انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط پنجم)
ترجمہ، نصیر احمد
چومسکی: میرے خیال میں اس اصطلاح، خَلّاقی، کے مختلف استعمال کے باعث ہماری گفتگو کے مقاصد کچھ حصوں میں ذرا متضاد ہو گئے ہیں۔
در اصل مجھے بتانا چاہیے کہ اس اصطلاح، خَلّاقی کا میرا استعمال تھوڑا سا منفرد ہے، اس لیے اس اس کیس میں (اس کی وضاحت کا) بار آپ پر نہیں، مجھ پر ہے۔ لیکن میں جب خَلّاقی کی بات کرتا ہوں تو میں اس تصور کو قدر کے اس عقیدے سے متصف نہیں کر رہا ہوتا جو عام فہم ہے، جب ہم خَلّاقی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ایسا ہے کہ جب آپ موزوں طریقے سے سائنسی خَلّاقی کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ نیوٹن کے کار ناموں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جس سیاق و سباق میں میں خَلّاقی کی بات کرتا چلا آ رہا ہوں وہاں یہ عمومی انسانی فعل ہے۔
میں اس خَلّاقی کی بات کر رہا ہوں جس کا کوئی بھی بچہ اس وقت مظاہرہ کرتا ہے جب وہ کسی نئی صورتِ حال (کی تفہیم) کو اپنی گرفت میں لا رہا ہوتا ہے، اسے مناسب انداز میں بیان کرنے کے لیے، اس پر مناسب رد عمل ظاہر کرنے کے لیے، کسی کو اس کے بارے میں کچھ بتانے کے لیے، اور اس صورتِ حال کے بارے میں ایک نئی طرز سے سوچنے کے لیے، وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں ان اَفعال کو بے شک نیوٹن کے افعال کہے بَہ غیر خلاق کہنا مناسب بات ہے۔
در حقیقت، یہ بات سچی ہو سکتی ہے کہ سائنس اور فنون میں خَلّاقی ایسی خَلّاقی جو عمومی سے پار چلی جاتی ہے اس خَلّاقی میں شاید اس بات کے اجزاء کا عمل دخل ہوتا ہے جسے میں انسانی فطرت کہنا چاہوں گا۔ ایسی خَلّاقی شاید بنی نوعِ انسان کے مَجمعے میں شاید موجود اور افزوں نہیں ہوتی اور شاید روز مرہ زندگی کا حصہ بھی نہیں ہوتی۔
اب بات یوں ہے کہ سائنس عمومی خَلّاقی کے مسئلے کو شاید بَہ طورِ موضوع اپنے اندر شامل کرنے کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال، شاید آپ اتفاق نہ کریں کہ سائنس کم از کم مستقبل قریب میں اس سَمت بڑھ سکتی ہے کہ اس سچی خَلّاقی کو اپنی گرفت میں لائے جو فن کاروں اور عظیم سائنس دانوں کے کار ناموں میں دمکتی ہے۔ ابھی سائنس ایسی امید سے تہی ہےکہ ان بے نظیر حقائق کی اپنی گرفت میں کوئی گنجائش پیدا کر سکے۔ میں تو خَلّاقی کے ایک نچلے درجے کی بات کرتا چلا آ رہا ہوں۔
اب سائنس کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ آپ کہتے ہیں جہاں تک اس کا تعلق ہے میرے خیال میں وہ درست اور نور افزاء ہے اور اس قسم کی کاوشوں کے سلسلے میں خصوصی طور پر متعلق ہے جو میں دیکھتا ہوں کہ نفسیات، لسانیات اور فلسفہ ذہن میں ہمارے سامنے پڑی ہیں۔
میرے خیال یوں ہے کہ پچھلی چند صدیوں کی سائنسی ترقیوں کے دوران کچھ خاص موضوعات دبا دیے گئے تھے، یا پرے رکھ دیے گئے تھے۔
