”چوروں لٹیروں“ پر مشتمل پارلیمان
از، نصرت جاوید
سفارت کاری بھی خوب کلا کاری ہے۔ اس دھندے میں پنجابی محاورے والی ”سجی“ دکھا کر ”کھبی“ ماری جاتی ہے۔ معاملات کو دو جمع دو مساوی چار کے کلیے کی مدد سے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچنے کے بعد سے محسوس یہ ہورہا تھا کہ ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں طویل مذاکرات کے ذریعے اوبامہ نے جو معاہدہ کیا تھا وہ برقرار نہیں رہ پائے گا۔ اپنے عہدہ سنبھالتے ہی ٹرمپ نے سعودی عرب کا ایک بھرپور دورہ کیا۔ وہاں جمع ہوئے مسلم حکمرانوں کو لیکچر دیا کہ انہیں اپنے دین کو ”دہشت گردوں“ کے ذریعے پھیلی تشریح سے کیسے بچانا ہے۔اس دورے کے اختتام پر وہ حالیہ تاریخ میں پہلی بار سعودی فضا سے براہِ راست اسرائیل پہنچا۔ دیوارِ گریہ کے روبرو کھڑے ہوکر یہودیوں سے مختص ٹوپی پہن کر دعائیں مانگیں اور امریکہ روانہ ہوگیا۔
اسرائیل خود کو ایران کا ازلی دشمن قرار دیتا ہے۔ اس کا وزیر اعظم ہر دوسرے روز ایران کے ایٹمی پروگرام کو عالمی امن کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے اسے تباہ کرنے کی دھمکی دیتا رہتا ہے۔ ٹرمپ نے اسے خوش رکھنے کے لیے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس فیصلے کی مذمت کے لیے ایک قرار داد پاس کرنا چاہی تو اس کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں میں بھارت بھی شامل تھا۔ اس ووٹ کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم چند ہفتے قبل ہی بھارت کے پنج روزہ دورے میں مصروف نظر آیا۔اس دورے کی وجہ سے بھارت اور اسرائیل ایک دوسرے کے معاشی اور دفاعی حلیف بن چکے ہیں۔
نیتن یاہو کے بھارت سے لوٹنے کے چند روز بعد ہی مگر نریندر مودی فلسطین حکومت کے زیر نگین علاقوں میں چلا گیا۔ وہاں سے براہِ راست پرواز کے ذریعے ایران کے دفاعی حوالے سے اہم ترین ہمسایے عمان پہنچا۔ اس ملک میں ایک بحری اڈے کو اب بھارت کی ضروریات(جن میں دفاعی سہولتیں بھی شامل ہیں) پورا کرنے کے لیے مختص کیے جانے کی بات ہورہی ہے۔ ایران اس خبر کے بارے میں لیکن مضطرب نہیں ہوا۔اس کے صدر روحانی گزشتہ ہفتے بلکہ بھارت کے دورے میں مصروف نظر آئے۔
اس دورے کا آغاز ایرانی صدر نے جنوبی بھارت کے تاریخی شہر حیدر آباد (دکن) سے کیا۔ اس شہر میں ایرانی قونصل خانہ کئی برسوں سے بہت متحرک ہے۔ہمارے ہاں لوگوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ اورنگ زیب کے حیدر آباد آنے سے قبل جنوبی بھارت کے اس خطے پر جو خاندان دو سال سے حکومت کررہا تھا اس کا آبائی تعلق ایران سے تھا۔ ایرانیوں کو مرغوب بینگن کو حیدر آباد میں بھگارے اور کھٹے بینگن بنادیا گیا تھا۔ حیدر آبادی بریانی میں زعفرانی رنگ بھی ایرانی ثقافت کا حصہ تھا۔ ایرانی صدرنے حیدر آباد کی تاریخی مکی مسجد میں سنی مسلک کے ہجوم کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ علامتی طورپر ا یرانی صدر کی حیدر آباد دکن میں موجودگی نے کئی اہم پیغامات دیے۔
پاکستان کے لیے اہم ترین بات مگر یہ ہے کہ ایرانی صدر کے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران ہمارے گوادر کے بہت ہی قریب چاہ بہار کی بندرگاہ کو ڈیڑھ سال کے لیے مکمل طورپر بھارت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ بھارت اس شہر سے افغانستان تک ریل کے ذریعے پہنچنے کا بندوبست کرنے میں سرمایہ کاری بھی کرے گا۔ اس بندوست کا اصل ہدف سمندر سے کٹے افغانستان کو اپنی درآمدات وبرآمدات کے لیے پاکستان پر مکمل انحصار سے محفوظ بنانا ہے۔متبادل راستے کا انتظام۔
