(پروفیسر شہباز علی)
اس گفتگو کے بعد مَیں نے کہا زہے نصیب ۔۔۔۔۔۔ زہے قسمت ، کہاں سورج اور کہاں چراغ۔ میں نے بیٹھک کا دروازہ کھول کر انھیں بٹھایا۔ میں نے کبھی سپنے میں بھی نہ سوچا تھا کہ برصغیر کا ایک تاریخ ساز غزل گائک بن بلائے میرے گھر پر آئے گا۔ ویسے میری یہ دیرینہ خواہش تھی کہ میں کبھی مہدی صاحب سے ملوں، اپنے سامنے ان کا گانا سنوں، ان کی گفتگو سنوں۔ خوش بختی سے میری یہ خواہش بغیر کوشش کے پوری ہو گئی۔
حسب دستور خاطر مدارات سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنا ہارمونیم اُٹھا لایا۔ اختر نے مہدی صاحب سے کہا ! آپ شہباز کو سُنیں اور اپنی رائے دیں کہ یہ کیسا گاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں نے مہدی صاحب سے اجازت لینے کے بعدراگ ’’ایمن‘‘ کا خیال اور ترانہ پیش کیا۔ مجھے سُننے کے بعد مہدی صاحب نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ کس اُستاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے عرض کیا قاضی ظہور الحق صاحب سے ۔۔۔۔۔۔ مہدی صاحب قاضی صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے، ان کا نام سنتے ہی ان کی تعریف کی اور مجھے کہا کہ شہباز میاں آپ موسیقی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں بس اندر داخل ہونا باقی ہے ۔۔۔۔۔۔ مہدی صاحب کا کہا ہوا یہ جملہ میرے لیے ایک اعزاز تھا ۔۔۔۔۔۔ اختر نے بات کاٹتے ہوئے کہا ! مہدی صاحب میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی شہباز کی رہنمائی کریں۔
مہدی صاحب نے کہا ! ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے لیے شہباز کو اپنے پہلے اُستاد سے اجازت لینا ہوگی، اگر انھوں نے اجازت دے دی تو میں بڑے شوق سے اس کی رہنمائی کروں گا‘‘۔ دوسری بات اس ضمن میں انھوں نے یہ کہی کہ ہمارا دستور ہے ہم کسی کو شاگرد کیے بغیر کچھ نہیں بتاتے، اس لیے اسے میری باقاعدہ شاگردی اختیار کرنا ہوگی۔ ان کی یہ بات سن کر میں شش و پنج میں مبتلا ہو گیا اور یہ سوچنے لگا کہ کہیں قاضی صاحب مجھے اپنی شاگردی سے خارج نہ کر دیں اور انھیں یہ بات ناگوار نہ گزرے کہ میں نے مہدی صاحب کی شاگردی کیوں اختیار کی۔
مہدی صاحب سے اگلے روز شام کی ملاقات طے ہونے کے بعد میں سیدھا قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں سارا ماجرا سنا ڈالا۔ ساری بات سننے کے بعد قاضی صاحب نے کمال خندہ پیشانی سے مجھے مہدی صاحب کو شاگرد کے طور پر نذر پیش کرنے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ اگر کوئی ایک لفظ بھی بتا دے تو اُسے اُستاد ماننا چاہیے اور ساری زندگی اُس کا احسان مند رہنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ علمِ موسیقی ایک سمندر ہے اور ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی فن کار کسی ایک اُستاد سے سب کچھ پا لے، بقول کسے:
ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است
قاضی صاحب کی یہ بات سن کر میری الجھن دور ہو گئی۔ دل میں ان کی اعلیٰ ظرفی اور انسانیت کا نقش اور بھی گہرا ہو گیا۔ معاصرانہ چشمک کے باعث اکثر موسیقاروں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کی عادت ہوتی ہے لیکن قاضی صاحب نے کبھی کسی فن کار کو حسد کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا بلکہ وہ ہمیشہ ہر چھوٹے بڑے فن کار کی قدر کرتے تھے۔
اگلے روز مہدی صاحب مقررہ وقت پر اختر کے ساتھ دوبارہ میرے گھر تشریف لائے اور چند خاص دوستوں کی موجودگی میں شاگردی کی رسم ادا ہوئی۔ اس کے بعد مہدی صاحب نے خود گا کر مجھے غزل گائکی کے حوالے سے بہت سی کارآمد باتیں بتائیں، سُر سادھنا کے بارے میں خاص توجہ کرنے کے لیے کہا۔ آکار اور الن کار کے متعلق بہت سی مفید باتیں بتائیں، ریاضت کا طریقہ کار بتایا۔ سبق کے بعد ہم سب کی فرمائش پر انھوں نے ایک دو غزلیں بھی پیش کیں اور مجھے اپنے ساتھ رابطہ رکھنے کی تاکید کی۔ اس تعلق کے بعد مہدی صاحب جتنے دن بھی پنڈی میں رہے، ان سے بلا ناغہ ملاقات ہوتی رہی اور مجھے اُن سے موسیقی کے بارے میں کوئی نہ کوئی اہم بات اور نکتہ پتا چلتا رہا۔ ۱۹۸۵ء میں مہدی صاحب جشن آزادی کے سلسلے میں ادارۂ ثقافتِ پاکستان کی منعقد کردہ محفل موسیقی میں شرکت کے لیے پنڈی تشریف لائے تو ان سے فلیش مین ہوٹل صدر میں ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا ’’خاں صاحب! میرا ہارمونیم بے سُرا ہو گیا ہے، مجھے بتائیں میں اسے کس سے سُر کراؤں‘‘۔ خاں صاحب نے لاہور کے ایک ہارمونیم میکر بُندو کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے سُر کراؤ، وہ اچھا سُر کرتا ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد انھوں نے مجھے کہا جاؤ اپنا ہارمونیم لے آؤ، میں تمھیں خُود سُر کر دیتا ہوں۔ مَیں تھوڑی ہی دیر میں اپنا ہارمونیم لے آیا۔ مہدی صاحب نے اسے بڑے اطمینان اور دل جمعی سے سُر کیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ میں اپنا ہارمونیم خود سُر کرتا ہوں، آپ بھی سُر کرنا سیکھیں تاکہ بہ وقتِ ضرورت آپ اپنا ہارمونیم خود سُر کر سکیں،اس طرح آپ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے۔
ایک بار پارک ہوٹل لیاقت باغ کے سامنے میری اچانک مہدی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ وہ ٹی۔ وی کمپوزر ایم ۔عبداللہ کے ساتھ اسلام آباد ٹیلی وژن کی ایک محفل موسیقی میں شرکت کے لیے آئے تھے اور مارگلہ ہوٹل اسلام آباد جا رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ مارگلہ ہوٹل چلا گیا۔ یہ ملاقات بہت مدت بعد ہوئی تھی، مہدی صاحب نے مجھ سے پوچھا آج کل کیا کر رہے ہو۔ میں نے بتایا ’’خاں صاحب! میں لیکچرر ہوں، گورڈن کالج میں پڑھاتا ہوں‘‘۔ سُن کر بہت خوش ہوئے، پھر انھوں نے موسیقی کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا! ’’خاں صاحب! آج کل ریاضت چھوڑ رکھی ہے‘‘۔ یہ سُن کر انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور ریاضت کرنے کی تلقین کی۔ مارگلہ ہوٹل کے کمرے میں ریہرسل کے دوران بہت سی غزلیں سُننے کو ملیں اور بہت دیر تک ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔ کچھ ہی دیر بعد ان کے ایک شاگرد اور میرے دیرینہ دوست سعید مہدی بھی آ گئے۔ سعید مہدی نے بڑے ادب سے اپنے اُستاد کے چرن چھوئے اور مٹھائی پیش کی۔
مہدی صاحب ایک درویش صفت انسان ہیں۔ اتنا نام، شہرت اور دولت ہونے کے باوجود ان میں تکبر نہیں۔ وہ ہر خاص و عام سے بڑی خندہ پیشانی اور محبت سے ملتے ہیں۔ ایک ایسا فن کار جسے انڈیا میں بھگوان کا درجہ ملا ہو اور جسے انڈیا کے تمام چھوٹے بڑے فن کار اپنے بڑے بڑے وزیروں اور صاحب اختیار لوگوں سے بڑا مقام دیتے ہوں اتنی فروتنی، انکسار اور عجز سے پیش آئے تو لامحالہ اس کی عظمت کی داد دینا پڑتی ہے ورنہ ذرا سی عزت ملنے پر ہمارے فن کاروں کا رویہ متکبرانہ ہو جاتا ہے اور وہ کسی سے ملنا اور بات تک کرنا پسند نہیں کرتے۔ درحقیقت شہرت اور دولت ملنے کے بعد انسان کے ظرف کا پتا چلتا ہے۔ شہرت ملنے کے باوجود اگر کوئی فن کار اپنا رویہ ہمدردانہ اور دوستانہ رکھتا ہے اور اپنے آپ کو عام انسانوں سے کوئی الگ مخلوق نہیں سمجھتا تو وہ یقیناًعظیم انسان ہے۔ مہدی صاحب میں بھی فنی اور شخصی دونوں عظمتیں پائی جاتی ہیں۔
راول پنڈی میں یوسف بٹ صاحب (لاہور ٹینٹ المعروف ڈھاڑی ٹینٹ سروس کے مالک) محمد اختر مرحوم اور ملک محبوب سب سے پہلے مہدی صاحب کے شاگرد ہوئے۔ ان کی شاگردی کی رسم بہت دھوم دھام سے ہوئی اور رسم کے بعد مہدی صاحب نے اپنی گائکی کے جوہر دکھائے۔ ان تینوں شاگردوں نے اس شاگردی میں انپے اُستادکو BSA موٹر سائیکل نذرکے طور پر پیش کی۔ اس نذر کا چرچا پورے پاکستان میں ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ سستے زمانے میں اتنی قیمتی موٹر سائیکل نذر کے طور پر پیش کرنا کسی عام شاگرد اور پرستار کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ موٹر سائیکل بطور نشانی آج بھی مہدی صاحب کے پاس موجود ہے۔
یوسف بٹ صاحب نے حکیم نبی داد خاں روڈ پر نیازی کباڑیے کی دکان کے ساتھ والی گلی میں مہدی صاحب کے قیام کا بندوبست کیا تھا۔ وہ زمانہ مہدی صاحب کی معاشی ابتری کا زمانہ تھا چنانچہ انھوں نے بٹ صاحب کو اپنے لیے ایک چائے کا ہوٹل کھولنے کو کہا۔ بٹ صاحب نے ڈی۔ اے۔ وی کالج روڈ پر سات سو روپے میں ایک دکان پگڑی پر لے کر مہدی صاحب کو ہوٹل کھول دیا لیکن مہدی صاحب کاروباری مزاج نہ رکھنے کے باعث یہ ہوٹل نہ چلا سکے اور چھے ماہ بعد اسے بیچ دیا گیا۔
