سائنس کی سیاست یا روحانیت ؟
( عاطف نثار نجمی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)
کٹھوپنشد (جوکہ اصلاً کٹھا اپنشد ہے) میں ایک جملہ آتا ہے: وگیان سارتھیریستو منہ: پرگرہ وانّرہ: (یہ سنسکرت متن ہے، اسے اسی طرح ذہن میں رکھتے ہوئے پڑھیں)۔ خاص اور اہم اپنشدوں کا خوبصورت اور پُر احساس ترجمہ کرنے والے ایکناتھ ایش ورن نے کٹھوپنشد کے اس جملے میں مستعمل لفظ ‘وگیان’ کا ترجمہ کیا تو انہوں نے اسے ‘سائنس’ نہیں لکھابلکہ لفظ وگیان کے لئے انگریزی لفظ discriminating intellect لکھا یعنی حق و باطل کے مابین شناخت کرنے والی عقل۔
دنیا کی تمام قدیم زبانوں میں جو علم کے سرچشمے پھوٹے، خواہ وہ سنسکرت ہو، عربی ہو، پالی ہو، یونانی ہو یا منڈارن یعنی چینی۔ ان زبانوں میں معرض وجود میں آنے والے علوم زندگی کو کلیت میں دیکھنے والے علوم تھے۔ اس میں بیک وقت ریاضی بھی ہے، منطق اور فلسفہ بھی موجود ہے، اخلاقیات و ضوابط ہیں، طب اور معاشیات بھی ہیں، انتطامیہ کے سوتر بھی ہیں۔ ان میں یوگ کے تجربات کے ذریعے جسم و ذہن سے لے کر فطرت کے اسرار و رموز تک کو حاصل کر لینے کی حیرت انگیز کلا تھی۔ اس میں بھرپور نفسیات کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن کے انتہائی اندرون میں جاری و ساری ترنگوں کو دیکھ لینے کی سادھنا سے پُر خوداعتمادی بھی تھی۔ در حقیقت وہ زندگی کو تکمیلیت کی جانب لے جانے والا تطابق پسند (adjustive) و بہبود پسند علم تھا۔ سنسکرت، عربی، پالی، یونانی یا چینی اس دور میں اسی تکمیلیت پسند علم کے اظہار کا ذریعہ بنیں۔
جدید تعلیمی تفکرات اور تعلیمی طریقہٴ کار میں جو علیحدہ علیحدہ ڈسپلن اور الگ الگ علوم بنانے کا تقسیمی دور چلا اس سے حقیقی سائنس کا خاصا نقصان ہوا۔ اگرچہ آج اس کی بھر پائی کے لئے بین العلومی interdiciplinarity یا ہمہ علومی نام کے مصنوعی نقطہ ہائے نظر اپنانے کے عقلی اقدامات نظر آتے ہوں لیکن اصل علم کو تکمیلی روپ میں دیکھنے کے نظریے کا خسارہ ہی ہوا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کی یک زاویائی(single-dimensional) سوچ کے سبب آج کے مادیت پسند علم نے ایک طرف جہاں اپنی معجزاتی مصنوعات سے مبینہ طور پر عوام کی زندگی میں تن آسانی و سہولیات پیدا کی ہیں وہیں دوسری جانب وہ فطرت اور تمام نوع انسانی کے لئے بھیانک تخریب کار کی صورت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔
یہ کون سا علم یا سائنس یا سائنسی طرز زندگی ہے جو پہلے تو ہماری گنگا اور جمنا کی ہتیا کر دیتا ہے اور پھر جب وہ بستر مرگ پر ہوتی ہیں تو ان کی زندگی نو کی خاطر کوئی خرچیلا اور غیر عملی لیکن نام نہاد سائنسی طریقہ ڈھونڈ نکالنے کا دعوی کرتا ہے؟ یہ کون سی سائنس ہے جس کی وجہ سے دلّی سے بیجنگ تک، اور مظفر پور سے رشیکیش تک لوگوں کے سانس لینےکے قابل ہوا تک نہیں رہ گئی ہے، ستّر فیصدی بچے سانس اور پھیپھڑے کی بیماری مادر رحم سے لے کر پیدا ہو رہے ہیں اور دوسری جانب ان بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے ‘آر اینڈ ڈی’ (R&D) کر کے پیٹنٹ patent دوائیں بیچ رہا ہے؟
یہ سائنس ایک طرف جہاں عوامی زندگی کو سہولت پسند بنا رہا ہے، وہیں دوسری جانب نا امیدی، تناؤ اور خود کشی جیسے رجحانات کو بھی جنم دے رہا ہے۔ ایک جانب جہاں یہ ایٹمی بجلی بنا کر ہماری زندگیوں کو روشن کا کرنے کا ادعا کرتا ہے وہیں دوسری جانب اسی ایٹم سے اتنے بم بنا چکا ہے کہ جس سے پوری زمین کو کئی بار تاراج کیا جا سکتا ہے۔ اسی ایٹم کے ریڈیو ایکٹِو کچرے سے یہ سمندروں کو بھی آلودہ کرنے پر اتارُو ہے۔
ان نکات کا مطلب یہ ہے کہ مادہ پسند سائنس میں جو تکمیلی سائنسی نظر چاہیے وہ جدید تفکرات میں بڑھنے کے بجائے مسلسل گھٹ رہی ہے۔ دفاع میں ہم صرف یہی کہ پا رہے ہیں کہ یہ سائنس ابھی بچہ یا طفل مکتب ہے اور ترقی پذیر عمل میں غلطیاں کرتے کرتے سیکھ رہا ہے۔ لے دے کر ابھی اس کے پاس مفروضات، تھیوری، کچھ آلات، کچھ کیمیائی جڑی بوٹیاں، کچھ نفسیاتی نسخے اور کچھ سیاسی اور ڈپلومیٹک لیبل ہی ہیں اس لئے وہ زندگی کےدیگر بنیادی سوالات کے حل میں خود کو بے سہارا پاتا ہے۔
دنیا کے تمام سکھ سہولیات اور شہرت بھوگ لینے کے بعد جب لیو ٹالسٹائے کے ذہن میں خودکشی کا خیال آیا تو انہوں نے ہمعصر دنیا کے سبھی بڑے سائنسدانوں، فلسفیوں، ادیبوں اور مذہبی مبلغین کے ساتھ مکالمہ قائم کر کے زندگی اور سائنس کی اس ہمہ جہت پہیلی کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں ایک طویل مضمون باندھا ہے۔ انہوں نے مروجہ سماجی علوم اور طبیعی علوم کی عدم استعداد اور تناقضات و تضادات کے بارے میں فوری نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ میں سمجھ چکا ہوں یہ تمام کی تمام سائنسی علوم بڑے دلچسپ ہیں، بہت پر کشش ہیں؛ لیکن زندگی کے سوال پر ان کے استعمال کاجہاں تک تعلق ہے وہ مخالف سمت میں ہی مناسب اور واضح ہیں، وہ زندگی کے سوالوں کا جواب دینے کی جتنی کوشش کرتے ہیں اتنا زیادہ کشش سے معدوم ہوئے چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی ان سائنس علوم کے اُس شعبے کی جانب دھیان دے جو زندگی کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے ( ان سائنسوں میں علم اجسام، نفسیات اور سوشل سائنس وغیرہ ہیں) وہاں اسے خیالات کی حیرت انگیز پستہ حالی و فروتنی، مزید ابہام، غیر معنوی سوالات کو حل کرنے کا ایک بالکل غیر مناسب اور جھوٹا دعوی نیز ہر سائنسداں کے ذریعہ ایک دوسرے کا اور اپنے ہی ذریعے اپنی ہی باتوں کی تردید نظر آئے گی۔
