عصری رجعت پسندی اور ترقی پسند نقطہِ نظر

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

عصری رجعت پسندی اور ترقی پسند نقطہِ نظر

از، نعیم بیگ

آج کی منقسم ،معاشی ا ور تہذیبی انتشار میں بکھری دنیا میں یہ طے کرنا بہت دشوار اور کھٹن مرحلہ ہے کہ انسان اور اسکی بھلائی کے وہ کونسے پیمانے ہیں جن کے عملی نتائج متوازن ہوں اور انسانی فلاح و بہبود اور اِسکی اَفزودگی کی کسوٹی پر پورے اترتے ہوں؟
بادی النظر میں یہ موضوع سہل نظر آتا ہے، لیکن جب ہم اس موضوع کی مباحث میں تفصیلاً داخل ہونگے تو ہمیں کئی ایک بنیادی پیچیدگیاں بھی نظر آئیں گی۔ جنہیں ہم اپنے مکالمے میں سلجھانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم اس تھیسس کی زیریں سطح پر جانے سے پہلے اسکی بالائی سطح کو بھی باریک بینی سے جانچنا ہوگا۔

سب سے پہلے تو دیکھنا یہ ہے کہ رجعت پسند ی ہے کیا؟

عصری عہد میں جب ہم زرعی تہذیبوں کے مدہم ہوتے سایوں سے نکل کر سائنس ،صنعت اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بسیرا کرتے ہیں تو انسانی فکر ایک جسَت میں ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی نسلِ آدم کی فلاح و بقا کا سامان پیداکرتی ہے، اسی فلاح کے ردّ میں رجعت پسندوں کی استعمار ی دانش انسان کو انسان سے جدا کرتی ہے اور نہ صرف جدا کرتی ہے بلکہ بورژوائی قوت کے تحت غلام بھی بناتی ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ معاشرے جو رجعت پسندنظریات اور اس کے جوہر کے پھیلاؤ کے ذمہ دار ہیں اور خود کو کنزرویٹو یا قدامت پرست کے نام سے پکارا جانا پسند کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ بہتر سماجی کارکردگی کے حامل ہوں؟ لیکن آج کا سیاسی اور معاشی عالمی منظر نامہ اس کی نفی کرتا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ رجعت پسند قوتیں اپنے امپرئیلسٹ نظریات کے پھیلاؤ اور عملی اقدامات سے عالمی معیشت اور امن و سکون کی بربادی کی ذمہ دار ہیں؟ کچھ لوگ اِسے سویپئنگ سٹیٹمنٹ قرار دے سکتے ہیں ، لیکن میں یہ عرض کردوں کہ ترقی پسند فکرو دانش اپنے اندر اتنی بصیرت و بلاغت رکھتی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی جوہر اور تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کر سکے کہ رجعت پسندی انسانی فلاح و بقا کے منافی نظریات کا نام ہے۔

تاہم اِن سب سے ہٹ کر مجھے کہنے دیجیئے کہ ترقی پسندقیادت یہ دعویٰ ضرور باندھ سکتی ہے کہ پروگریسو نقطہِ نظر اور نظریات ہی بالآخر انسانی بھلائی اور دنیا کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ یہ ایک ایسا انقلابی و فکری طرز عمل ہے، جو انتہائی دشوار گزار علمی و فکری رستوں سے ہوتا ہوا مادی ، معاشرتی اور تہذیبی امکانات کے در روشن کرتا ہے۔

در حقیقت ہمیں ایسی حیاتِ انسانی کی فکر لاحق ہے جو اپنی لسانی و ثقافتی تشکیل کے ساتھ ساتھ اپنے مادی و سیاسی شعور کو مستقبل کے حوالوں سے اپنی ساخت میں درخشاں اور امن و شانتی کی ضامن بنا دے۔

لہذا ہمیں اِس تناظر میں نظریاتی تضادات کو معاشروں اور قوموں کے آپسی تعلقات ، سماجی ضروریات، اخلاقی اقدار، سیاسی و عمرانی کار کردگی اور انسانی حوالوں سے جانچنا ہوگا۔

