کرونا ہے کہ پھر سے پتّے پر تکیہ کیا ہے: آخری پَتے کی اسطورہ
از، یاسر چٹھہ
وہ صبح اٹھا تو پَتّے دیکھتا جاتا تھا۔
گھر کے باہر درخت ہیں۔ بارش بھی ہو رہی ہے۔ اس بارش کی آواز ہمیشہ بہت سہانی لگتی رہی ہے۔ پَر بارش سے دُھلتے پتّوں پر ہی دھیان جما ہوا تھا۔
پتے ہمارے تنفس کا وسیلہ ہیں؟ اِسی لیے؟ شاید ان سے لگاؤ اپنے اس ناتے سے وجۂِ اُنسیت پاتا ہو؟
شاید!
یا یہ پتے زندگی کا کوئی اور نفسیاتی استعارہ ہوں__ اپنے انسان ہونے کے شعور کے پہلے __ (اور ہاں آخری بھی!) دین و مذہب، یعنی اسطورہ، myth ہَوں۔ یہ پتّے وقت کی (نسبتاً) فوری طور کی اور حال کی اسطُورہ کیسے بنے؟
اس کے بچپن سے ہی عبدالقادر غوثِ اعظم جیلانیؒ سے سِحَریانہ حقیقت افروزی سماعتوں میں رَچی، جانے یا علیؑ، اور سوزِ دَرُوں و الفتِ اصول اَز طرفِ حسینؑ سے خود کو سینچنے کا موقع ملا، اور شرک و بدعت سے بچنے کی تلقینوں کے سُنتے سُنتے کسی بھی دست یابِ مشاہدہ لمحے کی ادنیٰ سی اکائی میں بھی اس کے اندر کسی حقیقت کو پاٹنے، اس کا سینہ چاک کرنے کی، مثلث کے زاویوں کے اندر ہر تین طرف کی آوازیں سن سن کر صورت پذیر ہوا۔
اس لیے اب تک تینوں سے ناتہ بھی تھا، مُؤدت بھی تھی، اور ان سب سے روشنی بھی لیتے تھے __ اور ہر تینوں پر نفرت بھری کسی آنکھ کے بر خلاف تڑپ بھی اٹھتی تھی، مَچلتا بھی ہوتی تھی۔ المجتصر، یہ اُس کی شخصی ساخت کا Church of Trinity ہیں۔
اس تثلیثی تکثیریت نے جہاں محبت کی آنکھ سے احاطۂِ بصر کو وسیع کیا، وہاں مَن دنیا کے ان تینوں عجیب سے اتحادیوں، strangers in the bed، سے قلب کو وسیع تر اور نقد و جرح کے طریقوں دیکھنے کی خُو نے اس وقت اُسے جو بنا دیا ہوا ہے، وہ کسی clear headed نابغے اور یَک سُو، linear progression تخیل کے لیے no go area بھی بن جاتا ہے۔
وقت گزرا ہے، سوچنے کی عادت، مشاہدات کے چھوٹے چھوٹے انڈوں کو سِینے کی خُو نے جانے تثلیثی تکثیریت میں اب کیا کیا جمع کر دیا، گننے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر رقم ہو جائیں __ بے چارے کاغذ اور ان کے والدِ ماجد درختوں، اور درختوں کے محنت کَش پَتے کا کیا قصور ہے!
القصص، اس Church of Trinity میں پَتّے کیسے آ گئے؟ وجہ شاید یہ تھی کہ ڈُبیاں نُوں پار لگاؤن والے شیخ عبدالقادر جیلانی، اور اِماموں کے معجزے سننے والے اور ساتھ ہی عَمْرو عیار کے قصے پڑھنے والے لفظ و حرف، اور ان لفظوں اور حرفوں کے بَطن سے کسی تبدیلی کے وقوع پذیر ہو جانے، اور ان کے کسی verifiable عمل میں ڈھل جانے کی عملیت کاری، performativeness، کے کچھ ایسے قائل ہو گئے کہ یہ سانس لینے جیسا عمُوم بن گیا۔
پیدا ہوئے، پَلے بڑھے اور پڑھے لکھے تو ایسے سکول میں جہاں کی لائبریری نہیں ہوتی تھی۔ انگریزی سے نظر و قلب رسانی گھر میں آنے والی اشیائے خور و نوش کے پیکنگ ڈبوں، یا سکول میں پہاڑے کے آخری صفحے پر لکھی چھوٹی بڑی ABC سے ہوتی تھی، یا پھر اخبار میں آنے والے بین الاقوامی جرائد سے چنیدہ مضامین پر نظر ڈالنے سے (سمجھنا کافی بڑے ہونے کے بعد آیا)۔
جب گاؤں کے پرائمری سکول کی لائبریری نہیں تھی، تو کوئی اور کتابیں دیکھنے کا یارا پہلے پہل تو قطعی طور پر تھا ہی نہیں … وہ تو نوِیں جماعت کی شروعات میں ہی شہر کے سکول چلے گئے تو 25 پیسے فی چوبیس گھنٹے کی ادھاری لائبریری میں بھی سفر نامے تو ہوتے تھے، کچھ آب بیتیاں ہوتی تھیں، عمران سیریز اور دیگر اس قبیل کی مقبولیت پسند مصنوعات ہوتی تھیں… کوئی انگریزی کتب نہیں ہوتی تھیں۔ دل چسپی صرف اول و دوم سے ہی رہی۔ (بعد زندگی میں ہر قسم کے کھٹے، میٹھے، کڑوے کسیلے ملاتے اور ہِلاتے جُلاتے رہے۔)
