انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط نہم)
ترجمہ، نصیر احمد
چومسکی: بے شک میں اس سے اتفاق کروں گا نہ صرف نظریے میں، بل کہ عمل میں بھی۔ ایسا ہے کہ خِرد کے دو فریضے ہیں، ایک جس پر میں بات کر رہا تھا وہ یہ ہے کہ فردا میں ایک منصف معاشرے کے لیے رُویا کی تخلیق کی کوشش کرنا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ایسی انسان دوست سماجی تِھیئری تخلیق کرنا جو، اگر ممکن ہو تو، انسانی فطرت یا انسانی وصف لازم کے انسان دوست اور پختہ تصور پر مبنی ہو۔ تو یہ ایک فریضہ ہوا۔
دوسرا فریضہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے معاشرے میں بربادی، جبر، دہشت اور طاقت کی فطرت واضح طور پر سمجھنا۔ اس میں یقیناً وہ ادارے شامل ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا اور ان کے ساتھ کسی بھی صنعتی معاشرے کے مرکزی ادارے جیسے معاشی، کاروباری، اور مالیاتی ادارے شامل ہیں، خصوصی طور پر آئندہ زمانوں کی ملٹی نیشنل کارپوریشنز جو اب ہم سے جسمانی طور پر زیادہ دور نہیں ہیں (فلپ ایٹ آئینڈوون، وغیرہ۔)
یہ کچھ بھی کہتے رہیں، یہ استبداد، جور و جفا اور جبر کے بنیادی ادارے ہیں جو غیر جانب دار دکھائی دیتے ہیں۔ تو، ہم بازار کی جمہوریت کے ما تحت ہیں، اور یہ بات ان کی جابرانہ طاقت کی اصطلاحوں میں پوری طرح سمجھنا ضروری ہے، جابرانہ قبضے کی اس خاص شکل سمیت جو ایک عدم مساواتی معاشرے میں مارکیٹ کی قوتوں کے غلبے سے پھوٹتی ہے۔
بے شک ہمیں یہ حقائق سمجھنے چاہییں، نہ صرف سمجھنے چاہیں، بل کہ ان سے زور آزمائی بھی کرنی چاہیے۔ در حقیقت کسی کی جتنی بھی سیاسی دل چسپیاں ہیں جن میں کوئی اپنی توانائی اور تگ و تاز صرف کرتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہی وہ شعبہ ہے جس میں اسے ہونا چاہیے۔ میں نجی معاملوں میں دخل نہیں دینا چاہتا لیکن میری دل چسپییاں تو یقیناً اسی شعبے میں ہیں اور میں فرض کرتا ہوں کہ ہر کسی کی ہیں۔
پھر بھی میں سوچتا ہوں اس تصوراتی اور فلسفیانہ فریضے کو مکمل طور پر پرے رکھ دینا اک ننگِ عظیم ہو گا جو انسانی فطرت کے اس تصور کے درمیان ربط کشی کی کوشش کرتا ہے جو تصور انسانی آزادی، شرف، خَلّاقی اور دیگر انسانی بنیادی خصوصیات کو پوری وسعت دیتا ہے اور یہ فلسفیانہ فریضہ اس تصور کو سماجی ساخت کے کسی نظریے سے بھی متعلق کرتا ہے جس میں ان خصائص کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور جس میں ایک معنی انگیز انسانی زندگی کی جگہ بن سکتی ہے۔
اور در حقیقت، اگر ہم سماجی تبدیلی اور سماجی انقلاب کے بارے میں سوچ رہے ہیں، یقیناً جس مقصد تک پہنچنے کی ہم امید کر رہے ہیں، اس کا ایک تفصیلی خاکہ کھینچنے کی کوشش تو ایک واہیات بات ہو گی لیکن ہمیں اس بارے میں کچھ تو جاننا چاہیے جہاں ہم سوچتے ہیں ہم جا رہے ہیں۔ اور ایسی کوئی تِھیئری ہمیں شاید بتا دے۔
فوکو: ہاں ناں، لیکن یہاں کچھ خطرہ نہیں ہے کیا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ایک خاص انسانی فطرت موجود ہے اور ایک حقیقی معاشرے میں اس انسانی فطرت کو ایسے حقوق اور امکانات نہیں دیے گئے جن کی مدد سے یہ فطرت اپنے آپ کا ادراک کر لے۔ مجھے یقین ہے یہی کچھ واقعی آپ نے کہا ہے۔
چومسکی: جی ہاں …
فوکو: اگر اسے کوئی مان لے، تو کیا اسے انسانی فطرت کی ایک ایسی تعریف کرنے کا خطرہ نہیں در پیش آ جاتا ہے، جو ہماری ثقافت، ہماری تہذیب اور ہمارے معاشرے سے مستعار شدہ اصطلاحوں میں ایک ہی سمے تصوراتی بھی ہے اور حقیقی بھی اور اب تک خُفتہ اور مجبور رکھی گئی ہے۔
