کرۂ ارض اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھنور
از، فرحین شیخ
سال 2017ء میں ماحولیاتی تغیرات کے باعث ہونے والی تباہیوں سے دنیا کا کوئی براعظم بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ جنوبی ایشیا سیلاب اور مون سون کی غیرمعمولی بارشوں کی لپیٹ میں آیا تو شمالی امریکا بھی طوفانوں اور تباہ کن زلزلوں سے نہ بچ پایا، افریقہ میں قحط نے مزید پنجے گاڑے اور وسطیٰ امریکا سونامی کے خطرے میں گھرا رہا۔ میکسیکو میں ملکی تاریخ کا بد ترین زلزلہ آیا، جس میں 96 لوگ جان سے گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔
رواں سال کے آغاز میں ہی زمبابوے میں سائیکلون اور بارشوں نے قیامت کی تباہی مچائی۔ جنوری اور جولائی میں چین میں آنے والا سیلاب ایک ملین لوگوں کو دربدر کرگیا۔ پیرو میں بھی سیلابی صورت حال پریشانی کی بڑی وجہ بنی، افغانستان میں شدید برف باری نے156 افراد کو ابدی نیند سلادیا، کانگو میں لینڈ سلائڈنگ سیکڑوں جانیں لے گئیں، سری لنکا میں مئی کے مہینے میں طوفانی بارشوں اور مون سون نے 213 جانیں لیں اور ساڑھے چار لاکھ لوگوں کو کیمپوں کی طرف دھکیل دیا، کولمبیا میں لینڈ سلائڈنگ سے ہلاکتں ہوئیں، سیرا لیون کے لیے اگست کا مہینہ قیامت کا رہا جہاں سیلاب اور بارشوں نے چھ سو افراد کی زندگی کا چراغ گل کردیا، بنگلہ دیش، انڈیا اور نیپال بھی نہ بچ سکے، وہاں بھی سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائڈنگ نے بارہ سو افراد سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا۔ اب امریکی تاریخ کے بدترین طوفانوں ہاروے اور ارما کی تباہی کے مناظر دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہاروے نے ٹیکساس میں تباہی مچائی۔ ہیوسٹن تو پانی میں غروب ہی ہوگیا۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں بیس ٹریلین گیلن سے زائد بارش ہوئی ہے، جس نے 71 افراد کی جان لے لی ۔ فلوریڈا میں طوفان ارما کی وجہ سے 185میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں سب اُڑا کے لے گئیں۔ ہلاکتوں کے ساتھ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
اس ایک سال میں ہونے والی تباہ کاریاں دیکھ کر لگتا ہے کہ اب فطرت کسی کو بخشنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دنیا ناخوشگوار مستقبل کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چند دہائیوں قبل ماحولیاتی بحران سر پر تھا لیکن اب دنیا اس کے درمیان آچکی ہے۔ دنیا بھر میں پُر تعیش طرزِزندگی کی بڑھتی ہوئی اشتہا، مشینوں کا استعمال، بڑی بڑی گاڑیوں کا شوق، ٹیکنالوجی کا مضر حد تک استعمال، سائنسی ترقی میں سب سے آگے جانے کی خواہش میں ایسے آلات کی ایجاد جو کرۂ ارض کی بقا کے دشمن ہیں، فطرت کے توازن سے ٹکرا کر انسانیت کے لیے عذاب بن گئے ۔
انسانی زندگی کو سہل بنانے کے لیے کیے جانے والے تمام جتن کرہ ارض کی حدت اس قدر بڑھا چکے ہیں کہ یہ ساری آسائشیں، سکون اور جدت سیکنڈوں میں زلزلوں اور طوفانوں کی نذر ہو نے لگا ہے۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی اکثریت ان تباہیوں کو تقدیر کا شاخسانہ قرار دے کر خود کو اطمینان کی نیند سلا رہی ہے۔ عام افراد سے تو کیا گلہ کیا جائے سپرپاور ملک کے طاقتور سر براہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے معاملے پر ان کی سرد مہری پر دنیا حیران ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے معاہدۂ پیرس سے علیحدگی، موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے والے قومی اداروں کی بندش، سابق امریکی صدر کے دور میں ہونے والے تحفظِ ماحولیات کے اقدامات کی تنسیخ، ماحولیاتی آگاہی فراہم کرنے والے امریکی اداروں کی بندش اور صنعتوں کو فوسل فیول کی اجازت دینا، یہ سب ان کے وہ خطرناک اقدامات ہیں۔
