کلاؤڈ cloud کہانی
(وَرچُواَل virtual دُنیا سے متعلق ایک کہانی)
از، خضر حیات
آج کل موبائل ڈیٹا یا ڈیجیٹل ڈیٹا کلاؤڈ پہ محفوظ ہو رہا ہے۔ یعنی ڈیٹا ہوا میں موجود ہے۔
کہانی یوں ہے کہ بھرتے بھرتے اور جمع ہوتے ہوتے ایک دن فضا میں ڈیٹا اس قدر زیادہ ہو گیا کہ وہاں مزید کچھ جمع ہونے کی گنجائش ہی نہ بچی۔ فضا میں ہر طرف ڈیٹا ہی ڈیٹا اکٹھا ہو گیا اور آپس میں جُڑ کر اس نے پوری فضا کو ایسے بھر دیا کہ تِل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔
کلاؤڈ کا گَھنا جال زمین اور آسمان کے درمیان حائل ہوا تو آسمان زمین کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور یوں زمین اندھیری ہو گئی۔
قدرتی روشنی گئی، موسم گئے، بارشیں گئیں اور بس راتیں ہی راتیں آ کر ٹھہر گئیں۔
سُوکھا پھیلا تو اپنے ساتھ خشک سالیاں بچھاتا گیا۔ اناج نایاب ہونے لگا۔ سونے جاگنے کے اوقات میں بے ترتیبی آ گئی۔ کیلنڈر جلا دیے گئے۔ گھڑیوں کا جواز ہی ختم ہو گیا۔
غرض یہ کہ زمین، آسمان کی چھت کے بغیر رہنے کے لیے ایک بے رونق جگہ بن کے رہ گئی۔
ڈیٹا کی اس قدر بہتات نے ایک اور گڑ بڑ کر دی۔ اب مختلف اکاؤنٹس کا ڈیٹا ایک دوسرے میں خلط ملط ہونے لگا۔ کسی کے فوٹو کہیں کُھل گئے اور کسی کی دستاویزات کہیں اور جا کے کُھلیں۔ پرائیویسی کا بُت پاش پاش ہوا تو اس بے ترتیبی نے انسانوں کے ہوش اڑا کے رکھ دیے۔
اس افرا تفری اور ذہنی انتشار سے نکلنے اور زندگی کو معمول پر لانے کے لیے سب انسانوں نے ایک دوسرے کو قائل کرنا شروع کر دیا کہ وہ کلاؤڈ پر موجود اپنا اپنا ڈیٹا ڈیلیٹ کرنا شروع کریں تا کہ پرائیویسی کے مسائل ختم کیے جا سکیں اور زمین کو اس کا آسمان واپس لوٹایا جا سکے۔
متعلقہ: جنسی لطف ماپنے کا سافٹ ویئری متبادل کہانی از، نصیر احمد
روشنی کا ہالہ افسانہ از، بلال مختار
مدت ہو گئی تھی جب لوگ زندگی کے حقیقی ورژن کو وَرچُواَل virtual ورژن سے تبدیل کر چکے تھے۔ اس لیے لوگوں کے پاس اپنی ڈیجیٹل زندگیوں کا کوئی حقیقی بیک اپ موجود نہیں تھا، اور اب ان کی پوری پوری زندگیوں کے ڈیجیٹل دستاویزی ثبوت ان کے اپنے ہی ہاتھوں ضایع ہو جانے کا وقت آن پہنچا تھا۔
یہ بہت کٹھن فیصلہ تھا، مگر اس کے علاوہ چارہ بھی کوئی نہیں تھا۔ زمین کو دو بارہ سے رہنے کے قابل جگہ بنانے کے لیے تمام انسانوں نے دلوں پہ پتھر رکھ کے یہ فیصلہ کیا اور پھر اندھیرے نے دیکھا کہ لوگوں نے مسلسل برستی آنکھوں کی گواہی میں اپنی اپنی وَرچُواَل virtual زندگیوں کے تمام ثبوت غارت کر دیے۔
ایک قیامت کی گھڑی تھی۔
ایک مدت سے لوگ انسانی یاد داشت، یا ہیومن میموری human memory پر انحصار کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اب جَب کہ سب ختم ہو گیا تھا تو لوگ ایک بھیانک صدمے کا شکار ہو گئے۔
آہستہ آہستہ جب وہ کلاؤڈ پر انحصار ختم کر کے نئی زندگیوں کے عادی ہونے لگے تو نئے سرے سے نئی مہمّات پر نکل کھڑے ہوئے۔
ان کا سفر زیرو سے پھر شروع ہو گیا تھا، اور اب انہوں نے یادیں بنانے کے ساتھ ساتھ ایک اضافی کام بھی شروع کر دیا تھا کہ اب کی بار انہوں نے یادیں محفوظ رکھنے کے لیے انسانی یاد داشت کا سہارا لینا شروع کر دیا تھا۔
اب کی دنیا بہت بدلی ہوئی نظر آئی
لوگ اب آمنے سامنے بیٹھ کے باتیں کرنے لگے
تصویریں بنائے اور کسی کو دکھائے بغیر کھانے پینے لگے
کسی کو بتائے دکھائے بغیر بیمار پڑنے لگے
حقیقی انسانی روابط بحال ہو گئے
تصویریں اب مناظر کی صورت میں انسانی حافظے میں محفوظ ہونے لگیں
خوشی غمی کے جذبات حقیقی زندگی میں بھی نظر آنے لگے
نئی دنیا آہستہ آہستہ سب زندہ رہنے والوں کو پسند آنے لگی
اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
***