کرونا سپیشل: سائنسی سماج و سائنس دان، سازش کے نظریے اور دنیا جہاں کے لاڈلے
از، نصیر احمد
…
1
فلموں میں ہمیں انسان کا ایک مثالیہ مسلسل دکھایا جاتا ہے کہ ایک بے چین، بے تاب اور بے قرار سا خلاق ہے (زیادہ تر ہیرو ہی ہوتا ہے، لیکن جب کوئی ہیروئین ہوتی ہے وہ بھی ایسی ہی ہوتی ہے) جو اپنے پیشے میں فطانت کی بلندی پر ہے اور انتہائی ہنگامی حالات میں چند ثانیوں میں مسائل کا حل ڈھونڈ لیتا ہے۔ ارادے بھی اس کے پختہ ہیں اور تلاطم خیز موجوں سے وہ نہیں گھبراتا۔ مشکل سے مشکل حالات میں بہترین فیصلے کرتا ہے اور ان فیصلوں کے نتیجے میں وہ اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے اور بہت کچرا فلم ہو تو سیارے، کائنات اور انسانیت کو بچا لیتا ہے۔
اور پھر کام کے لیے جن خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی اسی لائن پر ہوتی ہیں جس میں خلّاقی، طنّازی اور طراری پر بہت فوکس ہوتا ہے۔
اور پھر ان اوصاف کا کارپوریشنز کے ذریعے پروپیگنڈا بھی بہت کیا جاتا ہے؛ اور چستی چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اکڑ کر سیدھے کھڑے ہونے، تیز تیز چلنے والے، ہاتھ جھنجھوڑنے والے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے والے تو ہمارے سامنے ہی بنائے گئے۔
لیکن بار بار یہی حقیقت سامنے آئی ہے کہ چیزیں فِکس ہوتی ہیں۔ لاڈلوں کے لیے راہیں ہم وار کی جاتی ہیں۔ اور یہ تُندی اور تیزی بس ایک ناٹک ہی ہوتا ہے۔ اور جب مشکل پڑتی ہے لاڈلے فیصلہ نہیں کر پاتے، ڈگمگا جاتے ہیں، گڑبڑا جاتے ہیں۔ اور کوئی اُفتاد اچانک آ پڑے تو گم سم، گپ چپ۔
صومالیہ والے آپریشن میں صدر کلنٹن کو یہ لمحے در پیش آئے تھے۔ نائن الیون میں صدر جارج بش جونئیر کا یہی حال ہوا تھا اور پھر کَیٹرینا طوفان میں صدر بش دو بارہ اسی صورتِ حال سے گزرے تھے۔
اس کے بعد یہ دنیا میں اتفاقِ رائے سا بن گیا کہ ہر چییز فِکس کی جا سکتی ہے۔ زندگی پلاننگ کی انتہاؤں کو چھونے لگی۔ جنازوں تک کے اسباب زندگی میں مہیا ہونے لگے۔ گود سے گور تک ہر چیز فِکس کرنے کے تجربے ہونے لگے۔
کرکٹ میں بلے باز کو لاڈلا قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے آسان پِچیں بننے لگیں، بالروں پر زیادہ پا بندیاں لگنے لگیں۔ کار و بار میں ملٹی نیشنل کمپنی کے ایگزیکٹو کے لیے معاملات آسان کیے جانے لگے اور سیاست میں آمروں یا جارح قسم کے شعلہ بیانوں کے لیے رستے صاف کیے جانے لگے۔ جنھیں فلموں کے مثالیوں کی طرح پیش کیا جانے لگا کہ ان کے پاس زندگی کے بہت تجربے ہیں، اور بڑے دلیر اور با ہمت ہیں، لمحوں میں مشکل کشائی کر دیں گے۔
لیکن زندگی کا زیادہ تجربہ یہی ہوتا ہے کہ مشکل میں اوسان اسی کے برقرار رہتے ہیں جسے مشکلات کا تجربہ ہو۔ مشکلات کا تجربہ نہ ہونے کا اکثر نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ مشکل کی نوعیت نہیں سمجھ آتی، فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ جس کے نتیجے میں چھوٹا سا مسئلہ بھی سانحہ بن جاتا ہے۔