وہیں اگر ہم ان سائنسوں کی طرف دیکھیں جن کا زندگی کے سوالات کو حل کرنے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، لیکن جو خود اپنے مخصوص سائنسی سوالوں کا جواب دیتے ہیں تو انسان کی دماغی طاقت دیکھ کر مسحور ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں ہم پہلے سے ہی جان چکے ہوتے ہیں کہ یہ زندگی کے سوالات کو لے کر کوئی جواب نہیں دیتے ہیں۔ وہ زندگی کے سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ “تم کیا ہو اور کیوں جیتے ہو” اس سوال کا نہ تو ہمارے پاس جواب ہے نہ اس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں۔ لیکن اگر تم گُن اور نتیجے کا باہمی تعلق جاننا چاہو تو ہمارے پاس واضح، حقیقی اور غیر متنازع جواب موجود ہیں۔
کیا حیرت کا مقام ہےکہ یہ حالت ہے ہماری سائنسوں کی۔ جوں جوں سائنسی حصول یابیوں، دریافتوں اور مصنوعات کی انانیت و خودسری بڑھتی جا رہی ہے توں توں زندگی کے سوالات پر ہمارے مسائل کی پیچیدگی اور اس پر ہماری بیچارگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اسی سائنسیت کے دفاع میں ہم سنسکرت، عربی اور پالی کو دھتکارتے ہوئے کہنے لگتے ہیں کہ تم بڑے سائنسی ہو تو اپنے صحائف اور گرنتھوں میں راکٹ سائنس کھوج کر دکھاؤ۔ سائنس کے اس پوچ مفہوم کے بجائے نئی اور سائنس میں زیادہ منہمک نسلوں سے توقعات وابستہ کی جاتی ہیں کہ وہ سائنس کو صرف جینیٹکس، روبوٹکس، انفارمیٹکس، یا آرٹیفیشیل اِنٹیلیجنس جیسے موضوعات تک محدود کر دینےکی بھول نہ کریں۔ ان کو خود میں سبھی قسم کی سائنسوں کو جذب کرنے کی لچک پیدا کرنی ہوگی۔ انہیں اپنے آپ میں تمام قسم کی سائنسوں کی اکثریت و افادیت کے تئیں جذبہٴ احسان مندی پیدا کرنا ہوگا۔ فطرت کے تحیر آمیز اسرار کو الگ الگ نقطہٴمشاہدہ (کوئی جگہ جہاں کھڑے ہو کر آس پاس کا معائنہ کیا جاتا ہے) سے سمجھنے کی غیر تنہائی پسند کشادہ دلی پیدا کرنی ہوگی۔ تب کہیں جا کر سائنس، سائنس بنے گی۔
علم معرفت یا علم روحانیت خواہ کسی بھی زبان میں بیان کیا گیا ہو، اسے جاننے کا تجسس ان کے لئے شرم یا لاج کا باعث کیوں ہو؟ حقیقت میں مذہب کے نام پر بانٹنے اور لڑائی جھگڑے والے گروہ پسند یا فرقہ پرست سیاسی خیالات اور اوہام پرستی اس طرح کی سائنس کی کسوٹی پر دم توڑ دیں گے۔ تب جا کر انکشاف ہوگا اور سائنسی عہد، سائنسی روحانیت کا عقدہ کھلے گا۔ تب جا کر تکمیل کی جانب بڑھے گی زندگی کی طبیعی، اخلاقی اور جذبہ آمیز سائنس۔
