طبقات کی سادہ کاری کے مسائل؛ سادہ بات کو پیچیدہ اور پیچیدہ کو سادہ نہ بناؤ
از، نصیر احمد
یوں تو تین طبقے مانے جاتے ہیں، امیر، درمیانے اور غریب؛ لیکن اس درجہ بندی پر افلاطون اور ہیگل کی مَنطقوں کے بہت اثرات ثبت دکھائی دیتے ہیں۔ معاشرہ کافی پیچیدہ ہوتا ہے اور نظریاتی ضرورتوں کے لیے اسے سہل سمجھنے اور بنانے کی کافی کوششیں کی جاتی ہیں جو کہ اکثر حقائق سے دور لے جاتی ہیں۔
اور جو کوششیں معاشرے کی پیچیدگی اور کثیر الجِہتی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں، وہ معاشرتی حقائق سے زیادہ دور نہیں لے جاتیں۔
ولیم بی کاکس اور والٹر آرنسٹین کی تاریخِ برطانیہ پر ایک کتاب ہے، ایج آف ارسٹو کریسی۔ وہاں پر ایک مجسٹریٹ کی طبقہ سازی کی ایک کوشش دیکھی تو ذہن بنا لیا کہ اس پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھیں گے۔ بعد میں بھول گئے، آج یاد آیا تو لکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ تو ان مجسٹریٹ صاحب نے طبقوں کی کچھ اس طرح تقسیم کی تھی۔
پہلے طبقے میں شاہی خاندان، مذہبی اور دنیاوی پیشوا، ریاست کے بڑے افسر، اور بیرن کے عہدے سے اونچے سب لوگ شامل ہیں۔ ان کی تعداد مجسٹریٹ صاحب نے 2880 لکھی تھی۔
دوسرے طبقے میں بیرنز، نائٹس، دیہاتی اشرف اور کافی بڑی آمدنی رکھنے لوگ اور ان کے کُنبے شامل تھے۔ ان کی تعداد 234305 درج کی گئی تھی۔
تیسرے طبقے میں معزز دینی لوگ، ریاست میں اچھے عہدوں پر فائز لوگ، علومِ طبیعات کے پریکٹیشنرز، بڑے صنعت کار، بڑے بینکرز اور ان کے کُنبے شامل تھے۔ ان کی تعداد 61000 درج کی گئی تھی۔
چوتھے طبقے میں، ریاست اور چرچ میں ذرا کم تر حیثیت کے حامل اہل کار، مختلف فرقوں کے عزت دار مذہبی رہ نماء، قانون اور طبیعات کے پریکٹیشنرز، اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ، معزز صاحبانِ جائیداد، بحری جہاز بنانے والے، دوسرے درجے کے تاجر اور صنعت کار، گوداموں کے مالک، معزز دکان دار، فن کار، راج مستری، مَکینک اور اوسط آمدنی والے لوگ اور ان کے کنبے شامل تھے۔ ان کی تعداد 1168250 درج کی گئی تھی۔
پانچویں طبقے میں، چھوٹی موٹی جاگیروں کے مالک، دوسرے درجے کے دکان دار، سرائے کے مالکان، شراب خانوں کے مالک اور متفرق شعبوں میں کام کرنے والے اوسط درجے کی آمدنی رکھنے والے اور ان کے کنبے شامل ہیں۔ ان کی تعداد 2798475 درج کی گئی تھی۔
چھٹے طبقے میں چھوٹے مکینک، کاریگر، دست کار، اور مزدوری کر کے پیٹ پالنے والے اور ان کے کنبے شامل تھے۔ ان کی تعداد مجسٹریٹ صاحب نے 8792800 درج کی تھی۔ اس طبقے میں چھوٹے موٹے مزدور اور ان کے خاندان بھی شامل تھے جن کی تعداد 1279923 درج کی گئی تھی۔
اور سب سے چھوٹے طبقے میں غریب الغُرَباء اور ان کے خاندان، آوارے، خانہ بدوش، بد معاش، نکمے اور بکھرے بکھرے سے لوگ جو چھوٹے موٹے جرائم کر کے گزارا کرتے تھے۔ ان کی تعداد 1828170 درج کی گئی تھی۔
فوج اور بحریہ کے لوگوں کا مجسٹریٹ صاحب نے ایک علیحدہ طبقے بنایا تھا جس میں اعلیٰ افسروں اور ان کے کنبوں کی تعداد دس ہزار بتائی تھی اور جونیئر افسروں اور ان کے کنبوں کی تعداد 862000 درج کی تھی۔
اس قسم کی طبقہ سازی کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے اور شاید بڑھایا جانا بھی چاہیے کہ ہمارے خیال میں حقائق کو اپنی سہولتوں پر استوار کرنے کی کوششیں حقائق کو مسخ کرتی ہیں۔
اور ہیگل کی منطق پر طبقہ سازی حقائق کو مسخ کرتی ہے۔ نظریہ سازی کے لیے جِہتوں کو نظر انداز کرنا زندگی کے مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔
ہیگل کی منطق ان کے جدلیاتی نظام کی بنیاد بھی ہے اور ان کی وضاحت بھی کرتی ہے۔ اس کے مطابق ایک دعویٰ ہوتا ہے جس کی ضد ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا دعویٰ بنتا ہے اور یہ پروسیس دائمی طور پر چلتا رہتا ہے۔ اسے تِھیسِز، اینٹی تھیسز اور سینتھیسز کہتے ہیں۔
تین طبقوں پر مشتمل طبقاتی نظام جس کا آغاز میں ذکر کیا تھا معاشرے کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کر دیتی ہے کہ بہت سارے طبقے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان صرف مقابلہ اور مخاصمت ہی نہیں ہوتے، بَل کہ مفاہمت اور تعاون بھی چلتے رہتے ہیں۔
ہیگل کی معاملات کی انتہائی سادہ سازی کے اثرات کاملیت پرستی پر بہت اثرات ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انسانیت کو بڑی کٹھنائیاں سہنی پڑی ہیں۔
ہیگل کی جدلیات پر دوسرے فلسفی اعتراضات کرتے رہے ہیں۔ وجودیت پسند کیرک گارد ہیگل کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے ہیں:
شادی کرتے ہو تو پچھتاؤ گے، نہیں کرتے ہو تو پچھتاؤ گے، دونوں صورتوں میں پچھتاؤ گے؛ دنیا کی حماقتوں پر ہنستے ہو، پچھتاؤ گے، دنیا کی حماقتوں پر گریہ کرتے ہو، تب بھی پچھتاو گے۔ دونوں صورتوں میں پچھتاؤ گے۔ کسی خاتون پر بھروسا کرتے ہو تو پچھتاؤ گے، بھروسا نہیں کرتے ہو تب بھی پچھتاؤ گے، دونوں صورتوں میں پچھتاؤگے۔ پھندے سے لٹکتے ہو، پچھتاؤ گے۔ نہیں لٹکتے ہو، پچھتاؤ گے۔ دونوں صورتوں میں پچھتاؤ گے۔ تو صاحبو یہی سارے فلسفے کا لُبِّ لُباب ہے۔
ڈونلڈ پامر کے مطابق کیرک گارد فلسفے کی نہیں ہیگل کے فلسفے کی بات کر رہے ہیں جس میں مخالفت کو ہڑپ کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں لا تعلقی اور دل شکنی فروغ پاتی ہے؛ اور پھر منطق سے چناؤ ہٹانے سے آزادی کا خاتمہ ہوتا ہے جو کیرک گارد کے اپنے فلسفے کی زندگی ہے۔
برٹرینڈ رسل بھی ایک زمانے میں ہیگل سے متاثر تھے اور رسل کی یہ عادت کی جس سے وہ متاثر ہو جاتے تھے، تھوڑے ہی عرصے میں اس کے فلسفے کے پرخچے اڑا دیتے تھے۔
ہیگل کی منطق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
1۔ فرانس کے موجودہ بادشاہ گنجے ہیں۔
2۔ فرانس کے موجودہ بادشاہ گنجے نہیں ہیں۔
ظاہر ہے دونوں باتیں سچی نہیں ہیں لیکن رسل کہتے ہیں کہ ہیگل کی جدلیات کے مطابق نیا دعویٰ یا سینتھیسز یہ ہونا چاہیے کہ:
3۔ فرانس کے موجودہ بادشاہ کے سر پر ٹوپی ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ جب معاملات پیچیدہ ہوں انھیں سادہ نہیں بنانا چاہیے، اور جب سادہ ہوں انھیں پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے کہ ایسا کرنے سے تفہیم ڈگمگا جاتی ہے اور ڈگمگائی تفہیم سے بہتر پالیسی رُو نما نہیں ہوتی۔
تو طبقوں کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے، اسے سادہ نہیں بنانا چاہیے کی کسی نظریاتی سانچے میں فٹ ہو جائے۔ نظریاتی سانچے کو بہتر بنانے کی یا کوئی نئی بات کرنے کی ضرورت ہے۔
مووی ہے، ونس اپان اے ٹائم ان دی ویسٹ جس میں ہیرو اور وِلن کے درمیان بہت سارے مسائل ہیں۔ وِلن ہیرو کی چالاکیوں سے تنگ آ کر اسے کہتا ہے، سارے مسئلوں کا ایک گٹھڑ بنا لو، ایک ہی بار طے کر لیتے ہیں۔ اس کا انجام لیکن موت ہی ہوا تھا۔ اور ہیگل کے فلسفے کے زیرِ اثر جب بھی پیچیدگی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گٹھڑ بنتے ہیں تو انسانیت کو بھاری نقصانات ہوتے ہیں۔