وبا کے دنوں میں دنیا کے بہت سے لیڈروں کے ساتھ یہی مسئلہ پیش آیا ہے۔ چین کے کرتا دھرتا کو دیکھ لیں۔ نیٹشا، Nietzsche کے ہم بہت مخالف ہیں لیکن کچھ جُزوی حقائق ان کے ہاں بھی موجود ہیں۔ یہ جو انسان اپنے آپ کو نفسیاتی فریب دیتے ہیں، اس پر ان کی بات چند حالات میں درست ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ دوسروں کے نفسیاتی فریب سمجھتا رہے، لیکن اپنے آپ کو اور دوسروں کو نفسیاتی فریب دیتے بھی رہے۔ عظیم آدمی کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں: ایک عظیم آدمی میں تو ایک ادا کار کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے لیے مثالی امیج تخلیق کر رہا ہے۔
چین کے صدر نے اپنے مثالی امیج کے تحفظ کے لیے وبا کی نوعیت نہیں سمجھی حالاں کہ اُن کے ہاں پھیلتی وباؤں سے نمٹنے کی بے شمار مثالیں موجود تھیں۔ لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ ان کے ہاں ہم وار ہوئے فِکس کر دینے والے حلوں کے تجربات موجود ہیں اور جب ان کے اطلاق کا معاملہ آیا تو جیسے گھوڑا اپنے جانے پہچانے رستے پر سرپٹ ہو گیا۔
امریکۂِ عظیم کے صدر ابھی تک بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اپنے جانے پہچانے رستے پر ٹویٹیں دیتے رہتے ہیں، لیکن انھیں بات سمجھ نہیں آ رہی جس کے نتیجے میں جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
برطانیۂِ عظیم میں بھی ایسے ہی لاڈلے وزیرِ اعظم ہیں۔ ان کو بھی بیماری کی نوعیت سمجھ نہیں آئی اور تاخیر کے نتائج خود بھی بھگت رہے ہیں اور لوگوں کی جانیں بھی جا رہی ہیں۔
فرانس کے لیڈر بھی ان سے ذرا اچھے لاڈلے ہیں؛ لیکن ہیں لاڈلے ہی اور شرحِ اموات وہاں بھی بڑھ رہی ہے۔
جرمنی کی لیڈر مشرقی جرمنی میں پلی بڑھی ہیں۔ سوویت قبضے کے دوران وہاں پر ہونا ہی مشکلات کا سامنا کرنا تھا۔ وہ وبا سے ذرا بہتر معاملہ کر رہی ہیں۔
اور اپنے ہاں بھی لاڈلے ہی ہیں۔ اب کرونا کو گیدڑ گیدڑ کہتے وہ غائب نہیں کر سکتے اور نہ اسے کشتی کا چیلنج دے سکتے ہیں، دھرنا بھی نہیں دے سکتے۔
اب خدا کرے کرونا زیادہ نہ پھیلے اور نہ زیادہ ہلاکت خیز ہو، اور لوگ اپنی ذمے داری کا احساس کریں۔ بس آرزوئیں اور دعائیں۔ نجات دہندہ کو تو بات نہیں سمجھ آئی۔
ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کوئی حتمی فارمولا تو نہیں اور نہ بن سکتا ہے۔ لاڈلے بھی عقل مند ہو سکتے ہیں، یا ان کے مشیر بھی دانا ہو سکتے ہیں۔ بات ساری تفہیم کی ہوتی ہے لیکن جب زندگی تجربہ کی ہو تو بہتر فیصلوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس وبا کے بعد دنیا کو فکسنگ سے تھوڑا دور ہٹنا پڑے گا اور ہنگامی حالات کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ چاند سے بنوں کی بَہ جائے اچھے فیصلہ سازوں کی تربیت کرنی ہو گی، انھیں عزت دینی ہو گی اور انھیں منتخب کرنا ہو گا جہاں ابھی چناؤ ممکن ہے۔
…
2
سازشی نظریوں کے لیے اگر ذہن تیار ہو گئے ہوں تو سازشی نظریوں کو ماننے میں اتنی دیر نہیں لگتی۔
جن ممالک میں کاملیت پرستی ہے، یا کاملیت پرستی کا ایک پسِ منظر موجود ہے۔ ہمارے ہاں کی طرح اگر کاملیّت پرستی نظریات کے ساتھ ساتھ ثقافت کا بھی اہم حصہ بن گئی ہے کہ سام ،دھام، دنڈ اور بھید روزمرہ کا چشم دیدہ ہے تو بھی سازشی نظریوں کے ماننے کی آرزو بہت زیادہ توانا ہو جاتی ہے۔