راقم یہ سوال اس لئے اٹھا رہا ہے کہ اس مقالہ میں ہمیں ان نکات کی تفصیلی تشریحات بیان کرنا ہونگی، ورنہ علمی و فکری مباحث سے ہٹ کر یک طرفہ استدلال صرف گفتگو کے سطحی پہلوؤں کا احاطہ ہی کر پائے گا، جو اس مضمون کا مطمع نظر نہیں۔
ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سے اپنے ارتقائی اور تخلیقی مراحل سے گزر کر اس مسلّمہ قومی حیثیت (اگر واقعی ہے؟ ) کو اپنانے میں کامیاب ہوا ہے جہاں اسے کسی بھی ریاست کا سماج یا معاشرہ کہا جا سکے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ واقعی ایسا ہوا بھی ہے کہ نہیں۔ یا ابھی ہم اپنے معاشرے اور اسکی نشوو نما کے ابتدائی مراحل کا محاکمہ ہی نہیں کر پائے ہیں۔
جب ہم کسی معاشرے کی حدود کا تعین کر تے ہیں، تب اسکی لیج ٹیمیسی، بعد ازاں اس سے منسلک سیاسی و فکری اجزاٗ پر بھی بات کرتے ہیں اور ان معروضات کو بھی دائرہ گفتگو میں لایا جا تا ہے جو اس سماج کے جنم لینے کے محرکات ہیں۔ گو یہ محرکات اس وقت اس مضمون کا موضوع نہیں ہیں لیکن ہم ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔

اس ضمن میں آزادی اور بعد از تقسیم ہند، بھارت کو صرف ایک بڑے سماج کی جسمانی پرورش کا مسلہ ہی درپیش نہ تھا ، بلکہ عقاید کی بنیاد پر مبنی ہندو تحریک جو وہاں بھی عروج پر تھی کو ایک موزوں فکری و نظریاتی سپیس کی ضرورت تھی، سو ان کی لیڈرشپ، جو پہلے سے ہی سوشلسٹ نظریات کی پرچارک تھی ،نے اپنے سماج کے سیکولرازم کا سہارا لیکر اپنی معاشی حالت کو پنپنے دیا ۔ انہوں نے اپنے ابتدائی برسوں میں ہی سماجی ارتقا اور معاشی ترقی کو آئینی اور زرعی اصلاحات اور جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ، صنعتی ترقی جیسے اقدامات کر کے درست سمت دے دی۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ انہیں گھر بیٹھے سکون سے آزاد ی مل گئی ہے اور ہندوستان کا دارلخلافہ انکے قبضے میں آچکا ہے۔ لہذا انہوں نے اپنے معاشرے کی زمین میں اس فخر کو ایک پنیری کی طرح بو دیا۔
پاکستان کی ریاست کو استعماری طاقتوں نے پہلے دن سے ہی اپنی جغرافیائی حدود کے تنازعے ، اس میں شامل ہونے والی طے شدہ ریاستوں میں ہندو جبر ، نئے معاشرہ کی تشکیل ، علیحدہ سماجی وراثت کا انتقال ، معاشی بدحالی ، ہجرت کا غم ، ماس لیول پر مہاجروں کی زبوں حالی اور اسکے نفسیاتی اثرات اور مغرب و مشرق میں دو حصوں پر مشتمل ومنقسم صوبوں میں لسانی تفرقہ جیسے مسائل سے دوچار کر دیا تھا۔

ایسا کیوں ہوا؟

کیا قومی قیادت جو تقسیم ہند کے وقت مسلم لیگ کی نمائندگی کر رہی تھی، نا اہل تھی؟ یا حالات کے جبر کا شکار ہو گئی تھی؟ راقم کی ناقص رائے میں ہر دو وجوہات نہیں تھیں بلکہ قیادت پہلے دن سے ہی اپنی تاریخی اسلامی طرزِ معاشرت، فکر و فہم اور ملوکی رجعت پسندانہ ذہنیت سے چھٹکارا حاصل نہ کر پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں میں ایک کثیر تعداد تقسیم ہند کے خلاف بھی تھی اور وہ کانگرس کے سوشلسٹ مینیفسٹو کی حمایت کر رہی تھی۔

