ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
از، معصوم رضوی
ماضی، حال اور مستقبل کی پگڈنڈی پر چلتے مسافر کیلئے ہر پل سب کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے، نشیب و فراز ماحول، موسم، ظاہر، باطن، رویے سب کچھ ہی تو بدل جاتا ہے۔ یونان کا مشہور فلسفی ہرقلیطس سوچ و فکر میں غلطاں کسی ندی کے بہتے پانی میں بار بار اپنا پائوں ڈال رہا تھا، ایسے میں لوگوں نے پوچھا کیا کر رہے ہو، ہرقلیطس نے جواب دیا ہم ایک ہی پانی میں اپنا پائوں دو بار نہیں ڈال سکتے۔ ہرقلیطس کا کہنا تھا کہ دنیا بہہ رہی ہے، ہرقلیطس کا یہ نظریہ آج بھی فلسفہ زندگی کی بنیاد ہے۔ گویا انسان بہتی دنیا کا مسافر ہے، کبھی من کی آنکھیں کھول کر دیکھیں ایک سے دوسری سانس کے درمیان سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے، فضا، ماحول، ہوا سب کچھ مگر ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے اسی باعث انسانی ذھن اسے تبدیلی تصور نہیں کرتا۔ علامہ اقبال نے شاید اسی فلسفے کے حوالے سے کہا ہے
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تبدیلی کا بہت تذکرہ ہے، کوئی کپتان کی ٹیم کا نجات دہندہ قرار دے رہا ہے تو کوئی احمقوں کا ٹولہ، اگر میری رائے پوچھیں تو حتمی رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔ یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی ٹیم ایسے ناتجربہ کاری کے باعث مذاق کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ عمران خان کابینہ کے پاس تادم تحریک نیک نیت بیانات تو ڈھیر سارے ہیں مگر ٹھوس منصوبہ ایک بھی نہیں ہے۔ یہ بھی غلط نہیں ہے کہ خان صاحب کی ٹیم میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کم اور الیکٹبلز کی بہت زیادہ ہے، سو اس صورت نظریات پر عملدرامد ناممکن نہیں تو مشکل ترین چیلنج ضرور ہے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ بلند و بانگ انتخابی دعووں کے بر عکس پی ٹی آئی قیادت کو حقیقی صورتحال کا ادراک تھا ہی نہیں، ورنہ شاید یو ٹرن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہرحال اس تمامتر صورتحال کے باوجود عوام کو اب بھی عمران خان کی قیادت سے دیانتدارانہ تبدیلی کی امید ہے، ابھی سال بھی نہیں ہوا حقیقت یہ ہے کہ رموز مملکت سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ اگرچہ ابتک کی صورتحال دیکھی جائے تو بلاجھجھک یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی وہی کچھ کر رہی ہے جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں، شاید طریقہ اور انداز مختلف ہو مگر عملی صورتحال کم و بیش یکساں ہے۔ امید ہے کہ تحریک انصاف جلد خوش فہمیوں سے جان چھڑا کر حقائق کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں ہو گی، یہ بھی درست ہے کہ بائیس کروڑ عوام کو ستر سالوں سے صرف خواب بیچے گئے ہیں، تعبیر کیسی ہی کیوں نہ ہو اس بار بھی نہ ملی تو شاید پھر کبھی نہ ملے۔
کیا کوئی شک ہے کہ ہم ستر سال سے دائرے کے مسافر ہیں، تبدیلی تو ہے مگر صرف اتنی کہ یہ دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ سیاسی و معاشرتی منظرنامے کے بنیادی کردار اپنی جگہ خم ٹھونکے کھڑے ہیں۔ جاگیردار، طبقہ اشرافیہ، ملائیت، اسٹیبلشمنٹ، فوج ، نوکر شاہی، نئے چہرے، پرانے کرداروں کو اس خوبی سے نبھاتے ہیں کہ داد دینے کا جی چاہتا ہے۔ سنا ہے اچھے شعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر دور میں زندہ رہتا ہے مگر یہاں تو حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے والی کیفیت ہے۔ یقین نہ آئے تو خواجہ معین الدین کا اسٹیج ڈرامہ ’تعلیم بالغاں، ایک بار پھر دیکھ لیجئے، یوں تو خواجہ صاحب طنز و مزاح کے بادشاہ ہیں، متعدد ڈرامے لکھے مگر ’تعلیم بالغاں‘ نے پاکستانی سیاست و معاشرت کے حوالے لازوال شہرت حاصل کی۔ ساٹھ کی دہائی کا بلیک اینڈ وہائٹ ڈرامہ اب بھی دستیاب ہے، استاد اور شاگردوں کے سوال و جواب کی صورت میں قومی مسائل پر چوٹیں آپ کو سحر میں جکڑ لینگی۔ ڈرامے کے مصنف اور شاید بیشتر اداکار اب دنیا میں نہیں مگر یقین جانیں یہ ڈرامہ آج بھی پوری طرح حالات حاضرہ کا عکاس ہے، وہی مسائل، وہی دکھڑے، وہی توجہیات، گویا کچھ بھی تو نہ بدلا۔
خیر بات یہ ہورہی تھی کہ دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ پہلے سیاست پر صرف جاگیرداروں کا حق تھا، دولتانہ، ٹوانہ، جتوئی، اچکزئی، مینگل وغیرہ وغیرہ، سرمایہ دار سیاست سے باہر تھے، پھر بلور، شریف، زرداری سیاست کا حصہ بن گئے، گویا پہلے صرف جاگیردار خون چوستے تھے اب صنعتکار و سرمایہ دار بھی فیضیاب ہوتے ہیں۔ مذھبی جماعتیں خیر کی تبلیغ کیا کرتی تھیں، تفرقہ تو اسوقت بھی تھا مگر منافرت نہ تھی، چونکہ دینی قائدین کی عزت تھی لہذا جلد سیاست کی چنگیزیت کا حصہ بن گئے۔
دائرہ اتنا سکڑا کہ اب ہر فرقہ خود کو راسخ العقیدہ مسلمان اور دوسروں کو کافر قرار دیتا ہے۔ شیریں دہن اور خوش خصال ملا سیاست سے مستفید ہوا تو بھلا پیر اور گدی نشین کہاں پیچھے رہتے۔ مساجد فرقوں میں تقسیم ہوئی، محبت پھیلانے والے مرقد تجارت بن گئے۔ فوج جو پہلے گاہے بگاہے حکومت کیا کرتی تھی، وقفوں میں کچھ جمہوریت وغیرہ بھی ہو جاتی تھی، خوشخبری یہ ہے کہ اب فوج نے خود حکومت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ انتظامیہ اور افسران جو عوام کے خادم ہوا کرتے تھے، اب اصل حاکم ہیں، سرکاری ادارے ماشااللہ تجارت کے میدان میں ایسا دوڑے کہ تاجر ہانپ گئے، سو اب دونوں ملکر عوام کو لوٹتے ہیں، عوام کی یہ حالت ہے کہ رہا چوری کا نہ کھٹکا، دعا دیتا ہوں رہزن کو، دائرہ اتنی تیزی سے سکڑ رہا ہے کہ لگتا ہے جلد بیس کروڑ عوام کے گلے کا پھندہ بن جائیگا۔
حیات کا دارومدار دو اصولوں یعنی ثبات و تغیر پر ہے، دانشمندوں کا کہنا ہے کہ حرکت، تغیر کی بنیاد ہے، کسی شے کیساتھ جو کچھ ہوتا ہے، بنتا یا بگڑتا ہے وہ تغیر کی نشانی ہے جبکہ ثبات جمود ہے، اگرچہ حرکت اس جمود میں بھی ہے مگر ‘مسلسل ہوتے رہنے’ کے باعث غیر محسوس ہے۔ ہم ستر سالوں سے خود اسی ‘غیر محسوس تبدیلی’ کا حصہ، ثبات کی تصویر بن چکے ہیں۔ تبدیلی کا سفر آسان نہیں ہوتا، تحفے میں ملتی ہے اور نہ ہی حکومت کی دین ہوتی ہے، کیا یہ سچ نہیں نہ ہمارے معاشرے نے کبھی تبدیلی کیلئے کوشش ہی نہیں کی، آواز ہی نہیں اٹھائی، ہم تو اپنے شہری فرائض تک ادا نہیں کرتے پھر بھلا کہاں کی تبدیلی، کونسا تغیر۔ تبدیلی نہ تو بیانات اور نیک نیتی سے آتی ہے اور نہ ہی ٹی وی مباحثوں سے، یہ کام تو صرف اور صرف عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
تبدیلی کا کٹھن سفر پوری قوم کے کوششوں کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتا۔ یہ سچ ہے کہ تبدیلی قوموں کی قسمت بدلتی ہے مگر ہر تبدیلی کی ایک قیمت ہوا کرتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم تبدیلی کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہیں۔ یقین جانیئے ہرقلیطس یا اسکے روحانی جانشین فریڈرک نطشے پاکستان میں ہوتے تو اپنے فلسفے سے تائب ہو کر کسی ٹی وی چینل میں اینکرنگ کر رہے ہوتے