صدر اور وزیر اعظم بھی تو دو نوکریاں ہیں! مذہبی امتیاز کیوں
از، نصیر احمد
یک قومی ریاست کی طرح یہ آئینِ پاکستان کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور ان کے ما بین مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کو قبول نہیں کرتا۔ صرف دو امور مُستثنیٰ ہیں: یہ کہ ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ خورشید ندیم
ھاھا…
ریاست کی مذہبی غیر جانب داری تسلیم کر لیں ورنہ تضادات ہی تضادات ہیں، اور اگر آئین کا مطالعہ کریں تو صرف دو امور نہیں ہیں۔
جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں، شاید، کچھ اپنی تسلی کے لیے، کچھ لوگوں کی تسلی کے لیے۔ جماعت اسلامی کی تربیت!
ریاست میں موجود لوگوں میں سے کسی گروہ کو مذہب، رنگ، نسل، زبان، ذات پات، علاقے، ثقافت جیسی وجوہات کی بناء پر ترجیح دے دی جائے تو جن کو ترجیح دی جائے وہ ان پر ظلم کرتے ہیں جن سے آئینی برابری اور آئینی برابری سے متعلق حقوق چھین لیے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں ہی دیکھ لیں، آئینی حقوق کے ہوتے ہوئے بھی اقلیتوں پر جبر ہوتا رہا ہے اور اب آئینی حقوق سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے تو بھارت میں با قاعدہ فاشزم مسلط ہو گیا ہے۔
اس خطے کا تو یہ حال ہے کہ ایک یہ دل آفت اور اس پر تیرا غم آفت۔ معاشرتی تعلیم کے نتیجے میں لوگ پہلے ہی اقلیتوں پر ظلم کرتے ہیں، تَس پر انھیں آئین سے بھی بر تری کے تصدیق نامے مل جائیں تو ظلم میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اور بھارت میں اس تضاد کو یہ دیکھ لیتے ہیں، اپنے ہاں آئیں بائیں شائیں شروع کر دیتے ہیں۔
ملک کی صدارت اور وزارتِ اعظمی نوکری ہی تو ہے اور کسی کو اس کے مذہب کی بناء پر کسی نوکری کا اہل نہ سمجھنے سے امتیاز تو ہو گیا ناں۔ اور اس امتیاز کے حق میں کوئی خاص دلیل نہیں ہے۔ یعنی آپ اس لیے ڈاکٹر نہیں بن سکتے کہ آپ ہندو یا سکھ ہیں۔
اسی طرح کی پا بندیاں کسی اور جگہ مسلمانوں پر لگیں تو کوسنے ہی ختم نہیں ہوتے۔
اس طرح کے تضادات اور ترجیحات کی وجہ سے اصول نہیں بن پاتے اور اصولوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حقوق کا بھی تحفظ نہیں ہو پاتا۔ نہ اپنے ہاں اور نہ کہیں اور۔
کہیں اور کے معاملے بھی ترجیحات اور تضادات بھی کافی واضح اور بہت بے رحم ہیں۔ یورپ میں حجاب کی پا بندی کو بنیاد بنا کر اتنا شور مچتا ہے کہ روہنگیا کی نسل کشی اور یوئیغوروں کی قید کے سنگین معاملے نقار خانے میں کاہیدہ و بریدہ طوطی جیسے ہو جاتے ہیں جس کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔
اور مسلمان حکومتوں کو تو جیسے سند سی ملی ہوتی ہے کہ اقلیتوں اور اکثریتوں پر ظلم کرتے رہیں اگر وہ ہمیں قرضے دے رہے ہوں تو۔
اور اپنے ہاں تقویٰ کے نام پر مسلمانوں میں انسانی برابری کا خاتمہ ہو جاتا ہے کہ صرف مسلمان ہونا کافی نہیں ہوتا، بل کہ سب سے اچھا مسلمان ہونے کی بناوٹوں سے دولت اور اقتدار جڑ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کبھی اسے کافر قرار دینے کی مہم چلتی ہے تو کبھی اسے۔
مذہب کے نام پر فاشزم کرتی ریاستیں تضادات کا مجموعہ بن جاتی ہیں اور ہر تضاد کے ساتھ ظلم کرتے افراد اور گروہوں کی قساوت اور شقاوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے بناوٹ، قساوت، شقاوت کو کسی بھی مذہب کا بنیادی پیغام نہیں کہا جا سکتا۔ کہا جائے تو پھر ظلم بَہ ذاتِ خود روا ہو جاتا ہے اور ظلم کا روا ہونا تو مذہب کا خاتمہ ہی ہوتا ہے۔
آئین میں امتیازات میں کمی زیادہ تر کسی ریاست میں ظلم کی کمی کا سبب ہوتی ہے لیکن برِّ صغیر کی معاشرتی تعلیم ایسی ہے کہ کبھی کبھی آئین میں امتیاز کی عدم موجودگی بھی اس معاشرتی تعلیم کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، جیسے بھارت کا کیس۔ لیکن اس کیس میں آئین میں امتیاز لانے سے اقلیتوں کے خلاف ظلم بڑھا ہے۔
خطے میں ویسے ایک علاقائی کانفرنس کی ضرورت ہے جہاں اس بے جا دورنگی کے بارے میں کچھ بات چیت ہو سکے۔
اور خورشید ندیم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جمہوری اصولوں پر کچھ توجہ دیں۔ یہ کیا کہ نواز شریف کا معاملہ آ جائے تو وہ زریں ہو جاتے ہیں اور جب اپنے تعصبات کا معاملہ درپیش ہو تو وہ کچھ گہنا سے جاتے ہیں۔
خورشید ندیم اور کچھ اور لوگوں کا ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ ایک سفر شروع ہوتا ہے، اس میں کچھ روانی بھی آ جاتی ہے لیکن نظریاتی مراکز بھی ایسے عناں گیر ہوتے ہیں کہ اپنے تربیت یافتہ کو کچھ زیادہ دور نہیں جانے دیتے۔ اور تھوڑا گھوم پھر کر اپنا پھر برگد کے ہی نیچے آ جاتا ہے۔
اگر شجر اچھا ہے تو بھولا بھٹکا آ جائے تو شادیانے بجانے چاہییں، لیکن اگر شجر کاملیت پرستی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تضادات، امتیازات اور ظلم و ستم کا ہو تو ساری تفہیم غارت ہو گئی ناں۔
باقی اچھا مسلمان ہونا۔ اچھا ہندو ہونا، اچھا عیسائی ہونا بڑی خوش کن بات ہے، لیکن مذہب کے نام پر فاشسٹ مؤقف اپنانا تو انسانیت کا زوال ہے: مودی کو ہی دیکھ لیں۔