کنٹرولڈ جمہوریت سے آزاد جمہوریت کے لیے جدوجہد کا دور
فاروق احمد
نواز شریف اسی اسٹیبلشمنٹ کے خمیر سے اٹھا ہے جو آج اسے زمین چٹوانا چاہ رہی ہے ۔۔ اسی لیے ٹکر کا مقابلہ ہے ۔۔ سمجھوتے کرنے، خون کے گھونٹ پینے، خاموش رہنے سے اسے کچھ نہیں ملا۔ الٹا ملٹری اسٹیبلشمنٹ شیر ہوتی گئی۔ دباؤ بڑھاتی گئی ۔ یہاں تک کہ اسے باہر کر دیا ۔ اب وہ بیک فائر کرے گا اور اسٹیبلشمنٹ بھی آگے بڑھے گی ۔ ٹکراؤ ہو گا۔ سسٹم کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ ممکن ہے کہ ملٹری جارحانہ موڈ میں آ جائے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
پانچ سال زرداری کی مفاہمت کی کوشش، چار سال نواز شریف کی خاموشی بھی ملٹڑی اسٹیبلشمنٹ کی منہ زوری میں کمی نہ لا سکی۔ دھرنے، لاک ڈاؤن، پارلیمنٹ پر حملے، سیاسی ابتری کی سازشیں اسی دور کی یادگار ہیں ناں جب نواز شریف خاموش رہا اور لاتیں گھونسے کھانے کے باوجود اس نے اپنے دفاع کے لیے بھی ہاتھ اٹھا کر چہرے کے سامنے نہ لایا۔ کیا حاصل ہوا۔ مزید دباؤ۔ مزید پریشر۔ مزید دھمکیاں۔ مزید دھکے۔
اس لیے اب نواز شریف کو مقابلہ کرنا چاہیے ۔ سسٹم پر تو اسٹیبلشمنٹ مفاہمت کی صورت میں بھی حاوی ہوتی جا رہی ہے ۔ نواز اور دیگر سیاسی قوتوں کے لیے اسپیس کم کرتی جا رہی ہے ۔ تو ٹکراؤ کی صورت مین کیا فرق پڑ جائے گا۔ یعنی جب اسٹیبلشمنت نے ہر صورت قبضہ کرنا ہی ہے تو پھر پلیٹ میں رکھ کر نظام اس کے برتن میں کیوں ڈالا جائے ۔ اس سے لڑا کیوں نہ جائے۔
یاد رہے یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے بنگال میں جو٭٭٭ کھائے تو وہاں سے نکلی ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ امن و مفاہمت کو کمزوری گردانتی ہے۔ اس کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے۔ جنگی حکمت عملی کا پہلا اصول انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ حریف مفاہمت پر آمادہ ہے تو مطلب یہ کہ کمزور پڑ رہا ہے اس لیے اس پر چڑھائی جاری رکھو۔ دوسرا اصول یہ کہ مفاہمت اس وقت کرو جب اپنی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہو۔ لاعلم اور بڑبولے لال بھجکڑ ہیں وہ جو نواز کو مفاہمت کا سبق دیتے ہیں۔ وہ فوج کے حملے اور پسپائی کے اصولوں سے نابلد ہیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ نقصان اٹھائے گی تو پیچھے بھی ہٹے گی اور مفاہمت پر بھی آمادہ ہو گی۔
جب تک وہ میدان پہ میدان مارتی آگے ہی آگے بڑھی جائے گی مفاہمت کا سوچے گی بھی نہیں ۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مفاہمت کی طرف لانا ہے تو اسے برابر کا نقصان پہنچانا پڑے گا ۔ سسٹم کی جتنی ضرورت اپنی لوٹ مار کے لیے ملتڑی اسٹیبلشمنٹ کو ہے اتنی کسی اور کو نہیں ۔ فوج تاجر ہے، فوج صنعت کار ہے ۔ فوج ٹھیکیدار ہے۔ فوج سروس پرووائیڈر ہے۔ فوج کا بڑا پیسہ اس نظام کے وجود سے وابستہ ہے۔ اس لیے نواز شریف کا ٹکراؤ اور مقابلے کا فیصلہ درست ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اب۔ مفاہمت کا آپشن یہاں نہیں چلے گا۔ ناقابل عمل ہے۔
اس لیے ایک ہی آپشن بچا ہے۔ نواز کے مخالفین کا مخمصہ یہ ہے کہ جب وہ پسپا ہوتا رہا تو اسے بزدلی اور تعیش پسندی کے طعنے دیتے رہے کہ سامنا نہیں کرتا۔ لڑتا نہیں۔ بھاگ جاتا ہے، لیکن اب جبکہ وہ لڑنے اور ٹکرانے پر تیار ہے تو کہہ رہے ہیں اقامہ فیصلہ تسلیم کر لو۔ ہار مان کو ۔ پیچھے ہٹ آؤ۔ سسٹم بچا لو۔ ہمیں بچا لو۔ جمہوریت بچا لو۔ جمہوریت ایسے نہیں بچے گی بھائی ۔ لڑنے سے بچے گی۔ جمہوریت دشمنوں کے زخمی ہونے سے بچے گی۔
اگر نواز شریف ثابت قدم رہتا ہے تو جمہوریت کی لڑائی تیسرے دور میں داخل ہو جائے گی۔ کنٹرولڈ جمہوریت سے آزاد جمہوریت کے لیے جدوجہد کے دور میں۔
اس کے سوا آپشن بھی کوئی نہیں۔