قائد اعظم اپنی ذاتی زندگی میں اور پیشے کے اعتبار سے انتہائی بردباد، متوازن اور سیکولر سوچ کے نہ صرف حامل تھے بلکہ علمبردار تھے۔ ( یہاں موضوع سے ہٹ جانے کی وجہ سے تفصیل ممکن نہیں)جبھی وہ ابتدا میں ایک عر صہ تک سیاسی و نظریاتی مطابقت رکھتے ہوئے کانگریس کے ساتھ منسلک رہے۔تاہم بعد ازاں گاندھی کی افریقہ سے آمد اور کانگریس میں شمولیت، کانگریس کی مہاراشٹر اور یو۔پی کی قیادت کے آپسی جھگڑے، ہندو انہ تنگ نظری اور گجرات کی مقامی ہندو مسلم سیاست کے پیشِ نظر انہوں نے کانگریس کو خیر باد کہہ دیا۔ (۱)
پہلی جنگِ عظیم کے چھِڑ جانے پر اتحادیوں کو آل انڈیامسلم لیگ کی رجعت پسندجاگیردارقیادت سے بہت توقعات تھیں، اور مسلم لیگ کسی ایسی مقبول قیادت کی منتظر تھی، جنہیں وہ اپنے رجعت پسند اور امپرئیلسٹک مینی فیسٹو کے فروغ اور ذاتی مفادات کے لئے انگریز کے سامنے پیش کر سکیں۔

سنہ ۱۹۱۹.ء کے لکھنؤ پیکٹ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مشترکہ اجلاس میں قائد اعظم کی مدبرانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں جس نے انکی قیادت کو ایک عالمگیر شہرت دی تب مسلم لیگ نے انہیں مکمل طور پر ہتھیا نے کا سوچ لیا۔ چونکہ اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی منشور مشترکہ ہندوستان میں صرف علیحدہ مسلم الیکٹرورل کا ہی تھا ،لہذا قائد کو آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالتے ہوئے کوئی دقت نہیں ہوئی جبکہ وہ جوائن تو پہلے ہی کر چکے تھے۔ بعد ازاں مسلم لیگ کا سیاسی منشور رجعت پسندانہ نظریات کو سپیس دینے کا مجرم بنا ، جس کی قائد اعظم مرتے دم تک مخالفت کرتے رہے۔ یوں ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مسلم لیگ کے امپیرئیل مینیفسٹو پر متعارض تو تھی لیکن پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔

بد قسمتی سے نوزائیدہ مملکت اپنے ابتدائی دنوں میں لیڈروں سے محروم ہونے اور آ ئین کے نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی و سماجی ارتکازِ عمل کے بحران ، ملٹیپل عقاید، فقہی و لسانی تقسیم کا شکار ہو گئی۔

ریاست کے لئے یہ بڑے چیلنجز تھے، ایسے میں بجائے اس کے کہ نظریاتی و سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے معاشرے کے عمرانی اصول وضع کئے جاتے، آئین بن جانے کے بعد اداروں کو مضبوط بنایا جاتا، رجعت پسند آمرانہ قیادت نے اقتدار کی سیاسی جنگ میں ایسے فیصلے کئے جو پے در پے قومی اجتماعی مزاج پر بار گراں ثابت ہوئے۔

ریاست نے سٹیٹ نیشن کے نظریہ کو فروغ دینے کی بجائے ملوکیت کے نئے نیم جمہوری ورژن جیسے رجعت پسندانہ بیانیہ کو اپنی بنیاد بنایا۔ جب کہ اس بیانیہ کا فکری تضاد رسمی اور سرکاری طور پر قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کے تاریخی خطاب میں دور کر دیا تھا۔ سٹیٹ نیشن ہی وہ نظریہ تھا جس کی مکمل تعریف قائد نے اپنی تقریر میں واضح کی۔

We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish.

جہاں اقلیتیوں سمیت ہر شہری یکساں حقوق کا آئینی استحقاق رکھتا ہے۔ (۴)

You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today.

۲۳۔ مارچ ۱۹۴۰.ء کی قرار داد کے تحت سٹیٹس نے اپنی جداگانہ شناخت کو برقرار رکھنا تھا، بعد میں جس سے آئینی انحراف کیا گیا۔ ون یونٹ وغیرہ اسی نظریے کا شاخسانہ تھا۔
ایسے میں رجعت پسندوں نے مشرقی پاکستان میں سیاسی سازشوں کے الزامات کو ہوا دی( اگرتلہ سازش کیس ) ۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے ہم بجائے معروف جمہوری طریقوں اور عمرانی اصولوں پر مبنی ترقی پسند سماج تشکیل کرتے ،ہم خود رو معاشرتی و سماجی و مذہبی بگاڑ اور رجعت پسندی کی انتہا کی طرف نکل پڑے۔(۳)

