کرونا عِفرِیت، عالمی مفادات اور روس کا مزاحمتی کردار
از، نعیم بیگ
خطۂِ ارضی کے سیاسی بساط پر تبدیلیوں کی کڑیاں اب ملتی جارہی ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کو بے حد ذہانت سے کھیل رہی ہے۔ یہاں شہ مات بادشاہ کی موت نہیں، ابل کہ ابدی حیات ہے۔
بَہ ظاہر افغانستان میں تقریباً بیس برس بعد امریکی اور نیٹو فوجوں کی ہر صورت انخلاء میں تاخیر در حقیقت اس کے مستقبل کے منصوبوں کو سبوتاژ کر رہی تھی۔ کیوں کہ نئے حالات میں اب یہاں سکون کی اشد ضرورت تھی کہ عالمی قوتیں اپنے وسائل کو یوں بے ترتیب ضائع نہیں کرنا چاہتیں، بَل کہ عالمی کساد بازاری میں نِت نئے استعماری حربوں سے ارتکازِ دولت کا بہاؤ ایک بار پھر ریاست ہائے متحدہ کی جانب کرنا اس کا اوّلین ٹارگٹ ہے۔ ابھی کل ہی صدر ٹرمپ نے ملکی کساد بازاری سے نبٹنے کے لیے 850 بلین ڈالرز اکنامک فال آؤٹ کے طور پر مانگ لیے ہے (حوالہ واشنگٹن پوسٹ 17 مارچ 2020ء )
اس کوشش میں امریکا گزشتہ ایک برس سے چین اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی اَز سرِ نو تجدید سے نئے تجارتی barrier اور ٹیرف کا متمنی ہے جس سے تجارتی توازن امریکا کی جانب جھک جائے یہ ان کا کلیدی نکتہ رہا ہے۔ جس پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں متبادل منصوبوں پر عمل در آمد کرنا امریکی ریاست کا دوسرا اہم منصوبہ ہے۔
امریکی تھنک ٹینکس اور اداروں کی نظریں ہمیشہ عالمی تجارتی محرکات و مفادات کی جانب رہی ہیں۔ بریگزٹ کا معاملہ ہوا تو امریکا نے بڑھ کر برطانیہ کا ساتھ دیا، کیوں کہ وہاں زبان و نسل کا معاملہ بھی در پیش تھا۔
کچھ ترقی یافتہ ممالک جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اہم اراکین ہیں پر اب قدامت پرستوں کا غلَبہ ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ جہاں جہاں مذہبی اور قدامت پرست حکم ران ہیں وہاں ان کی تائید کی جائے تا کہ عالمی ایجنڈے کو مِن و عَن جاری رکھا جا سکے۔
گزشتہ ایک دھائی سے یورپی یونین اور فرانس سے تجارتی معاملات میں امریکی مفادات کو زک پہنچنے پر گزشتہ برس جی ایٹ کی کانفرنس میں جرمن چانسلر اور صدر ٹرمپ الگ الگ رہے اور سفارتی مصافحہ تک نہ ہوا۔
وجہ صرف تجارت نہی تھی، بل کہ عالمی سطح پر قدامت پرست نیشلسٹ قوتوں کا جمہوریت کی آڑ میں فسطائیت کی طرف رحجان ان کے مالی مفادات کو وسیع حفاظتی حصار میں لے رہا ہے جو ان ملکوں نے دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کے فلوٹ کیا ہے۔
اِس پس منظر میں کرونا وائرس کے عالمی پھیلاؤ اور اس کے اثرات کا عالمی سیاست کے تناظر میں ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ راقم کی نظر میں اس وائرس کے پھیلاؤ میں کئی ایک مظاہر مخفی ہو سکتے ہیں جو رفتہ رفتہ سامنے آنے کا امکان ہے، تاہم دو اہم پہلو درج ذیل ہیں۔
- عالمی مالی بہاؤ کا از سرِ نو تعین کرنا
وائرس کی ابتدا ووہان سے ہوئی جہاں سازشی تِھیئریز کے مطابق ووہان انسٹی ٹوٹ آف وائرولوجی سے تجربے کے لیے لائے گئے کچھ جانور اور سی فوڈز قریبی ووہان مارکیٹ میں انسانی خوراک کے طور بیچ دیے گئے جہاں سے وائرس فوری طور پر پھیل گیا۔ اس سلسلے میں اِنسٹی ٹیوٹ ریسرچر مِس چِن قوانجیو کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے فوری طور پر اس بات کی تردید کر دی۔
یہ سب کچھ دسمبر 2019ء کے آخر میں ہوا اور پہلا مریض یکم جنوری 2020ء کو سامنے آیا۔ ٹھیک اگلے ماہ فروری اٹلی میں اس کا پھیلاؤ ہوا، اور تین ماہ بعد یکم مارچ کو امریکی ریاست سیئٹل میں اس کا ظہور ہوا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ووہان لیب میں اس وائرس کو ویپنائز کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ جب کہ امریکا کا دوسرا ورژن اس کی تردید کرتا ہے اور معاملے کو مسٹری بنا دیتا ہے۔ ( حوالہ ووکس ویب سائٹ