مثال کے طور پر، یہ نچلے درجے کی خَلّاقی جس کا میں حوالہ دے رہا ہوں ڈیکارٹ کے فلسفے میں بھی واقعی موجود تھی۔ مثلاً، جب وہ اس توتے (جو بولے کی نقل اتار لیتا ہے اور انسان (جو ایسی نئی باتیں کہہ لیتا ہے جو کسی صورتِ حال سے مطابقت رکھتی ہیں) کے درمیان فرق کی بات کرتا ہے۔ اور جب وہ ایسے وجود کی اس نمایاں جُزو کے بَہ طورِ تخصیص کرتا ہے جو طبیعات کی حدود کا تعین کرتا ہے اور اگر جدید اصطلاحیں استعمال کریں تو ہمیں ذہن کی سائنس میں لے جاتا ہے۔ میرے خیال میں وہ اسی خَلّاقی کا حوالہ دے رہا ہے جو میرے ذہن میں ہے۔ اور میں ان خیالات کے دیگر ماخذوں کے بارے میں آپ کے تبصروں سے کافی حد تک متفق ہوں۔
اچھا تو یہ تصورات اور در حقیقت فقرے کی ساخت کی تنظیم کا پورا تصور ان عظیم ترقیوں کے زمانے میں پرے رکھ دیے گئے تھے جو سر ولیم جونز اور دوسروں کی پیروی میں اور تمام تر لسانیاتی علوم میں رُو نما ہوئی تھیں۔
لیکن اب ہم میرے خیال میں اس زمانے سے آگے کسی اور چیز کی طرف مڑ سکتے ہیں جب یہ بھولنا اور بناوٹ کرنا ضروری تھا کہ یہ وضاحتی حقائق وجود نہیں رکھتے۔ تقابلی علومِ لسانیات کے اس زمانے میں، اور میری نظر میں ساختیاتی لسانیات کے اس زمانے میں، اور بیش تر افعالی نفسیات کے اس زمانے میں اور تجربی روایت میں جو کچھ افزائش ہو رہی ہے اس کے اس زمانے میں اور ذہن اور افعال کے اس زمانے میں ان حدود کو پار کرنا اور ان موضوعات پر توجہ دینا ممکن ہو گیا ہے جنھوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے غور و فکر کو بہت زیادہ حیات خیز کر دیا تھا۔ اور انھیں پہلے سے بہت زیادہ وسعتوں اور میرے خیال میں گہرائیوں کے حامل ایک سائنسی فرد کی تعلیم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے جو سکیمیٹزم، قواعد کے ایک نظام میں فکر و افعال کے نئے عناصر، نئی اشیا کی پیدا وار، آزادی، خَلّاقی، اختراع جیسے تصورات کو یقینی طور پر مکمل تفہیم تو نہیں دے سکے گا مگر پہلے سے بہت بہتر کردار دے گا۔ تو یہ تصورات ہیں جن کے بارے میں میں سوچتا ہوں کہ ہماری گرفت میں آ سکتے ہیں۔
ایلڈرز: خوب، مگر میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ آپ لوگ اتنے طویل جواب نہ دیں۔ (فُوکو ہنستے ہیں) جب آپ خَلّاقی اور آزادی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو میں غلط فہمیوں میں سے ایک کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یہاں اگر کوئی غلط فہمی اٹھی ہے تو وہ اس فیکٹ سے متعلق ہے کہ مسٹر چومسکی اپنی بات چند محدود قواعد کے اطلاق کے لا محدود امکانات سے شروع کرتے ہیں جب کہ آپ مسٹر فوکو آپ ہماری تاریخی اور نفسیاتی جبریتوں کی چلمن کی ہونی پر زور دے رہے ہیں اور اس کا اطلاق اس انداز پر بھی ہوتا ہے جس میں ہم نئے خیالات دریافت کرتے ہیں۔
شاید ہم اس بات کو ہم سائنسی عمل کے تجزیے سے نہیں، بَل کہ اپنے فکری عمل کے تجزیے سے نکھار سکتے ہیں۔ مسٹر فوکو جب آپ کوئی نئی بنیادی سوچ دریافت کرتے ہیں تو کیا آپ مانتے ہیں، جہاں تک آپ کی اپنی ذاتی خَلّاقی کا تعلق ہے کہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو آپ کو آزادی دلا رہا ہے؟ کوئی نئی چیز نمُو پا رہی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ بعد میں معلوم ہو کہ یہ ایسی بھی نئی چیز نہیں تھی لیکن کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ آپ کی اپنی شخصیت میں آزادی اور خَلّاقی ساتھ ساتھ میں کام کر رہے ہیں؟ یا نہیں مانتے؟