مہدی صاحب نے لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے خیابان ہوٹل میں ریاضت کے لیے ایک کمرا کرائے پر لے رکھا تھا۔ ایک روز یوسف بٹ صاحب مہدی صاحب سے ملنے خیابان ہوٹل پہنچے تو وہ پی۔ آئی۔ اے کے پروگرام میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ اس پروگرام کے لیے انھوں نے پانچ سو روپے ایڈوانس بھی لے رکھا تھا لیکن بٹ صاحب کو دیکھتے ہی انھوں نے پروگرام کے منتظم سے اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی اور کہا کہ میرے بھائی پنڈی سے آ گئے ہیں اس لیے مَیں اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ بٹ صاحب نے انکار کی وجہ پوچھی تو مہدی صاحب نے جواب میں کہا کہ یوسف بھائی فنکشن میں ہمیں لوگوں کے مزاج اور ان کی فرمائش کے مطابق گانا پڑتا ہے مگر مَیں اس کمرے میں آپ کو اپنی مرضی کا گانا سُنانا چاہتا ہوں۔ بٹ صاحب نے مہدی صاحب سے کہا! آپ کیا غضب کر رہے ہیں، آپ کو پروگرام میں شرکت کرنا چاہیے، ویسے بھی آپ نے ایڈوانس لے رکھا ہے اور اس طرح بدعہدی کرنے سے آپ کی شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بٹ صاحب کے سمجھانے پر مہدی صاحب نے پروگرام میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ فنکشن میں شرکت سے انکار مہدی صاحب کی بٹ صاحب سے محبت کا اظہار تھا ورنہ بہت کم فن کار کسی دوست اور مرّبی کی خاطر پیسوں کی قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
۱۹۷۲ء میں یوسف بٹ صاحب نے اُستاد اللہ بخش حضروی مرحوم کے بچوں کے لیے لیاقت میموریل ہال میں امدادی پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس پروگرام کی دعوت دینے اور تاریخ لینے کے لیے بٹ صاحب لاہور میں مہدی صاحب سے ملے تو انھوں نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ بٹ صاحب آپ کو مجھ سے تاریخ لینے کی ضرورت نہیں، میں آپ کے پروگرام میں ننگے پاؤں شرکت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بٹ صاحب کی مشہور پنجابی فلم ’’جمعہ جنج نال‘‘ کا مقبول گیت ’’گھنڈ مکھڑے توں لاہ او یار‘‘ بھی مہدی صاحب نے بلا معاوضہ گایا تھا۔ بٹ صاحب نے جب بھی مہدی صاحب کو کسی محفلِ موسیقی میں بلایا تو انھوں نے اس میں بلا معاوضہ شرکت کی۔ مہدی صاحب کی نگاہ میں بٹ صاحب کا یہ مقام اس لیے تھا کہ بٹ صاحب نے پنڈی میں قیام کے دوران اپنے اُستاد اور دوست کی دِل و جان سے خدمت کی تھی اور ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ مہدی صاحب نے بھی احسان مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہر موقع پر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور دوستی نبھائی۔
مہدی صاحب ۱۹۳۵ء کو ہندوستان کی ریاست جے پور کے مشہور مقام جھنجھنوکے قریب شیخا والی کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباو اجداد مہاراجا نیپال، مہارانی سنگھائی، مہاراجا بڑودا اور مہاراجا اندور کی ریاستوں سے منسلک رہے۔ بقول ان کے مہاراجا نیپال کو ان کے دادا نے باقاعدہ طور پر شاگرد بنا کر موسیقی کی تعلیم بھی دی اور اس طرح ہندوستانی ریاستوں کے علاوہ بیرونی دُنیا میں بھی ان کے بزرگوں کو پذیرائی ملی۔
مہدی صاحب کے والد عظیم خاں ہندوستان کی بہت سی ریاستوں سے درباری گویّے کے طورپر منسلک رہے۔ ان کے چچا اُستاد اسماعیل خاں بھی موسیقار تھے اور ان کے والد کے ساتھ مل کر کلاسیکل گایا کرتے تھے۔ ان کا خاندان ہندوستان میں کلاونت خاندان کہلاتا تھا۔
مہدی صاحب نے پانچ چھے برس کی عمر میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق انھوں نے اپنے والد، چچا اور بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے سُر گیان کے اسباق سیکھے۔ والدہ کی وفات کے بعد ان کی اور ان کے بڑے بھائی کی پرورش ریاستوں کی مہارانیوں کے زیر سایہ ہوئی۔
موسیقی مہدی صاحب کا خاندانی پیشہ ہے اس لیے ان کے خاندان میں روایتی تعلیم کا رواج نہ تھا بلکہ بچپن ہی سے موسیقی کی تعلیم شروع کرا دی جاتی تھی۔ انھوں نے سکول اور کالج کی تعلیم تو حاصل نہ کی البتہ سنسکرت میٹرک کی سطح تک پڑھی اور اردو پاکستان میں آکر سیکھی۔