میں اس بات کو بہت ہی زیادہ سادہ بناتے ہوئے ایک مثال پیش کروں گا۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ایک خاص قسم کے سوشلزم نے اس بات کا در حقیقت اعتراف کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے معاشروں میں انسان نے اپنی ترقی اور ادراکِ نفس کے پورے امکانات حاصل نہیں کیے تھے۔
یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی فطرت در اصل بے گانی کر دی گئی تھی۔ اور اس سوشلزم نے ایک آخرِ کار آزاد انسانی فطرت کا سپنا دیکھا تھا۔
انسانی فطرت کو تصور میں لانے، اس کی عکاسی کرنے اور اس کا ادراک کرنے کے لیے اس سوشلزم نے کون سا ماڈل استعمال کیا؟ وہ تو در حقیقت ایک بورژوا ماڈل تھا۔
اس ماڈل کے مطابق ایک بے گانہ معاشرہ ایسا معاشرہ تھا جو، مثال کے طور پر، مقامِ فخر سب کے فائدے کے لیے دیتا تھا، بورژوا ٹائپ کی جنسیت کو دیتا تھا، بورژوا ٹائپ کے کنبے کو دیتا تھا، اور بورژوا ٹائپ کی جمالیات کو دیتا تھا۔
علاوہ ازیں یہ بھی ایک بہت سچی بات ہے کہ یہ سب سوویت یونین اور پاپولر جمہوریتوں میں ہوا تھا۔ ایک قسم کے معاشرے کی نئی تشکیل کر دی گئی تھی جس کی انیسویں صدی کے بورژوا معاشرے سے نقالی کی گئی تھی۔ بورژوا ماڈل کی آفاقیت ایک ایسا یوٹوپیا تھی جس نے سوویت یونین کے آئین میں زندگی رواں کی ہوئی تھی۔
نتیجہ جس کا آپ نے بھی احساس کر لیا ہے یہ بنتا ہے کہ میرے خیال میں بَہ عینہٖ یہ کہنا مشکل ہے کہ انسانی فطرت ہے کیا۔
اس بات کا خطرہ نہیں ہے کیا کہ ہم لغزشوں میں پڑ جائیں گے؟ ماؤزے تنگ نے بورژوا انسانی فطرت کی بات کی تھی اور پرولتاری انسانی فطرت کی بات کی تھی اور وہ سمجھتے ہیں دونوں ایک شے نہیں ہیں۔
چومسکی: خوب، دیکھ لیجیے، کارِ سیاسی کی دانش ورانہ عمل داری میں، یہ عمل داری ہے ایک منصف اور آزاد معاشرے کے رُویا کی تعمیر کی کوشش کی، ہمیں وہی مسئلہ در پیش ہے جس کا سامنا ہم فوری سیاسی کار میں کرتے ہیں؛ یعنی، کچھ کرنے پر مجبور کیا جانا چُوں کہ مسائل بہت بڑے ہوتے ہیں۔ اور پھر بھی اس بات کی جان کاری کہ جو بھی ہم کریں گے اس کی بنیاد معاشرتی حقیقتوں کی بہت ہی جزوی تفہیم پر ہو گی اور اس کیس میں انسانی حقیقتوں کی بہت ہی جُزوی تفہیم پر۔
مثلاً، اب پکی بات کرتا ہوں، میری بہت ساری سرگرمیاں جنگِ ویت نام سے متعلق ہیں۔ اور کچھ میری توانائی سول نا فرمانی میں خرچ ہوتی ہے۔ اچھا تو ریاست ہائے متحدہ میں سول نا فرمانی ایک ایسا فعل ہے جو اس کے نتائج کے بارے میں بہت ساری بے یقینی کو دھیان میں رکھتے ہوئے شروع کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ سماجی نظم کے لیے کچھ ایسی طرحوں میں خطرہ بن جاتا ہے جو کوئی کہہ سکتا ہے کہ فاشزم لانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اور یہ امریکہ کے لیے، ویت نام کے لیے، ہالینڈ کے لیے اور ہر کسی کے لیے بہت ہی بری بات ہو گی۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر امریکہ جیسا عِفریتِ ننگ فاشسٹ بنتا ہے، تو بہت سارے مسئلے جنمیں گے۔ اور سول نا فرمانی جیسا مضبوط عمل کرنے میں ایک خطرہ یہ بھی ہے۔
دوسری طرف اسے نہ شروع کرنے میں بھی ایک زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اگر آپ اسے نہیں شروع کرتے تو امریکی طاقت ہند۔چینی معاشرہ پرزہ پرزہ کر دے گی۔ ان بے یقینیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کو کوئی راہِ عمل چننی پڑتی ہے۔
