انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط چہارم)
ترجمہ، نصیر احمد
ایلڈرز: مسٹر چومسکی، ذرا ٹھہر جائیں، مہربانی ہو گی۔ میرا نہیں خیال کہ سوال تاریخی تنقید کا ہے، سوال تو ان بنیادی تصورات پر اپنی آراء کو ترتیب دینے کا ہے…۔
فوکو: لیکن کسی کی بھی بنیادی آراء کی وضاحت اس طرح کے مفصل تجزیوں سے کی جا سکتی ہے…۔
ایلڈرز: درست ہے لیکن مجھے آپ کی پاگل پن کی تاریخ سے کچھ اقتباسات یاد آ رہے ہیں جن میں آپ نے سترہویں اور اٹھارہویں صدیاں ظلم و جبر و امتیاز کی صدیاں بتائی ہیں، جب کہ مسٹر چومسکی کی نظروں میں یہ زمانہ انفرادیت اور خلاقی کا ہے۔ اس زمانے میں ہی کیوں پہلی دفعہ پاگلوں کے لیے بند پناہ گاہیں بنائی گئی تھیں؟ میرے خیال میں یہ بنیادی سوال ہے؟
فوکو: خلاقی کا تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن میں نہیں جانتا، شاید مسٹر چومسکی اس بارے میں بات کرنا پسند فرمائیں۔
ایلڈرز: نہیں، نہیں۔ آپ بات جاری رکھیں۔
فوکو: میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تاریخی مطالَعَے جو میں نے کیے ہیں، یا کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مطالَعوں میں افراد کی خلاقی، ان کی تخلیق کی صلاحیت، ایجاد میں ان کی ذاتی دل چسپی، تصورات، نظریات اور سائنسی حقائق کی شروعات کے سلسلے میں ان کی ذاتی کاوشوں جیسے معاملات پر میں نے بہت کم توجُّہ دی ہے۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا مسئلہ مسٹر چومسکی کے مسئلے سے مختلف ہے۔ مسٹر چومسکی لسانیاتی افعالیت پسندی کے خلاف نبرد آزما ہیں جو زبان بولنے والے کی خلاقی کو نہ ہونے کے برابر اہمیت دیتی ہے۔ وہاں تو بولنے والا بس ایک سطح ہے جس پر دھیرے دھیرے معلومات آتی رہتی ہیں جن کو بعد اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔
سائنس کی تاریخ کے شعبے، یا تناظر وسیع کریں تو تاریخِ فکر میں یہ مسئلہ سرے سے ہی مختلف ہے۔
تاریخِ علم نے ایک طویل عرصے سے دو دعووں کی متابعت کی کوشش کی ہے۔ ایک پہچان کا دعویٰ ہے۔ ہر دریافت کی تاریخ اور مقام کے ساتھ ساتھ دریافت کرنے والے یا موجد کی پہچان بھی ضروری ہے، یا دریافت کے کسی بھی ذمے دار کی پہچان۔ دوسری طرف عمومی، یا اجتماعی وضاحتی حقائق ہوتے ہیں جن کی علّت کی پہچان by definition ہی نہیں کرائی جا سکتی، اور ان کی عام طور پر نا قدری کی جاتی ہے۔
اس کے با وُجود انھیں روایتی طور پر روایت، ذہنیت اور سانچوں جیسے الفاظ کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ اور کوئی انھیں مُوجد کی originality کے سسلے میں بریک کا منفی کردار ادا کرنے دیتا ہے۔
مختصراً، اس کا تعلق تاریخِ علم پر منطبق کیے گئے موضوعی فرد کے اختیار کے اصولوں سے لازمی ہوتا ہے۔ دوسرا دعویٰ تو ہمیں مزید موضوعی فرد بچانے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن سچ بچا سکتا ہے تا کہ تاریخ سچ کو سمجھوتوں کی نذر نہ کر دے۔ یہ اتناضروری نہیں ہے کہ سچ تاریخ میں اپنا سانچا بنائے، بل کہ ضروری صرف یہ ہے کہ تاریخ میں سچ اپنا آپ فاش کرے، لوگوں کی نگاہوں سے خُفتہ، مشروط طور پر نا رسا، سایوں میں بیٹھا، ظاہر و برملا ہو جانے کے لیے منتظر رہے۔
