انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط ہفتم)
ترجمہ، نصیر احمد
ایلڈرز: لیکن آپ کے اس نظریۂِ علم کے آپ کے انیسویں اور بیسویں صدی کے خاتمے، یا مرگِ انسان کے theme واسطے کیا معانی ہیں؟
فوکو: مگر جو بات ہم کر رہے ہیں، اس سے اس سوال کا کوئی ناتا نہیں ہے۔
ایلڈرز: میں نہیں جانتا، میں تو، آپ نے جو کہا، اس کا آپ کے انسان اور معاشرے کے مطالعے کے تصور پر اطلاق کر رہا تھا۔ آپ تو پہلے ہی اپنی ذاتی آزادی اور خَلّاقی کے بارے میں کچھ کہنے سے انکار کر چکے ہیں۔ نہیں کِیا کَیا؟ میری نظر یہ جاننے میں لگی ہوئی ہے کہ اس کی نفسیاتی وجوہات کیا ہیں؟
فوکو: (احتجاج کرتے ہوئے) خوب، تو آپ سوچتے رہیں، میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
ایلڈرز: ہونہہ خوب …
فوکو: میں اس بارے میں نہیں سوچ رہا۔
ایلڈرز: لیکن ان ذاتی سوالوں کے جوابات سے انکار کی، آپ کی تفہیم، سائنس اور علم کے تصور کے ناتے سے جڑی وجوہات کیا ہیں؟ ایک مسئلہ تو آپ کے سامنے ہے ہی، ذاتی سوال کو لے کر اسے مسئلہ بنانے کی آپ کی وجوہات کیا ہیں؟
فوکو: نہیں، میں ذاتی سوال کو لے کر اسے مسئلہ نہیں بنا رہا، بَل کہ میں ذاتی سوال کو مسئلے کی عدم موجودگی بنا رہا ہوں۔
مجھے ایک سادہ سی مثال لینے دیں جس کا میں تجزیہ نہیں کروں گا، لیکن وہ کچھ یوں ہے۔ مغربی عُلوم اور مغربی فکر کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ کیسے ممکن ہوا تھا کہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں لوگ موتوں کے ذمے دار ایک خاص عارضے کی اعضائی سوئی، وجہ، اور ماخذ جاننے کے لیے، نعشیں چاک کرنے کا آغاز کرنے لگے تھے؟
یہ خیال تو کافی حد تک سادہ ہی لگتا ہے۔ نعش کے زخم زدہ حصے میں عارضے کی وجہ دیکھنے کے تصور سے پہلے تو چار پانچ ہزار سال تک مغرب میں دَوائیں ہی ضروری سمجھی جاتی تھیں۔ اگر آپ اس کی وضاحت بِیشا کی شخصیت سے کرنے کی کوشش کرتے تو مجھے یقین ہے کہ سُود مند نہ ہوتی۔
اس سے الٹ اگر آپ نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں موت اور مرض کا مقام متعین کر دیا ہوتا، اور اس بات کو مدِّ نظر رکھتے کہ صنعتی معاشرے کے، اپنی ترقی اور بڑھوتری کے لیے، پوری آبادی کو چار گنا بڑھانے میں کون سے مفادات تھے، تو ہسپتال کھلنے کی وضاحت آپ کر دیتے۔
اگر آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہوتی کہ اس زمانے میں طبی علوم کیسے ادارے میں ڈھال دیے گئے تھے اور کیسے ان کے دوسرے علوم سے رشتے مرتب کیے گئے تھے تو آپ جان سکتے تھے کہ مرض کے، ہسپتال میں داخل مریضوں کے، بیماروں کے، نعشوں کے اور امراض کے اسباب اور نتائج کی اناٹومی (اعضاء کی تشریح کا علم) کے بیچ رشتے کیسے استوار کیے گئے تھے۔
