کرونا وائرس اور پاکستان: اس وقت تو دوریاں ، social distancing ہی حل ہے
تجزیہ نگار، محمد سالار خان، فرح لطیف
ترجمہ از، صلاح الدین صفدر
صحت کی نا کافی سہولیات اور گنجان آبادیاں پاکستان میں بڑے پیمانے پر اموات کا سبب بن سکتے ہیں۔
چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کرونا وائرس اب دنیا کے 199 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ عالمی اِدارۂِ صحت اس وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری کووِڈ-19 کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔ سرحدوں کی پروا کیے بَغیر ہر طرف پھیلتی یہ بیماری ہمیں یاد دلا رہی ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتائج کسی ایک ملک، یا ایک وقت تک محدود نہیں رہتے۔ احتیاطی تدابیر کو سنجیدگی سے نہ لینے والے سبھی ممالک اس وبا کے سنگین نتائج بھگت رہے ہیں، یا اس جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وبا سے متعلق غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں مقیم ہم جیسے پاکستانی طالب علموں کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سخت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے آنے والے دن ہمارے ملک اور لوگوں کے لیے بڑی تباہی لا سکتے ہیں۔
عالمی ماہرین کے مطابق اس وبا پر قابو پانے کے لیے صفائی اور ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنا اشد ضروری ہے۔ ایک دوسرے سے دوری کا مطلب ہے کہ اپنے قریبی لوگوں کے علاوہ دیگر تمام افراد سے ہر طرح کا جسمانی میل جول ختم کر دیا جائے۔ ہر قسم کے اجتماعات اور محفلوں سے پرہیز کی جائے۔
پاکستان میں ایک دوسرے سے دور رہنا ایک بڑا چیلنج بن کے سامنے آ رہا ہے۔ اب تک ملک بھر میں کرونا کے ڈیڑھ ہزار سے سے زیادہ مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے اور پندرہ اموات ہو چکی ہیں۔ مریضوں اور اموات کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔
کئی عوامل اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی یہ وبا بے قابو ہو سکتی ہے۔
پہلا، پاکستان جغرافیائی محلِّ وقوع کے اعتبار سے وسطی ایشیا اور مشرقِ وُسطیٰ کا داخلی دروازہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے یہاں بین الاقوامی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔
دوسرا، ہماری سرحدیں اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک، یعنی چین اور ایران سے ملتی ہیں۔ ان ممالک سے گہرے سماجی، مذہبی اور معاشی روابط کی وجہ سے شہریوں کا ایک دوسرے کے ملک آنا جانا لگا رہتا ہے۔ سی پیک، CPEC، جیسے منصوبوں میں وسیع چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے چین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان میں موجود ہے۔ اسی طرح ایران سے پاکستانی زائرین کی واپسی کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔
تیسرا، ابھی تک حکومت کی جانب سے اس وبا پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات نا کافی رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان ابھی تک ممکنہ معاشی نقصانات کے پیشِ نظر ملک کو مکمل طور پر بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس پر مُستزاد یہ کہ ایران سے آنے والے زائرین کو بھی صحیح طور پر سنبھالا نہیں جا سکا ہے۔ عوام میں اس وبا سے متعلق سازشی نظریات اور افواہیں بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں اور وہ اس بیماری کے علاج کے لیے غیر سائنسی نسخوں اور جادو ٹونے کو ترجیح دیتے نظر آرہے ہیں۔
چوتھا، کووِڈ 19 ایک متعدی بیماری ہے جو پُر ہجوم جگہوں پر زیادہ پھیلتی ہے، جب کہ تقریبات اور محفلیں پاکستان کی معاشرتی زندگی کا جزوِ لایَنفک ہیں۔
پانچویں اور آخری، بات یہ کہ پاکستان نہایت گنجان آباد ملک ہے جہاں 220 ملین نفوس بستے ہیں۔ گنجانیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے 14 گنا بڑے امریکہ کی آبادی محض 330 ملین ہے۔ زیادہ آبادی اور گنجان جگہیں اس وائرس کی منتقلی کا ایک بڑا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک دوسرے سے دور رہ کر ہی اس مرض کی ایک شخص سے دوسرے میں منتقلی کی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسپتالوں اور صحت کے نظام پر غیر ضروری بوجھ کو کم کیا جا سکے اور یہ نوبت نہ آئے کہ انہیں اپنی صلاحیت سے زیادہ مریضوں کا خیال رکھنا پڑے۔
دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جہاں جہاں لوگوں کے درمیان میل جول کو محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے وہاں اس وبا کا پھیلاؤ دیگر شہروں کی نسبت کم رہا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی کے صوبے لودی میں سب سے پہلے کرونا کے مریض سامنے آئے تھے، لیکن وہاں بائیس فروری کو ہی باہمی میل جول پر پا بندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ اس کے بَر عکس برگامو صوبے، جہاں ابتدا میں اس بیماری کے مریض لودی کی نسبت کہیں کم تھے، میں لودی سے دو ہفتوں بعد یعنی سات مارچ کو پا بندیاں لگائی گئیں۔ اس تاخیر کی وجہ سے اب برگامو میں مریضوں اور اموات کی تعداد لودی سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
یہ بات بعید اَز قیاس نہیں ہے کہ پاکستان میں کووِڈ 19 کے مریضوں کی اصل تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو۔ یہاں وسائل کی کمی، سازشی نظریات اور بَر وقت تشخیص کا رویہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مریضوں کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے۔ اس وبا کی منتقلی کی شرح خاصی زیادہ ہونے کی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ میں بھی اس مرض سے متاثرہ لوگوں کی اصل تعداد حکومت کی جانب سے بتائی گئی مریض کی تعداد سے دس گنا سے لے کر سو گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
اگر پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار سے دس گنا زیادہ مریض ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت ملک میں پانچ ہزار سے زائد مریض موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک مہینے میں یہ تعداد اسّی ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی صحت کی سہولیات اس وبا سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہوں گی۔ پاکستان کے اِدارۂِ شماریات کے مطابق ملک بھر کے اسپتالوں میں کل پندرہ لاکھ کے قریب بستر ہیں۔ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں یہ تعداد بہت کم ہے۔ اس پر مُستزاد یہ کہ ان بستروں میں انتہائی نِگہداشت والے بستروں کی شرح بھی خطرناک حد تک کم ہے۔
عالمی ادارۂِ صحت کے مطابق ہر پچاس بستروں میں سے کم از کم ایک بستر پر انتہائی نِگہداشت کی سہولیات دست یاب ہونی چاہییں اور انتہائی نِگہداشت والے ہر بستر کے لیے ایک نرس بھی ہونی چاہیے۔ تاہم پاکستان کی ایک بڑی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے بارہ بڑے ہسپتالوں میں صرف 250 انتہائی نگہداشت والے بستر موجود ہیں۔
پاکستان کے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک جناح ہسپتال میں کل 1250 بستر ہیں جن میں سے صرف 34 پر انتہائی نگہداشت کی سہولیات دست یاب ہیں۔ ملک بھر میں ہر دو ہزار افراد کے لیے ایک نرس ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی، NDMAکے سربراہ کے مطابق کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے پاس صرف 1700 وینٹی لیٹرز دست یاب ہیں۔ ملک بھر کے ہسپتالوں میں طبی آلات کی بری حالت بھی اکثر اخبارات کی زنیت بنتی رہتی ہے، جب کہ دیہاتی علاقوں میں یہ صورتِ حال مزید ابتر ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑھنے پر ملک بھر کے ہسپتالوں کو بستروں، طبی عملے اور میڈیکل آلات کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہر لمحہ بگڑتی صورتِ حال کے با وُجود پاکستان میں اس خطرے کی سنگینی کو عوامی سطح پر ابھی تک بھانپا نہیں گیا۔ ابھی تک بازار کھلے ہیں، لوگ موج مستی کر رہے ہیں، جب کہ مصافحے اور معانقے اسی طرح سے جاری ہیں۔ مشرق وُسطیٰ سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک میں مساجد بند کر دی گئی ہیں اور جمعے کے اجتماعات پر پا بندی لگا دی گئی ہے لیکن پاکستان میں سخت گیر مذہبی طبقات ابھی بھی با جماعت نماز کی ادائی تک موقُوف کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وبا جلد رَفَع ہونے والی نہیں ہے؛ آج یا کل ہم سب اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے معاشرے مجموعی مفاد کے پیشِ نظر ہمیں اپنی عادات اور روَیّوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک جانب محققین اس وائرس کو سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، وہیں دوسری طرف لاک ڈاؤن اور کَوارَنٹِین، quarantine، جیسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