یہی وہ مایوس کن اور رجعت پسندانہ رحجانات تھے ، جس نے ایک طرف عملی طور پر بظاہر مارشل لاٗ کے سایہ میں ملکی صنعتی ترقی کے گن گائے، دوسری طرف انفرادی رائے دہندگی سے انحراف کرتے ہوئے بنیادی جمہوریت کو پروان چڑھایا۔ تیسری طرف ایبڈو جیسے قوانین کی زد میں لاکر بالائی سطح کی سیاسی نمائندگی کو پابندِ زنداں کر دیا۔نظریاتی سطح پر تو سنہِ ۵۲.ء کی مشہور زمانہ سازش کا غلغلہ پہلے ہی مچ چکا تھا ۔ اِس بار اگرتلہ کے نعرے بلند کر کے مشرقی پاکستان کی نظریاتی اکثریت کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا۔

کشمیر کے تنازع میں ہمسائیگی میں نفرتوں کاطومار سنہ ۶۵.ء کی جنگ میں نکلا۔ اتفاق یہ ہوا کہ ابھی ہم ۶۵ کی جنگ کے اثرات سے ہی نہیں نکلے تھے کہ ایک اور سیاسی غلغلہ مچا اور اکہتر کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ اکہتر کی جنگ کے بعد انٹرویننگ پیریڈ میں( جی ہاں میں بھٹو کے اقتدار کو انٹرویننگ پیریڈ کہوں گا، رجعت پسندوں کے سانس لینے کا وقفہ) ملک کی رجعت پسند قیادت نے اپنے مفادات کی خاطر ایک بار پھر اُسی طرح بھٹو کو اقتدار سونپا، جیسے آل انڈیامسلم لیگ نے متحدہ ہند میں انگریزوں سے ڈیل کرنے کے لئے مقبول قیادت محمد علی جناح کو قائد بنایا۔
اور پھر وہی ہوا چند برسوں کے بعد بائیں بازو کی نظریاتی محنت جب رنگ لانے لگی، جنگی قیدی واپس آگئے، جنگ میں ہارے علاقے ہندوستان سے واپس مل گئے ۔ ملک کو پہلی بار متفقہ آئین ملا ، معاشی سرگرمیاں بحال ہوئیں، ثقافتی سطح پر نوجوان نسل کو ایک کلچرل سپیس ملا ۔ وہی طاغوتی قوتیں ۴ جولائی ۷۷ میں مارشل لاٗ انتظام کے تحت ایک بار پھر ریاست کے اقتدار پر پوری رجعت پسندی سے چھا گئیں ۔

اس بار اِن قوتوں نے نئے حالات میں ملکی سطح پر ظلم و جبر اور انتہاپسندی کا پہلے سے رائج استبدادی رویہ مزید توانا کیا ۔ جس کے منفی اثرات نے پہلے سے منقسم سماج میں عوامی سطح پر اپنی جڑیں مزید مضبوط کر لیں تھیں۔ ضیائی سیاہ دور میں تیزی کے ساتھ بدلتے سماج میں معاشی خود غرضی، منافقت اورایسی پیچیدہ اجتماعی نفسیات نے جنم لینا شروع کیا، جس کے نتیجے میں غیر ملکیوں کی درآمد ، اسلحہ کے انبار ، ہیروئن و دیگر ڈرگز کا کاروبار سماج کے نئے کلچر کے طور پر نظر آنے لگا ۔ ترقی پسند نظریات کی حامل جس نسل نے مشترکہ ہندوستان میں ثقافتی طور پر ملٹی لینگوئل اور ملٹی کلچر سماج میں متوازن رہنا سیکھ لیا تھا وہ نسل فال آف ڈھاکہ تک آکر ختم ہو چکی تھی۔

ابھرنے والی نئی نسل کے لئے نصاب تک تبدیل کر دئیے گئے۔ تاریخ کو نصابی تعلیم سے سرے سے نکال کر معاشرتی علوم کے نام سے اِس میں شہریت اور جغرافیہ بڑھا دیا گیا ۔ ۔ مملکت اور ریاست کی کمزوری کو اساطیری داستانوں سے کشید کر کے جھوٹ کی بنیاد پرایسے ادب اور سیاسی بیانیہ کو سرکاری سطح پر تخلیق کیا گیا جہاں خطے کی پر امن ثقافتی روایات کے برعکس ایسا تلوار بردار ہیرو تراشا گیا، جو انسانی ترحم سے دُور مَرسنّری جنگجو تھا۔ کہتے ہیں کسی معاشرے کے نظریات کا جائزہ لینے کے لئے اس کے تنقیدی و تحقیقاتی مضامین نہیں پڑھنے چاہیں بلکہ انکی تخلیقات پڑھنی چاہیں تاکہ اس سے انکے قومی ذہن کا اندازہ ہوگا۔ اس دور کے سرکاری گلڈ کے کرتا دھرتا ادبی مہان دیوتاؤں کی کہانیاں اور افسانے آپ پڑھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔

اس سیاہ دور میں گیارہ برس تک بنیادی تعلیمی نصاب و نظام کے تبدیل ہونے سے طلبہ کی فکری روش ابتدائی دور ہی سے جبر اور جھوٹ کی بنیادوں پر استوار کر دی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ مذہبی عقائد اور انتہا پسندی کو ریاستی سطح پرسرکاری قوت بخش دی ۔یوں حاصل کر دہ طاغوتی قوتوں کے اثر میں ہم نے طارمِ اعلیٰ کو نہ صرف چھو لینے کا اہتمام کر لیا بلکہ ہم نے اپنے تخلیق کردہ خداؤں کی شبیہ تک طشت از بام کردی۔ ہم نے مخلوق ہوتے ہوئے اپنے خالق کو بیچ دیا اور اس سے کئی ایک نئے خدا خرید کر اپنی اپنی چاندنی بچھائے سِکوں کی بارش کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ منافقت کے بازار سرگرم کر دیے۔ سستے داموں کی آڑ میں جھوٹ سے لبریز تھیلے بانٹے جانے لگے ۔ سنسر شپ اور ریاستی جبر و استبداد، کوڑوں کی سزائیں ، صحافیوں کو جیلیں ، دانشور طبقے کا ملکی انخلاء رجعت پسند معاشرے کی پہچان بنا۔

یہیں سے تخلیق کردہ نئے نظریہ پاکستان کی روح سے لبریز شعر و ادب او ر میڈیا پروپیگنڈا کے نام پر کمزور اور پلپلاتی تحاریر ہمارا خاصہ بنیں اور منقسم فقہی عقیدوں کے کوئلوں پر بھُنی ہوئی لاشیں ہمارا کاروبار بنیں ۔۔۔ اور ہم نے طے کر دیا کہ اب یہاں کوئی بھی مر سکتا ہے۔

یہاں بیسویں صدی کے دوسرے نصف کا طائرانہ تنقیدی جائزہ لینا از حد ضروری ہے، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ عالمی منظر نامہ پر ہماری تاریخ کے دھارے کہاں نامکمل ہیں ۔ اس لحاظ سے اِس نصف کو بعد از جنگِ عظیم دوئم ایک ایسے دور سے منسوب کیا جاتا ہے، جو نظریہ عالمگیریت (گلوبلائزیشن )کے ساتھ بام عروج پر پہنچا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی و ترویج میں دنیا بھر کا انسان جس تیزی سے پہیہ کے دور سے نکل کر مکینیکل، پھر الیکٹرونک سے ڈیجیٹل دور میں داخل ہوا وہ متحیر کر دینے والا تھا۔ اسی تحیر زدہ دور میں تسخیرِ کائنات میں ایسے ایسے علم بلند کئے کہ انسانی ذہن دنگ رہ گیا۔

اس سے پہلے چونکہ فکری و علمی سطح پر انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس اور پھر کہیں بہت پہلے سولہویں صدی کی اولین دھائیوں میں مارٹن لوتھر کی مذہبی روایات سے رو گردانی، کے ڈانڈے بہر طور ان نظریات سے متصادم نہ تھے جو کسی بھی انسانی حقیقت کو اسکے علاقائی، لسانی اور ثقافتی جوہر سے الگ کر کے دیکھے جاتے ہوں۔

