بندر، مقبول عام کالم کاری کے نسخے بتاتا ہے : ایک مکالمہ
از، نصیراحمد
کالم نگار: بندر جی، آپ سے کچھ کام ہے، بات کرنے کا کچھ وقت مل سکتا ہے۔
بندر: آ گئی ناں، ہماری یاد، کہا تھا ناں، ایک نہ ایک دن تمھیں رشتہ داری ماننی پڑے گی۔
کالم نگار: چپ اوئے بدتمیز بوجو، رشتے کی بات کی ناں تو تھوڑی سی اور لال کر دوں گا اور آتش گل سے دہکے ہوئے چمن کی تشریح بن جاؤ گے اور پھر اس دہکے ہوئے چمن کو نو بجے کی خبروں میں ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی کے ثبوت کے طور قوم کو دکھا دوں گا، پھر تو چیڑ کے اونچے اونچے درخت بھی پناہ نہیں دیں گے۔
بندر: یار یہ کیا انداز گفتگو ہے، تم تو بگڑے ہوئے تھانیداروں سے بھی گر گئے ہو۔ ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے، چلو رشتہ داری نہ سہی، کچھ مشابہتیں تو ہیں۔
کالم نگار: تمھیں مار کھا کر ہی چین پڑے گا، میری تم سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔
بندر: مانا یار کہ تم صحافی ہو، لیکن اتنی بھی غلط بیانی نہ کرو، مشا بہتیں تو ہیں، یہ ناک کان، منہ آنکھیں، بال، پنجے، جبڑے، اور کبھی کوئی بگڑا ہوا تھانیدار ٹکرا، تو لال تمھاری بھی ہو جائے گی اور’سرخ رو ہوتا ہے انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد‘ کی تفسیر بن جاؤ گے۔ اور پھر میں ہوں جمہوری طرز کا بندر، پڑھے لکھوں کی گفتگو بڑی توجہ سے سنتا ہوں۔
کل ہی وہ مرزا صاحب، وہی جو کبھی بھینس کے کٹوں سے، کبھی بکروٹوں سے، کبھی کتوں سے اور کبھی تمھارے جیسے صحافیوں سے بات چیت کرتے پائے جاتے ہیں، ہم بندروں کی بطور فرد آئینی تعریف کو وسیع کرنے کے امکانات اور بندروں پر انسانی حقوق کے انطباق کا جائزہ لے رہے تھے اور ساتھ والی ‘اف میں کہاں پھنس گئی’ کی تعبیر بنی ہوئی تھی لیکن میں بڑی توجہ سے سن رہا تھا، اب تو بندروں کے انسانی حقوق کے احترام کے حق میں فیصلے بھی آگئے ہیں۔
اب فیصلے کے دوبارہ جائزے کی درخواست نہ دے دینا، وہ فیصلے یہاں نہیں دساور میں ہوتے ہیں۔ میں کہاں وقت ضائع کر رہا ہوں، تمھیں تو خبر بھی نہ ہو گی، اور دساور کے معنی بیرون ملک کے ہوتے ہیں، بیرون ملک ،یعنی ملک سے باہر، اب ملک سے باہر کا مطلب نہ پوچھ بیٹھنا( منہ بنا کر) کیسے کیسے ان پڑھوں سے سامنا ہو جاتا ہے،اور پھر یہ گفتگو سے تشدد اور سطحیت ختم کرو ورنہ کام کسی اور سے لینا۔