(کرونا کے دن ہیں،
یاد داشتوں، زندگی، موت اور خود کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے کرتے،
کھو جانے کا ہَمہ دَم خیال،
آس پاس سے مرنے کی خبریں سنتے سنتے
خود اپنی وصیت لکھوانے کے خیال
(اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کس کے نام وصیت لکھوانی ہے__
کس پَتّے پر تکیہ کرنا ہے،
موت کی ارزانی کے موسم میں
خود کو کس آس کے جھولے پر جُھلاتے رہنا ہے
اس منصفِ عظمیٰ نے بھی تو عجب کرم کیا ہے:
عید پر نئے کپڑے لینے کا حکم نامہ نکل گیا،
پر کفن لینے کا کسے یارا ہے۔
عرضی ہے کہ رات کو بھی دُکان کھولو،
اور کفن بھی کچھ اَرزاں کرو،
عالی جاہ، آپ کا کیا خرچہ ہے
بس اک آبزرویشن اور حکم نامے کی مار ہے۔
تو ایک مار مار دیجیے، اے منصفِ عظمیٰ،
ایک مار اور مار دیجیے۔)
ہمارے یہاں کے سکولی اہتمام کے درسی متن کسی بھی عام ذہن پر اچھا خاصا گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ جب کی سرکاروں نے تعلیم اپنے ذمے لی ہے، اس سے کام ہی فیکٹری کی اسمبلی لائن ذہنی پروڈکشن کا لیا ہے۔
ان عاموں میں سے کچھ ساتھ ساتھ ہی اس اسمبلی لائن پروڈکشن تعلیم کو بھلاتے جاتے ہیں۔ بعد میں سمجھ آنے پر کچھ سبق یاد رکھنے کا خیال آتا ہے؛ بَہ ہر حال جو کر لیجیے سکول کی کتابوں میں شامل سبق ہمارے لیے اسطورہ سازی، myth making، کا ذریعہ ضرور بنتے ہیں۔
اُس نے اپنے رسمی تعلیمی دورانیے میں امریکی کہانی کار او’ ہنری، O’ Henry کی کہانی The Last Leaf تین مختلف کلاسوں میں مختلف گہرائی و گیرائی سے پڑھی۔ اس کہانی کا تین بار دُہرایا جانا اس کو کسی عقیدے اور کسی اسطورہ کی سی صورت میں ڈھال گیا۔
آخری پَتّا، the last leaf زندگی کا تارِ عنکبوت بن جاتا ہے؛ پَتّا ہے تو پتّے سے وابستہ حیات کی آس ہے۔
کچھ سطریں اوپر ایک بات کہی تھی:
“صبح اٹھا تو پَتّے دیکھتا جاتا ہے۔ گھر کے باہر درخت ہیں۔ بارش بھی ہو رہی ہے۔ اُسے بارش کی آواز ہمیشہ بہت سہانی لگتی رہی تھی۔ پَر آج تو بارش سے دُھلتے پتوں پر ہی دھیان جما ہوا تھا۔
پتے ذی نفسوں کے تنفس کا وسیلہ؟ اس لیے؟ شاید ان سے لگاؤ اپنے اس ناتے سے وجۂِ اُنسیّت پاتا ہو؟
شاید!
یا یہ پتّے زندگی کا کوئی اور نفسیاتی استعارہ ہوں__ اپنے انسان ہونے کے شعور کے پہلے اور (ہاں آخری بھی!) دین و مذہب جیسا اسطورہ، myth ہوں۔”
وہ ان تین پیراگرافوں کو تین بار پڑھتا ہے۔ یاد داشت کی بیل ہری ہو جاتی ہے۔
بیس بائیس برس کے دوران تین بار مختلف شعوری اور تخیلی حالتوں میں پڑھی او’ہنری کی کہانی کے یاد آنے سے کہیں گہری چھپی بیٹھی اسطورہ آج پھر سامنے آن بیٹھی ہے۔
یہ آخری پتّا، اب تک کی تکرار سے عقیدہ بن چکا ہے۔ نحیف وقتوں میں عقیدے بھی امتحان و آزمائش میں ہوتے ہیں۔
…
کرونا سے گُھٹتی، سسکتی، مرتی سانسوں کے اندر اندر وہ بولا:
“کیا میں چوتھی بار The Last Leaf پڑھ سکوں گا؟”
اُس کی یہ بات سن کر دیوار کی دَرز یا تریڑ میں اُگا پرودگار پَتّا، اس بَہ صورتِ عام زندگی نام کی بارش میں وہ پرودگار پتّا جانے رو رہا تھا، یا شاید اُسے آس دلا رہا تھا کہ سب خیر ہو گی۔
اب اس انتظار کے آس و یاسیَّت سے لَدے لمحے کو کتنا کھینچیں کہ پتا چل جائے؛ اس پَتے کو کوکھ دینے والی دیوار مُنہدَم ہو جائے گی، یا سانس کی ڈوری کا ارتعاش مر جائے گا۔
یا پھر پَتّا ٹہنی پائے گا، اور پھر درخت بنے گا۔