کراچی ، اے شہر بے مثل تو شاد و آباد رہے
از، ملک تنویر احمد
اس شہر نا پُرساں میں زندگی سسکتی تھی، موت کی چنگھاڑ ہر جانب سنائی دیتی تھی۔ خوف و دہشت کے ایسے پہرے تھے کہ ان کے حصار کو توڑنے میں دانتوں پسینہ آ جائے لیکن یہ حصار ٹوٹنے میں نہ آتے تھے۔
اس سیہ بخت شہر میں موت اس کے باسیوں کے تعاقب میں رہتی تھی۔ اس کے مرد و زن، جوان و پیر ہر ایک انجانے خوف کے سائے سے گھبرا کر شام ڈھلنے سے پہلے گھر کی پناہ گاہ میں پہنچنے کے لیے سرگرم رہتے۔
لیکن حالات ایسے آن پہنچے کہ گھر بھی محفوظ پناہ گاہ نہ رہے، خون آشام بلائیں گھر کی پناہ گاہ کو بھی زیر کر چکی تھیں۔ بازار، چوراہے اور چوک ان اندیشوں اور وسوسوں کے کالے بادلوں کے زیر سایہ تھے جن سے خون ریزی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی ایسی موسلادھار بارشیں برستی تھیں کہ وہ پورے کراچی کو جل تھل کر جاتی تھیں۔
ان خونی بارشوں سے چڑھنے والی طغیانیوں میں سالم انسانی لاشے، سر بریدہ لاشیں، مسخ شدہ چہروں والے مسلے ہوئے بدن، انسانی اعضاء چار سو تیرتے نظر آتے تھے لیکن ہر ایک اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کرنے پر مجبور تھا۔
اس شہر میں آتشیں اسلحے کی ایسی فراوانی تھی کہ گلی محلوں میں “لونڈے لپاڑے” انہیں ہاتھوں میں تھامے چھوٹے چھوٹے ڈان بن کر انسانی جانوں سے کھیلنے اور مال واملاک کو لوٹنے میں کوئی خوف و خطر محسوس نہ کرتے تھے، قانون کے ہاتھ اپاہج اور مفلوج تھے، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار مٹی کے مادھوؤں کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے بد امنی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے جرائم کا ارتکاب ہوتا دیکھتے لیکن ان کے تدارک سے قاصر تھے۔
دیار غیر سے ایک صدا ابھرتی پورے شہر پر سکوت طاری ہو جاتا۔ ایک حکم صادر ہوتا اس شہر کے بازاروں اور چوراہوں پر ویرانی اپنے بال کھولے کھڑی نظر آتی۔ تعصب میں ڈوبی ہوئی ایک چیخ ابھرتی، شہر میں لسانیت کا عفریت چارسو رقصاں ہوتا۔ مسلح جتھے ایک دوسرے سے یوں برسرپیکار ہوتے جیسے محاذ جنگ پر دو دشمن ممالک کی جنگیں ایک دوسرے سے سینگ ہھنساتی ہیں۔
اس شہر میں قبرستان آباد ہو رہے تھے میدان ویران ہو رہے تھے، پارکوں میں بربادیوں کے ڈیرے تھے توہسپتال انسانی آہ و سسکیوں سے گونج رہے تھے۔ یہ اس شہر کی کہانی تھی جسے کراچی کہتے ہیں۔مشرق کی ملکہ، عروس البلاد، روشنیوں کا شہر اور دوسرے کئی ناموں سے پہچان رکھنے والے شہر کراچی کا چہرہ تین دہائیوں تک آگ و خون میں جل کر اس طرح جھلس گیا کہ اس کے شاندار ماضی کا ایک نشان بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔
اس شہر کو برباد کرنے میں دیار غیر میں پروان چڑھنے والی سازشوں کو جہاں دوش تھا تو اس کے ساتھ ساتھ اس شہر کے نام نہاد سیاسی شراکت داروں نے بھی اس آگ کو بھڑکانے میں کچھ کم حصہ نہ ڈالا۔ ایم کیو ایم کے مسلح جتھے، لیاری گینگ وار، طالبان کے دہشت گرد عناصر ایسی تکون تھی جس کے شکنجے میں آکر شہر کراچی کا قریہ قریہ اور کونہ کونہ جل کر رہ گیا۔ ماضی کی۔
سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اس شہر میں امن وامان سے جو مجرمانہ غفلت برتی وہ ان کا ایسا جرم تھا جس کی قیمت اس حرماں نصیب شہر کے باسیوں کو اپنی جانوں کے ضیاع، مال واملاک کی تباہی و بربادی اور خوف و ہراس میں گزرے ایام کی صورت میں دینی پڑی۔ سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد جب ایک نئی سیاسی حکومت نے زمام کار سنبھالی تو ایک تباہ حال شہر کراچی ان کی نگاہ التفات کا منتظر تھا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت نے ستمبر 2013 میں کراچی میں جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے خلاف آپریشن کا ایک مستحسن اقدام اٹھایا جس نے شہر میں لاقانونیت اور بدامنی کے سیلاب کے سامنے بند باندھا۔ میاں نواز شریف سے سیاسی اختلاف کا ہر ایک کو حق ہے اور ان کی مبینہ کرپشن سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے کریڈٹ میں یہ کارنامہ بہرحال درج رہے گا کہ ان کی وفاقی حکومت نے کراچی میں امن و امان کی بحالی کا ایک دلیرانہ فیصلہ کیا جسے افواج پاکستان، پاکستان رینجرز اور سندھ حکومت کی مکمل تائید حاصل رہی۔
کراچی آپریشن کی کاروائیاں بھی بعض اوقات ہدف تنقید بنیں اور ماورائے عدالت مقابلوں کی شکایات بھی منظر عام پر اںھریں لیکن آپریشن اس کے باوجود جاری رہا جس نے شہر کراچی کو بڑی حد بدامنی اور دہشت گردی کے بڑے جرائم سے پاک کیا۔
اس امن کی بحالی کا نتیجہ ہے کہ آج کراچی پورے پاکستان میں مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے لیے کراچی کا انتخاب بلاشبہ اس شہر میں اس روز افزوں بہتری کی علامت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی تگ و پے میں استحکام کی توانائیاں شامل کررہا ہے۔ پی ایس ایل کے فائنل کا انعقاد بارش کے پہلے قطرے کی طرح ہے جس کی پیروی میں چھاجوں مینہ برس کر سوکھی اور ویرانی کھیتیوں کو ہریالی و شادابی کی بہاروں سے آشنا کرتا ہے۔
تاہم اس شہر کے رخسار کو مکمل طور پر سجانے کے لیے ابھی بھی بہت سے بھاری پتھر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس شہر میں بڑی حد تک امن تو بحال ہوگیا لیکن یہاں شہری زندگی جس طرح آ لام و مصائب کا شکار ہے وہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں۔
یہاں کے بسنے والے ہرروز ایک نئے عذاب سے گزرتے ہیں جس میں دن بدن گراوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ شہری سہولتوں کا فقدان اور حکومتی اداروں کی نااہلی اس وقت کراچی میں صوبائی و شہری حکومتوں کے لیے بدنامی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی پر بھی سوال ثبت کر رہی ہے۔
اس مسائل کے ساتھ ساتھ کراچی شہر کا انتخابی مینڈیٹ ایک ایسا ایشو ہے جو اس شہر کے باسیوں کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ کراچی کا انتخابی مینڈیٹ ہتھیانے کے لیے ماضی میں ہر نوع کے ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ تین عشروں سے ایک لسانی جماعت کو کراچی میں ہر جائز و ناجائز طریقے سے کراچی کا سیاسی وارث بنا کر پیش کیا گیا جس کے باعث دوسرے لسانی گروہ اس انتخابی نمائندگی سے رہے جو عددی اعتبار سے ان حق تھا۔
کراچی منی پاکستان اور کثیر اللسانی شہر ہے اس لیے کسی ایک لسانی گروہ کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعت کسی طور بھی پورے شہر کا حق نہیں رکھتی۔ ماضی میں دھونس، دھاندلی اور اسلحے کے بل بوتے پر بیلٹ بکس بھرنے کا دورلد چکا کیونکہ جن عسکری جتھوں کی بناء پر یہ کار روائیاں عمل میں لائی جاتی تھیں وہ قصہ پارینہ بن گئے۔ اگلے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک کھلا میدان ہو گا جہاں مسلح افراد لوگوں کو حق انتخاب سے محروم کرنے کے لیے سر گرم عمل نہ ہوں۔
کراچی کی روشنیوں کی بحالی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ خدا کرے تسلسل کے ساتھ جاری رہے تاکہ اس شہر کا کھویا ہوا شاندار ماضی اس کے تاباں مستقبل میں جھلکے۔