کالم نگار: او بھائی صاحب، یار بندر جی، یار برا مت مانو (ایک بار کام نکال لوں پھر اس کو تو سیدھا کرہی دوں گا) او پیارے، یہ لو کیلے، نہیں نہیں ٹھہرو، مجھے کیمرا آن کرنے دو، میں اپنے بھائی کی تصویر بناؤں گا، صبح فرنٹ پیج پر لگاؤں گا، اور کیپشن لگاؤں گا، ابولآبا، نفاست سے کیلے کھاتے ہو ئے، شہزادہ لگے گا میرا پیارا( دانت پیسنے کی خواہش روکتے ہوئے) بھائی۔ میرا دلارا بھائی۔ ھی ھی، ایک بات میری مانو، اس مرزا صاحب کی باتوں پر توجہ نہ دو، وہ تو پاگل ہے، اس کو معروضی حالات کا بالکل بھی ادراک نہیں ہے، تم سوجھ بوجھ والے ہو، کس احمق کی باتوں میں آگئے۔
بندر: اب تم خوشامد اور رذالت کر رہے ہو، خوشامد تو ٹھیک ہے لیکن رذالت نہ کرو، میں اپنے ضمیر اور اپنی کمیونٹی کو جواب دہ ہوں۔ ہماری کمیونٹی میں ان مرزا صاحب کی بڑی عزت ہے، اس لیے ان کے خلاف ہم کوئی بات نہیں سنتے ۔
کالم نگار: برڈز آف فیدر فلوک ٹو گیدر۔ برا نہ ماننا، میں مسخری کررہا ہوں۔
بندر:او ہو، کہیں سے سن لیا ہو گا، چلو ہم لوگ برڈز ہی سہی، تم لوگ تو اوندھوں کی طرح کتنے بھی بھٹک جاؤ، آخر میں ایک دوسرے سے ملی بھگت کر ہی لیتے ہو۔
کالم نگار: ھاھاھا، کیا برجستہ، بر محل اور بے ساختہ فقرہ ہے،جھرنوں کی سی روانی ہے اور کرنوں کی سی تابانی اس فقرے میں۔لگتا ہے تم سے اور ملاقاتیں کرنی پڑیں گی، تمھاری ہم جنسی کے تو بہت فوائد ہیں۔
بندر: یہ کیا بکواس کر رہے ہو؟ اوہ اچھا۔توبہ ہے، تم تو بہت ہی جاہل ہو، ارے نادان ہم جنسی نہیں ہم جلیسی، ایک ہی مجلس میں اٹھنا بیٹھنا، مجلس مطلب بزم،محفل اف کیسے سمجھاؤں۔۔۔۔۔۔ یاد آیا بیٹھک۔
کالم نگار: کتنا پڑھا لکھا ہے میرا شہزادہ، ڈکشنری سمجھو ڈکشنری، لیکن بھائی کچھ کام کی بات بھی ہو جائے، دقائق المعارف پر سوختے میں بات کر لیں گے، آج کچھ جلدی ہے۔
بندر: ھاھا، اچھا بتاؤ کیا کام ہے؟
کالم نگار:
میرا پیارا بھائی ،کوئی ہٹ سا کالم لکھنے کا طریقہ تو بتائیے۔
بندر: کس موضوع پر، حق معلومات پر، حقوق صارفین پر، فیڈرلزم پر، شہریت پر، فلسفے پر یا ماحول کے تحفظ پر۔
کالم نگار: بھائی لگتا ہے ،دساور، بیرون ملک اور ملک سے باہر کے موضوعات میں بہت دلچسپی لینے لگا ہے، ایک دن ضرور آئے گا، دیس میں یہ سب موضوعات اہم ہو جائیں گے لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا، کچھ ایسا طریقہ بتاو کچھ بکری بھی ہو، کچھ نام وام بھی بنے، لوگ سلام بھی کریں، اور ان سب موضوعات پر وہ مرزا صاحب اور ان جیسے با شعوووووووووووووووووووووور( سیٹی سی بجاتے ہوئے) لوگ بہت شانداااااااااااااااااااااااااااااااااار کام کررہے ہیں جس کے نتیجے میں بندروں کی کمیونٹی کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن میرا بھائی برا نہ ماننا، انسانوں کو ابھی ان موضوعات سے کچھ دلچسپی نہیں ہے،جب بچے بھوک سے بلک رہے ہوں،مائیں پیاس سے تڑپ رہی ہوں،اور باپ گاڑی سے لٹک رہے ہوں، اور بد عنوانوں کے بڑے بڑے کولہے مٹک رہے ہوں،اور لمبی لمبی گاڑیوں والے بھکاریوں کے پھیلے ہاتھ جھٹک رہے ہوں اور شور مچاتے سکوٹر بھٹک رہے ہوں، اور رئیسوں کی محفل میں شگوفے چٹک رہے ہوں،تب ہڑکتی، بلکتی ، تڑپتی، انسانیت بلبلا کر کہتی ہے ، آئے گا آنے والا۔