ایک نو جوان دوست ذکر کر رہے تھے کہ سپینش فلُو کے ساتھ بھی ایک سازشی نظریہ منسلک ہے کہ یہ ایک امیر یہودی گھرانے کی کارستانی تھی۔
لیکن اس زمانے کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہودی یورپ میں ایک اقلیت تھے اور معاشرے میں ان کے خلاف بہت سارے سازشی نظریے چل رہے تھے۔ کوئی کہتا کہ اشتراکیت ان کی سازش تھی اور کوئی کہتا سرمایہ داری۔ اسی زمانے میں وبا پھیلی تو یہ بھی ان کی ہی سازش ٹھہری۔
اور کاملیت پرستی کا عروج بھی انھی دنوں میں ہوا اور سازشی نظریوں پر استوار سیاست کے نتائج پوری انسانیت کے لیے کافی خطر ناک ہوئے۔ جن کی چند جھلکیاں دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے سرسری سے مطالعے میں ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہندتوا بھی کاملیت پرستی کی ایک شکل ہے اور اس کا جادو بھی سازشی نظریوں پر ہی چل رہا ہے۔ ایسے سازشی نظریے ترتیب دینے والے اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ ان کے ناظرین، سامعین اور قارئین کسی سے شدید نفرت کریں جس کے نتیجے میں ایسے نظریے ترتیب دینے والوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چھ سات مسلمان دکھائی دیں تو یہ سازشی نظریے ترتیب دینے والے یہ ماحول بنا دیتے ہیں کہ اگلے دس سیکنڈ میں بھارت ہندووں سے خالی ہو جائے گا۔ اس خوف کے زیرِ اثر مودی جیسے موذیوں کی طاقت بڑھتی جاتی ہے اور مسلمانوں کے لیے بھارت میں زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔
اکثر سازشی نظریوں کے پیچھے طاقت، دولت اور شہرت کے مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک طرزِ حیات کی سلامتی اور فروغ کے مقاصد ہوتے ہیں۔ محبت اور عقیدت کے بھی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک طرز حیات کے بارے میں اچھے احساسات کے مقاصد بھی ہوتے ہیں۔
اور سارے سازشی نظریے مکمل طور پر جھوٹ بھی نہیں ہوتے۔ جہاں مکمل طور پر جھوٹ نہیں ہوتے وہاں سچ کا استعمال نفرت بڑھانے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ سازشی نظریوں کے ایک اور پہلو بھی ہوتا ہے کہ جسے دشمن قرار کیا جاتا ہے وہ بَہ یک وقت بہت ہی فطین عِفرِیت ہوتا ہے جو گھامڑ بھی ہے۔ اور یہ تضادات سوچنے والوں کی نظر میں آ جاتے ہیں اور لوگ پوچھتے ہیں کہ سونامی انگیز، وبا ساز، دہشت خیز جس کے قبضے میں فطرت ہے، اس سے تو دو باتیں عقل کی نہیں جاتیں۔ تو دونوں باتوں کو ثابت کرنے کے لیے مزید سازشی نظریے ترتیب دیے جاتے ہیں، جن میں یہ دونوں باتیں موجود ہوتی ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سازشیں نہیں ہوتیں لیکن سازشی نظریوں کی نوعیت ضرور دیکھنی چاہیے اور ان پر سوچنا چاہیے اور یہ بھی مدّ نظر رکھنا چاہیے کہ ان سازشی نظریوں کے نتائج ہوتے ہیں۔ اگر ان کے نتائج کسی گروہ سے شدید نفرت کی طرف لے جا رہے ہیں کہ اس کا وجود ہی نا قابلِ برداشت ہو جائے تو ہمارے نہ سوچنے کے معاشرے کے لیے نقصان دہ نتائج رُو نما ہوتے ہیں۔
