تصادم یا اجتناب
از، غلام شبیر
تشدد ،نفرت کی حیثیت سماجی زندگی میں رکاوٹ کی مانند ہے اور مَثبت سوچ، اعتدال اپنے نتیجے کے طور پر زندگی کے راستے کھولے رکھنا ہے۔
کہا جاتا ہے مَثبت عمل مثبت فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسی طرح منفی عمل، منفی فکر کا، جس سے ہمارے کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔
اب ایسے شخص یا گروہ کا سماجی زندگی میں منفی کردار ہی ہو سکتا ہے جو بلا جواز اپنی ذاتی پسند و نا پسند کی بناء پر یہ کہے کہ فلاں آدمی یا گروہ والے ہمارے دوست نہیں ہو سکتے، یا ہمارے نزدیک وہ قابلِ احترام نہیں۔
پرندے اور جان ور بھی اپنے ہم جنسوں سے متعلق محتاط رویہ رکھتے ہیں پر ہمارے انفرادی اور گروہی مسائل بتا رہے ہیں کہ ہم ایسا رویہ نہیں رکھتے۔
تشدد اور نفرت کے خاتمے سے ہی امن کو فروغ ہے جو انفرادی، گروہی مسائل سے چھٹکارا پانے کا واحد حل ہے۔
کہتے ہیں دنیا رنگ بَہ رنگی ہے۔ ہر ایک مزاج کا انوکھا ہے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ ایسی صورت میں اعتدال ایسی صلاحیت ہو سکتی ہے کہ ایسے افراد یا گروہ کے ساتھ پُر امن ہو کر رہا جائے جن کو بدلا نہیں جا سکتا۔
اس کے بَر عکس اگر ایک فرد، یا گروہ دوسرے کی انفرادیت پر آگ بگُولہ ہو رہا ہو اور دوسرا بھی ایسی خصلت والا ہو تو اس جلتے بارود خانے میں چنگاری کی دیر ہے۔
اس دنیا میں کوئی بھی انسان یا گروہ اکیلا نہیں ہے، دوسرے بھی یہاں آباد ہیں جن کے اپنے علیحدہ مقاصد ہیں اور اپنے ان مقاصد کا حصول ان کے لے تنہا ممکن نہیں۔ اس لیے بار بار ایک دوسرے کا سامنا نا گزیر ہے اور فرد یا گروہ کا یہ آمنا سامنا کش مکش سے خالی نہ ہو گا۔
ایسی حالت میں ہر آدمی کے سامنے دو ہی آپشنز ہیں یا تو وہ اعراض کرے یا ٹکراؤ کے راستے پر چلے۔
اب یہ انسانی تجربہ ہے کہ لڑائی یا ٹکراؤ میں کوئی فائدہ نہیں۔ اب جو فرد یا گروہ لڑائی سے بچتا ہے تو گویا وہ نقصان سے بچتا ہے اور اپنی ترقی کے سفر کو بَہ غیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھ سکتا ہے۔
نا خوش گوار باتوں پر اپنی برداشت نہ کھونا، ایسے امکانات پیدا کرنا ہیں جن سے ہماری مَثبت سوچ کا شِیرازہ نہیں بکھرتا۔
ویسے بھی حالات کچھ ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ سطحی سوچوں کو بس ہوا دینے کی ضروت ہے کیوں کہ افراد یا گروہی نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بّپھر جاتے ہیں۔
ایک دوسرے کی اس لیے سنتے ہیں تا کِہ مزید سنایا جائے جب کوئی خاموش ہوتا ہے تو سنا نے والا اسے اپنے بَر حق ہونے کی علامت سمجھتا ہے۔ خود کو پَھنّے خاں سمجھتا ہے جب کوئی اسے بھری محفل میں تھوڑا رگڑ گزرے، یعنی تنقیدی رویہ اختیار کرے تو مُنھ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتا ہے، اخلاقیات یاد آ جاتی ہے۔
فرد یا گروہ کا دوسرے کو اپنی مصیبت کا ذمے دار ٹھہرانے کا رویہ اس قدر عام ہے کہ اب ہمارا اجتماعی ذہن بن گیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو دریافت نہیں کرتے، اصلاح کیا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مسائل ہمیں ازلی لگتے ہیں۔ یوں تشدد اور نفرت کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں اور اس کا ذمے دار کسی فرد یا گروہ کو سمجھتے ہیں۔
اب اگر بھلا آدمی یہ کہہ دے کہ مسئلہ آپ کا یا آپ کے گروہ کا پیدا کیا ہے تو پہلا ردِّ عمل جو ہوتا ہے وہ غصہ کرنا ہے گویا کہ غصہ ایک طاقت ہے اب غصہ میں باؤلا ہونے والوں کا حال سامنے ہے کہ ان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے تو کیا وہ عقل کا استعمال کریں گے۔
واضح ہے غصہ ایک کم زوری ہے۔ اب جو اس کم زوری کو قابو میں رکھتا ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھر پُور استعمال کرتا ہے۔
زندگی دو گروہوں میں تقسیم لگتی ہے: ایک گروہ جن کے ہاں زندگی کا واحد مقصد مادیات ہے؛ کچھ ایسا ہو جائے کہ فلاں سکیل میں پہنچا جائے، کوئی تعلیم کا بیوپاری بننے میں جان کو مشقت میں ڈالے ہوئے ہے، تو کوئی دواؤں سے کالا دَھن اکٹھا کر رہا ہے، تو کوئی مذہب کے نام پر تاجروں کی توجہ مبذول کرانے میں لگا ہے۔
وہیں پر ایسے افراد بھی ملیں گے جو کچھ ایسا پانے کے احساس میں جیتے ہیں جس سے ان کو طمانیت نصیب ہو۔ اب واضح ہے کچھ پانے کا احساس انھیں اس سے بچائے گا کہ دوسروں کے خلاف نفرت یا ان کے خلاف تشدد کا منصوبہ نہ بنائیں۔
آج عالَم گیریت کا دور ہے جہاں ابلاغی ذرائع بہت تیز ہیں جو غصے اور نفرت کے تحت انتقامی فکر و عمل کی منصوبہ بندی میں رہے گا وہ پیچھے رہ جائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ جو خود ساختہ ٹکراؤ کے نام سے خود کو ہلاک کرتے رہے آج تنزّلی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ اب ماضی کے پچھتاوے ہیں اور مستقبل کا خوف
پر رات جتنی بھی اندھیری کیوں نہ ہو صبح کی کرن پڑتے ہی اندھیرا چَھٹ جاتا ہے۔
غصے پہ بے قابو ہو جانا، اختلافات میں تشدد اور تخریب پر اتر آنا ذہنی انتشار اور باطنی الفاظ کی نشانی ہے۔
روز مرہ کے باہمی معاملات میں درست رائے قائم نہ کر سکنا اور بِھیڑ کے بہاؤ میں بہتے چلے جانے میں یہی آدمی ہوتا ہے
جو بالآخر مایوسی، تنہائی کا شکار رہ کے موت فوت کی باتوں تک آ جاتا ہے۔