انہی ادوار میں قومیت سے ہٹ کر نظریاتی تصادم کی راہیں بھی متعین ہوئیں۔ دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں ان نظریات اور انکے فکری پہلوؤں پر اس طرح مباحث ہوئی کہ عالمی فکری تناظر ہیگل سے کارل مارکس کے مادی ترقی کے نظریات اور سارتر اور کامیوکے وجودیت کے فلسفے تک جا پہنچا۔ ان نظریات کو دنیا بھر میں نہ صرف ادبی نقطہ نظر سے مقبولیت ملی بلکہ یہ عالمی نظریات نہ صرف خود مغرب میں مقبول ہوئے بلکہ ایشیا سے لیکر دوردراز لاطینی امریکہ تک پہنچے اور اینلاٹنمنٹ کی ابتدا ہوئی۔
انسان جاگ گیا اور اس سے کہیں زیادہ اُن ادباٗ و شعرا پر اثرات آئے جو طلسماتی یا جادوئی دنیا کی فیٹاسی میں مبتلا رجعت پسندانہ روایتی ادب تخلیق کر رہے تھے۔

ریاست کی رجعت پسندانہ انداز فکر کو دیکھنے کے لئے ہمیں ایک نظر عالمی عمرانی اصولوں کا ایک جائزہ بھی لینا ہوگا۔
روسو نے دستورِ اساسی کے جو اصول وضع کئے ہیں ان میں اقتدار اعلیٰ اور حکومت ( قوت عاملہ) کا فرق خاص اہمیت رکھتا ہے۔ روسو کہتا ہے ’’ اقتدار اعلیٰ کی مالک پوری جماعت ہے، برخلاف اس کے کہ حاکم یا سلطان یا عامل افراد۔ اقتدار اعلیٰ وہ فرد، یا افراد کا مجموعہ ہے جسے پوری جماعت کی طرف سے یہ خدمت تفویض ہوئی ہوکہ وہ ’ارادہ اجتماعی‘ جس کا اظہار جوقانون کی شکل میں ہوتا ہے، کو عملی جامہ پہنائے۔ یہاں ارادہِ اجتماعی کسی طور پر صرف اکثریت سے موسوم نہیں بلکہ من حثیث الجماعت غیر محدود اور ہم خیال ہو۔’اجتماعی ارادے ‘ میں نہ تو انفرادی مفاد ہوتا ہے نہ ہی پوری جماعت کا بلکہ پورے نظام میں بسنے والے افراد کے ’اجتماعی ارادے ‘کو ہی قانون کا درجہ ملتا ہے۔ ‘‘

روسو سے پہلے مختلف فلسفیوں نے حکومت اور محکوم میں طے پائے ہوئے معاہدے کی بنا پرمحکوم کے مختلف حقوق مقرر کئے تھے مگر روسو معاہدہ عمرانی کو حکومت کی نہیں بلکہ ریاست اور معاشرے کی بنیاد تصور کرتا ہے۔ (دورجدید میں ہم یہاں معاہدہ عمرانی کو علامتی معنوں میں ملکی آئین کو ہی لیں گے)۔

طالب علمانہ گفتگو سمجھنے کے لئے یہاں ترقی پسند نظریات کے ابتدائی چند نکات کو پرکھ لیتے ہیں۔ انسان کی بھلائی اور بقا کے لئے مساوات کا فطری اصول ترقی پسندنظریات کا بنیادی جوہر ہے۔ معاشی مساوات کو بطریق احسن کارل مارکس نے طے کر دیا ہے۔ راقم یہاں ماکسزم اور اسکے بنیادی نکات پر مباحث نہیں کرے گا کیونکہ مضمون اسکی طوالت کا اہل نہیں۔ لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ کارل مارکس کے نظریات سے پہلے ہیگل کہتا ہے ’’کسی بھی قوم کی طاقت ، اسکی روح کا جوہر اسکے مذہب اور اسکی سیاسی آزادی کے ان اَدوار سے لگایا جاتا ہے جو اس نے اپنے تاریخ کے اوراق پر جمع کر رکھا ہوتا ہے۔ ( ہیگل )

یہاں پاکستان کے حصہ میں آنے والی جغرافیائی اکائیوں کو اپنی سیاسی، ثقافتی اور لسانی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ جنہوں نے اس مطالعہ کو اپنا شعار بنایا وہ پہلے ہی رجعت پسندوں سے الگ ہوکر اپنا دیش بسا بیٹھے ہیں۔

