تنقید: مجھےکتنے سال کی تاریخ میں جینا ہے

تنقید: حصہ اول

تنقید

(ڈاکٹر نوازش علی)

بعض اوقات انتہائی غیر اہم ادبی مسائل، بڑے بڑے مسائل اور بعد ازاں مرکزی سوالات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے عہد کے ایک نامور شاعر و افسانہ نگار اپنے بارے میں لکھے گئے مضامین کتابی صورت میں شائع کروانے کی فکر میں تھے۔ ان پر لکھے گئے اکثر و بیشتر مضامین ایک جیسے تعریفی و توصیفی فقروں کے ہار بنے ہوئے

Dr Nawazish Ali

تھے اور یہی بات ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ میرے لیے غورو فکر کا ایک کھلا راستہ نکلا، جس کے بیچوں بیچ ایک سوال بھی پڑتا تھا ۔۔۔’’مجھے کتنے سال کی تاریخ میں جینا ہے‘‘۔۔۔ ’’مجھے ‘‘ سے آپ جو چاہیں مراد لینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جبکہ میرے نزدیک ’’مجھے‘‘ سے مراد اس مضمون میں نقاد اور تخلیق کار سے ہے۔
موجودہ ادبی صورت حال یہ ہے کہ ہر جگہ باوضو حاضر رہنے والے لکھاری اپنی کتاب کے بارے میں کوئی سنجیدہ رائے سننے سے احتراز کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ ایسے لکھاریوں سے مضامین لکھوائے جائیں، جو خود بھی ان کے پایۂ کمال کو پہنچے ہوئے ہوں تاکہ کچھ دیر کے لیے ادبی تقریب میں واہ واہ ہوجائے۔ ایسی تحریریں ، جنہیں لکھنے والے تنقید کہہ کر ادبی تقریبات میں پیش کرتے ہیں، چار دن کی چاندنی جیسی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔ یار لوگ ایک آدھ بار اِدھر اُدھر ذکر کر دیتے ہیں بلکہ اکثر وہ بھی نہیں۔ بعض اوقات ہر دو فریق ایسی تحریروں کو اشاعت کے مراحل سے گزارنا بھی مناسب خیال نہیں کرتے۔ایسی ذہین و فطین اور کایاں تحریروں میں دراصل اپنی پیدائش سے پہلے مرجانے کی جلی و خفی آرزو موجود ہوتی ہے۔ ہمارے لکھاری بہت جلد مر جانے کی آرزو کے سہارے جی رہے ہیں۔لیکن وہ کتنے سال کی تاریخ میں جی سکیں گے؟ ایسی تخلیق اور تنقید کو کتنا ثبات حاصل ہوگا؟جبکہ تاریخ میں جینے اور ثبات کو قیام کے لیے کچھ عرصہ دینے کو ہم خود تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ثبات کو قائم ہونے کا موقع فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ تنقیدی بات جس میں ایک آدھ سال ہی سہی، زندگی جینے کا کوئی قرینہ موجود ہو، اسے عام قارئین تو ایک طرف رہے، کتاب کے مصنف کی طرف سے بھی قبولیت کا درجہ نصیب نہیں ہوتا۔ ہم کیسے زوال سے دوچار ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنقیدی مضامین سے قبولیت عام کی کچھ زیادہ توقع نہیں ہوتی لیکن یہ سوال ہر حال میں قابل غور ہے کہ کس حد تک تنقیدی مضامین کے مشمولات بحیثیت مجموعی کئی ایک زمانوں کے لیے تازہ قرار پانے کے مستحق ہوتے ہیں؟ لیکن پھر بھی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ چھاننے، پھٹکنے اور پرکھنے کی حد درجہ سہولت بہم پہنچانا ہی تخلیق اور تخلیق کار دونوں کے لیے مستحسن ہے۔ اس سے ثبات کے قیام کا امکان روشن ہو سکتا ہے۔ تاہم ثبات کا مضمون بھی آسان نہیں ہے۔ عام تخلیقات تو ایک طرف رہیں، کوئی نیا نظریۂ ادب بھی بڑی مشکل سے کچھ عرصہ کے لیے اپنا ثبات قائم کر پاتا ہے۔ نیا نظریۂ ادب رکھنے والی ہر بڑی ادبی تحریک بھی ادبی تاریخ میں دو ایک دہائیوں سے زیادہ نہیں جی سکی اور اپنے ہی رد عمل کی خوراک اور کھادبن گئی۔ بے ثباتی کے اس پہلو اور پھر نئی شکلوں کے ظہور کے بارے میں غورو فکر لازم ہے۔ لیکن ثبات کے قیام کے لیے کوششیں کرنا تو ایک طرف رہا، آج کی ادبی صورت حال یہ ہے کہ ۲۱؍اپریل کو علامہ اقبال کے یوم وفات پر اقبال کا شعر سنائیے اور اپنے نام اور اپنی تصویر کے ساتھ اقبال کے شعر کو اخبار میں چھپوائیے۔ چنانچہ بڑے بڑے جیّد علمائے ادب کے نام اور تصاویر اخبارات میں شائع ہوگئے۔ اقبال کا حق بھی ادا ہوگیا اور اقبال کے بارے میں آپ کے مستند تنقیدی اقوال سے اخبارات کے صفحات بھی رنگین ہوگئے۔ ان حالات میں ادب کی تخلیق اور ادب میں جگر کاوی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
الیکٹرانک میڈیا کا ایک سیلابِ بلا خیز ہر اخلاقی او رفکری نظام کو بہائے لیے جارہا ہے۔ ایسے میں آپ کے اور میرے لکھے ہوئے دو اکھّر بظاہر کہیں ٹھہرتے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن پھر بھی لکھے ہوئے لفظ ہی کو کسی قدر ثبات حاصل رہے گا۔ آپ اس بات کو محض اپنی دلجوئی اور اشک شوئی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ چلئے یوں ہی سہی ۔ لیکن پھر بھی یہ بات اپنی جگہ اہمیت ضرور رکھتی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا موجود بلکہ ہنگامی طور پر موجود کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ وہ محض تیزی سے بصارت کا امتحان لیتا ہے اور ہم بھی اسے تیزی سے بھول جاتے ہیں۔ وہاں ٹھہراؤ کو کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ جبکہ لکھے ہوئے لفظ میں بصارت اور بصیرت کے ساتھ ساتھ ٹھہراؤ کے لیے بھی بہت سا سامان موجود ہوتا ہے۔ لہذا ادب کا موجود، قائم اور باقی رہنا بعید از قیاس نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ہمارے خوابوں اور خیالوں اور غیر موجود کی صورت گری بہت کم کرتا ہے۔ جو چیز زندہ اور تا دیر رہنے کا امکان رکھتی ہے وہ ہمارے خواب اور خیال ہیں۔ بلکہ ایسے خواب و خیال جن کا وجود ماحول اور معاشرے میں موجود نہیں ہوتا۔ لکھاری اپنی لکھت کے وسیلے سے غیر موجود کو موجود و حاضر اور نامعلوم کو معلوم بنانے پر قادر ہے۔ جب تک لکھاری اور اس کی لکھت میں یہ سب صورتیں اور صلاحیتیں موجود رہیں گی، لکھا ہوا ادب بھی موجود رہے گا۔ تنقید بھی خوابوں اور خوابوں کے الجھاوؤں اور نامعلوم کی ممکنہ شکلوں کو سیدھے سبھاؤ بیان کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ جب تک ادب موجود ہے، تنقید بھی موجود رہے گی۔ بلکہ تنقید تو بسا اوقات ایک قدم آگے نکل کر لکھاریوں اور لکھتوں کے خوابوں اور خیالوں کو بڑھاوا دینے کا بھی فریضہ انجام دیتی ہے۔ لہذا تنقید سے مفر ممکن نہیں۔ یہاں اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ ادب کی اپنی مقصدیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کے نفسی اور فلسفیانہ مسائل ، سیاسی و سماجی، تہذیبی احوال، زندگی اور موت کا ربط باہم ، کائناتی اور آفاقی مسائل، حسن و جمال کی تخلیق ، خدا اور انسان کے تعلق اور انسان سے انسان کے تعلقات تک ادب کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ گویا ادب کے مقاصد بے حد و حساب ہیں۔ تنقید بھی ان تمام متذکرہ افکار و مسائل کو زیر بحث لاتی ہے۔ تنقید کا پھیلاؤ اور اس کے امکانات بھی غیر محدود ہیں۔ تاہم تنقید کے سلسلہ میں یہ مسئلہ بھی ابھارا جاسکتا ہے کہ کون سی تنقید؟ اس وقت بہت سے تنقیدی نظریات اور تنقیدی دبستان موجود ہیں۔ آج کا نقاد کن نظریات اور کس دبستان سے اپنا ناطہ جوڑے تاکہ ادب کی بہتر تفہیم کی کلید ہاتھ لگے۔ نئے سے نئے تنقیدی تصورات کی بلا سوچے سمجھے قبولیت اور ان کا مبلغ و شارح بننا، محض نیا اور جدید بننے کے شوقِ فضول کی گرفتاری ہے۔ اس سے اوپر اٹھ کر کوئی بات ہو تو بات بننے کا امکان ہو سکتا ہے۔ در حقیقت نئے تنقیدی تصورات کی روشنی میں اپنی ادبی وراثت کی بازیافت اور ادبی وراثت کی روشنی میں نئے تصورات کی پرکھ اور اپنے تہذیبی تشخص سے ہم آمیز تصورات کے انجذاب سے وسیع تر تنقیدی بصیرت کا حصول ممکن ہے۔مغربی ادبی تنقیدات و نظریات کے حوالے سے اپنے ادب کے بارے میں کوئی وقیع ادبی و تنقیدی نظریہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔ وجہ یہ کہ ہم مغرب نہیں ہیں۔ مغرب کے اپنے احوال یہ ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا ادبی نظریہ بھی پانچ دس سال سے زیادہ کی تاریخ میں جیتا نظر نہیں آتا۔ مغرب میں نئے ادبی و تنقیدی نظریے تیزی سے مقبول اور اتنی ہی تیزی سے مسترد ہو رہے ہیں۔ وہاں نیا ادبی و تنقیدی نظریہ پیش کیئے بغیر روزی روٹی کا مسئلہ تسلی بخش حد تک حل نہیں ہوپاتا۔ خیر ہمیں اس سے غرض نہیں، کیونکہ ہمارے ہاں ابھی ادبی حالات اتنے دگرگوں نہیں ہوئے۔ یہ سوال یقیناًاپنی جگہ اہم ہے کہ مغرب کی تقلید میں کیا ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہر ادبی و تنقیدی نظریے کو اسی طرح سے قبول اور پھر رد کرتے چلے جائیں، جیسا کہ مغرب کر رہا ہے۔ تاہم جہاں تک مغربی افکار و نظریات کی قبولیت کا سوال ہے۔ اس میں کوئی شک نہین کہ مغرب نے بڑے بڑے فلاسفر ، سائنس دان اور ادیب پیدا کئے۔ ان کے افکار و نظریات کو محض مغرب کے کہہ کر کلّی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سبھی معاشروں کی وراثت ہیں۔ مغربی حکمت و دانش کی وراثت میں حصہ داری کے رویے ہی کو بہتر طرز عمل کہا جاسکتا ہے۔ تاہم اخذ و استفادہ اورگمشدہ اجتماعی میراث میں حصہ داری چبائے ہوئے نوالوں کی جگالی نہیں ہے۔ اپنے معاشروں کی فلاح کے لیے استفادہ اور بات ہے۔ اور دوسروں کے افکار و نظریات کے غلام خانہ زاد بن کر جینا اور بات ہے۔ اپنے ادب کے بارے میں آزادانہ حیثیت سے غور و فکر کرنا، ہر ادیب کا بنیادی حق ہے۔ جس سے دستبرداری ذہنی غلامی کہلائے گی۔ مغرب کی ہر الا بلا کو قبول کرتے چلے جانا، اپنی تنقیدی و ادبی دانائی کی نفی کے مترادف ہے۔ مغرب کے ادبی و فکری و فنی ثمرات اور اثرات اپنی جگہ لیکن ہم تو اپنی ہی مٹی کی دھول ہیں۔ اسی مٹی سے اٹھتے ہیں۔ اور اسی مٹی میں دوبارہ جذب ہو جاتے ہیں۔ یہی ہمارا مقدر ہے اور یہی مقدر ہونا بھی چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید مغربی علوم اور ادبی تصورات سے ہمارے تخلیق کار اور نقاد استفادہ کرتے رہے ہیں۔ مغرب کی پیروی میں ہمارے یہاں بہت سے تنقیدی دبستان بھی معرض وجود میں آئے۔ تنقیدی دبستانوں میں سے کسی ایک دبستان کی پیروی کرنا ہمارے نقادوں کو بہت بھاتا رہا ہے۔ تنقیدی نظریہ درآمد کر لینے کے بعد کسی فن کار یا فن پارے پر اس کا اطلاق باقی رہ جاتا ہے لہذا بہت زیادہ دماغ سوزی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ فکری و نظری سہولتوں سے فائدہ اٹھانا، جہاں ایک طرف سہل پسندی کو راہ دینے والی بات ہے وہیں یہ خواہش بھی موجود ہوتی ہے کہ شمار کنندگان ، بآسانی شمار کر سکیں۔ آزادانہ حیثیت میں بطور ادبی نقاد خود کو شناخت کروانا کس قدر مشکل ہو چلا ہے؟جہاں تک تخلیقات کا تعلق ہے مغربی علوم و نظریات کے اثرات تو تخلیقات میں موجود ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسی بڑی تخلیق سامنے نہیں آسکی جسے محض نفسیاتی علم کی دین یا محض مارکسی نظریۂ فن کی عطا یا محض ساختیاتی رویّوں کی تخلیق کہا جاسکے۔ تو پھر تخلیقات پر لکھی جانے والی تنقید کن حسابوں محض نفسیاتی تنقید، عمرانی تنقید ، مارکسی تنقید، ساختیاتی تنقید وغیرہ وغیرہ ہو سکتی ہے۔ اگر تمام علوم تخلیقات میں گھل مل کر آتے ہیں تو پھر تنقید میں بھی ان علوم کو جذب ہو کر آنا چاہیے۔ مختلف دبستانوں سے وابستہ نقادوں کے لیے غور و فکر کا مقام ہے۔ جب تخلیقات خانوں میں بٹی ہوئی نہیں ہوتیں تو پھر تنقید کو کیسے خانوں میں بانٹا جاسکتاہے۔ تخلیق مختلف اثرات اور علوم کو جذب کر کے اکائی کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ لہذا تنقید کو بھی اکائی کی صورت میں سامنے آنا چاہیے۔ لیکن یہ اکائی امتزاجی نہیں ہوتی بلکہ انجذابی ہوتی ہے۔ امتزاجی تنقید تو مختلف علوم اور ادبی نظریات کا آمیزہ (Mixture) ہے جبکہ در حقیقت تنقید میں تمام علوم و فنون اس طرح گھل مل گئے ہوں کہ مرکب (Compound)کا مضمون پیدا ہوجائے اور علوم نظریات کی علیحدہ سے شناخت نہ کی جاسکے۔
لکھاری جب لکھتا ہے تو فقط وہ نہیں لکھتا۔ اس کے ساتھ اس کا ماضی، مطالعہ و مشاہدہ، اجتماعی ادبی روایات اور انفرادی و اجتماعی شعور بھی لکھتا ہے۔ کسی بھی لکھت میں اپنے ادب کی تاریخ کی تمام لکھتیں دائیں بائیں اور آگے پیچھے رواں رہتی ہیں۔ اپنی لکھت کو ان کے درمیان رکھ کر لکھاری اپنی شناخت اور اپنی انفرادیت کو پانے کی صورت نکالتا ہے۔ لکھاری اپنی لکھت میں اکیلا بھی ہوتا ہے اور ادب لکھنے والے دیگر لکھاریوں کا ایک حصہ بھی۔۔۔