کاملیت پرستی میں یہی تو ہوتا ہے۔ اگر کچھ لوگ جو ترک ہیں، مسلمان ہیں، قازق ہیں، یوئیغور ہیں، وہ خود کو ترک، مسلمان قازق اور یوئیغور کہیں، تو سمجھو عظیم چین گیا۔
ایسی گفتگو کو سچ ماننے کے لیے بہت زیادہ جہالت درکار ہے، لیکن برین واشنگ ہوتی ہے اور ایسی گفتگو کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن عظمت کے صحیح معنوں میں چین کی عظمت چلی جاتی ہے اور ان بے چاروں لوگوں پر بے شمار مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔
آج کل بد قسمتی سے وبا عروج پر ہے اور سازشی نظریے بھی عروج پر ہیں۔ لیکن وقت کی ضرورت، سچ ، احتیاط، مہربانی کی ہے تو ان سازشی نظریوں کو بلا سوچے سمجھے مان کر ایک مبتلا دنیا میں نفرت بڑھانے سے کیا فائدہ؟
…
3
وبا کے بارے میں ابھی تک چند باتیں ہی واضح ہیں۔
ایک یہ وبا پھیلتی بہت تیزی سے ہے۔ یہ بات وبا کے آغاز سے معلوم کر لینی چاہیے تھی لیکن اسے سمجھنے میں بہت زیادہ تاخیر ہو گئی۔ تاخیر کے با وُجود یہی بات بہتر لگتی ہے کہ اسے پھیلنے سے روکنے کے لیے بہترین کوششیں کرنی چاہییں۔
اس کے لیے ایک ماڈل ملک اور شہر بند کرنے کا ہے۔ امیر ممالک یہ کچھ عرصے کے لیے کر سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ عرصے کے لیے تو وہ بھی نہیں کر سکیں گے۔
شہر بند کرنے کے معاملے میں کافی ساری دانائی کی ضرورت ہے۔ مقصد بیماری پھیلنے سے روکنے کا ہے۔ اور اگر شہر اور ملک بند کرنے سے وہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر نہ وصلِ یار ہوا اور نہ حیاتِ دوام ملی والا معاملہ ہو جائے گا۔
غریب ملکوں کے لیے ملک بند کرنا وائرس سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کہ وائرس کی طرح غربت کی شدت کے بھی سائنسی تخمینے نہیں لگائے گئے۔
وبا کا بھی یہی کہتے تھے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اس پر بہت زیادہ توجہ دی جائے۔
اب اسے بس ایک ہی بہت بڑے مسئلے کی طور پر ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ باقی سب کچھ پس منظر میں چلا گیا۔ لیکن حقائق ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں زیادہ نظر انداز کیے جائے تو سانحوں کے روپ میں واپس آتے ہیں۔
اور اگر یہ زیادہ عرصے کے لیے موجود رہتا ہے تو اور بھی غم ہیں زمانے میں وبا کے سوا جیسے دلائل لے کر ملک دو بارہ کھولنے پڑ جائیں گے۔ ایک ماڈل ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کا ہے۔ اس کے لیے بھی سائنسی تحقیق کا ایک پس منظر ضروری ہے۔
ان سارے معاملات پر بہت زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہے لیکن عالمی میڈیا نے ایسا ماحول برپا کیا ہے کہ اچھا یا برا رد عمل بس مطالبہ سا بن جاتا ہے اور چار و نا چار حکومتیں مجبور سی ہو جاتی ہیں اور مطالبے کی شدت کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پالیسی کا مؤثّر ہونا بس حالات پر ہی منحصر کرتا ہے۔ حالات جو غور و فکر کے بَہ غیر کم ہی سدھرتے ہیں۔