میرا یہ ماننا کہ یہ تجزیے کی ایک شکل ہے جو کہ میں نہیں کہتا نئی ہے، لیکن بہ ہر حال اس سے غفلت تو برتی گئی ہے، اور ذاتی واقعات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایلڈرز: بَہ ہر حال، اس کو رَد کرتے آپ کے دلائل کے بارے میں تھوڑا اور علم ہمارے لیے بہت زیادہ دل چسپی کا سبب ہوتا۔
جہاں تک میرا معاملہ ہے، اس مباحثے کے اس فلسفیانہ حصے کے بارے میں میرا یہ آخری سوال ہے۔ تو کیا مسٹر چومسکی آپ ہمیں کچھ خیالات عطا کر سکتے ہیں کہ معاشرتی علوم کس طرز پر کام کر رہے ہیں؟
میں یہاں رویہ پسندی پر آپ کے متعدد حملوں کے بارے میں خصوصی طور پر سوچ رہا ہوں۔ اور آپ بھی شاید اس طرز کی تھوڑی وضاحت کر سکیں جس میں اب مسٹر فُوکو رفتاری (رویّے کے لیے فارسی کا لفظ جو شاید رویے سے بہتر behaviour کی وضاحت کرتا ہے) انداز میں بات کر رہے ہیں۔
چومسکی: میں آپ کی ہدایت سے تھوڑی دیر کے لیے رخصت چاہتا ہوں۔ مسٹر فوکو نے ابھی جو کہا ہے، اس پر ایک تبصرہ کرنے کے لیے۔
یہ اس انداز کی خوب تصویر بندی کرتا ہے جس میں ہم مخالف سمتوں میں کوہ کنی کر رہے ہیں، آپ کا ابتدائی image استعمال کرتے ہوئے۔
ایسا ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ سائنسی تخلیق کا ایک عمل دو حقائق پر مشتمل ہے۔ ایک، ذہن کا کوئی اندرونی جُزو، دوسرا، بعض موجود ذہنی اور سماجی حالتیں۔
جیسے میں دیکھتا ہوں سوال یہ نہیں ہے کہ ہمیں کیا مطالعہ کرنا چاہیے، بَل کہ ہم سائنسی دریافت یا اسی طرح کسی اور قسم کی دریافت کی بہتر تفہیم کریں گے جب ہم ان عوامل سے آگاہ ہوں گے۔ اور اس لیے ہم وضاحت کر سکتے ہیں کہ یہ کیسے ایک دوسرے سے ایک خاص انداز میں ملتے جلتے ہیں۔
اس سلسلے میں میری خاص دل چسپی ذہن کی اندرونی صلاحیتوں میں ہے۔ اور آپ کی دل چسپی جیسے آپ کہتے ہیں ایک خاص معاشی اور معاشرتی انتظام میں ہے۔
فوکو: لیکن مجھے یقین ہے کہ فرق ہم دونوں کے کردار سے متعلق نہیں ہے کیوں کہ ایسے تو اس لمحے مسٹر ایلڈرز صحیح ثابت ہوں گے اور ہمیں انھیں صیحیح نہیں ثابت ہونے دینا۔
چومسکی: نہیں، میں متفق ہوں۔ اور …
فوکو: فرق تو حالات، علوم اور جاننے کے عمل کا ہے جس میں ہم کام کر رہے ہیں۔ لسانیات جن سے آپ شناسا ہیں اور جن میں آپ تغیر لائے ہیں، لسانیات نے خَلّاق فاعل کی، خَلّاق بولنے والے فاعل کی اہمیت بے دخل کر دی۔
دوسری طرف سائنس کی اس تاریخ نے جو میری نسل کے لوگوں کے کام کے آغاز میں موجود تھی، اس تاریخ نے انفرادی خلّاقی کو بہت اونچا مرتبہ دے دیا۔
چومسکی: ہاں ناں۔
فوکو: اور اجتماعی قواعد پرے رکھ دیے۔
چومسکی: جی، جی
سوال: اے …
ایلڈرز: جی جی، بات کرتے جائیے۔
سوال: یہ آپ کی گفتگو کے پچھلے حصے کے بارے میں ہے، لیکن مسٹر چومسکی جو میں جاننا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آپ ایک بنیادی نظام فرض کرتے ہیں جو ضرور ان ابتدائی حدود بندیوں کا ہے جو، جسے آپ انسانی فطرت کہتے ہیں، میں موجود ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ (ابتدائی حدود بندیاں) کس حد تک تاریخی تبدیلیوں کے تحت ہوتی ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں، مثال کے طور پر یوں کہتے ہیں کہ سترہویں صدی سے یہ موادی طور پر بہت تبدیل ہو گئی ہیں؟ اس کیس میں آپ شاید یہ سب مسٹر فوکو کے خیالات سے بھی جوڑ سکتے ہیں؟