بندر: یہ بے تکی سی قافیہ بندی کیوں شروع کر دی۔
کالم نگار: نہیں بھائی، یہی کچھ تو مارکیٹ میں چلتا ہے، لوگوں کا رو رو کر حال برا ہو جاتا ہے اور لوگ ہنس ہنس کے دہرے ہوجاتے ہیں۔
بندر: یعنی تم لوگوں کو پاگل بنانا چاہتے ہو؟
کالم نگار: پاگل تو انھیں سینئیر صحافی بنا چکے ہیں، میں ذرا اس پاگل پن کو، میرا مطلب ہے، اپنی جیب کا رستہ دکھانا چاہتا ہوں۔
بندر: کتنی بری بات ہے، ادھر ہم یک جہتی میں اتنے مصروف ہیں، کبھی ساتھیوں کی جوئیں بینتے ہیں اور کبھی ان کا آتش گل میں دہکا ہوا چمن کھجاتے ہیں ،پھر بھی خرد افروزی اور روشن خیالی میں مصروف ہیں اور تم اتنا بڑا دماغ ہوتے ہوئے بھی کتنی چھچھوری کرت ہو،
کالم نگار: (کچھ غصہ آجاتا ہے) تو کرو ناں تم خیالی اور افروزی،ہم نے تو روٹی روزی کا کچھ کرنا ہے۔
بندر: (گھور کر دیکھتا ہے) لہجے پر قابو رکھو
کالم نگار: ( کچھ سنبھل کر) ارے میرا بھائی ، مجھے پتا ہے، چھچھوری کرت ہوں مگر پیاں پڑت ہوں، بیاں پھڑت ہوں اور بنتی کرت ہوں۔
بندر: اچھا تم میں کچھ رمز و اشارہ پہچاننے کی کچھ صلاحیت ہے۔ میں تمھیں ایک ڈیمو دوں گا، تمھارا کالم تیار ہو جائے گا، لیکن اس کے بعد مجھے تشریح کے لیے تنگ نہ کرنا۔ تم سمجھ لو گے ناں
کالم نگار: کوشش کروں گا، لیکن میرے راجکمار اگر کچھ پلے نہیں پڑا تو تم میری مدد کرنا۔
بندر: ہونہہ، اچھا تو پھر دیکھو( اور شاخ درشاخ اور شجر در شجر چھلانگیں مارتا غائب ہو جاتا ہے)۔
کالم نگار: (حیران ہو کر خود کلامی کرتے ہوئے ) یہ تو بڑا کنجر نکلا، اتنا ٹائم برباد کردیا( اتنے میں بندر شاخ در شاخ، شجر در شجر چھلانگیں لگاتا، واپس آجاتا ہے )
بندر: کچھ سمجھ آئی؟
کالم نگار: کیوں ستا رہے ہو، اتنی سمجھ ہوتی تو تم جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندر: مجھ جیسے:
کالم نگار: دانشمد رشتے کے بھائی کے پاس مشورے کے لیے کیوں آتا؟
بندر: ارے تم تو بالکل ہی دھوندو ہو، وہی اونچی اونچی بے ربط سی باتیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہو ، کچھ گھسے پٹے شعر، کچھ گھٹیا سے لطیفے، مقتدر لوگوں کی تعریفیں، پارسائی کا کچھ ڈھونگ،مقتدر لوگوں کے حریفوں کا تمسخر،لیکن یہ سب کچھ تیز رفتاری سے ایسے کرو کہ کسی کو کچھ پکڑائی نہ دے۔
کالم نگار: اوہ، اب میں سمجھا، لیکن کچھ تفصیل سے بتاؤ۔
بندر: کیوں نہ میں ہی تمھیں تمھارا کالم لکھ دیا کروں؟ خیر میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ بہرحال یہ ایک نسخہ ہے ،تمھارے لیے مفید ہو گا۔
