خون آشام کارپوریشنز اور زومبیز صارفین
از، فخر لالہ
ہالی وڈ فلموں میں دو فکشن بڑے عرصے سے تواتر کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ ایک خون چوسنے والے ڈریکولاز اور ایسی دوسری مخلوقات جو عام لوگوں کا خون پیتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں۔ اور دوسرا تصور زومبیز کا جس میں ایسے انسان دکھائے جاتے ہیں جو بہ ظاہر تو زندہ ہیں۔ لیکن ان میں بھوک کے علاوہ باقی تمام حسیات مر چکی ہیں۔ وہ ہر جگہ ہر طرف مارتے، مرتے پھر رہے ہیں اور ان کا کُلی مقصد صرف بھوک مٹانا ہے۔
یہاں ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ زومبیز والی ہر فلم میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہوتا ہے، جو ایک محفوظ پناہ گاہ میں رہتا ہے۔ زومبی وائرس ان تک ابھی نہیں پہنچا۔ ان کے پاس کھانا ہے، بہت سارے ہتھیار ہیں، قَلعَہ بَند رہائش گاہیں، ادویات ہیں؛ غرض ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔ پھر کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زومبی نہیں بنے، مگر اس محفوظ رہائش گاہ میں بھی نہیں پہنچے۔
ان کی زندگی اسی جد و جہد میں کَٹ رہی ہے۔ کسی طرح اس محفوظ مقام تک پہنچ جائیں۔ ایک طرف زومبی کا خطرہ دوسری محفوظ مقام پہ موجود افراد کی بلند و بالا دیواریں اور حفاظتی اقدامات۔ اکثر کہانی کا انجام یوں ہوتاہے کہ ہیرو اپنے ساتھیوں یا بچوں کو اس محفوظ پناہ گاہ تک پہچا دیتا ہے۔ لیکن اس جد و جہد میں خود کو زومبیز کے سامنے پھینک دیتا ہے اور جان کی بازی ہار جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔! بہت عرصہ تک میں انہیں محض ایک فکشن سمجھتا رہا لیکن پچھلے دنوں ڈیوڈ کورٹن کی کتاب ”دنیا پر کارپوریشنوں کی حکومت” پڑھی تو پھر سمجھ آیا کہ یہ تو حقیقی دنیا کی حقیقی تصویر ہے۔
ایک لمحے کے لیے دنیا کی معیشت پہ پنجے گاڑے کھڑی بڑی بڑی کارپوریشنوں کو دیکھیں، کس قدر تیزی سے وہ صارفین کا خون چوس رہی ہیں۔ وسائل کو کس تیزی سے ہڑپ کر رہی ہیں اور ایک عام انسان کے لیے عرصۂِ حیات کس قدر تیزی سے تنگ ہو رہا ہے۔ ایک طرف ان کارپوریشنوں کے آسمان چُھوتے دفاتر ہیں۔ جن کی باہر دیواریں شیشے کی ہیں۔ جن کے کیپسُول لِفٹ میں کھڑا انسان یوں راکٹ طرح سطح زمین سے بلند ہوتا ہے اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتاہے۔ جو لیموزین میں سفر کرتے ہیں۔ سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں سینٹ مائیکلز اور وَرساچی کے سوٹ پہنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرح دنیا کے وہ غُرَباء ہیں جو غربت، بھوک، بیماری، جرائم، لڑائیوں، مذہبی جنونیت اور افلاس کے مارے جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ جن کی زندگی کا واحد مقصد صرف خود کو زندہ رکھنا ہے۔ اس کے لیے ایک دوسرے کو مار رہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طبقے کو اس زومبی والی حالت میں لانے کی ذمہ داری دوسرے محفوظ پہ عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ یا ان دو طبقات کے درمیان یہ خلیج پیدا کیسی ہوئی ہے؟ تو اس جواب ہے کارپوریشنوں کی حکومت، جنھوں دنیا بھر کا سرمایہ لوٹ لیا ہے۔ جنھوں نے عام آدمی کو طرح طرح کے بہانوں سے لوٹا ہے۔
اسے ایک انسان کی بہ جائے صرف صارف سمجھا جسے کھانے اور رہائش اور کپڑے کے نام پہ ہر طرح سے لوٹا گیا۔ آپ غور کریں پوری دنیا کے ٹی وی چینلز کیا کر رہے ہیں؟ سوائے صارفین کو ترغیب دینے کے، نت نئے موبائل ماڈل، نت نئی ایل ای ڈی، گاڑیوں کے ماڈلز، کپڑوں کے برانڈز۔ جوتوں کے برانڈز جو ضروزت کی حدود سے نکل کر اب تعیّش اور نمائش کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایک ایسی بھوک پیدا کردی گئی ہے انسان بس اسی کے پیچھے بھاگ رہا۔ صارفین جن کی عقل پہ پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ وہ اندھا دُھند کارپوریشنوں کے اس دھوکے میں آ رہے ہیں۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے عام آدمی گھر میں آلو پکانے سے شرماتا ہے اور چِپس کھاتے ہوئے اتراتا ہے۔ اپنی بھینس کا دودھ ساٹھ روپے فی لِیٹر بیچتا ہے اور نیسلے کا پانی پینسٹھ روپے فی لیٹر خرید کر خود کو مہذب سمجھتا ہے۔
یعنی عام آدمی کے وسائل کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر واپس اسے سونے کے بھاؤ بیچا جارہا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال نائیکِی NIKE کمپنی کی ہےکہ جو جوتوں کا ایک برانڈ ہے۔ یہ انڈونیشیا میں تیار کیا جاتاہے، جہاں تیار کرنے والے مزدوروں کو ساٹھ سینٹ اجرت دی جاتی ہے جب کہ یہ جوتا امریکہ میں 137 ڈالرز کا سیل ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭ ۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے یہ کارپوریشنز کس طرح صارفین کا خون چوس رہی ہیں۔ یوں کارپوریشنوں نے انسانوں کو عقل سے عاری زومبیز میں تبدیل کر دیا ہے جو اپنا سب کچھ لٹا کر خود بھوک اور بیماری کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ یہ کارپوریشنیں اب مختلف خیراتی ادارے چلا کر ان زومبیز کی دعائیں بھی لوٹ رہی ہے۔