چومسکی: خوب، میرے خیال میں یہ حیاتیاتی اور انسانی معاشرتی حقیقت کا معاملہ ہے۔ انسانی ذہانت کی فطرت موادی طور پر زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ہے، کم اَز کم سترہویں صدی سے یا شاید کرومیگنن انسان (آخری برفانی عہد کا قدیم انسان) کے زمانے سے۔
ایسا ہے کہ میرے خیال میں ہماری ذہانت کے بنیادی اجزاء، وہ اجزاء جو ہماری آج رات کی گفتگو کی مملکت (موضوع) میں شامل ہیں، وہ اجزاء تو یقیناً بہت قدیم ہیں۔
اگر آپ پانچ ہزار، یا شاید بیس ہزار سال پہلے کا کوئی شخص لے کر موجودہ معاشرے میں بچے کی حیثیت سے شامل کر لیتے تو وہ سب کچھ سیکھ لیتا جو ہر کوئی سیکھتا، وہ فطین ہوتا، یا احمق، یا کچھ اور لیکن بنیادی طور پر مختلف نہ ہوتا۔
لیکن بے شک حاصل کردہ علم کا لیول بدلتا ہے، معاشرتی حالات بدلتے ہیں، وہ حالات جو کسی شخص کو آزادی سے سوچنے کی اجازت دیتے ہیں، اور یوں کہہ لیتے ہیں اوہامی جکڑ کے بندھن توڑنے کی اجازت دیتے ہیں۔
یہ حالات بدلتے ہیں تو انسانی ذہانت تخلیق کی نئی شکلوں کی جانب ترقی کرے گی۔ اگر شاید مجھے ایک آدھ لفظ کہنے کی اجازت ہو تو میں کہوں گا کہ در حقیقت اس کے ناتے اس سوال سے ملتے ہیں جو مسٹر ایلڈر نے پیش کیا ہے۔
رفتاری سائنس کو لے لیں اور اس سیاق و سباق میں اس کے بارے میں غور کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ رفتار پسندی (رویہ پسندی، دونوں کو استعمال کر رہے ہیں لیکن اچھے ترجمے کی گنجائش ہے) کا اساسی جزو جس کی طرف ایک طرح سے ایک بے ڈھب سی اصطلاح رفتاری سائنس اشارہ کرتی ہے سائنسی تھئیری کی افزائش کے امکان کی نفی ہے۔
ایسا ہے کہ جو چیز رفتار پسندی کی تعریف کرتی ہے وہ یہ عجب اور خود برباد مفروضہ ہے کہ آپ کو ایک دل چسپ تھئیری تخلیق کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مثلاً، اگر فزکس یہ مفروضہ قائم کر لیتی ہے کہ آپ کو وضاحتی حقائق اور ان کے انتظام اور اس جیسی چیزوں تک ہی خود کو رکھنا ہے تو ہم ابھی تک بابلی فلکیات ہی میں مصروفِ کار ہوتے۔
خوش قسمتی سے فزکس نے یہ باہرلا اور بے ہودہ مفروضہ قائم نہیں کیا جس کے اپنے تاریخی اسباب ہیں، اور جن کا تعلق تاریخی سیاق و سباق کے ہر طرح کے حقائق سے ہے جس میں رفتار پسندی کا ارتقاء ہوا۔
خالص دانش ورانہ انداز میں اس پر نگاہ کریں تو رفتار پسندی (رویہ پسندی) صوابدیدی اصرار ہے کہ کسی کو انسانی رویوں کی سائنسی تِھئیری تخلیق نہیں کرنی چاہیے، بَل کہ کسی کو صرف وضاحتی حقائق اور ان کے آپسی رشتے سے ہی معاملہ کرنا چاہیے۔ اور جو کسی اور علاقے (موضوع، مضمون)میں بالکل ہی نا ممکن ہو اس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ میں فرض کرتا ہوں انسانی رویہ اور انسانی ذہانت کا علاقہ (موضوع) بھی اس نا ممکن کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس لیے اس سینس میں نہیں سمجھتا کہ رفتار پسندی ایک سائنس ہے۔