لاک ڈاؤنز بھی ایک بہتر طریقے سے نافذ کرنے پڑیں گے۔ اگر یہ بَہ ذاتِ خود بحران بن جائیں تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ واضح ہوئی ہے کہ بزرگوں اور پہلے سے زیادہ بیمار لوگوں کے لیے یہ زیادہ خطرناک ہے۔ وبا کے نتیجے میں اموات کی شرح کے بارے میں ابھی پوری طرح معاملات واضح نہیں ہوئے ہیں لیکن کافی تعداد میں مسلسل اموات ہو رہی ہیں۔ بیماروں اور بزرگوں کے حوالے سے زیادہ احتیاط کی جا سکتی ہے۔
تیسری بات یہ واضح ہوئی ہے کہ حکومتی اور معاشرتی ذرائع کے بھر پُور استعمال سے وبا کی موثر روک تھام کی بھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومتوں اور معاشروں کو باہمی تعاون کی فضا قائم کرنی پڑے گی۔ اور باہمی تعاون کے لیے صداقت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اور صداقت کے لیے تحمل اور تفہیم کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اپنے تعصبات کے تحفظ کے لیے دوروغ بافی، دوروغ گوئی، دوروغ سازی کے کار خانے بند کرنے پڑیں گے۔
وبا میں کمی لانے سے پہلے ہی اپنی اپنی کوتاہیوں کے عُذر تراشنے کے لیے دوسروں کو عِفرِیت بنایا جا رہا ہے۔ اس سے حکومتوں اور لوگوں کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے اور خوف اور بے چینی میں بھی زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جو وبا سے مقابلہ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
لیکن شہرت، دولت، طاقت اور تفریح کے لیے دروغ سازی کا ایک سانچہ بن گیا ہے جس کی عادت ہو چکی ہے۔ اس لیے اس کی روک تھام بھی کافی مشکل ہے۔
لیکن ایک اچھے انسان اور ایک شہری کی طرح سوچنا چاہیے اور اپنے افکار و اعمال کو ان کے نتائج سے جدا نہیں کرنا چاہیے۔ اور جہاں تک ممکن ہے وبا کے بارے میں وہی بات کرنی چاہیے جس کے بارے میں آپ کو یقین ہو موجودہ حالات میں آپ کی فراہم کردہ معلومات درست ہیں۔ یقین نہ ہو تو اس بات کاتذکرہ ضرور کریں۔ ہو سکتا ہے، لوگ آپ کو سچا سمجھتے ہوں، آپ کی بات کو اہمیت دیتے ہوں، اس پر عمل کرتے ہوں تو آپ کی فراہم کردہ معلومات ان کے لیے ضرر دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
باقی ذاتی احتیاطوں کے بارے میں معلومات موجود ہیں۔ مقامی حکومت، عالمی ادارۂِ صحت، قومی محکمہ ہائے صحت معلومات فراہم کر سکتے ہیں اور معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
اچھے کی بھی امید رکھنی چاہیے، علاج دریافت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تجربے بھی ہو رہے ہیں۔ وبا کی روک تھام کے حوالے سے نا کامیوں کے ساتھ کام یابیاں بھی ہیں۔
اور فال بھی کہہ رہی ہے:
مظهر لطفِ ازل روشنی چشم امل
جامع علم و عمل جان جهان شاه شجاع
بس ذرا سائنس دانوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کو ہی شاہ شجاع جانیں کہ جس قسم کی شجاعت کی ضرورت ہے، انھی کے پاس ہے اور ان کے شکر گزار ہوں۔ اور یہ مت بھولیے کہ سب پھیلاؤ اور بڑھاؤ، بے وقوفوں اور آمروں کی وجہ سے رُو نما ہوئے ہیں۔ ورنہ پانچ چھ کرونے آمریت اور حماقت کے عروج سے پہلے اور عروج کے دوران حکومتوں اور سائنس دانوں نے پسپا کر دیے تھے۔