ساتھ ہی انھوں نے ناسا کے موسمی تحقیق کے شعبے کے لیے امریکی فنڈنگ میں بھی واضح کمی کی۔ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ سے ماحولیاتی تبدیلی کا صفحہ ہی ختم کر دیا گیا۔ امریکا میں آنے والی حالیہ تباہیوں کو ٹرمپ نے تاریخ کی بدترین تباہی قرار دیا لیکن کہا کہ امریکا کو اس سے پہلے بھی ان تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ موسم کے اتنے سنگین نتائج بھگتنے کے بعد بھی وہ اپنی اسی ہِٹ پر قائم ہیں۔ صدر بننے کے بعد سے انھوں نے ماحولیات کا معاملہ جس طرح پسِ پشت ڈالا ہے اب ان کے پاس حقائق کو جھٹلانے کے سوا دوسرا راستہ باقی رہا ہی نہیں ہے۔ وہ بڑھتی ہوئی عالمی حدت کا چین کو ذمہ وار کہتے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ اس طرف مرکوزکر دیں دوسری جانب وہ سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی تحفظ کے معاہدوں کے نام پر یورپ امریکا سے بڑی بڑی رقوم لے کر اسے غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے، اسی لیے انھوں نے سارے معاہدے توڑ ڈالے۔
ٹرمپ کے لیے امریکا سے باہر کی دنیا کی کوئی وقعت نہیں لیکن اس ضمن میں ان کے موقف نے امریکی شہریوں کی جانوں کو بھی داؤ پر لگا دیا۔ ہاروے اور ارما قہر بن کر امریکی سرزمین پر ٹوٹ پڑے ۔ ماحولیات کے حوالے سے ماہرین کی رائے اور سائنسی نتائج جن کو اب دنیا تسلیم کرنے لگی ہے، امریکی صدر کے لیے بھی ان پر یقین کرنا بہت ضروری ہے۔ ٹرمپ نے حالیہ طوفان کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ’’ہم امریکی مہارت اور طاقت کے ساتھ کل کی دنیا کا چہرہ خود بنائیں گے، امریکی قوم کے لیے آسمان بھی حد نہیں ہے‘‘ حیرت ہے کہ ٹرمپ حقائق جھٹلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔
ٹیکساس اور فلوریڈا کی تباہی نے ان کے خیالات کو تبدیل نہیں کیا۔ دوسری طرف رومن کیتھولک چرچ کے موجودہ پوپ فرانسس نے ماحولیاتی تغیرکا انکار کرنے والوں کو بے وقوف قرار دے کرکہا کہ یہ لوگ سائنسدانوں سے حقیقت تو معلوم کریں۔ سائنسدانوں کی رائے میں بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کے باعث مزید زلزلوں اور طوفانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ سال زمین کا گرم ترین سال قرار دیا گیا تھا، جب کہ اسی ماہ کے آغاز میں سان فرانسسکوکا درجۂ حرارت اس قدر بڑھا کہ ہلاکتیں شروع ہو گئیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں نوعِ انسانی گرم موسم کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ اتنے واضح سائنسی حقائق کو بھی ٹرمپ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ماحولیات کے لیے موجودہ امریکی مشیر بھی اس شخص کو منتخب کیا گیا ہے جو اس مسئلے میں کوئی انسانی عمل دخل ماننے کو تیار ہی نہیں۔ حالانکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کو اس سلسلے میں کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی معیشت میں سبقت لے جانے کے تمام ٹرمپی دعوے اور اقدام ہاروے اور ارما کی نذر ہوگئے۔
دنیا کو درپیش دس ممکنہ خطرات میں ماحولیاتی تبدیلی کا معاملہ سرفہرست آچکا ہے۔ ماہرین گزشتہ کئی سالوں سے چِلّا رہے ہیں مگر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ کمزور ممالک سارا ملبہ ترقی یافتہ ممالک پر ڈال کر بَری ہوجاتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک کی ساری توجہ معاشی میدان میں مسابقت کے حصول پر ہے، جس کے لیے نت نئی صنعتوں کا قیام ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان صنعتوں میں تیل اور کوئلے کا بطور ایندھن استعمال اور ان صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ اور دھواں عالمی حدت میں مزید اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
امریکا، روس، چین، جاپان، کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ کاربن کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں۔ ماحولیاتی تغیرات سے ہونے والی تباہیوں کے باعث ان ملکوں کے سامنے اپنی بھی بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان تباہیوں سے صرف معمول کی زندگی متاثر نہیں ہوتی بلکہ دنیا ہجرت اور غربت کی طرف قدم اور آگے بڑھا دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پوری دنیا متحد ہو کر ماحول کو بچانے کے لیے کام کرے۔ کاربن فِری دنیا کے سوا اب دوسرا کوئی مقصد سامنے نہیں ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کو جان لینا بہت ضروری ہے کہ موسمی تغیرات پر قابو پاکر ہی معاشی اور سماجی برتری حاصل کی جا سکتی ہے۔ امریکی عوام کو چاہیے کہ جب ٹرمپ طوفان کا سارا پانی پمپ کرکے فارغ ہوجائیں تو ماحولیاتی تبدیلیوں پر ان کے موقف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، تاکہ مزید کسی ناخوش گوار صورت حال سے دنیا کو بچایا جا سکے۔
بشکریہ ایکسپریس اردو