1۔ ساتویں سے اٹھارہویں صدی تک ایک عظیم اسلامی شخصیت چنیں۔ اس کے بارے میں ایک سبق آموز واقعہ لکھیں۔ پھر اس شخصیت کا موازنہ موجودہ وزیر اعظم سے کریں۔ پھر گریہ کریں کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے۔
2۔ عوام کو خوشخبری دیں کہ آپ ہالینڈ گئے تھے۔ اب ایمسٹرڈم کی گلیوں کا موازنہ چیچو کی ملیاں سے کریں اور بغداد کی گلیوں کی اونچی لمبی کھجوروں پر چڑھ کے ایک دفعہ پھر گریہ کریں کہ کبھی اے مسلم تدبر بھی کیا تو نے۔
3۔ پھر قائد اعظم کے سر پر مدرسہ دیو بند کی دستار فضیلت باندھیں، مولانا مودودی کے علم و فضل کی تعریف کریں، بھٹو صاحب کو چند گالیاں دیں، علامہ کے دو چار شعر لکھیں جن میں جنگ و جدل کا ذکر ہو ایک دفعہ پھر گریہ کریں کہ امت پر کڑا وقت آ گیا ہے۔
4۔ اس بات پر فخر کا اظہار کریں کہ آپ نے کسی بہت ہی عالم فاضل شخص کے زانوئے تلذز کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے۔
5۔ پھر اپنی شرافت اور دوسروں کی بے غیرتی کا ایک تصدیق نامہ ہمراہ دستخط گواہان جاری کریں۔ گواہوں کے نام مشہور لوگوں کی سرکاری فہرست سے لیے جائیں۔ عدم دستیابی کی صورت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کام لیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد فوری طور پر سمر قند اور بخارا کے نام کی دہائیاں دیتے ہوئے گریہ کریں کہ کرشمہ کپور بھی شرما جائے۔
5۔افواج پاکستان کی بھرپور تعریف کریں، غیر ملکیوں کو کوسنے دیں اور عاصمہ جہانگیر کے خلاف دوچار باتیں لکھنا مت بھولیں ۔طالبان کی تعریف حرام قرار دی گئی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہےاس لیے شاہ اسماعیل دہلوی کے ایک مختصر سے قصیدے پر گزارا کریں۔
6۔ درویش عصر حاضر یعنی ملک ریاض بحروی کے جودو سخا کا والہانہ انداز میں ذکر کریں کہ خواجہ حسن بصری کو غش آجائے کہ خبر تحیر عشق زرد صحافت کا ایک لازمی جزو ہے۔
کالم نگار۔ کیا بات ہے؟
بندر: کل فرنٹ پیچ پر میری تصویر چھاپو گے ناں
صحافی: فرنٹ پیج پر تمھاری تصویر؟ تم ایک ذلیل بندر ہو، کیسی امیدیں لگا رکھی ہیں؟
بندر: مجھے پتا تھا، تم ایسے ہی کرو گے لیکن بے وقوفی کر رہے ہو، شاید پھر کبھی مشورے کی ضرورت پڑجائے
صحافی: نہیں، مجھے علم ہے، تم نے پھر بھی میری مدد کرنی ہے کیونکہ تم انسان نہیں ہو۔
بندر: اور یہ المیہ ہے کہ طربیہ؟
صحافی: معلوم نہیں۔ابھی تو کام بن گیا بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ گڈبائے۔
بندر: ہونہہ( صحافی گاڑی کی طرف بڑھ جاتا ہے اور بندر مغموم سی شکل بنائے درخت کی اونچائی کی طرف بڑھنے لگتا ہے)۔