اٹھارویں صدی کے معروف کنزرویٹوبرطانوی فلاسفر ایڈمنڈ برکی معروف فلسفی ارسطو اور روسیو کے پیرو کاروں میں سے تھا، انتہا درجے پر قدامت پرست خیالات کا حامی ہونے کے باوجود انہیں یہ کہنا پڑھا تھا ۔ ’’ ’’کسی بھی ریاست کی اہلیت اسکی تبدیلی لانے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ اگر وہ ریاست ایسے جوہر نہیں رکھتی تو وہ قدامت پرستی سے بھی محروم ہے۔ ‘‘ (۲)
ایک دوسرے برطانوی قدامت پرست ولیم بلیک کہتے ہیں کہ ’’کھڑے پانی کا جوہڑ زہریلا ہو جاتا ہے۔‘‘

لیکن اس وقت ہم اس بحث میں الجھے بغیر کہ کہاں کس نے انسان پرستی کی کونسی کڑی کو ملایا ،یا اسے زنجیر سے الگ کیا ، یہ دیکھنا زیادہ اہم ہے کہ عمرانی ،سماجی و ثقافتی ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے نئے نظریات سے مزیں ہمارے ہاں ایشیا میں اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں ترقی پسند نظریات کے اثرات کہاں تک پہنچے۔ انسانی زندگی میں جہاں یہ نظریہ اپنی حقیقی تصویر دکھاتا ہے وہیں ایک خاص نہج پر معاشرے کے اندر پنپنے والی برائیوں کو ایک ایسے آئینہ کے ذریعے معکوس کرتا ہے جس کے سیاسی ، عمرانی و ثقافتی اثرات معاشرے پر بالعموم ، اور سماجی زندگی میں بالخصوص نظر آتے ہیں۔

اب اس سارے تقویمی اور ارتقائی سماجی و معاشرتی مدارج کو اگر کوئی عمل سبوتاژ کرتا ہے تو وہ مذہب کی اَن دیکھی وہ روایات ہیں، جنہیں ایک طبقے نے حقیقی و فطری سرچشموں سے کشید تو کیا، لیکن ان قانون پاروں اور صحیفوں کو رجعت پسندانہ فلاسفی کے تحت منطق سے دور رکھے جانے ، اجتہاد کی پابندی اور کسی بھی سوال کو نہ اٹھائے جانے کی بنیاد پر وہ کسی بند جوہڑ کے کائی زدہ پانی کی طرح بدبو دار ، ناقابل استعمال اور سماجی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن گئیں۔

بالکل ایسا ہی منظر تھا جب مارٹن لوتھر نے اپنی تحریروں اور تقریوں سے سولہویں صدی میں بڑھتی ہوئی انسان دشمن کیتھولک فرقہ کی پاپائیت کو ایک حد تک پابند و سلاسل کیا۔

دریں اثنا سرمایہ دار مغرب نے کیمونزم کے خطرے سے نبٹنے کے لئے مسلمانوں کو جو عرصہ دراز سے رجعت پسند ملوکیت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ کسی حد تک مذہب سے بیزاری کی طرف مائل تھے،افغانستان میں انہیں یو۔ ایس۔ ایس۔ آر کے خلاف جہاد کا نعرہ دیکر کھڑا کر دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علم و عمل سے دوری کے باعث ایشیائی ثقافت کا اکثریتی امن پرست مسلمان حصہ اس جہادی تنظیموں کا دلدادہ ہو گیا کیونکہ یہاں انہیں شکم پروری کی فکر نہ تھی اور جدو جہد سے عاری ایک ایسی سہل زندگی کا نقشہ نظر آتا تھا جو بعد از حیات ایک نئی خوبصورت زندگی کا سندیسہ بھی لاتا ہے۔ یوںیہ جہادی تنظیمیں عالمی سرمایہ سے دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ایک عذاب بن کر اتریں۔

رجعت پسند قوتوں نے جس سرعت سے نائن الیون کے بعد اپنے مفادات کی کھُلے عام جنگ کھیلی ہے اب پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی طور پر ریاست اس اٹھتی ہوئی انتہاپسندی کے حوالے سے یک و تنہا کھڑی نظر آتی ہے، جبکہ وہ بیک وقت پوری دنیا کے انتہاپسندوں سے جنگ میں نبردآزما ہے ، ۔ عالمی سرمایہ دارانہ قوتیں اپنے معاشی مفادات اور توسیع پسندانہ حکومتی رول ماڈل کے پیش نظر بظاہر مڈل ایسٹ اور افغانستان میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش میں ہیں لیکن درحقیقت انکا مطمع نظر کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا؟