اس سیاق میں ونوبا بھاوے کے روحانیت والی روایت میں دو جین آچاریوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ ایک آچاریہ تلسی اور دوسرے آچاریہ مہا پرگیہ۔ سنسسکرت کے عظیم گرنتھوں اور پالی کے جینی آگموں (جینی روایات میں آگم وہ اصل اور بنیادی متون ہیں جو تیرتھنکروں کے ڈسکورس پر مبنی ہیں) کے گہرے مطالعے کے بعد اپنے یوگ کے تجربے سے اسے ثابت کر انہوں نے ‘جیون وگیان’ یا ‘سائنس آف لِوِنگ’ کے نام سے ایک نئے نصاب کی تخلیق کی تھی۔ جدید حیاتیات، نفسیات اور میڈیکل سائنس سمیت سبھی قسم کے سائنسوں کو ضم کرتے ہوئے انہوں نے ابتدائی سے لے کر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن تک کے جیون و گیان ادب کی تخلیق بھی کی۔گہرے مشاہدے پر مبنی اس طریقہ کار میں انہوں نے بتایا کہ جسم کے مختلف غدود جیسے ایڈرینل، پینکریاز، پاینییل، پِٹیوری، کورٹیکس، اور گوناڈز تک میں وقوع پذیر کیمیائی رد عمل کو یوگ کے تجربات سے کیسے سمجھا جائے اور ان کے تئیں باخبر رہتے ہوئے خود کو منظم اور بیدار کیسے کیا جائے۔ علم روحانیت سے تطابق قائم کرتے ہوئے تکمیلیت پسند سائنس کی جانب بڑھنے کی یہ اپنے آپ میں انوکھی کوشش ہے۔
کچھ صوبوں مثلاً راجستھان کی تمام طرح کی سیاسی جماعتوں پر اس کا ایسا اثر رہا ہے کہ انہوں نے اسے اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے لے کر اساتذہ کی ٹریننگ تک میں شامل کیا ہے۔ اس کے بہترین نتائج بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ لیکن یہی حکومتیں ایک دن اسے موجودہ اصطلاح میں ‘فیزیکل ایجوکیشن’ نامی چٹنی بنا کر اس کی بنیادی ساخت کو بھی مسخ کر دیں گی، اس کا اندیشہ بھی مستقل بنا رہتا ہے۔
سائنس کو لازمی طور پر الحادی یا الحاد پسند مان لینے والے عقلیت پسند افراد کو یہ بہرحال ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آج کے سطحی الحاد اور ترقی پسندی سے کہیں زیادہ ذہنی طور پر زرخیز الحاد پسند تفکرات سنسکرت میں سینکڑوں سال قبل قائم ہو چکے ہیں اور اس پر دنیا کی تمام زبانوں میں اتنے تفکرات، تجزیئے اور مکالمات ہو چکے ہیں کہ ہومیوپیتھی کی دوا کی مانند اب اس کی قوت میں مزید اضافہ بھی ہو چکا ہے۔
ہم خدا، روح اور ادراکِ الٰہی سے متعلق خیالات کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ہمیں کم از کم اتنی کشادہ ذہنی تو دکھانی ہی چاہیے کہ علت و معلول سے لے کر جسم کی قوتِ محرکہ اور من کی ترنگوں تک کو منظم کرنے والے علم کو بھی سائنس کا حصہ مان سکیں۔ جنسی اعضا اور دماغ کے مرکزی نظامِ احساس سے لے کر جسم اور دماغ کے اندرونی غدود میں ہارمون اور ترنگوں کی سطح پر وقوع پذیر کیمیائی تفاعل کو یوگ کے کے تجربات سے سمجھنے نیز اسے متوازن بنانے کی جانچ پرکھ سائنسی کسوٹیوں پر کریں۔ ہم قلیل ترین سطح پر بھی اتنے رجائیت پسند کیوں نہ ہوں کہ مستقبل کی سائنسی نسلیں طبیعی سائنس میں اسے اور بھی زیادہ باریکی سے دیکھ اور سمجھ پائیں گی۔
