کرونا وبا میں اپنے مہین خان 

Naeem Baig

کرونا وبا میں اپنے مہین خان 

از، نعیم بیگ 

ایک وقت تھا کہ ‘اپنے مہین خان’ صحت اچھی رکھتے تھے اور جب ان کا جی چاہتا گھر سے نکل پڑتے۔ یاروں نے پوچھا خاں صاحب ایسا بھی کیا کہ ادھر ذرا سی بھابھی سے کھٹ پٹ ہوئی ادھر بیگ کندھے پر ڈالا اور سیدھا نا معلوم منزل کا رخ کیا۔ تو کہتے، “اماں! تم کیا جانو بیر کا منہ کہاں ہوتا ہے؟”

“تو کیا آپ بیر کے منھ کے لیے نکلتے ہیں ؟”

کہنے لگے، “تمہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ ہم نکل پڑے لیکن تمہاری آنکھیں ظلم و جبر پر کیوں بند ہیں۔ گھریلو تشدد کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے اب ہم ناکارہ ہو گئے، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہماری ساری فلکیاتی و آفاقی خدمات فراموش کر دی جائیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے للکارے پر سیارے ٹھہر جاتے تھے اب عالم یہ کہ گھر کی ماسی ہمیں آنکھیں دیکھاتی ہے۔”

‘ظلم و جبر’ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آتیں، پھر خفیف سے آواز میں ایک ہچکی بھرتے اور چہرے پر ایسی معصومیت لاتے کہ بڑے بڑوں کے دل پتا ہو جاتے۔

“ارے تو کیا ہوا۔ ماسی سے آپ پیار کی پینگیں بڑھاتے ہوئے جب اس کا ہاتھ پکڑتے اور آسمان کے ستاروں کو ڈالروں سمیت توڑ لانے کا سندیسہ دیتے تھے تو جب للکارے کہاں تھے؟ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ آخر کرونا وائرس بھی تو جان دار ہے؟ بدک گیا۔ اب دیکھ لو ساری دنیا کو لہرا کر چھوڑے گا۔”

یادش بخیر اپنے مہین خان سے میری آخری ملاقات ان دنوں ہوئی تھی جن دنوں شہرِ نا پُرساں میں غیر ملکی اقاموں پر ملکی نوکریاں جا رہی تھیں۔ سو اپنے تئیں حکومتی معاملات کو فکس اپ کرنے ایک روز غریب خانے پر چلے آئے اور حسبِ عادت گھر کی مشرقی کھڑکی پر صبح سویرے اپنی نجی غلیل سے وہ گولہ باری کی کہ میں ہڑبڑا کر اٹھا کہ آج تو کوئی قومی دن نہیں یہ گولہ باری کیوں ہو رہی ہے۔ کیا پھر چھ ستمبر تو نہیں آ گیا؟

آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کہتے ہیں، “ساری زندگی گزر گئی لیکن کسی گھر کی بیل نہیں بجائی۔”  پوچھا کیوں؟ تو جواب دینے لگے، “بجانے کے لیے کیا کسی گھر کی گھنٹی ہی رہ گئی ہے۔”

خیر کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا ‘اپنے مہین خان’  منحنی سے کندھے پر بیگ لٹکائے سبز رنگ کا ماسک پہنے الٹے ہاتھ میں سفید چھڑی پکڑے کھڑے ہیں۔ یا الٰہی! خیر ہو۔ ہاتھ میں نابیناؤں والی چھڑی پکڑے اس کرونا وائرس کے زمانے میں یہ کہاں سے ٹپک پڑے؟

انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ کہ ان کی عقابی آنکھوں نے مجھے بالائی منزل کی کھڑکی میں کھڑے دیکھ لیا اور وہیں سے ہانک لگائی۔ میاں نیچے آ جاؤ  یا کسی وائرس کو اوپر بھجواؤں۔