مخلوق سے الگ لیکن فراواں مخلوق کا حصہ بنے رہنے ہی سے اس کی انفرادی آواز پورے ادب اور معاشرے کی آواز بنتی ہے لیکن یہ بات ساختیاتی تنقید سے بالکل مختلف نوعیت کی حامل ہے۔ کیونکہ ساختیاتی تنقید زبان کے بارے میں کہتی ہے۔ ’’زبان بولتی ہے آدمی نہیں‘‘اور ادب کے سلسلہ میں کہتی ہے۔ ’’لکھت لکھتی ہے لکھاری نہیں‘‘۔۔۔گویا اپنے آخری تجزیے میں ساختیاتی تنقید آدمی کو منہا کر دیتی ہے جبکہ میں یہاں آدمی کی آدمی سے اور آدمی کی پورے معاشرے سے جڑت کی بات کر رہا ہوں۔ ادب کا موضوع بلکہ موضوعات کا موضوع آدمی ہے۔ ایسے ادب کا تصور بھی محال ہے ، جس کا موضوع آدمی نہ ہو۔ تنقید کا بھی اصل موضوع تخلیقات کے وسیلے سے آدمی ہی ہے۔ اگر آدمی منہا ہو جائے تو پھر ساختیاتی تنقید کس کو موضوع بناتی ہے۔
اپنی ادبی روایات کا مطالعہ کرنا بلکہ پوری ادبی تاریخ کو ایک زندہ اور حاضر و موجود ، وجود کے طور پر قبول کرنا، اس کے بارے میں ہمہ وقت غور و فکر کے عمل سے گزرنا، اسے ہضم کرنا، اسے اپنے خون میں اتارنا اور اپنی تنقیدی تحریروں میں اس کا ایک وسعت پذیر پس منظر اپنے ساتھ رکھنا، اسی رویّے کے زیر اثر نقاد اپنے زمانے کی تنقیدات میں اپنی شرکت کو بامعنی بناتا ہے۔ ادب کی تفہیم و پرکھ کے لیے ادب کے ساتھ ساتھ تہذیبی وراثت سے ہم آہنگ رہنا بھی ضروری ہے۔ ہم عصر ادب سے نقاد کا تعلقِ خاطر ، محض ادیبوں سے تعلقات تک محدود ہونے کی بجائے تخلیقات سے وسیع تر سطح کی دوستی تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ اپنے ادب کی تاریخ کے پہلو بہ پہلو عالمی ادب کی تاریخ بھی نقاد کے شعور سے باہر نہیں ہوتی۔ کسی ادبی موضوع چاہے وہ نظری ہو یا اطلاقی ، کسی شاعر یا افسانہ نگار پر لکھتے ہوئے موضوع اور شاعری و افسانہ نگاری کی پوری تاریخ فقروں کے پس منظر میں گونجتی محسوس ہو۔ نقاد کسی فن پارے یا فن کار کو چار سطحوں پر رکھ کر پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اوّل فن پارہ اور فن کار کس ادبی سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے اور کن وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اظہاری صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی فن کار اور فن پارے کا انفرادی حیثیت میں مطالعہ۔ دوم فن پارہ اور فن کار اپنے ہم عصروں اور اپنے سابقین کے ادب سے کسی حد تک ہم رشتہ ہو کر اپنی انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سوئم جانچ اور پرکھ کے معیارات کی ایک خاص حد کو پہنچنے والے فن پارے اور فن کار اپنی زبان کے ادب کی تاریخ میں کسی اہمیت و حیثیت کو پانے کی توفیق رکھتے ہیں۔ جب ان تینوں حیثیتوں سے وہ ایک قابل تقلید اور قابل فخر مثال بن چکتے ہیں تو پھر چوتھی سطح پر عالمی ادب میں فن پارے اور فن کار کے ادبی مرتبے کے تعین کا مرحلہ آتا ہے۔ تاہم ان تمام مراحل کو محض ایک نقاد طے نہیں کرتا بلکہ یہ عمل سلسلہ در سلسلہ جاری رہتا ہے تب کہیں جا کر تیسرے اور چوتھے مرحلے سے گزرنا ممکن ہوتا ہے۔

 

(جاری ہے)