بَہ ہر حال قطعِ نظر کہ کرونا وائرس ووہان سے پھیلا یا اٹلی سے، یا خود امریکا سے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ جرثومہ ایک مِسٹری کے طور پر سامنے آیا اور اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ کیمیکل ویپنز کا تذکرہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ہوتا رہا ہے اور اس کے کچھ اثرات دو برس پہلے شام میں نظر آئے تھے۔ اس سے پہلے صدام حسین کی عراقی حکومت کو ہٹانے میں ڈبلیو ایم ڈی (وَیپنز آف ماس ڈسٹریکشن) کو سہارا لیا گیا تھا۔
راقم اس بات کو اپنے گزشتہ مضامین میں بڑی صراحت سے عرض کر چکا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ دنیا کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے اور نیو کالونیلزم کے تحت پوری دنیا پر استعماریت راج کو مضبوط کرنے کی کسی صورت دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔
روزنامہ گارڈین نے اپنی 16 مارچ کی کی اشاعت میں جرمنی کے غصہ کے اظہار کو نمایاں شائع کیا ہے جو صدر ٹرمپ نے کرونا وائرس ویکسین کے خصوصی حقوق کے لیے ایک کمپنی کو خریدنے کا ایکسکلوسیو رائٹس کی بات کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ویکسین کی مارکیٹ پر امریکا کا اختیار ہو گا جس کی جرمن حکومت نے پُر زور مخالفت کی ہے۔
پوسٹ ماڈرن عہد کی عقلیت پسندی جس میں انتہا پسندی کا عُنصر بھی شامل ہے کے پیشِ نظر اور ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ پر دوسری اور تیسری دنیا کا ہیومن ٹیلنٹ تجارتی پھیلاؤ، منیجمنٹ اور سائنسی میدان میں بڑی سُرعت سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مذاہب سے دور ہوتے معاشرے ایک طرف مذاہب کی تشریح کو من مانے مفہوم دے رہے ہیں؛ گو کہ وہ بڑے پیمانے پر کسی تھرَیٹ کا سبب نہیں لیکن انتشار میں ان کا حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے عالمی مالی مفادات کو بے انتہا زِک پہنچتی ہے اور تقسیمِ دولت کا بڑا حصہ متبادل کینزیومرزم کے تحت ابھرتے ہوئے ترقی پذیر ملک حاصل کر رہے ہیں۔ (انڈیا ایک بہترین مثال ہے۔)
حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا پوری دنیا سے روزانہ تجارت 90 ملین ڈالر کے قریب بٹور رہا ہے جب کہ اس کا قریب ترین حریف چائنا تقریباً 36 ملین ڈالر حاصل کر رہا ہے۔ (ورلڈ بینک سٹاک ٹریڈڈ ٹوٹل ویلیو 201)
عالمی سیاسی سیٹ اَپ جو گلوبل وسائل و مالیات کو اپنے تصرف میں رکھنے کا عزم رکھتا ہے اَپ اب اس بات پر قطعاً راضی نہیں کہ اس قدر سرمایہ داری کرنے کے بعد پروڈکٹ کی تجارت اور منافع کوئی اور لے جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو سرمایہ کار امپِیریئسلٹ کو قابل قبول نہیں۔
2۔ عالمی ترقی میں رفتار کی حدود کو محدود کرنا
یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جس برق رفتاری سے بیسیویں صدی کے وسط سے دنیا مکنیکل دور سے نکل کر الیکٹریکل دور میں داخل ہوئی اور پھر آخری دھائی میں ڈیجیٹل عہد میں اس نے وہ کار نامے انجام دیے جو عام انسانی عقل کو دھنگ کر گئے۔ اکیسیویں صدی کے آغاز سے انسانی ترقی ڈیجیٹل سے مائیکرو ڈیجیٹل ہوتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے روپ میں رُو نما ہوئی۔