اچھا، تو اسی طرح دانش ورانہ عمل داری میں کسی کو ان بے یقینیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے، جن کے بھاؤ آپ دکھاتے ہیں۔
یقیناً ہمارا انسانی فطرت کا تصور محدود ہے۔ یہ جزواً معاشرتی طور پر مشروط ہے اور جس میں ہم موجود ہیں اس دانش ورانہ کلچر کی حد بندیوں اور ہمارے کردار کے نقائص میں جکڑا ہے۔
لیکن اسی وقت اس بات کی فیصلہ کن اہمیت بھی ہے ہم ان نا ممکن مقاصد سے آگاہ ہیں جو حاصل کرنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں، اگر ہمیں ان مقاصد کے حصول کی تھوڑی امید ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اتنا بہادر تو بننا ہی ہو گا کہ کچھ ظن و تخمین کریں اور اور جُزوی معلومات کی بنیاد پر سماجی تِھیئری تخلیق کریں، اور اس توانا امکان کے لیے، در حقیقت توانا تر امکان کے لیے دروازے کھلے رکھیں کہ کم از کم کچھ حوالوں سے مقصد سے ہم دور ہو سکتے ہیں۔
ایلڈرز: خوب، شاید حکمتِ عملی کے مسئلے میں ذرا اور گہرائی میں جانا کافی دل چسپ ہو گا۔ میرے اندازے میں آپ جسے سول نا فرمانی کہتے ہیں شاید وہی ہے جسے ہم مقننہ سے ما وَراء عمل کہتے ہیں؟
چومسکی: نہیں، میرے خیال میں یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ما وَرائے مقننہ عمل میں ایک قانونی عوامی مظاہرہ شامل ہو گا لیکن سول نا فرمانی ما وَرائے مقننہ عمل سے تنگ تر ہے۔ اس کے معنی اس بات کی سیدھی سیدھی خلاف ورزی کے ہیں جسے میرے خیال میں غلط طور پر ریاست قانون کہتی ہے۔
ایلدڑز: تو مثال کے طور پر ہمارے پاس ہالینڈ کے کیس میں مردم شماری ہے۔ ایک فرد کی یہ ذمے داری ہے کہ سرکاری فارموں پر درج سوالوں کے جوابات دے۔ تو کیا آپ اسے سول نا فرمانی کہیں گے اگر کوئی یہ فارم پُر کرنے سے انکار کر دیتا ہے؟
چومسکی: جی ہاں، میں اس بارے میں ذرا محتاط رہوں گا۔ مسٹر فُوکو کے ایک اہم نُکتے کی طرف واپس جاتے ہوئے کہ کسی پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ضرور ہی ریاست کو یہ طے کرنے دے کہ قانونی کیا ہوتا ہے۔ ریاست کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی خاص تصور جسے وہ قانونی گردانتی ہے کا نفاذ کرے۔ طاقت کے معنی انصاف اور درستی کے نہیں ہوتے۔ ہو سکتا ہے ریاست کسی چیز کو سول نا فرمانی قرار دے مگر یہ کرنے میں درست نہ ہو۔
مثلاً ریاست ہائے متحدہ میں ریاست اسلحہ بھری اس ٹرین کو جو ویت نام جا رہی ہے، اسے پٹڑی سے اتارنے کو سول نا فرمانی کہتی ہے۔ لیکن ریاست اسے سول نا فرمانی قرار دینے میں غلط ہے کیوں کہ ایسا کرنا (اسلحے کی ٹرین کو پٹڑی سے اتارنا) مناسب اور قانونی ہے اور ایسے ہی کرنا چاہیے۔ ایسے کارنامے سر انجام دینا ضروری ہے جو ریاست کو غیر قانونی کام کرنے سے روکیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی قتل روکنے کے لیے ٹریفک کے کسی قانون کو توڑنا مناسب ہے۔
اگر میں نے اپنی کار ٹریفک کی سرخ بتی کے سامنے روک دی تھی لیکن پھر میں سگنل توڑتا ہوا اپنی کار بڑھا لے گیا تا کہ کسی کو کچھ لوگوں پر مشین گن کے فائر کرنے سے روک سکوں تو بے شک میرا وہ فعل غیر قانونی نہیں ہے۔ وہ تو جائز اور ضروری فعل ہے۔ ہوش میں تو کوئی جج مجھے اس طرح کے فعل کی سزا نہیں دے گا۔
اسی طرح بہت کچھ جسے سرکاری مجاز افسران سول نا فرمانی قرار دیتی ہیں سول نا فرمانی نہیں ہوتا۔ در حقیقت یہ ریاست کے حکم کی خلاف ورزی کرتے قانونی اور فرض میں بندھے رویے ہوتے ہیں چاہے ریاست کا حکم قانونی ہو یا غیر قانونی۔
تو میرے خیال میں کسی کو چیزوں کو غیر قانونی کہنے میں ذرا احتیاط کرنی چاہیے۔