مبارک باد پاکستانی عوام ، شدت پسندی کے بیانیے کی شکست

Dr Irfan Shahzad

مبارک باد پاکستانی عوام ، شدت پسندی کے بیانیے کی شکست

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

کسی ہیجان انگیزی میں مبتلا نہ کیا جائے تو کسی بھی سماج میں شدت پسندی کو پسند کرنے والوں کا تناسب اتنا ہی ہوتا ہے جس تناسب میں پاکستان کے حالیہ انتخابات میں شدت پسندوں کو ووٹ ملے۔ یہ اس سماج کا حال ہے جسے مذہب پسند سمجھا جاتا ہے اور جہاں ہزاروں بَل کِہ لاکھوں مدارس مساجد اور دیگر دینی مراکز عوام کے مذہبی جذبے سے دیے گے مالی عطیات سے چلتے ہیں۔

یہ وہی سماج ہے جہاں ناموسِ رسالتﷺ کے بارے میں شدید ترین حساسیت بھی پائی جاتی ہے اس کے با وجود عوام کی عقلِ عامہ کو جب بھی سوچنے سمجھنے کا موقع ملا ہے تو انہوں نے کبھی شدت پسندی اور تحفظِ ناموس رسالت ﷺ جیسی مصنوعی جذباتی اپیلوں کو بھی ووٹ نہیں دیا۔ کیوں کہ ناموس رسالتﷺ کو کوئی حقیقی خطرہ لاحق ہی نہیں۔

اس لیے عرض کرتا ہوں کہ اجتماعی ضمیر کم و بیش ہمیشہ درست جگہ کھڑا ہوتا ہے۔ کسی بھی انسانی سماج کے مُطالِعہ میں یہ بنیادی عُنصَر ہمیشہ مد نظر رہنا چاہیے کہ عام آدمی ہمیشہ عام سا ہی ہوتا ہے اس کا اصل مقصد اپنی اور اپنے خاندان کی خوش حالی امن، ترقی اور بنیادی ضروریات کی تکمیل ہوتا ہے۔


مزید دیکھیے: متبادل بیانیہ، دانش ور کے نام ایک خط

پاکستان میں شدت پسندی کے عوامل اور اسباب


شدت پسندی، جنگ، نفرت اور تقسیم کے تمام بیانیے اشرافیہ اور مافیا کے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے البتہ انہیں عام آدمی سے مالی اور جانی مدد درکار ہوتی ہے۔ وہ انہیں ان کا بیانیہ بنا دیتے ہیں۔ عام آدمی اس دھوکے کا شکار ہو بھی جاتا ہے اور اپنے خرچے پر اپنی تباہی خرید لیتا ہے۔ لیکن جب اور جیسے ہی ہیجان کا دور ختم ہوتا ہے عام آدمی کی عقلِ سلیم پھر اسے اسی مقام پر لے آتی ہے جہاں امن ترقی خوش حالی اور بنیادی ضروریات کی تکمیل اس کا مَطمَح نظر ہوتا ہے۔

دوسری طرف مافیاز کی کوشش ہوتی ہے کہ سوچنے سمجھنے کا عمل شروع نہ ہو اس کے لیے وہ کوئی نہ کوئی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی مذہب کی بنیاد ہر تو کبھی ایسی جنگ کے نام جو نہ ہوتی ہے نہ لڑی جاتی ہے۔

پاکستانی سماج مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے سماج میں موجود سیاسی مذہبی اور عسکری ہیجانات کی وقتاً فوقتاً اٹھنے والی لہروں کے با وجود ان انتخابات میں اپنے حقیقی اور درست عوامی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے شدت پسندوں کی ہر طرح کی سیاسی اور مذہبی اور جذباتی بلیک میلنگ کے با وجود درست فیصلہ کیا۔

اسی بنا پر جمہوریت ایک بہترین طریقہ ہے جو اجتماعی ضمیر کا اظہار بنتا ہے۔ اس لیے یہ بالکل درست کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی خامیوں کا علاج مزید جمہوریت میں ہے۔

اہلِ علم و فکر کا اہم ترین فریضہ میرے نزدیک اس وقت یہ ہے وہ سماج میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہ ہونے دیں۔ ایسی ہر کوشش کی شدید مذمت کریں۔ یہی ایک شدت پسندی جائز ہے جو ہیجان انگیزی کے خلاف کی جائے۔