ماحولیاتی تبدیلیوں سے ویرانیوں کی دھما چوکڑیاں
(ذوالفقار زلفی)
میرا تعلق دامان کے علاقے سے ہے۔ دامان دریائے سندھ کے مغرب اور کوہ سلیمان کے مشرق میں واقع میدانی علاقے کو کہتے ہیں۔ موسموں اور لینڈ اسکیپ کے اعتبار سے علاقوں کی تقسیم بہت پُرانی روایت ہے جس کا تعلق انسانی تمدن اور اُس کے بندوبست کو سمجھنے اور جانچنے سے جُڑا ہے۔ اس تناظر میں اس کرہ ارض پر مختلف لینڈ اسکیپ اور موسموں کا آپس میں ایک خاص تال میل رہا ہے جس کی بُنیاد پر فطرت کا ” وسیع تعلق” استوار ہوا ہے۔ اس وسیع تعلق نے بہت سارے مادی اور غیر مادی عوامل کو آپس میں نہ صرف باہم جوڑ کے رکھا بلکہ مختلف خصوصیات اور افادیت کے پیش نظر ایک دوسرے کی عزت و تکریم کی بُنیاد پر آگے بڑھتے رہنے کا موقع بھی فراہم کیا۔
اس وسیع تعلق کے دائرے میں پورا ایکالوجیکل نظام سمایا ہے۔ ایکالوجیکل نظام میں مختلف نوعیت کے تعلقات پر مبنی فطری جُڑت اور مشترکہ مفادات کا ایک اہم باب ہے جس کو انسان نے اپنی مفادات کی عینک سے دیکھا اور اسے اپنے مادی اور انفرادی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا۔ حالانکہ اس دائرے میں تعلقات ہرگز بے معنی اور فالتو نہیں ہوتے بلکہ اس دائرے کے اندر زندگی کی بقا، جذبات کے دھاگوں سے بُنے تعلقات اور مختلف خصوصیات کے حامل عناصر کے کردار کا تعین ہوتا ہے۔
میں بات کروں دامان کے خطے کی تو اس میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسموں نے اپنے تیور بدل لئے جس کی وجہ سے یہ خطہ بے رونق ہو گیا ہے، اور مُرجھا سا گیا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان ، چین اور بھارت دنیا میں آلودگی کی وجہ سے موسمی تبدیلیوں کی زد میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے لوگوں کی زندگی پر جو اثرات پڑ رہے ہیں وہ کافی دل دہلا دینے والے ہیں۔
مثال کے طور پر بہت ساری قیمتی جڑی بوٹیاں نا پید ہو گئی ہیں جو زیادہ تر دیسی طب میں استعمال ہوتی تھیں جن میں “برم ڈنڈی” زائخاں بوٹی اور پنیر قابل ذکر ہیں جن کا استعمال مقامی لوگ ہزاروں سال کے تجربات کی بُنیاد پر مختلف بیماریوں کے علاج کے طور پر کرتے تھے۔
اسی طرح موسموں کے رویے بھی بدل گئے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں سالوں سے موسموں کے استعاروں اور اشاروں کو اپنے من میں سمو کے انسان زندگی کے ارتقا سے گُزر رہا ہے مگر اب کی بار یہ ارتقا ترقی معکوس کی شکل میں لوک دانش، لوک شاعری اور میتھالوجی کو برباد کئے جا رہا ہے مثلا دامان میں بارش سے جُڑی شاعری، میتھالوجی اور فوک دانش پر مبنی موسم کا حال جاننے سے متعلق علم کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ ایک مُدت ہوئی بچوں نے،
آجڑی حبیب
کالیں روہیں دا طبیب
کالی بکری کالا شیہنہ
گھتو دانڑے وسے مہینہ
نہیں گایا۔ اسی طرح کے سینکڑوں گیت، میتھ، قصے، مقامی موسموں سے جُڑی دانش اور موسموں کے حساب سے کھیل اور میلے بھی ختم ہو گئے ہیں۔ یہ سب جدید ترقی کے نام پر لوٹا گیا۔ جب سے میرے گاؤں میں بجلی کے کھمبے اور پکی سڑک پہنچی تب سے سرمایہ داری نظام نے یہاں کی پوری وسوں کو تار تار کرنا شروع کر دیا ہے۔ مثلا فصلوں کی زیادہ پیداوار کیلئے فرٹیلائزرز، زرعی ادویات اور ہائبرڈ بیجوں کے استعمال کی وجہ سے ایکالوجی کا دائرہ اور پیداوری عمل سے جُڑا کسان مزدور بھی سُکڑتا جا رہا ہے۔
مقامی بیج اور فصلیں پورے ایکالوجیکل نظام کیلئے سود مند اور موافق ہوتی ہیں جبکہ غیر مقامی بیج، فرٹیلائزر اور زرعی ادویات کا ماحول دشمن اور ضرر رساں ہوتی ہیں جو چیونٹیوں سے لیکر دودھ دینے والے جانوروں تک کو متاثر کرتی ہیں۔ جس کے باعث کچھ جانور اور پودے تو بالکل ختم ہوگئے اور باقی جو رہ گئے اُن سے حاصل شُدہ دودھ، گوشت اور چمڑا اُس کوالٹی کا نہیں رہا جو آج سے پندرہ پیس سال پہلے ہوتا تھا۔
انسانی بے جا مداخلت کی وجہ سے اب موسموں کی تبدیلی اچانک ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے پوری “وسوں” کو یک دم رونما ہونے والی تبدیلی کو جذب کر پانا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال میں مختلف فطری آفات کا خطرہ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ موسموں کے اس بدلاوے نے اس خطے میں بہت سارے خطرات اور مشکلات کو جنم دیا ہے۔ ان خطرات میں پچھلے چند سالوں سے سیلاب، طوفانی بارشیں، طویل خشک سالی اور شدید ژالہ باری جیسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس خطے کے باسیوں کی معیشت اور نفسیات پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
دل کو مزید اداس کر دینے والی خبر یہ ہے کہ اب بہار کا موسم بہت مختصر ہو گیا ہے۔ اس سال تو بہار آئی ہی نہیں۔ سُنا ہے پاکستان بھر سے بہار کا موسم ہی ناپید ہونے والا ہے۔ اس کا مطلب ہے بہار سے جُڑی شاعری، جذبات اور چاشنیاں بھی گُل ہو جائیں گی۔