اِن سے بڑا وائرس بھلا کون ہو گا؟ میں بڑبڑایا۔

خان صاحب آیا، ابھی آیا، اور کہتے ہوئے میں نے نیچے کی طرف دوڑ لگا دی۔

”ہاں میاں!… کیا کر رہے تھے؟“ میرے کمرے میں پہنچتے ہی ان کا پہلا سوال تھا جو انہوں نے بیٹھنے کی مناسب جگہ ڈھونڈتے ہوئے چاروں طرف دیدے گھماتے ہوئے مجھ پر داغا۔


مہین خان کی ایک اور کارِ روائی

پانامہ ، اپنے مہین خان اور کونڈے از، نعیم بیگ

خیام و سعدی اور سیاسی جھگڑا (طنز و مزاح)  از، نصیر احمد

چھوٹا منھ بڑی بات، یا بڑا منھ چھوٹی بات (طنز و مزاح)  از، یاسر چٹھہ


آواز میں طمطراق ویسا ہی، جیسے اکثر کلاسیکی موسیقی کے استاد سُر لگانے سے پہلے اپنا گلہ کھُرکھُراتے ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انکی اپنی آواز ہے… اب بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت آپ کا نزول بَہ وجہِ ہوش و خرد ہے یا خروسِ بے ہنگام؟

“بس ابھی سو کر اٹھا ہی چاہتا تھا کہ آپ کی طرف سے پہلا پھول آیا؟” میرے لہجے میں طنز تھا۔

لیکن وہ ٹھہرے ’اپنے مہین خان‘، میرے اس حملے کو کیسے تہ تیغ نہ کرتے۔… ہاتھ ہلاتے ہوئے کہنے لگے:

“ارے میاں!پھول جھڑیں گے تو پھل لگیں گے۔ ہم جیسوں کو پھول دان کر دیا کرو تو تمارے نصیب جاگیں گے، ورنہ تمارے یہ پھول یونہی جھڑتے یہاں رہیں گے، اور چڑھیں گے کہیں اور! تمیں ان کا گہنا نصیب ہوگا نہ چادر؟

میں نے اِن کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ “لیکن آپ یہ بتائیے کہ سڑکوں پر پولیس کے ناکے لگے ہوئے ہیں۔ ما سوائے کسی ضروری کام کے آپ سوشل نہیں ہو سکتے۔ آپ یہاں پہنچے کیسے؟”

یہاں تک پہنچا کیسے؟ یہ سن کر وہ طنزیہ ہنسے جیسے سڑکوں پر کھڑے سارے ہرکارے اِن کے ذاتی ملازم ہوں جنہیں یہ چکمہ دے کر نکلے ہوں۔ “بس اس سفید چھڑی کا کمال ہے۔ جہاں ناکا آتا، چھڑی ہلاتا ان کے قریب پہنچتا۔ ایک آدھ کو رسید بھی کر دیتا۔ بھلے مانس لوگ ہیں۔ ہاتھ پکڑ کر ناکا پاس کرا دیتے۔ ایک آدھ نے تو چند سکے بھی میری جیب میں ڈالنے کی کوشش کی۔ تب میں نے انہیں تمہارا پتا لکھوا دیا کہ اگر حکومتی امداد ہے تو اِس ایڈریس پر بھجوا دو۔ یہی ہمارا گھر ہے۔

سچ پوچھیے تو آج ان کے شاطرانہ حملوں سے ہم قدرے ہوشیار ہو گئے کہ آثار اچھے نہیں۔ لگتا ہے طویل پروگرام لے کر آئیں ہیں۔ خیر اِسی اثنا میں ہم نے انہیں وباء میں گھر سے بھگانے کا فوری پلان بھی طے کر لیا تاہم اتنی رعایت دی کہ وہ اب طعام کرکے نکلیں۔ یہ سوچ کر صوفے پر پھیلی ہوئیں کتابیں اٹھا کر محبت سے انہیں بیٹھنے کو کہا، ہاتھ میں سال 2020ء کی جنتری تھمائی اور خود باتھ روم میں نکل گیا۔