سچ کی تاریخ لازمی طور پر اس کی تاخیر ہو گی، اس کا زوال، یا ان رکاوٹوں کا غیاب جو ابھی تک اس کے روشنی میں آنے کی راہ میں اٹکی رہی ہیں۔ سچ کے سلسلے میں علم کی تاریخی جِہت ہمیشہ منفی رہی ہے۔
یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ یہ دونوں دعوے ایک دوسرے کے سنگ کیسے adjust کیے گئے ہیں۔ اجتماعی نظم کے وضاحتی حقائق، عام فکر، ایک خاص زمانے کے تعصبات کی دیو مالا وہ رکاوٹیں بناتے تھے جو علم کے موضوعی فرد کو سچ تک رسائی کے لیے عبور کرنی پڑتی تھیں، یا سچ تک حتمی رسائی کے لیے ان رکاوٹوں سے اس موضوعی فرد کو زیادہ جینا پڑتا تھا۔ دریافت کرنے کے لیے اسے کچھ سنکی سی حالت میں رہنا پڑتا تھا۔
ایک سطح پر تو یہ لگتا ہے کہ سائنس کی تاریخ کے بارے میں یہاں کچھ رومانیت اجاگر کی جا رہی ہے۔ بندۂِ حق کی تنہائی، اصلیت جس نے تاریخ کے ذریعے، یا تاریخ کے با وُجود، اصل پر اپنے آپ کو دو بارہ فاش کیا۔ میں سوچتا ہوں، بنیادی طور پر، یہ علم کے نظریے، علم کے موضوعی فرد کو علم کی تاریخ پر ایسے رکھنے کا مسئلہ ہے جس میں اوپر نیچے ہر چیز صاف صاف دکھائی دے۔
اگر ایسا ہوکہ موضوعی فرد کے سچ سے ناتے کی تفہیم علم کا ایک نتیجہ نکلے تو؟ اگر ایسا ہو کہ تفہیم تو پیچیدہ اور کئی جہتوں والی، غیر انفرادی، موضوعی فرد سے بے نیاز تشکیل تھی، جس نے سچ کے نتائج پیدا کیے؟ پھر تو کسی کو اس پوری کی پوری جہت کو مَثبت انداز میں سامنے لانا چاہیے جسے سائنس کی تاریخ نے منفی بنا ڈالا ہے۔
کسی کو علم کی پیداواری صلاحیت کا ایک اجتماعی پریکٹس کے طور پر تجزیہ کرنا چاہیے۔ اور علم کی ترقی میں (جو ایک خاص لمحے پر خاص قواعد کے تحت کام کرتی ہے، جنھیں درج اور بیان کیا جا سکتا ہے۔) افراد اور ان کے علم کو ہٹا کر اس پوری کی پوری جہت کو لانا چاہیے۔
آپ مجھے کہیں گے کہ سائنس کے مارکسی تاریخ دان تو یہ سب کافی طویل عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن جب کوئی دیکھتا ہے کہ وہ ان حقائق کے ساتھ کیسے کام کرتے ہیں خصوصی طور پر شُعور کے عقائد اور سائنس سے متضاد آئیڈیالوجی کے عقائد کو وہ کیسے استعمال کرتے ہیں، تو وہ جان جاتا ہے کہ کم و بیش وہ نظریۂِ علم سے کٹے ہوئے ہی ہیں۔
بَہ ہر حال، مجھے تفہیم کے تغیرات کو علم کی دریافتوں کی تاریخ کے متبادل بنانا متفکر کرتا ہے۔ اس لیے خلاقی کے بارے میں کم از کم بَہ ظاہر میرا روَیّہ مسٹر چومسکی سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ اس لیے کہ میرا مسئلہ جاننے والے موضوعی فرد کے مخمصے کو مٹانا ہے جب کہ مسٹر چومسکی کا مسئلہ بولنے والے موضوعی فرد کو دو بارہ آشکار ہونے کی اجازت دینے کا ہے۔
لیکن اگر انھیں نے اسے دو بارہ آشکار کر دیا ہے، اسے بیان کر دیا ہے تو یہ ان کی استعداد ہے۔ ماہرینِ لسانیات تو کافی عرصے سے زبان کا ایک بَہ طورِ اجتماعی قدر کے تجزیہ کر چکے ہیں۔ تفہیم بہ طور قواعد کی اجتماعی کاملیت جو ایک خاص قسم کے علم کی ایک خاص زمانے میں اجازت دے زمانۂِ حال سے پہلے مشکل سے ہی مطالعہ کی گئی ہے۔