جس بات کا آپ نے ذکر کیا اور جس پر مسٹر فوکو سخن فرما ہیں، اس کا ایک کیس پیش کرتا ہوں۔ کچھ خاص تاریخی حالات میں، مثلاً جن حالات میں تجربی نفسیات کی ترقی ہوئی، کسی وجہ سے جس کے بارے میں بات نہیں کروں گا، جس قسم کی سائنسی تِھئیری کی تعمیر کی اجازت تھی اس پر عجیب سی حد بندیاں نافذ کرنا دل چسپ تھا، اور شاید اہم بھی۔
ان حد بندیوں کو رفتار پسندی کہا جاتا ہے۔ خوب، میرے خیال میں وہ رستہ تو کب کا طے ہو چکا۔ 1880 سنہ میں اس کی جو بھی قدر ہو آج اس کا سوائے سائنسی تحقیق کو محدود کرنے اور جکڑنے کے کوئی فنکشن نہیں ہے۔
اس لیے اس سے اسی طرح چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے جس طرح اس طبعیاتی سے حاصل کر لیا تھا جو یہ کہتا تھا کہ آپ کو ایک عمومی طبیعاتی تھئیری کو ترقی دینے کی اجازت نہیں ہے، آپ کو محض سیاروں کی حرکت منظم کرنے کی اجازت ہے، اور مزید ایپی سائیکلز (ایک چھوٹا دائرہ جس کا مرکز اپنے سے بڑے دائرے کے مِحوَر کے ارد گرد گھومتا ہے) بنانے کی اجازت ہے، وغیرہ وغیرہ۔
کوئی اسے فراموش کرتے ہوئے پرے رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح ان غیر معمولی سی رکاوٹوں کو بھی پرے رکھ دینا چاہیے جو رفتار پسندی کی تعریف کرتی ہیں۔ جیسے میں نے پہلے کہا ہے، یہ اصطلاح رفتاری سائنس ہی ان رکاوٹوں کا عندِیہ دینے لگتی ہے۔
ہم شاید اس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ کسی وسیع تناظر میں رفتار، یا رویے پر انسانی سائنس کی معلومات مشتمل ہیں لیکن کسی سائنس کی تعریف اس کی معلومات پر کرنا طبعیات کی تعریف بَہ طور میٹر ریڈنگ کی تھئیری کے مترادف ہو گا۔
اگر طبعیاتی یہ کہنے لگے کہ ہاں میں میٹر ریڈنگ کی سائنس میں involve ہوں تو ہمیں یقین سا ہو جائے گا کہ یہ کچھ زیادہ دور نہیں جانے والا۔
ایسے لوگ میٹر ریڈنگ اور اپنے اور ان چیزوں کے درمیان رشتوں کی باتیں تو شاید کرتے رہیں، لیکن وہ طبیعاتی تھئیری نہیں تخلیق کر پائیں گے۔ اس کیس میں اس اصطلاح سے ہی بیماری کی علامتیں جھلکتی ہیں۔
ہمیں اس تاریخی سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جن میں ان غیر معمولی رکاوٹوں، روکوں اور پا بندیوں کی ترتیب ہوئی۔ اور سمجھنے کے بعد، میرا ماننا ہے، انھیں پرے پھینک دینا چاہیے۔ اور انسانی سائنس کی طرف ایسے بڑھنا چاہیے جیسے ہم کسی اور علاقے، موضوع اور مضمون کی طرف بڑھتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ رفتار پسندی (رویہ پسندی) کو پرے پھینکتے ہوئے، بَل کہ در حقیقت میرے خیال میں تجربیت کی پوری روایت کو پرے پھینکتے ہوئے بڑھنا چاہیے جس سے اس (رفتار پسندی) کا ارتقاء ہوا۔