ایسے حالات میں کیا آنے والے دنوں میں یہ قوم بچ پائے گی ؟

اس سوال کا جواب انتہا پسند مذہبی و سیاسی رہنماؤں سمیت کسی ریاستی ادارے یا حکومتی منصب کے پاس نہیں ہے کیونکہ انہیں یک طرفہ مفادات کا بہتا ہوا چشمہ تو نظر آ رہا ہے لیکن اس سے آگے کی گہری کھائیاں انکی وسعتِ نظر سے دور ہیں جس میں برسوں پہلے وہ بیس کروڑ انسانوں کو دھکیل چکے ہیں۔

اس پس منظر میں جب ہم اپنے قومی نظریات کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک خلاٗ نظر آتا ہے۔ تضادات کا مجموعہ قوم کسی ایک تسبیح کے جڑے ہوئے موتی نہیں، بلکہ الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے بکھرے ہوئے نمازی ہیں۔
عصری عہد میں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستان جیسا قدرتی اور فطری آسودگیوں سے مالا مال ملک جو مڈل ایسٹ ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں تقسیم ہند کے بعد نئی سیاسی بالیدگی اور عمرانی و سماجی شعور سے بازیافت ریاست کے طور پر ابھرتا ، ہم نے رجعت پسندانہ عالمی نظام کا بچہ سقہ بننے پر قناعت کر لی۔ صدیوں پرانی سندھ سمیت پنج دریاؤں کی سرزمین کی ازلی امن پرستی کو تیاگ دیا۔

عالمی سائنسی ترقی کے تیز تر دور میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے منفرد عالمی مقام کو حاصل کرنے کی بجائے علاقائی اور مقامی مصنوعی طاقت کے مخمصوں میں گھر گیا۔رجعت پسند طبقہ قوت کے اظہار کے لئے آمرانہ طاقت اور اسکے زورِ بازو پر انحصار کرتی ہے جبکہ ترقی پسند قوتیں سرمایہ داری اور پیداواری رشتوں کے ایسے نظام کو تشکیل دیتی ہیں، جو آزاد ، غیر مبہم اور حقیقی مساوات کے اصولوں پر مبنی معاشرے کو وجود میں لاتی ہیں۔

مغربی سوشل تھیوری کے مارکسی تنقید نگار اور فلاسفر تھیوڈور ڈبلیو اڈورنو ( ۶۹۔۱۹۰۳.ء ) اپنے آرٹیکل ’’فاشزم‘‘ میں کہتے ہیں ۔
’’ امپرئیلسٹک قوتیں اپنی ہلاکت کے اسباب خود پیدا کرتی ہیں، ان اسباب میں انکے مطابق علم کا فروغ اور انسانی شعور کا تیز تر ارتقاٗ سر فہرست ہے۔‘‘ لیکن اڈورنو کے نزدیک ’’یہ ایک سراب ہے، اس کے خیال میں سرمایہ داری مساوات اور آزادی کی طرف نہیں ، بلکہ پیداواری رشتوں کے انضمام اور سرمایہ کی حاکمیت کی طرف گامزن رہتی ہے۔ اس ضمن میں بازاری آرٹ و تصورات کا تصور کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ‘‘

اور یہی رجعت پسندی ہے جو انسانی فلاح کوقدامت پرستانہ تصورِ حیات اور سرمایہ سے محکوم کرتی ہے۔


حواشی:
۱۔’’ جناح، انڈیا،پارٹیشن، انڈیپنڈنس‘‘ از جسونت سنگھ ۔ اکسفرڈ پاکستان ۲۰۱۰.ٗ
۲۔’’ ہیگل آن پولیٹیکل فلاسفی اینڈ پولیٹیکل ایچولیٹی‘‘ از روبرٹ پیپن آرٹیکل اشاعت اکتوبر ۲۰۱۰.ء یونیورسٹی آف شکاگو۔ امریکہ
۳۔ ’’پارٹیشن آف انڈیا، اے ہیسٹی ڈیسیزن‘‘ از نعیم بیگ ( اشاعت زیرِ طبع)
۴۔قائد اعظم تقریر ۱۱ اگست ۱۹۴۷.ء وہب سائٹ۔ http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/constituent_address_11aug1947.html


اس مضمون (کے چیدہ چیدہ نکات) کل پاکستان کانفرنس انجمن ترقی پسند مصنفین، لاہور پاکستان میں۔۱۲ مارچ ۲۰۱۷ء کو پڑھے گئے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