رانجھے کا جوگ بیراگ اور شہری اخلاقیات
از، نصیر احمد
جوگ بیراگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جان میکنزی کہتے ہیں:
جس مقصد کا حصول جوگ پیش کرتا ہے اس میں معاشرتی مثالیوں کی جگہ نہیں ہے۔
اسی بات کو بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں جوگ کا مقصد کرشماتی شَکتیوں کا حصول بن جاتا ہے، مکتی یا موکشا نہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ جوگ کو اس پیرائے میں دیکھا جائے تو یہ سماج دشمن کام بن جاتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے اس کی بہترین شکل میں ایک اچھے شہری اور دیانت دار پڑوسی کی زندگی موجود نہیں ہے، اور اس کی بد ترین شکل غیر اخلاقی فریب کاری کے دَر کھولتی ہے۔
ہمارے ہاں یہ ساری گفتگو ایڈورڈ سعید اور یورپی قبضہ گیری کے خلاف مسلسل گفتگو کے زیرِ اثر یک سر مسترد کرنے کا رجحان ہے، لیکن میکنزی جو کہہ رہے ہیں اس میں دَم تو ہے۔
ہیر وارث شاہ میں رانجھا بھی تو اک جوگی ہے۔ ہیر وارث شاہ میں موجود انسانی، شہری اور اخلاقی بحران کا ہم ایک مضمون میں جائزہ لے چکے ہیں۔
جوگی بننے سے پہلے یہ رانجھا بہت سارے حقوق کھو چکا ہے۔ زمین بھائی چھین چکے ہیں۔ کام، ہیر کا باپ ہیر سے عشق کے جرم میں چھین لیتا ہے۔ اور سارا معاشرہ مل کر ہیر چھین لیتا ہے۔ ہیر کے حصول کے لیے رانجھا جوگی بننے کا فیصلہ کرتا ہے۔
کسے ایسے گردیو دی ٹہل کریئے، سحر دسّ دے رنّ کھسکاونے دا
کہ کسی ایسے استادِ مکرم کی خدمت کرتے ہیں جو خاتون بھگانے کا جادو سکھا دے۔
اسے یہ استادِ مکرم مل بھی جاتے ہیں۔ پہلے تو سکھانے سے انکار کرتے ہیں۔ تپسیا کی مشکلیں بیان کرتے ہیں، لیکن عاشق چمٹا رہتا ہے تو لاچار ہو کر مہربان ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی مہربانی ان کے دیگر چیلوں میں ایک اخلاقی بحران پیدا کر دیتی ہے اور وہ گُرو جی کو طعنے دینے لگتے ہیں۔
ٹھرک منڈیاں دے لگّے جوگیاں نوں، مَتّاں جِنّھاں دیاں ربّ نے ماریاں نی
کہ جوگی جی تو نو جوان لڑکوں پر فریفتہ ہو گئے، خدا نے انھیں پگلا دیا ہے۔
لیکن جوگیوں کے حلقے میں تھوڑے سے ہنگامے کے بعد تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔
وڈی ماؤں برابر جاننی ہے، اتے بھین برابراں چھوٹڑی نوں
جتی ستی نمانیاں ہو رہیئے، ثابت رکھیئے ایس لنگوٹڑی نوں
کہ اپنے سے بڑی خواتین کا ماؤں جیسا احترام کرنا ہے اور اپنے سے چھوٹی خواتین کو بہنیں ہی سمجھنا ہے۔
رانجھا یہ سبق سیکھنے سے انکاری ہو جاتا ہے، اور جوگی جی اسے ترکِ دنیا اور ترکِ لذّات پر ایک لمبا سا لیکچر دیتے ہیں۔ لیکن رانجھا غمِ فراق اور شوقِ وصال پر ایک لمبی سی تقریر کرتا ہے تو جوگی جی ترک دنیا، موکشا، مکتی وغیرہ فراموش کرتے ہوئے اسے دعائیں دے دے کر اسے جوگ سکھا دیتے ہیں۔
رانجھا اب خوشی خوشی اپنی منزل، یعنی رنگ پور کھیڑیاں یعنی ہیر کے سسرال روانہ ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی گاؤں گاؤں ایک نئے من موہنے سے جوگی کی شہرت بھی ہونے لگتی ہے۔
ایک مقام پر اس کی کچھ چرواہوں سے ملاقات ہوتی ہے، اور چرواہے کچھ بوجھ لیتے ہیں کہ جوگی جی کس چکر میں ہیں۔
چرواہوں کو ویسے ہی بہت چالاک سمجھا جاتا ہے اور کبھی کبھی اس کے کچھ ثبوت بھی مل جاتے ہیں۔ بہ ہر حال، یہ چرواہے واقعی چالاک ہیں:
چور یار تے ٹھگ نہ رہن گُجّھے، کِتّھے چُھپدے آدمی کار دے جی
کہ چور، عاشق، ٹھگ دیگر طراروں کی طرح بھیس تو بناتے ہیں، لیکن دنیا دیکھی ہوئی نگاہیں انھیں پہچان ہی لیتی ہیں۔
یہاں پر جوگی جی موکشا، مکتی اور ترکِ دنیا، گیان دھیان، تپسیا وغیرہ ترک کر کے اپنی شناخت چھپانے کے لیے جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔
اور ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ جوگ صرف کچھ مہارتیں ہیں جو خود اذیتی کی اک تفصیلی تعلیم کے صلے میں مل جاتی ہیں۔ جس مکتبۂِ فکر سے جوگ زیادہ قریب ہے، یا جوگ جس سے نکلا ہے اس کے خدا پر یقین رکھنے حوالے سے شُبہات ہیں لیکن جوگ میں ایک ایشور موجود ہے۔
اس موجودگی کے با وجود جوگ کا اخلاقیات سے تعلق بہت ہی کم زور ہے۔ اگر رانجھے اور اس کے استادِ مکرم کا کریکٹر ڈھیلا ہے تو اس کی وجوہات موکشا اور مکتی کے اخلاقیات سے بودے سمبندھ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
بَہ طور جوگی ابھی تو رانجھے کے کَرِیئر کی شروعات ہیں۔ لیکن جوگ اور اخلاقیات کا بودا سمبندھ بار بار اجاگر ہوتا ہے کہ یہی زندگی تھی جس کی وارث شاہ نے بہت حسن سازی کی ہے اور جس سے وہ بہت وابستہ بھی ہیں۔ لیکن اگر وہ زندگی جاری رہتی ہے تو اس میں شہری اور دیانت دار ہمسائے کی واقعی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور غیر اخلاقی فریب کاری بھی فراواں ہو گی۔
… جاری ہے …