فوکو: آپ جانتے ہو کہ میں نہیں مانتا کہ ذاتی تجربے کا مسئلہ کچھ ایسا زیادہ اہم ہے۔
ایلڈرز: کیوں نہیں؟
فوکو: اس طرح کے سوال کے جواب میں۔ نہیں، میں یہ مانتا ہوں کہ حقیقت میں مسٹر چومسکی نے جو کہا اور جو میں نے دکھانے کی کوشش کی اس میں قوی مشابہت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ممکنہ اختراعات اور ممکنہ تخلیقات در حقیقت موجود ہیں۔ علم وزبان کی اصطلاحوں میں ایک فرد کوئی نئی چیز قواعد کی ایک خاص تعداد اس کھیل میں شامل کرنے سے ہی پیدا کر سکتا ہے اور یہ قواعد ان بیانات کی قبولیت اور گرائمریت طے کریں گے، یا علم کے کیس میں ان بیانات کا سائنسی کردار طے کریں گے۔
یوں ہم ایک کچا اندازہ کام میں لاتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسٹر چومسکی سے پہلے لسانیات کے ماہرین بیانات کی تعمیر کے قواعد پر زیادہ اصرار کرتے تھے اور ہر نئے بیان کی نمائندگی کرتی یا ایک نئے بیان کی سنائی کی نمائندگی کرتی اختراع پر کم اصرار کرتے تھے۔ اور سائنس کی تاریخ، یا فکر کی تاریخ میں ہم نے انفرادی تخلیق پر زیادہ زور دیا ہے اور ان عمومی اور مجموعی قواعد کو ایک طرف کرتے ہوئے سایوں میں رہنے دیا ہے جو اپنا آپ دھندلے سے انداز میں ہر فلسفیانہ اختراع، ہر سائنسی ایجاد اور ہر سائنسی دریافت کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔
اس حد تک تو میں بے شک غلط ہی سہی، مگر مانتا ہوں کہ میں کچھ نیا کہہ رہا ہوں۔ اس حقیقت بھی، بَہ ہر حال، مجھے ادراک ہے میرے بیان میں نہ صرف لسانیاتی قواعد، بل کہ نظریات علم کے قواعد اور وہ قواعد جو عصری علوم کو خصوصیات دیتے ہیں رواں ہیں۔
چومسکی: خوب، ان تبصروں پر میں اپنے ہی فریم ورک کے مطابق اس انداز میں رد عمل دکھانے کی کوشش کر سکتا ہوں جو شاید ان پر کچھ روشنی ڈال سکے۔
ایک انسان کے بچے کے بارے میں پھر سے سوچتے ہیں جس کے دماغ میں ایک سکیمیٹزم ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ یہ بچہ کس قسم کی زبان سیکھے گا؛ اور تجربہ ملنے پر وہ یہ زبان سیکھ لیتا ہے جس کا یہ تجربہ حصہ ہے یا اس میں شامل کر دیا گیا ہے۔
اب یہ ایک عمومی فعل ہے۔ اور یہ نارمل ذہانت کا فعل ہے، لیکن یہ بہت زیادہ خلاق فعل ہے۔
اگر ایک منگلئی یا مریخی ڈیٹا کی نا قابلِ یقین حد تک مختصر مقدار پر مبنی علم کے اس وسیع، پیچیدہ اور مفصل نظام کے حصول کا پروسیس دیکھ سکتا تو وہ یہ سوچتا کہ یہ پروسیس تو تخلیق و ایجاد سے بھر پُور فعل ہے۔ در حقیقت یہ مریخی میرے خیال میں یہ سمجھتا کہ یہ تو مثال کے طور پر طبیعاتی تھیوری کے کسی پہلو کی ایجاد ہے جو ان معلومات پر مبنی ہے جو کسی ماہرِ طبیعات کے سامنے پیش کی گئی ہوں۔
تاہم اگر یہ فرضی منگلئی اگر یہ مشاہدہ کر لیتا کہ ہر نارمل انسانی بچہ جلد ہی یہ تخلیقی فعل کر لیتا ہے اور یہ سب بچے بن کسی کٹھنائی کے ایک ہی طریقے سے یہ فعل کر لیتے ہیں، جب کہ فطینوں کو دھیرے دھیرے شہادتوں سے کسی سائنسی تِھیئری کی طرف جانے کا تخلیقی فعل کرنے میں تو صدیاں لگ جاتی ہیں۔ پھر یہ منگلئی اگر کچھ خرد مند ہوتا تو اس پر عیاں ہو جاتا کہ زبان کا سانچا جو زبان کے کیس میں حاصل کیا جاتا ہے انسانی ذہن کے اندر موجود ہوتا ہے، جب کہ طبیعات کی ساخت، سیدھے سیدھے بولیں تو انسانی ذہن کے اندر موجود نہیں ہوتی۔