مہدی صاحب کے والد نے اپنے بیٹوں کو ریاست سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ ان کی دور اندیشی تھی۔ اُن کے والد کو خدشہ تھا کہ اگر ریاستیں نہ رہیں تو ان کے بچوں کے لیے روزگار کے مسائل پیدا ہو جائیں گے چنانچہ ریاستوں سے نکلنے کے بعد مہدی صاحب کی سب سے پہلی محفل فاضل کا بنگلا فیروز پور میں منعقد ہوئی۔ اُس وقت اُن کی عمر دس برس اور ان کے بڑے بھائی کی عمر پندرہ برس تھی۔ اس محفل میں دونوں بھائیوں نے خیال اور دھرپدگائے۔ فیروز پور کے بعد وہ لاہور آ گئے۔ لاہور میں انھوں نے شیرانوالہ گیٹ بنگلا ایوب شاہ میں قیام کیا۔ اپنے بے مثال فن، گائکی کی جداگانہ طرز، اسلوب اور قرینے کے باعث وہ بہت جلد لاہور میں مشہور ہو گئے۔ انھی دنوں مہدی صاحب نے لاہور کی مشہور فلم کمپنی شوری پکچرز میں پانچ چھے ماہ کے لیے ملازمت بھی کی۔
۱۹۴۶ء کے آواخر میں برصغیر فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔ تحریکِ پاکستان کی وجہ سے پورا ہندوستان میدان کار زار بن گیا چنانچہ مہدی صاحب اور ان کے بھائی اپنے گاؤں واپس چلے گئے۔ بعد ازاں ۱۹۴۷ء کے اوائل میں وہ اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساہی وال کے قریب چیچہ وطنی کے ایک چک ۱۱۱ سیون آر میں قیام پذیر ہوئے جہاں ان کی پھوپھی پہلے سے آباد تھیں۔ چیچہ وطنی میں انھیں راجوں اور مہاراجوں کے عالی شان محلات کے برعکس کچے مکانات میں رہنا پڑا۔ یہ دور ان کی عُسرت اور مشکلات کا دور تھا۔
گانے کے لیے سانس کا مضبوط ہونا ایک ضروری امر ہے۔ سانس جتنا مضبوط ہوگا سُر میں اتنی ہی پختگی پیدا ہوگی۔ مہدی صاحب کے خاندان میں یہ دستور تھا کہ سانس کو مضبوط بنانے کے لیے بچپن میں ہی ورزش شروع کرا دی جاتی تھی چنانچہ ان کے والد نے انھیں بھی ورزش شروع کرا دی۔ یہ ورزش ابتداء میں صرف دوڑ تک محدود تھی لیکن آہستہ آہستہ پانچ سو ڈنڈ اور بیٹھکیں روزانہ کا معمول بن گئیں۔ جوانی کی حدود میں داخل ہونے کے بعد یہ معمول روزانہ کے دو ہزار ڈنڈ، پندرہ سو بیٹھک اور تین میل کی دوڑ تک پہنچ گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھیں اکھاڑے میں طاقت ور پہلوان کے ساتھ زور بھی کرایا جاتا تھا۔ ورزش کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ انھیں روزانہ چھے سیر کچا دودھ، آدھ پاؤ بادام اور چہار مغز کی سردائی بنا کر پلائی جاتی تھی۔ دوپہر کو تین پاؤ گوشت اور تین پاؤ دیسی گھی ان کی خوراک تھا۔ ان کے نزدیک ایک فن کار کے لیے ورزش کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس کا Stemna بڑھ جائے اور وہ ستر اسی سال کی عمر میں بھی گا سکے۔
ورزش کے بعد مہدی صاحب فجر کی نماز ادا کرتے۔ نماز کے بعد اپنے ڈیرے پر دوپہر بارہ بجے تک ریاض کرتے۔ ریاضت میں ان کے والد اور چچا ان کی سرپرستی کرتے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مہدی صاحب نے اپنے ہوش سے لے کر آج تک کوئی نماز قضا نہیں کی۔ نماز کی پابندی کی تلقین ان کے مرشد حضرت سید محمد عبداللہ شاہ صاحب نے کی تھی۔ مہدی صاحب نے ۱۹۵۱ء میں عبد اللہ شاہ صاحب کی مریدی اختیار کی تھی۔ اُس وقت سے آج تک وہ اپنے مرشد کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں اور تادمِ زیست نماز قضا نہ کرنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ مہدی صاحب کا کہنا ہے:
’’موسیقی ایک درویشانہ عمل ہے۔ کسی بھی فن کار کے اندر سُر اُس وقت تک سرایت نہیں کر سکتا جب تک وہ فقیرانہ مزاج کا حامل نہ ہو۔ ایک فن کار کو نیت کا سچا اور کھرا ہونا چاہیے۔ جس فن کار کی نیت نیک ہوگی وہی اپنے فن میں ترقی کر سکتا ہے اور اپنی منزل پا سکتا ہے۔ نیت کی درستی کے ساتھ ساتھ فن کار کو اپنی آنکھ، کان اور زبان کو بھی ہر طرح کی بُرائی سے دور رکھنا چاہیے‘‘۔ ۱
چیچہ وطنی میں قیام کا زمانہ مہدی صاحب اور ان کے اہل خانہ کے لیے معاشی ابتری کا زمانہ تھا۔ راجوں اور مہاراجوں کی ریاستیں اجڑ جانے کے بعد پاکستان میں صرف موسیقی سے روزی کمانا مشکل تھا۔ چنانچہ حالات سے تنگ آ کر مہدی صاحب نے پُرانی چیچہ وطنی مین روڈ پر دس روپے سے سائیکلوں کی مرمت کی دکان کھول لی اور سائیکلو ں کو پنکچر لگانا شروع کر دیے۔ تھوڑے ہی عرصے میں یہ دکان چل پڑی۔ اس دکان سے انھیں روزانہ دس سے سولہ روپے کی آمدن ہوتی تھی جس سے ان کے اخراجات باآسانی پورے ہو جاتے تھے۔ اس دوران انھوں نے ’’ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی‘‘ کے مصداق ورزش اور ریاضت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اُس وقت کون جانتا تھا کہ سائیکلوں کو پنکچر لگانے والا یہ نوجوان ایک دن برصغیر کا تاریخ ساز غزل گائک بنے گا۔