اس برق رفتاری کے اثرات دنیا بھر کے انسانوں پر آئے اور بالخصوص ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ نے تیسری دنیا کے نیم تعلیم یافتہ سماجوں میں میڈیائی رسائی سے جو شعوری ارتقاء سرعت پذیر ہوا اس سے علاقائی تہذیبی و تمدنی محرکات ماند پڑنے سے قدامت پرست طبقے کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ تیسری دنیا سے مائگریشن کی ایک یلغار ان ممالک پر ہوئی بالخصوص متحدہ امریکی سٹیٹس کو لاطینی امریکا سے اس یلغار کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ جس پر ٹرمپ نے ذاتی مداخلت اور اختیارات سے دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی۔
مقابلتاً لبرل طاقتیں جو گلوبلائزیشن کی حامی تھیں اس برق رفتاری کو سراہ رہی تھیں اور انسانی ترقی میں نظریاتی فلسفیوں کی فکر و فہم کو شکست دینے پر کام یاب ہو رہی تھیں، انھیں روک دیا گیا اور جمہوریت کی آڑ میں فسطائی رویوں سے انھیں حاشیہ پر کر دیا گیا۔ مطمعِ نظر یہ تھا کہ اس برق رفتاری کو روکا جائے۔
کرونا وباء (ایپی ڈیمک) نے یہ سارے کام کر دیے ہیں۔
راقم اس مضمون میں گزشتہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر رُو نما ہونے والے واقعات کو یہاں دو بارہ تحریر کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہی نکتہ واضح کرنے کی سعی کرتا ہے کہ آج پوری دنیا محدود اور سست رفتار ہو کر گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئی ہے۔ ممالک لاک ڈاؤن کر دیے گئے ہیں۔
دی نیو یارکر نے اپنی اشاعت مؤرخہ 17 مارچ 2020ء میں شامل مضمون میں اس پوری کرونا وائرس وبائی مہم کو اینٹی ایشیا قرار دیا ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ زیادہ تر وہی ممالک اس لپیٹ میں آئے ہیں جو یا تو مالی و سیاسی حریف تھے، یا نیو کالونیلزم کا شکار تھے۔ ایسے میں قدامت پرست عالمی اسٹیبلشمنٹ اب نئے سرے سے گلوبل سیاسی عملیات و تحرکات کا جائزہ لے گی۔ تیسری دنیا کے لیے نئی سَمتوں کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ ایک بار سست رفتاری کو دو بارہ برقی رفتار میں لانے کے لیے اِن ممالک کو پھر ایک نئی صدی کی ضرورت محسوس ہو گی جو بہ ہر حال قدامت پرستوں اور قوم پرستوں کے لیے باعث اطمینان ہے۔
اس وبائی عالمی منظر نامہ میں اگر کوئی دوسرا بڑا ملک غور سے جائزہ لے رہا ہے تو وہ فیڈریشن آف رَشیا ہے۔ اشتراکیت کی دیرینہ کتابی تِھیئریز سے گو لمحہ بھر کو الگ (لیکن انھی پیرا میٹرز کے اندر) رشیا بہت سے ایسے اقدامات کرتا رہتا ہے جس سے عالمی سامراجیت کو خطرہ درپیش رہتا ہے۔
مشرقی اور شمالی یورپ، جنوب مغربی ایشیا، مڈل ایسٹ، مغربی افریقہ، جنوبی/ لاطینی امریکا اور شمالی چین کے ساحلوں پر روسی اثر و رسوخ نیٹو فوجوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو کسی حد تک قابض ہونے سے روکے رکھتا ہے۔
استعماری مفادات کو یَک سَر کھُلا میدان نہ دینے کی خاطر فیڈریشن رشیا/ کریملن کی انتظامیہ اور پولِٹ بیورو نے صدر پیوٹن کی عملی اقدامات کو بے حد سراہتے ہوئے گزشتہ برس آئینی اصطلاحات کا بِیڑا اٹھایا تھا اور کچھ ترمیمات کا عِندیہ دیا تھا۔ انھی ترمیمات کو دو روز قبل رشین آئینی عدالت نے منظور کر لیا ہے۔ ان ترمیمات کی رُو سے صدر پوٹن 2036ء تک صدر رہ سکتے ہیں۔
عالمی ادارے اور سر کَردہ ممالک اس ترمیم پر خوف زدہ ہیں لیکن ابھی تک اس پر کسی ملک کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ راقم سمجھتا ہے کہ عالمی سیاسی بساط پر شاطر ملک اپنے پورے کروفر اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چین اور روس کی مالی و سیاسی بَر تری بہ ہر حال عالمی قدامت پرست اسٹیبلشمنٹ کو توازن میں رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی۔