تاہم لاک ڈاؤن کا فائدہ اسی صورت میں ہو گا جب لوگ اس کو سنجیدگی سے لیں گے۔ جتنا جلد پاکستان لاک ڈاؤن اور بڑے پیمانے پر کَوارَنٹِین، quarantine، جیسے اقدامات لے گا، اتنا ہی اس کے لیے اس وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانا آسان ہو گا۔ اس صورتِ حال میں ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ دفاتر کو چاہیے کہ وہ اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کو کہیں۔ دیہاڑی دار اور مزدور طبقے کے لیے اشیائے خور و نوش کی فراہمی لاک ڈاؤن سٹریٹجی کا لازمی حصہ ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ صفائی کا بھی خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے تناظر میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں مذہبی رہنماؤں اور عُلَماء کو اس وبا سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے کیوں کہ شہریوں کا ایک بڑا حصہ انہیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کی بات سنتا ہے۔ اس لیے عُلَماء کو چاہیے کہ وہ مذہبی حوالوں کے ساتھ لوگوں کو اس وبائی صورتِ حال میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کریں۔ انہیں لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ حضرت محمدﷺ نے لوگوں کو وبا والے علاقوں سے نکلنے، یا داخل ہونے سے منع فرمایا تھا۔ مزید بَر آں متعلق رسول اللّٰہ کی احادیث بھی لوگوں کو سنانی چاہییں، مثلاً آپ نے فرمایا کہ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔
ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنے جیسی احتیاطی تدابیر کو غیر ضروری سمجھنے والے اور با جماعت نماز پر اصرار کرنے والوں کو امام ترمذی کی نقل کردہ وہ روایت یاد دلانی چاہیے کہ ایک روز رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک بدو کو اپنا اونٹ کھلا چھوڑ کر جاتے دیکھا تو اُس سے اِس عمل کی وجہ پوچھی؛ وہ کہنے لگا کہ اس نے اونٹ کو اللّٰہ کے بھروسے پر چھوڑا ہے۔ یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا کہ پہلے اونٹ کو باندھو اور پھر خدا پر بھروسا کرو۔ اس روایت سے اسلام میں احتیاطی تدابیر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہ صرف ہمارے اپنے اہل و عیال اور معاشرے کے لیے ضروری ہے، بَل کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ ہماری بے احتیاطی سے دنیا کے دوسرے ممالک بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب تک اس مرض کی دوا تیار نہیں ہو جاتی، ہمیں ‘احتیاط علاج سے بہتر ہے’ کے صدیوں پرانے آزمودہ نسخے پر ہی اکتفا کرنا ہو گا۔
وبا سے متاثرہ علاقوں میں موجود ہر شخص ممکنہ طور پر کرونا وائرس کا کَیرِیئر ہو سکتا ہے، اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے؛ اس لیے ایک دوسرے سے دوری اور فاصلہ اختیار کرنے کی نہایت سخت ضرورت ہے۔ تحقیق یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نو جوان اور صحت مند افراد کی قوتِ مدافعت بہتر ہونے کی وجہ سے بھلے ان میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہ ہوں، لیکن پھر بھی وہ دوسروں بالخصوص بوڑھوں اور کم زور قُوّتِ مدافعت والے افراد تک یہ بیماری منتقل کرکے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
اس وبا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد بڑھنے یا اس کا دورانیہ طویل ہونے کی صورت میں پاکستان اور امریکہ میں پہلے سے نا کافی صحت کی سہولیات مزید دباؤ کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اس ممکنہ بحران سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس بیماری کو پھیلانے سے بچنے کے لیے امریکہ، پاکستان اور دیگر تمام ملکوں کے شہریوں کو فوری طور پر یہ فرض کر لینا چاہیے کہ اس بیماری کا وائرس ان میں موجود ہے، اس لیے انہیں اپنی عادات اور معمولات کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک سائنس دان اس بیماری سے نمٹنے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں کر لیتے ہمیں اسی مفروضے کے تحت اپنے میل جول اور رابطوں کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔
(محمدسالار خان، جارج میسن یونی ورسٹی کے شار سکول آف پبلک پالیسی میں پی ایچ ڈی سکالر اور گریجوایٹ ریسرچ اسسٹنٹ ہیں۔ ان سے @salarppolicy پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)
(فرح لطیف، جارج میسن یونی ورسٹی کے شعبۂِ ابلاغیات میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور یونی ورسٹی کے سینٹر فار میڈیا اینڈ پبلک افئیرز سے بَہ طور فیلو منسلک ہیں۔ ان سے @FARAHLATIF پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)
نوٹ: یہ مضمون پہلی بار امریکی جریدے nationalinterest.org میں شائع ہوا۔