یہ بات بھی ہم بڑی مدت سے کہہ رہے ہیں کہ اگر آمریت اور حماقت کی کار و بار، سیاست اور معاشرت میں ترقی نہ رکی تو سائنس کو ایک معاشرت اور سیاست سے ایک علیحدہ کام یاب ڈسپلن کے طور پر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
…
4
دانا بھی مانسک سنتولن کھو بیٹھیں تو ایک معاشرتی بحران پیدا ہو جاتا ہے، لیکن اگر خود غرض قسم کے شہدے، سفلے، اوچھے، جوشیلے اور چھچھورے پگلا گئے تو سانحات کے سلسلے بند ہی نہ ہوں گے۔
اس لیے سماجی پیغامات میں حقائق، ہوش و خِرد، تسلی و تشَفّی، مفید مشورے، صحت و سلامتی اور احتیاط کے پہلو ضرور شامل رکھیں۔
صابن اور ڈیٹول سے ہاتھ دن میں کئی مرتبہ دھوتے رہیں۔
بیماری کی علامات ہیں تو سماجی دوری اختیار کریں۔
بیماری کی علامات والوں سے ایک فاصلہ قائم رکھیں۔ صحت و صفائی کے حوالے سے احتیاط کا فاصلہ۔ اس کو کوئی اور منفی رخ دینے کی کوشش نہ کریں۔
ماسک بھی استعمال کریں۔
کوشش کریں کہ آپ کی کسی غفلت کے نتیجے میں بیماری نہ پھیلے۔
عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔
باہر کھانا بھی نہ کھائیں۔
بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں بات چیت میں حقائق کا خاص خیال رکھیں۔ اگر معلومات کے بارے میں پُر یقین نہیں ہیں، تو مستند ہے میرا فرمایا ہوا قسم کے رویے سے احتراز کریں۔
جو کام گھر سے ہو سکتے ہیں، وہ گھر سے ہی کرنے کی کوشش کریں۔
دوسروں کے ساتھ جنسی تعلقات سے بھی پرہیز کریں اور امید رکھیں کہ بیماری کا زور ایک دن ٹوٹ ہی جائے گا۔
گھر میں اور دیگر جگہوں میں صفائی کا معیار بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
بزرگوں کو بیماری سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
سفر بھی کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔
اس طرح کی احتیاطیں ہیں اور انھیں اختیار کرنے کے بعد نہ بہت زیادہ پریشان ہوں اور نہ بہت زیادہ پریشان کریں۔
یہ بھی کوشش کریں کہ وبا کے دنوں میں صحت و صفائی سے متعلق اختیار کردہ احتیاطیں مستقل ثقافت بن جائیں۔ بہت زیادہ بوکھلا جائیں گے تو بوکھلاہٹ کے سلسلے بن جائیں گے جن کی روک تھام بہت مشکل ہو جائے گی۔ اپنے ہاں کے لوگ جب بوکھلاتے ہیں تو معاملات بگڑ جاتے ہیں۔
اپنے ساتھ ساتھ دوسرے بھی کافی اہم ہوتے ہیں، اس لیے خیال رکھنے کے رویے کی ترویج کرنے کے بھی کوشش کریں۔ اس رویے کو اختیار کرنا معاشرے کے بہت سارے دیگر مسائل بھی حل کرنے کے لیے بھی کافی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
تافتان میں جو کچھ ہوا ہے کوشش کریں کہ معاشرے سے اس طرح کے واقعات میں بہت کمی آ جائے۔ ملک میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی صلاحیت میں اضافے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اپنا اور دوسروں کا خیال رکھنا واقعی ہی اہم ہو جائے تو کاملیّت پرستی کے اثرات اس تفہیم سے ہی کم ہونے لگتے ہیں۔ زندگی ہے، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے جو بھی اچھا ہو سکتا ہے کرتے رہیں، نتائج بہتر ہی ہوتے ہیں۔