آج کے یورپ اور امریکہ جسے صنعت پسند سائنس اور جمہوریت پسند نظام پر اتنا ناز ہے، اس کی تمہید اسی نشاٴة ثانیہ کی زمین پر لکھی گئی تھی جس کی پشت پر یونان کا وہی علم و فلسفہ تھا جسے یونانی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ اس میں عربی، سنسکرت اور چین کے ریاضی، طب اور اجرام فلکی سے متعلق نیز دیگر سماجی سائنس کے اصول و مبادیات کا تعاون بھی شامل ہے۔
دنیا بھر میں اور ہندوستان کی بھی جامعات میں بھلے ہی پتنجلی، بھتْرہری یا ویاس کو پڑھنے میں بھلے مشرق میں جھجھک نظر آتی ہو لیکن وہاں آج بھی سقراط، افلاطون اور ارسطو کو خوب رس لے لے کر پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔
ہمارے عہد کی بد قسمتی یہ ہے کہ سنسکرت، عربی، پالی، تامل یا چینی جیسی علمی زبانوں سے لے کر بے شمار دیسی لوک زبانوں اور سادھو سنتوں والی بولیوں تک میں موجود زندگی کی تکمیلیت پسند سائنس کو کسی مخصوص فرقے سے آزاد ہو کر سمجھنے کے بجائے اس کی فرقہ سازی زیادہ ہوئی ہے۔ انسانی دھروہر کی شکل میں بچی ان زبانوں تک کو فرقوں نے آپس میں بانٹ لیا ہے۔ ہندو کہیں کہ سنسکرت میری، بودھ اور جین کہیں کہ پالی میری، مسلمان کہیں کہ عربی میری، عیسائی کہیں کہ لاطینی میری، تاو اور معتقدین کنفیوشیس کہیں کہ چینی میری۔ تو یہ بھی کوئی بات ہوئی! اس کی ایک بڑی وجہ انتہائی تنگ نظری اور کٹر اصول پرستی کے دور میں سائنسی سوچ رکھنے والے ایسے تطابق پسند افراد کم ہی رہ گئے ہیں جن میں اتنا صبر و تحمل باقی ہو کہ وہ علم روحانیت پسند ونوبا بھاوے کی طرح اکّیس سالوں میں قرآن کا عربی میں ہی چھ بار مکمل مطالعہ کر کے اس کا خلاصہ یا نچوڑ ‘روح القرآن’ یا ‘قرآن سار’ لکھ سکیں اور جسے دنیا بھر کر کشادہ ذہن عربی زبان کے علماء داد تحسین دے سکیں اور پاکستان کے تمام بڑے اخبارات میں اس پر اداریے لکھے جائیں۔
مہاتما گاندھی نے افادیت کے اعتبار سے سنسکرت، عربی اور انگریزی سب کچھ پڑھنے کی وکالت کی تھی لیکن انہوں نے خبردار بھی کیا تھا اگر یہ مذہبی تعلیم کی حیثیت سے ہو تو حکومت اس سے کوئی سروکار نہ رکھے اور اسےصرف مذہبی انجمنوں و تنظیموں پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ حکومتی مداخلت سے یہی ہوگا کہ کوئی فرقہ پرست جماعت سنسکرت کے دفاع میں ‘پُشپک وِمان’ اور کنیش جی کی سرجری بتائےگی یا پھر کوئی سیکولر جماعت یونیورسٹیوں میں سنسکرت کے نام پر صرف ‘رس منجری’ والا ادب پڑھاتی رہے گی۔ ونوبا بھاوے نے اپنے تعلیمی نظریات میں لکھا ہے کہ آج کل سنسکرت کے نام پر جو آرائشی ادب لکھا جاتا ہے، اتنا ہی ادب اگر سنسکرت میں ہوتا تو میں سنسکرت سیکھنے کی کبھی پروا ہی نہ کرتا۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: یونانی فلسفے و سائنس کے عرب ترجمہ کاروں کے انتہائی اہم ذیلی اثرات