پاکستان کی افغانستان سے باہمی تجارت کبھی سالانہ 3ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکی تھی۔ چاہ بہار کے ذریعے متعارف کروائے انتظامات کی بدولت اب یہ 700 ملین تک گرچکی ہے۔ پاکستان کو مگر افغانستان کا ”ماما“ شمار کیا جاتا ہے۔ آئے دن امریکہ سے اس ملک کے تناظر میں ہم سے do more کا تقاضا ہوتا ہے۔ سفارت کاری میں اصل leverage مگر کسی ملک پر اقتصادی اثر کے تناظر میں استوار ہوتا ہے اور افغانستان میں ہمارا معاشی اثر تیزی سے سکڑرہا ہے۔ بھارت اور ایران اس تناظر میں یکسو ہوکر اسے ایک متبادل راہ دکھارہے ہیں۔
گزشتہ سال اگست میں ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں جو ”نئی“ پالیسی بنائی تھی اس میں واضح طورپر بھارت سے ”درخواست“ ہوئی کہ وہ افغانستان کو اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے ”مستحکم“بنائے۔ 2018 کے آغازمیں امریکہ نے اپنی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا تو اس میں واشگاف الفاظ میں یہ ا علان بھی ہوا کہ امریکہ بھارت کوبرما سے چین کے جنوب تک پھیلے بحر ہند میں ”رہ نما“ کا کردار ادا کرتے دیکھنا چاہ رہا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا اس حوالے سے بھارت کے سہولت کار بننے کو ہر صورت آمادہ ہیں۔ افغانستان بھی کئی حوالوں سے امریکہ نے بھارت کو out Source کردیا ہے۔
geo-strategic حقائق کا جو نقشہ میں نے مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس میں ”عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت“ کہاں کھڑی ہے۔ اس سوال کا جواب میرے پاس میسر نہیں۔ محض CPEC کا ذکر ہے۔ اس کے لیے ان دنوں نومن تیل جمع کیا جارہا ہے۔وہ جمع ہوگیا تو رادھاکو ناچتا بھی دیکھ لیں گے۔ فی الوقت توسعودی عرب کو ہماری ضرورت ہے۔ یمن میں خانہ جنگی جاری ہے۔وہاں کا ہر پانچواں بچہ ہیضے کی وباءکا شکار ہوکر مررہا ہے۔ مسلسل بمباری سے تاریخی یمن کھنڈروں میں تبدیل ہورہا ہے۔ عالم اسلام کے دُکھ میں مبتلا ہوکر ہماری ٹی وی سکرینوں پر مسلسل آہ وزاری میں مصروف سیاپا فروشوں کو مگر اس ملک کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ فریاد البتہ یہ شروع ہوگئی ہے کہ ہماری منتخب پارلیمان کی ”اجازت“کے بغیر پاک فوج کے چند دستے سعودی عرب کیوں چلے گئے۔
خارجہ پالیسی کے معاملات پر ”پارلیمان کی بالادستی“ پر اصرار کرنے والے ہمارے منافق سیاست دان جانے کیوں 2014میں دیا دھرنا یاد نہیں کرتے جس کی بدولت ہماری پارلیمان کو ”دھاندلی زدہ انتخابات“ کے ذریعے قوم کے سرپر مسلط ہوئے ”چور اور لٹیروں“ کا نمائندہ ٹھہرا دیا گیا تھا۔
میری بہت ہی مہربان اور دفاعی امور کی پروفیسر ڈاکٹر شیریں مزاری کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ حال ہی میں لاہور کے مال روڈ پر ایک جلسہ ہوا تھا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مہا گرو اور راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر نے اس پارلیمان پر لعنت بھیجتے ہوئے وہاں سے استعفیٰ کا اعلان بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے قائد نے بقراطِ عصر کے جذبات کی اس جلسے میں بھرپور تائید کی۔ اس کے بعد پارلیمان کے اختیار کے بارے میں ان کی فکر مندی مجھے ہرگز جائز محسوس نہیں ہوتی۔
خارجہ پالیسی کے بارے میں حتمی فیصلے وہی دائمی ادارے کرتے چلے جائیں گے جو یہ فریضہ 80 کی دھائی سے سرانجام دیتے چلے آرہے ہیں۔”چوروں لٹیروں“ پر مشتمل پارلیمان اس ضمن میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں رہی اور اس پارلیمان کو کامل بے بسی تک تحریک انصاف ہی نے اپنی تاریخی جدوجہد کے ذریعے پہنچایا ہے۔
روزنامہ نوائے وقت