بہ ہر حال، شاہد کے سامنے یہ تفہیم کافی مناسب خصوصیات پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ادویات کو لے لیں، میڈیکل کی بیس کتابیں پڑھیں، کون سی کتابیں؟ یہ اتنا اہم نہیں ہے، 1770 سے لے کر 1780 تک کے سالوں کی، اور پھر 1820 سے لے کر 1830 کے سالوں کی بیس کتابیں اور پڑھیں اور میں اندازے سے کہتا ہوں کہ چالیس یا پچاس سالوں میں ہر شئے بدل چکی تھی، کس چیز کے بارے میں کیا بات کی جاتی تھی، کس انداز سے بات کی جاتی تھی، ہر چیز بدل چکی تھی، صرف علاج کے طریقے ہی نہیں، اور نہ صرف بیماریاں، بل کہ، سارا نظارہ ہی بدل چکا تھا۔
اس کا ذمے دار کون تھا؟ کس نے یہ سب تصنیف کیا تھا؟ میرے خیال میں بیشا، Bichat، کو ایسے ذمے دار، یا مصنف سمجھنا جعل کاری ہو گی، یا بات کو پھیلاتے ہوئے اولین کلینکوں کے ماہرینِ اعضاء کو اس سب کا ذمے دار، یا مصنف سمجھنا بھی جعل کاری ہی ہو گی۔ یہ میڈیکل کی تفہیم اور اس کی پریکٹس کے قواعد میں اجتماعی اور پیچیدہ تغیر کا مسئلہ ہے؛ اور یہ تغیر کوئی منفی وضاحتی حقیقت تو بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ منفیت کو دباتی ہے، رکاوٹ کا خاتمہ ہے، تعصب کا غیاب ہے، دیو مالا سے دوری ہے، غیر عقلی عقائد کی پسپائی ہے، بالآخر عقل اور تجربے تک آزادانہ رسائی ہے۔
یہ تو ایک نئے چشمے کا استعمال ہے جس کے اپنے چناؤ اور ہٹاؤ ہیں۔ ایک نیا کھیل ہے جس کے اپنے قواعد، حدود اور فیصلے ہیں اور جس کی اپنی اندرونی منطق ہے، جس کے اپنے پیرامیٹرز ہیں، اپنی اندھی تنگ گلیاں ہیں۔ اور یہ سارے رستے نقطۂِ آغاز کو سنوارتی تبدیلیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور اس کے اسی کردار میں تفہیم بَہ ذاتِ خود موجود ہے۔
اگر کوئی علم کی تاریخ مطالَعَہ کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ یہاں تجزیے کی دو کھلی ڈلی سَمتیں ہیں۔ ایک کے مطابق کسی کو دکھانا پڑتا ہےکہ کیسے اور کن حالات کے تحت اور کن وجوہات کی بناء پر تفہیم اپنے تشکیلی قواعد میں اپنے آپ کو سنوارتی ہے، سچ کو دریافت کرتے ایک موجد میں سے گزرے بَہ غیر۔ اور دوسری سمت کے مطابق یہ دکھانا پڑتا ہے کہ تفہیم کے قواعد کا استعمال ایک فرد میں ایک نیا اور غیر شائع شدہ علم کیسے پیدا کرتا ہے۔
یہاں میرا مقصد اپنے نا مکمل طریقوں اور کم تر سانچوں اور شکلوں کے ساتھ مسٹر چومسکی کے پروجیکٹ سے دو بارہ مل جاتا ہے، اس fact کی وضاحت کرتے ہوئے کہ تھوڑے سے قواعد، یا یقینی عناصر کے ساتھ اَنجانی کاملیتیں جو پیدا ہی نہیں کی گئی ہیں انھیں افراد روشنی میں نہیں لا سکتے۔
یہ مشکل حل کرنے کے لیے مسٹر چومسکی کو گرائمر کی تجزیے کی فیلڈ میں مخمصہ دو بارہ متعارف کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ کے شعبے میں جس میں involve ہوں ایک ایسی ہی مشکل حل کرنے کے لیے کسی کو، ایک لحاظ سے، اس کے الٹ کرنا پڑتا ہے، تفہیم کا نقطۂِ نظر، اس کے قواعد کا نقطۂِ نظر، اس کے نظاموں کا نقطۂِ نظر، اور انفرادی علم کے کھیل میں اس کے تغیرات کی کاملیت کا نقطۂِ نظر متعارف کرانے کے لیے۔
یہاں اور وہاں (تاریخ اور لسانیات) خلاقی کی مشکل، ایک ہی انداز سے حل نہیں کی جا سکتی، بَل کہ ایک جیسی اصطلاحوں میں ترتیب نہیں دی جا سکتی، ان شعبہ جات کے حالات دیکھتے ہوئے جن میں یہ مشکل ڈالی جاتی ہے۔