ہمارے ذہن اس طرح نہیں تعمیر کیے گئے ہیں کہ دنیا کے وضاحتی حقائق دیکھتے ہی ہمارے سامنے تِھیئریٹیکل طبیعات ہی آئے اور ہم اسے لکھتے جائیں اور پیش کرتے جائیں۔ ہمارے ذہن اس طرز پر تعمیر نہیں کیے گئے ہیں۔
بَہ ہر حال میرے خیال میں ایک ممکنہ نقطۂِ ربط تو موجود ہے اور اس کی وضاحت شاید مفید بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم ایک قسم کی سائنسی تھیئری استوار ہی کیسے کر لیتے ہیں؟ تھوڑی سی معلومات کی مدد سے مختلف سائنس دانوں کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے میں کسی قسم کی ایک تِھیئری تک رسائی حاصل کر لیں جو کم از کم کچھ کیسوں میں کم و بیش گہری بھی ہوتی ہے اور کم و بیش تجربی طور پر درست بھی ہوتی ہے؟
یہ تو ایک قابلِ ذکر حقیقت ہے۔
اور، در حقیقت، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ یہ سائنسبدان بَہ شمول فطینوں کے ممکنہ سائنسی تِھیئری کی کلاس پر اپنے مطالَعے بڑی تنگ حدود کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور اختراع کی استقرائی جَست ان کے لیے نا ممکن ہوتی اگر ان کے ذہنوں میں کسی نہ کسی طرح یہ لا شعوری تخصیص پہلے سے ہی نہ بنی ہوتی کہ ایک ممکنہ سائنسی تِھیئری ہوتی کیا ہے۔ اسی طرح اگر ہر بچے کے ذہن میں ایک پا بند طرز پر زبان کا تصور بنا نہ ہوتا تو معلومات سے زبان سیکھنے کی استقرائی جَست بھی ممکن نہ ہوتی۔
اس لیے اگر چِہ کہنے کو معلومات سے طبعیات کا علم اخذ کرنے کا پروسیس ہمارے جیسے جان دار کے لیے کہیں زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہے اور بہت زیادہ وقت لیتا ہے اور اسے فطین کی مداخلت درکار ہوتی ہے اور یوں بات بڑھتی رہتی ہے۔ بَہ ہر حال ایک خاص سینس میں حیاتیات اور طبعیاتی سائنس کی دریافت کا کار نامہ یا اسے جو مرضی کہیں کسی ایسی چیز پر مبنی ہے جو ایک نارمل بچے کے اپنی زبان کا سٹرکچر دریافت کرنے کے کار نامے جیسی ہی ہوتی ہے۔
یوں ہے کہ اس کار نامے کو ایک ابتدائی حد کی بنیادوں پر سر انجام دیا جائے، ممکنہ تِھیئریز کی کلاس پر ایک ابتدائی پا بندی کی حد۔ اگر آپ یہ جانے بَہ غیر کہ یقینی اشیا تو ممکنہ تھیوریاں ہی ہوتی ہیں شروع کرتے ہیں تو خاص واقعات سے عمومی قانون اخذ کرنا بالکل ہی ممکن نہیں ہو گا۔ معلومات پھر کو آپ کہیں بھی لے جا سکتی ہیں، بھٹکا سکتی ہیں۔ اور یہ حقیقت کہ سائنس مختلف نکات پر ملتی جلتی رہتی ہے، آگے بڑھتی ہے، ہمیں سمجھا دیتی ہے کہ ایسی ابتدائی حدود اور ساختیں موجود ہیں۔
اگر ہم واقعی سائنسی تخلیق کی تھیوری استوار کرنا چاہتے، یا فن کارانہ تخیلق کی تِھیئری بھی وضع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شرائط کے اس سیٹ پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی جو ہمارے ممکنہ علم کے سکوپ کی حد کشائی کرتا ہے اور اس سکوپ کو پا بند بھی کرتا ہے لیکن اسی سمے معلومات کی مختصر مقدار پر مبنی علم کے پیچیدہ نظاموں کی طرف استقرائی جَست کی بھی اجازت دیتا ہے۔ یہ مجھے لگتا ہے سائنسی خَلّاقی کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے در حقیقت نظریۂِ علم کے کسی بھی مسئلے کی طرف بڑھنے کا راستہ۔
(جاری ہے)