باہر نکلا تو دیکھا ابھی تک جنتری میں منہمک تھے۔ کیوں بھئی خان صاحب۔ کچھ ملا؟

”اچھا یہ بتاؤ، اب کیا ہو گا”

“جنتری تو آپ کو دی ہے… دیکھ لیتے“ میں نے بھی انہیں چھیڑا۔

جنتری کے مندرجات پڑھ کر ہی تو کہہ رہا ہوں۔ اب کیا ہو گا؟” وہ تاسف بھر لہجے میں بولے۔

“آپ ہی نظرِ کرم کریں۔ اپنے تو نصیب سو رہے ہیں۔” میں نے تاسف سے کہا۔

لو… اور سنو! وہ جنتری سے پڑھنے لگے۔

“آج ستارے زحل اور مریخ برجِ جَدی میں حالتِ ملاپ میں ہیں تاہم پلوٹو وہیں کھڑا تاک رہا ہے۔ عطارد کا دسواں گھر جب آئے گا تو مشتری کو پانچویں گھر سے اٹھائے گا۔ اب یہ مشتری پر منحصر ہے کہ وہ اِس کنجکشن یعنی ملاپ پر کوئی سعد نظر ڈالتی ہے یا ‘حکومتی’  اظہار کرتی ہے۔

البتہ کارکردگی کے حساب سے تمہارے سارے عمل نحس ہیں اور صدقات کا تقاضا کرتے ہیں ورنہ یہ پانچوں شرفی برج یعنی ہیڈ کوارٹر میں ہی رہیں گے اور مشتری کے انتقال سے جو بے ہودہ اثرات تمہاری زندگی پر آئیں گے اس کا ذمے دار میں نہیں ہوں گا۔ جہاں دفعہ 144 لگی ہو، وہاں پانچ یا پانچ سے زیادہ اکٹھ قابل دستِ اندازی پولیس ہے۔ یہ دیکھ لو۔ کل کلاں کو تمہی کہوگے کہ دیکھو ظلم ہو گیا۔ آسمان ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے اور وائرس ہے کہ پوری دنیا کا چہرہ بدلنے کو ہے۔

ہاں ایک بات اور کہ زہرہ تمہارے مالی امور کا سیارہ ہے جو کسی صورت حرکت نہیں کر رہا… نہ اپنے مدار میں، نہ ہی اس پورے چکر میں کوئی اور سیارہ تم پر سعد نظرات ڈال رہا ہے تو طے رہا کہ اِس سفر میں تم بھیک ہی مانگو گے۔”

میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ یہ میرا سیارہ پڑھ رہے تھے، یا اپنا؟  اتنے میں مطلوب آگیا جو چائے اور دیگر ناشتے کے لوازمات سامنے میز پر خاموشی سے رکھنے لگا۔

اپنے مہین خان کی جنتریانا گفتگو ابھی جاری تھی کہ میں نے انہیں ٹوک دیا۔ “جائیے ہاتھ دھو لیجیے۔ کرونا وائرس بڑا ظالم ہے۔”

ارے جاؤ، کرونا ہمارا کیا بگاڑے گا۔ یہ سفید چھڑی ہے نا ہاتھ میں۔ حرام خور کو قریب نہیں پھٹکنے دوں گا۔ بس تم ایک کام کرو۔ مہمان خانے میں میرا بستر لگوا دو۔ وہیں رہوں گا چند دن۔

ارے وہاں کیسے رہیں گے وہاں تو پہلے ہی میرزا نوشہ آئسولیشن میں ہیں۔

 کیا کہا، میرزا نوشہ؟ میرزا نوشہ چوں کہ ان کے پرانے رقیبِ رُو سیاہ ہیں لہٰذا ان کا نام سنتے ہی بِدک گئے۔

“تو بس۔ میری جان ناشتہ کرواؤ ۔ اگلے سٹاپ پر رکیں گے۔”


٭’اپنے مہین خان’  میرے طنز و مزاح اور فکاہیہ کالموں کے کردار ہیں۔ اِن پر برسوں پہلے کئی ایک کالم پہلے شائع ہو چکے ہیں۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