اس لئے حکومت یا اس کی کوئی وزارت نہ تو سنسکرت، پالی یا عربی کے اس سائنس کو جبراً پڑھانے کی سب سے مناسب ایجنسی ہو سکتی ہے اور نہ ہی آئی.آئی.ٹی IIT یا این.سی.ای.آر.ٹی NCERT جیسےاس کے لئے محض اکیلے اور سب سے مناسب ادارے۔ ہماری سائنسی نسلیں زبان سیکھنے کے معاملے میں جب تمام تعصبات سے آزاد ہوں گی تبھی وہ جان پائیں گی کہ انگریزی میں ‘دھرم یا دھمّ’، ‘چِتّ’، اور ‘درشن’ تک کے لئے کوئی مناسب یا متوازی لفظ موجود نہیں ہے۔ تبھی انہیں انسانی ترحم کے لئے جنوبی افریقی زبان ‘زُلو’ کا نہایت باریک اور خوبصورت لفظ ‘اُبنتو’ مل پائے گا۔ علمی اور لوک زبانوں کے مختلف المعانی الفاظ کے تاریخی ارتقا اور زوال کا تجزیہ بھی سائنسی تجربات سے ہی علم میں آئےگا۔ تبھی وہ پُرانِک ادب کو صرف اسطور یا مائیتھولوجی کہہ کر اس کی تردید کے بجائے اس میں زندگی سے لے کر مادے تک کے سائنس کا افادی منتر تلاش کر پائے گی۔ خود تیترییہ اپنشد کے ایک سیاق میں ذکر ہے کہ آنے والا عہد وگیان (سائنس) کا عہد ہے۔
آج سنسکرت اور سائنس کو لے کر حامی و مخالفین دونوں کی جانب سے جس قبیل کی دلیلیں دی جا رہی ہیں اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ مستقبل میں سائنس والی نسلیں ہمیں تنازع پسند دور کے ایک ایسے بھیانک سیاسی اور لغو باتیں کرنے والے افراد اور انسانوں کے روپ میں یاد رکھیں گی جو ہر چیز کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ جو بات بات پر بدخواہی و عداوت، تصادم و ٹکراؤ اور ایذا رسانی کی حد تک اپنا حق جتانے کے پس پشت پُر تشدد تیور اپنا لیتے تھے۔ جو نو آبادیاتی تعصبات کے ذریعے پیدا کیا گیا خود اپنی ذات سے تنفر، شرم اور پس و پیش کے باعث شمولیت و تطابق پسند ہمہ گیریت تک کو اپنانے سے اجتناب کرتے تھے۔ کسی مخصوص زبان کے تئیں جن کی محبت یا نفرت بھی سیاسی رنگوں میں رنگی ہوتی تھی۔ جنہوں نے اسی تقسیمی اور سیاسی تنازع کے چلتے علم روحانیت اور کلاسیکی علم کے سائنسی امکانات سے بھی منہ چرا لیا تھا۔ جنہوں نے سائنس کے تکمیلیت پسند دھارے میں شعوری و غیر شعوری طور رکاوٹیں ہی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ جو اپنی بے ضمیری کے چلتے ‘غیر جانبداریت’ و ‘نیوٹریلِٹی’ کا منفی و انکاری مفہوم لیتے ہوئے دنیا کی عظیم زبانوں کے ساتھ بھی خوف اور تفریق کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کے بیچ کچھ ایسے عقلیت پسند یا ریشنلسٹ ترقی پسند کہلانے والے نا پسندیدہ افراد بھی بستے تھے جو زبانوں کو مردہ جسم ٹھہرا کر ان پر تحقیر آمیز سفاک لطیفے گھڑتے تھے اور پھر غرور سے بھرپور قہقہے لگاتے تھے۔ کیا ہم مستقبل کی تکمیلیت پسند، شمولیت پسند اور تطابق پسند سائنسی نسلوں کے بیچ اسی طرح یاد کیے جانا پسند کریں گے؟
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.