تناظر میں ان اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے وضاحتی حقائق کے اس سلسلے کو بیان کرنے کے لیے تخلیقی اصول کا ایک مفروضہ قائم کیا، ایک ذہن کا اصول جس کے اپنے اجزاء تھے۔ اور وہ پیرو جن میں بہت سارے خود کو ڈیکارٹی نہیں سمجھتے تھے، بل کہ، خود کو شد و مد سے عقلیت پسندی کے مخالف سمجھتے تھے، ان پیروؤں نے قاعدے کے ایک نظام میں رہتے ہوئے تخلیق کے تصور کو ترقی دی۔
میں تفصیلات کی پریشانی نہیں اٹھانا چاہتا مگر اس موضوع پر میری تحقیق آخرِ کار مجھے ولم وون ہمبولڈ کے پاس لے گئی جو یقینی طور پر خود کو ڈیکارٹی نہیں سمجھتے تھے۔
اس کے با وُجود انہوں نے بھی ذرا مختلف فریم ورک اور مختلف تفہیم کے ساتھ ایک مختلف زمانے میں ایک شان دار اور خلاق طریقے سے دُروں ساز شکل کے تصور کو ترقی دی جو کہ قاعدے کے نظام کے اندر رہتے ہوئے بنیادی طور آزادانہ تخلیق کا تصور تھا۔ انہوں نے یہ کوشش انھی مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے کی جس کا سامنا اپنے تناظر میں ڈیکارٹی کرتے تھے۔
یہاں مجھے یقین ہے کہ میں اپنے بہت سارے ساتھیوں سے اختلاف کروں گا کہ ڈیکارٹ کا دوسری شے کی طرف قدم ایک بہت ہی سائنسی قدم تھا۔ یہ طبیعات سے ما وراء ایک غیر سائنسی قدم نہیں تھا۔ در اصل بہت سارے باتوں میں یہ نیوٹن کی دانش کے قدم کی مانند تھا جب نیوٹن نے دوری پہ ایکشن کا مفروضہ قائم کیا تھا۔
اگر آپ پسند کریں تو وہ بالائے فطرت سلسلے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ کسی ایسے سلسلے کی طرف بڑھ رہے تھے جو احسن طریقے سے تقویم کردہ سائنس سے پرے تھا۔ اور ایک ایسا نظریہ قائم کر کے جس میں ان تصورات کو شفاف بناتے ہوئے ان کی وضاحت کی جا سکے، انھیں اپنے زمانے کی سائنس کے مطابق کر رہے تھے۔
میرے خیال میں ڈیکارٹ نے بھی اپنی دانش کو دوسری شے کا مفروضہ قائم کرتے ہوئے اسی طرح آگے بڑھایا تھا۔ بے شک جہاں نیوٹن کامیاب ہوئے، ڈیکارٹ نا کام ہو گئے تھے۔ وہ ذہن کے ریاضیاتی نظریے کی اساس قائم کرنے میں نا کام ہو گئے تھے، جب کہ نیوٹن اور ان کے پیرو کار طبیعاتی اشیاء کے ایسے ریاضیاتی نظریے کی اساس قائم کرنے میں کام یاب ہو گئے تھے جس میں دوری پہ ایکشن جیسے بالائے فطرت تصورات شامل تھے۔ بعد میں برقی مقناطیسی قوتیں اور دیگر ترقی اسی اساس میں شامل تھے۔
لیکن یہ کام یابی ہمیں اکساتی ہے کہ ہم اگر آپ پسند کریں تو ذہن کے ریاضیاتی نظریے کو ساتھ لے کر چلنے اور قائم کرنے کا کام کریں۔ اس سے میری مراد تفصیل سے بیان کردہ، وضاحت سے قائم کردہ ایک تجریدی نظریہ ہےجس کے تجربی نتائج بھی ہوں جن کی مدد ہم یہ بھی جان سکیں کہ یہ نظریہ درست ہے کہ غلط۔، یا درست رستے پہ ہے کہ غلط رستے پہ۔ ساتھ ہی اس نظریے میں ریاضیاتی سائنس کے اجزاء بھی ہوں۔ یہ اجزاء محنت، تفصیل اور ساخت کے اجزاء ہیں جن کی مدد سے ہم مفروضوں سے نتائج بھی حاصل کر سکیں۔