ایک سال تک اس دُکان کو کام یابی سے چلانے کے بعد مہدی صاحب نے اسے اپنے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر کے حوالے کیا اور خود کوئی نیا کام سیکھنے سکھر چلے گئے۔ سکھر میں انھوں نے ایک ہندو مستری کشن کی شاگردی اختیار کی۔ مستری کشن سے انھوں نے چھے ماہ میں ڈیزل اور پٹرول گاڑیوں کی مرمت کا کام سیکھا۔ موٹر مکینک بننے کے بعد وہ سکھر سے ریاست بہاول پور آ گئے اور وہاں گاڑیوں کی مرمت کی ورک شاپ کھول لی۔ اس ورک شاپ میں انھوں نے بہت سی گاڑیوں کے انجن بنائے۔
بہاول پور میں کچھ عرصہ موٹر مکینک کا کام کرنے کے بعد مہدی صاحب لاہور آ گئے۔ لاہور میں ایک بار پھر وہ شیرانوالہ گیٹ میں قیام پذیر ہوئے۔ یہاں ان کی ملاقات شیخ محمد یوسف سے ہوئی۔ شیخ محمد یوسف کراچی میں ایک وسیع کاروبار کے مالک تھے لیکن اپنے مینیجرکی بے ایمانی کے باعث قلاش ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنی کاروباری ساکھ بحال کرنے کے لیے سرگودھا میں دس مربعہ بنجر زمین ٹھیکے پر لے رکھی تھی۔ اس زمین کی آبادکاری کے لیے انھیں ایک محنتی اور ایمان دار کاشت کار کی ضرورت تھی۔ انھوں نے ایک روز مہدی صاحب سے کہا کہ یار چھوڑو گانا بجانا، میری زمین پر کام کرو۔ مہدی صاحب نے کہا! ’’شیخ صاحب میں گانا تو نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ موسیقی میری روح میں ہے، البتہ آپ کی زمین پر کاشت کاری کے لیے تیار ہوں‘‘۔ الغرض آٹھ ماہ کی مسلسل محنت کے بعد مہدی صاحب نے اس زمین کو قابل کاشت بنایا۔ محنت و مشقت کے اس دشوار ترین دور میں بھی مہدی صاحب نے ریاض جاری رکھا اور موسیقی کی طرف بھرپور توجہ دیتے رہے۔ آج یہ زمین سونا اُگل رہی ہے اور اس کے منصرم شیخ صاحب کے بڑے بیٹے جاوید یوسف ہیں۔
مہدی صاحب کو ۱۹۵۳ء میں پہلی بار فلم ’’شکار‘‘ کے لیے گانے کی پیش کش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی۔ کراچی کے ایسٹرن سٹوڈیو کا افتتاح بھی اسی فلم سے ہوا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر رفیق انور تھے جبکہ موسیقی اصغر علی اور محمد حسین نے مرتب کی تھی۔ اس فلم میں مہدی صاحب نے جو غزل گائی اس کے بول کچھ اس طرح تھے:
میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے
پھر آ گیا کوئی رُخِ زیبا لیے ہوئے
’’شکار‘‘ کے بعد مہدی صاحب کی دوسری فلم ’’کنواری بیوہ‘‘تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار نجم نقوی اور ہیروئن شمیم آراء تھی۔ اس کے بعد انھیں فلم ’’مسکا پالش‘‘ اور نذیر مرحوم کی فلم ’’انسان‘‘ کے گانے ملے۔ ان دونوں فلموں کے موسیقار دیبوبھٹّا چاریا تھے۔
متذکرہ بالا فلموں کے لیے کچھ گیت اور غزلیں ریکارڈ کروانے کے بعد مہدی صاحب لاہور ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ لاہور ریڈیو کے لیے انھوں نے سب سے پہلے مرزا غالبؔ کی یہ غزل ریکارڈ کروائی:
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جِس دِل پہ ناز تھا مجھے وہ دِل نہیں رہا
مرزا غالبؔ کی اس غزل کے بعد ان کی لاہور ریڈیو کے لیے گائی ہوئی شاعر لکھنؤی کی یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی:
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
مہدی صاحب کو لاہور میں ۱۹۵۸ء میں پہلی بار فلم ’’قیدی‘‘ کے لیے ملکۂ ترنم نور جہاں کے ساتھ گانے کا موقع ملا۔ ملکۂ ترنم کے ساتھ اُن کا گایا ہوا فلم ’’قیدی‘‘ کا یہ گیت بہت مقبول ہوا:
ایک دیوانے نے اس دِل کا کہا مان لیا
قیدی کے بعد مہدی صاحب کو فلم ’’سسرال‘‘ ملی ۔’’سسرال‘‘ کے ہدایت کار ریاض شاہد اور موسیقار حسن لطیف تھے۔ اس فلم میں انھوں نے منیر نیازی کا لکھا ہوا یہ گیت گایا:
جس نے مرے دل کو درد دیا
اُس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
سسرال کے بعد موسیقار خواجہ خورشید انور صاحب نے فلم ’’گھونگھٹ‘‘ کے لیے مہدی صاحب سے یہ گیت ریکارڈ کروایا:
مجھ کو آواز دے تُو کہاں ہے
تیرے بن سُونا سُونا جہاں ہے
فلم ’’جاگ اٹھا انسان‘‘ کے لیے گایا ہوا ان کا یہ گیت بھی اس دور کا مقبول گیت تھا:
دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں
اک دلربا ہے دِل میں جو حوروں سے کم نہیں
۱۹۵۹ء میں لاہور کی ایک محفل موسیقی میں مہدی صاحب نے فیض صاحب کی یہ غزل گائی:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
یہ غزل جب ریڈیو سے نشر ہوئی تو اس نے برصغیر میں مقبولیت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ قریہ قریہ، کوچہ کوچہ اور شہر شہر یہ غزل گونجنے لگی۔ اس غزل نے فیض صاحب اور مہدی صاحب کو ہر خاص و عام سے روشناس کرا دیا۔ درحقیقت اس غزل نے مہدی صاحب کو شہرت کے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ بعد ازاں اس غزل کی مقبولیت سے متاثر ہو کر ہدایت کار خلیل قیصر نے ۱۹۶۴ء میں اسے اپنی فلم ’’فرنگی‘‘ میں شامل کر لیا۔
۱۹۶۴ء کا سال مہدی صاحب کی زندگی کا اہم سال تھا کیونکہ اس برس انھیں ملکۂ ترنم نور جہاں کے ساتھ برطانیا کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اُس وقت برطانیا میں غزل کے شائقین نہ ہونے کے برابر تھے اور مہدی صاحب سے پہلے ہندوستان کے غزل گانے والے وہاں بُری طرح ناکام ہو چکے تھے۔ اس وجہ سے ملکۂ ترنم بھی غزل سے خائف تھیں اور انھوں نے مہدی صاحب کو غزل گانے سے منع کر دیا تھا۔ لیکن مہدی صاحب اپنی ضد پر قائم رہے اور حاضرین کو غزلیں ہی سنائیں۔ ان کی غزلیں سننے کے بعد برطانیا میں غزل گانے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور غزل گانے والے دوسرے گلوکاروں کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مہدی صاحب کے گائے ہوئے ملی نغموں نے فوجی جوانوں کے حوصلے بڑھانے اور ان کے لہو کو گرما نے میں اہم کردار ادا کیا۔ چھے ستمبر کو سلیم گیلانی نے کراچی ریڈیو میں مہدی صاحب کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کر کے انھیں اپنا لکھا ہوا یہ مطلع دیا۔
خطہء لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
غازیوں کو، شہریوں کو، شہسواروں کو سلام
اس ملی نغمے کے باقی اشعار اُسی وقت ٹیلی فون پر رئیس امر وہی سے لکھوائے گئے۔ مہدی صاحب نے صرف چودہ منٹ میں اس کی دُھن بنا کر اسے پہلی ہی ٹیک میں ریکارڈ کرایا کیونکہ اسے شام کی فلائٹ سے لاہور بھیجنا تھا۔
جنگ ستمبر کے لیے مسرور انور کا لکھا ہوا یہ ملی نغمہ بھی بہت مشہور ہوا:
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
مہدی صاحب نے اپنی آواز اور مائیکرو فون کے ذریعے جنگِ ستمبر میں حصہ لے کر حُب الوطنی کا ثبوت دیا۔ یہی نہیں بلکہ جنگ بندی کے بعد بھی انھوں نے مختلف جنگی محاذوں پر جا کر فوجی بھائیوں کے دِل بہلانے کے لیے اپنے گائے ہوئے ملی گیت سنائے۔
۱۹۶۶ء میں افغانستان کے شہنشاہ ظاہر شاہ پاکستان کے نجی دورے پر آئے تو انھوں نے حکومت پاکستان سے مہدی حسن کا گانا سُننے کی فرمائش کی۔ ان کی فرمائش پر لاہور جم خانہ کلب میں ایک محفل موسیقی منعقد ہوئی جس میں مہدی صاحب کے علاوہ اُستاد نزاکت علی خاں، سلامت علی خاں، اُستاد فتح علی خاں، امانت علی خاں، فریدہ خانم اور اقبال بانو نے شرکت کی۔ افغانستان کے شہنشاہ نے مہدی صاحب کا گانا سب سے زیادہ پسند کیا اور مہدی صاحب سے کہا کہ میری بیوی آپ کے فن کی بہت شیدائی ہے اور اس کے پرس میں اس وقت بھی آپ کی مشہور غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے‘‘ کی کیسٹ موجود ہے۔ اس محفل میں شہنشاہ نے مہدی صاحب کو دورۂ افغانستان کی دعوت دی۔اس دعوت کے بعد حکومتِ پاکستان نے ایک ہفتہ کے اندر مہدی صاحب کے دورے کا انتظام کر دیا۔
افغان شہنشاہ نے خاص طور پر اپنے محل میں مہدی صاحب کے گانے کا اہتمام کیا۔ اس محفل میں مہدی صاحب نے رات آٹھ بجے سے صبح چار بجے تک گایا اور شہنشاہ کی فرمائش پر فارسی کی یہ غزل پیش کی۔
خُدا ترا بہ غمِ عشق مبتلا نہ کُند
اس دورے کے اختتام پر ظاہر شاہ نے مہدی صاحب کو جواہرات کا وہ بکس نذرانے کے طور پر پیش کیا جسے وہ کسی ملک کے وزیر اعظم کو دینا چاہتے تھے لیکن مہدی صاحب کے فن کے اعتراف میں انھوں نے یہ قیمتی بکس وزیر اعظم کی بجائے غزل کی دُنیا کے شہنشاہ کو پیش کر دیا۔ ظاہر شاہ نے اس موقع پر برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کو خراجِ تحسیں پیش کرتے ہوئے کہا:
’’میں دُنیا کے تمام بڑے بڑے موسیقاروں کو سُن چکا ہوں لیکن جو سوز، تڑپ ، حلاوت، لطف، تاثیر اور سکون مجھے برصغیر کی کلاسیکی موسیقی میں ملا وہ دُنیا کی کسی موسیقی میں نہیں‘‘۔ ۲
مہدی صاحب نے ۱۹۷۸ء میں پہلی بار بھارت کا دورہ کیا لیکن اس دورے سے پہلے بھارت میں ان کی غزل گائکی کا سکہ بیٹھ چکا تھا اور بھارت کے چوٹی کے فن کار مثلاً محمد رفیع، مُکیش، مہندرکپور اور سُر کی دیوی لتا منگیشکر ان کی فنی عظمت کا اعتراف کر چکے تھے۔ بالخصوص مہدی صاحب کے بارے میں لتا جی کا کہا ہوا یہ جملہ زباں زدِ خاص و عام ہو گیا:
’’ شری مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں‘‘ ۳
اس دورے کے دوران بھارتی فلموں کے خوب صورت اور عہد آفریں اداکار دلیپ کمار نے مہدی صاحب کے لیے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں دلیپ کمار نے مہدی صاحب کی فن کارانہ صلاحیتوں کو خراجِ تحسیں پیش کرتے ہوئے انھیں ایک Souvenir پیش کیا جس پر یہ شعر درج تھا:
بے ساختہ پکار اٹھی انجمن تمام
فن آپ پر ہے حضرتِ مہدی حسن تمام
بھارت کے علاوہ مہدی صاحب دُنیا کے بہت سے ملکوں میں نغمہ سرائی کر چکے ہیں۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں امتیازی تمغا عطا کیا تھا۔ صدارتی ایوارڈ کے علاوہ وہ نگار ایوارڈ، فلم کریٹکس ایوارڈ، گریجویٹ اور ایسٹ پاکستان فیسٹیول ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
مہدی صاحب نے اپنے بہت سے انٹر ویوز میں یہ دعوی کیا ہے کہ انھوں نے ۵۴ہزار گانے گائے ہیں۔ ان کا یہ دعوی بالکل بھی درست معلوم نہیں ہوتا اور پتا نہیں کہ ان کے پاس اس دعوے کا کیا ثبوت ہے ۔ حالانکہ بھارت کے دو ماےۂ ناز پلے بیک سنگرز محمد رفیع اور لتا منگیشکر( جنھوں نے فلموں کے لیے بہت گایا ) نے بھی ایسا دعوی کبھی نہیں کیا۔
مہدی صاحب میں ایک خامی جس کا مشاہدہ دوسرے بہت سے فن کاروں کے ساتھ میں نے بھی کیا ہے ، وہ ہے دورانِ گفتگو ان کا انتہائی غیر محتاط رویّہ۔ شاید وہ اپنے اسی رویّے کی وجہ سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے ۵۴ ہزار گانے گائے ہیں۔ اسی طرح لتا منگیشکر کے متعلق ان کا ایک غیر محتاط جُملہ بھی بہت مشہور ہوا کہ’’ لتا تین منٹ کا گانا گاتی ہے جبکہ ہم آدھ ، پون گھنٹا ایک غزل گاتے ہیں۔‘‘حالانکہ یہ وہی لتا منگیشکر ہیں جنھوں نے مہدی صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ شری مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔‘‘ اور یہ وہی لتا ہیں جنھوں نے بارہا انھیں علاج کی پیش کش کی ہے۔ مہدی صاحب کے اس جملے نے جہاں پاکستان اور بھارت میں ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا وہاں ان کے اس جملے سے خود پرستی اور خود پسندی جھلکتی ہے۔
راول پنڈی ریڈیو کے سینیر گلوکار شوکت مرزا صاحب کی مہدی صاحب اور ایس ۔ بی جون سے بہت ملاقاتیں اور برادرانہ مراسم رہے ہیں۔ شوکت مرزا صاحب کے بقول مہدی صاحب ابتداء میں طلعت محمود کو کاپی کیا کرتے تھے اور طلعت محمود کی فلم ’’ترانہ‘‘ کے لیے گائی ہوئی یہ غزل بہت گایا کرتے تھے:
جلی جو شاخِ چمن ساتھ باغباں بھی جلا
جلا کے میرے نشیمن کو آسماں بھی جلا
ایک میں ہوں ایک میری بے کسی کی شام ہے
اب تو تجھ بن زندگی بھی مجھ پہ اک الزام ہے
مہدی صاحب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ کبھی طلعت محمودکے انداز کو کاپی کیا کرتے تھے حالانکہ راول پنڈی میں وہ لوگ اب بھی موجود ہیں جنھوں نے مہدی صاحب کو طلعت محمود کی غزلیں گاتے سُن رکھا ہے۔
مہدی صاحب دس بارہ سال قبل پاکستان کو جزوی طور پر خیر باد کَہ کر امریکا منتقل ہو گئے تھے اور وہاں انھوں نے ایک میوزک اکیڈمی قائم کر لی تھی۔ آج کل وہ پاکستان میں ہیں اور صاحبِ فراش ہیں۔ خداوند کریم سے دُعا ہے کہ وہ پھر سے تندرست ہو جائیں اور صحت مند زندگی گزار سکیں۔
مہدی صاحب کے بیٹوں میں آصف مہدی گاتے ہیں اور عمران مہدی طبلہ بجاتے ہیں مگر افسوس کہ آصف مہدی کے گانے میں ابھی وہ پختگی پیدا نہیں ہو سکی جو ان کے والد کا خاصہ ہے۔ آصف مہدی کی آواز اپنے والد کی آواز سے مماثلت تو ضرور رکھتی ہے لیکن سُر گیان میں وہ اپنے والد سے کوسوں دور ہیں۔