تو میں اس نقطۂِ نظر سے سترہویں اور اٹھارہویں صدی کا جائزہ لیتا ہوں کہ ایسے نکات اٹھاؤں جو میرے خیال میں وہاں ہیں۔ پھر بھی مجھے اس بات کا احساس ہے، در اصل اس بات پر میں اصرار بھی کروں گا کہ جن افراد کے بارے میں بات ہو رہی ہے انھوں نے چیزوں کو شاید ایسے نہ دیکھا ہو۔
ایلڈرز: مسٹر فُوکو، میرے خیال میں آپ اس پر شدید تنقید کریں گے۔
فوکو: نہیں، بس ایک یا دو تاریخی نکات ہیں۔ میں ان کی وجوہات اور سانچے کے تاریخی تجزیے کی آپ کی وضاحت پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ بس ایک بات کا بَہ ہر حال کوئی اضافہ کر سکتا ہے، جب آپ ڈیکارٹ کی تفہیم کی ہوئی خلاقی کی بات کرتے ہیں۔ تو میں تھوڑا حیران ہوتا ہوں کہ آپ ڈیکارٹ پہ کہیں وہ خیال تو محمول نہیں کر رہے جو ان کے معاصرین، یا ان کے بعد میں آنے والوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ڈیکارٹ کے نزدیک تو ذہن اتنا خلاق نہیں تھا؛ ذہن دیکھتا تھا، سمجھتا تھا، اور شہادتوں سے روشن ہوتا تھا۔
علاوہ ازیں، لیکن جو مسئلہ ڈیکارٹ حل نہیں کر سکے تھے، یا مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے تھے وہ اس بات کی تفہیم کا تھا کہ کوئی کیسے ان واضح اور شفاف خیالات، ان الہاموں سے ایک میں سے گزر کر دوسرے میں جائے۔ اور ان کی درمیان رہ گزر کی شہادتوں کو کیا حیثیت دے۔
میں پوری طرح سے تخلیق کے ان لمحوں میں نہیں دیکھ سکتا جب ذہن نے ڈیکارٹ کے لیے سچائی کو اپنی گرفت میں لیا اور سچی تخلیق ایک سچائی سے دوسری سچائی کے رستے میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔
دوسری طرف میرے خیال میں اسی اثناء میں میں آپ پاسکل اور لائب نٹز میں جو آپ ڈھونڈ رہے ہیں ان کے قریب کی کوئی چیز پا سکتے ہیں؛ دوسرے الفاظ میں پاسکل اور مسیحی فکر کی پوری آگسٹائنی ندی میں ذہن کا تصور پوری گہرائی میں ملتا ہے۔
اپنی ہی قربتوں میں لپٹا ہوا ذہن جسے ایک خاص قسم کی بے شعوری چھوتی ہے۔ وہ امکانات افزاء ذہن اپنے آپ کو گہرا بھی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے پورٹ رائل کی گرائمر جس کا آپ حوالہ دیتے ہیں میرے خیال میں ڈیکارٹی سے کہیں زیادہ آگسٹائنی ہے۔
اس سے آگے آپ کو لائب نٹز میں ایک ایسی شے ملے گی جسے آپ یقیناً پسند کریں گے۔
یہ تصور کہ ذہن کی گہرائیوں میں منطقی ناتوں کو پورا جال شامل ہے جو ایک خاص سینس میں شعور کی عقلی بے شعوری پر مشتمل ہے، یہ خود ہی خرد کی اپنی ہی ایک ایسی شکل ہے جو ابھی دکھائی نہیں دیتی کہ ابھی اس سے دھند نہیں ہٹائی جا سکی۔ اسے موناڈ، یا فرد جزو بہ جزو ترقی دیتا ہے۔ اور اسی کے ذریعے تمام دنیا دیکھتا ہے۔
یہ ہے وہ جگہ جہاں میں یہ مختصر سی تنقید کرتا ہوں۔
جاری ہے…