مہدی صاحب کے یوں تو ان گنت شاگرد ہیں لیکن ان کے مشہور شاگردوں میں غلام عباس، پرویز مہدی اور سلامت علی سرفہرست ہیں۔
شہنشاہِ غزل مہدی حسن ایک پر کیف اور سحر آگیں آواز، ایک سمندر کی سی گہرائی رکھنے والا فن کار، ایک نابغہ روزگار غزل گائک جس کے بارے میں ملکۂ ترنم نور جہاں نے کہا تھا کہ اُستاد مہدی حسن میرے پسندیدہ گائک ہیں اور میں انھیں سنتے نہیں تھکتی۔
اس نابغۂ روزگار گائک نے اپنی سُر میں بھیگی ہوئی آواز، اپنی مشکل مگر دِل آویز طرزِ ادا، اپنے مثالی تلفظ اور لہجے سے اُردو غزل کو وہ لاج عطا کی کہ شاید مستقبل کے موسیقی سننے والے اس بات پر افسوس کریں کہ ہم مہدی حسن کے دور میں کیوں نہ پیدا ہوئے؟ ۔۔۔۔۔۔ اور اس بات پر حسرت کا اظہار کریں کہ کیا ان میں سے بھی کوئی نیا مہدی حسن جنم لے سکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ تو یقیناًاس بات کا جواب نفی میں ہوگا۔
مہدی صاحب نے اُردو غزل کو وہ اوج اور عروج عطا کیا کہ پاکستان تو کیا بھارت میں بھی ان کے پائے کا ایک بھی غزل گائک موجود نہیں۔ رہتی دُنیا تک غزل گانے والے مہدی صاحب کی غزل گائکی کے مخصوص انداز سے بچ کر نہ گا سکیں گے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں بالآخر اسی انداز کی طرف لوٹنا پڑے گا، بقول مرزا محمد رفیع سوداؔ :
سوداؔ تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے اُستاد کی طرف
مجھے حال ہی میں یو ٹیوب پر مہدی حسن صاحب کا ایک آڈیو انٹر ویو سُننے کا اتفاق ہواہے۔ یہ انٹر ویوریڈیو پاکستان لاہور میں ۱۹۷۰ء میں ریکارڈ ہوا تھا۔ اس انٹر ویو میں میزبانی کے فرائض یاسمین طاہر نے انجام دیے جبکہ پروڈیوسر نسرین رضا کاظمی تھیں۔ اس انٹرویو کا دورانیہ ۳۱ منٹ ۲۸ سیکنڈ ہے۔ اس نایاب انٹر ویو میں مہدی صاحب نے اپنی ولادت کا سنہ ۱۹۳۴ء بتا یا ہے۔
یہاں میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آصف نورانی نے اپنی انگریزی کتاب”Mehdi Hasan:The Man & his Music” میں مہدی صاحب کی ولادت کا سنہ ۱۹۲۷ء لکھا ہے۔ اس ڈگر پر چلتے ہوئے مہدی صاحب پر لکھنے والے اکثر حضرات نے مہدی صاحب کی ولادت کا سنہ ۱۹۲۷ء ہی لکھا ہے جبکہ مذکورہ بالا انٹر ویو میں مہدی صاحب کے اپنے بیا ن کے مطابق ان کی ولادت کا سنہ ۱۹۳۴ء ہے۔
میرے اس مضمون میں مہدی صاحب کی ولادت کا سنہ ۱۹۳۵ء ہے جو مہدی صاحب نے روزنامہ جنگ کے جمعہ میگزین ،۱۹۸۴ء میں چھپنے والی اپنی آپ بیتی میں اس آپ بیتی کے مرتب افضل آرش کو بتایا تھا۔ میرے نزدیک مہدی صاحب کی ولادت کا سنہ اُن کے اپنے بیان کے مطابق ۱۹۳۴ء یا ۱۹۳۵ء ہی درست ہے۔ اس حوالے سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ملکۂ ترنم نور جہاں کی ولادت ۱۹۲۶ء کی ہے اور ملکۂ ترنم مہدی صاحب سے بہت سینیر مغنیہ تھیں۔ اگر ۱۹۲۷ء کو مہدی صاحب کی ولادت کا درست سنہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس لحاظ سے مہدی صاحب ملکۂ ترنم کے ہم عمر اور ہم عصر قرار پاتے ہیں جو قطعی طور پر ماننے والی بات نہیں۔
میں نے ۲۰۰۲ء میں سُر سنسار کے پہلے ایڈیشن کے لیے جب یہ مضمون لکھا تھا ، اس وقت مہدی صاحب پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا لیکن وہ وقت ان کی بیماری کا ابتدائی دور تھا اور مہدی صاحب کے پرستار پُر اُمید تھے کہ وہ جلد تن درست ہو جائیں گے۔ مگر بارہ برس تک اپنی مختلف بیماریوں سے جنگ کرنے کے بعد ۱۳ ؍جون ۲۰۱۲ء کو دن سوا بارہ بجے غزل کے شہنشاہ اپنے لاکھوں پرستار وں کو سوگ وار کر کے راہیئملکِ عدم ہو ئے۔
مہدی صاحب کو ہزاروں سوگ وارں کی موجودگی میں ۱۵؍جون بعد نماز جمعہ نارتھ کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ مہدی صاحب کی قبر کے ارد گرد دو ہزار گز زمین اس خیال سے مختص کی گئی ہے کہ وہاں ان کا مزار تعمیر کیا جائے گا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانا ان کی اولاد کا کام ہے اگر ان کی اولاد اپنے اس ارادے میں کام یاب ہو جائے تو مہدی صاحب کے پرستاروں کے لیے یقیناًایک خوش آئند بات ہو گی ۔ بقول ظفر بن نیئر مدنی:
۲ افضل آرش، حوالہ مذکور، ص ۱۹
۳ ۔۔۔۔۔ایضاً۔۔۔۔۔۔ ص۱۴