ابا جان آپ کا بیٹا ڈیکارٹ سے متفق نا ہو سکا
از، ابو بکر
ڈیکارٹ دورِ جدید کے اہم ترین فلسفیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی فکر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں جدید فلسفے کا بانی کہا جاتا ہے۔ ڈیکارٹ نے اپنے زمانے میں مروج فلسفے کو جو کہ ارسطو کے نظریات کی بگڑی ہوئی شکل اور کلیسائی علم الکلام کا مرکب تھا ایک نئی شکل دی اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
وہ ریاضی، فلکیات اور جیومیٹری پر بھی فاضلانہ گرفت رکھتے تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ فلسفے کو بھی ریاضی کی طرح حتمی اور نا قابلِ تردید سچائی تک پہنچانے کا اہل ہونا چاہیے۔ اسی خواہش کے حصول کی خاطر انہوں نے اپنا فلسفہ تشکیل دیا۔
ڈیکارٹ کا خیال تھا کہ ہر وہ شے جس پر کسی بھی طرح کا شک کیا جا سکے حتمی طور پر سچ نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا کوئی ایسا اصول دریافت کیا جانا چاہیے کہ جس پر مزید شک کرنا ممکن نہ ہو اور پھر اس اصول کی بنیاد پر تمام علم کو دو بارہ سے تربیت دیا جانا چاہیے۔
مسلم فلسفے میں یہی مسئلہ ایک اور انداز سے غزالی کو پیش آیا تھا جب ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا غیر متزلزل اور مکمل طور پر شک سے پاک ایمان ممکن ہے؟ غزالی اس سوال کے جواب میں بہت عرصہ سر گرداں رہے اور آخر میں تصوف میں پناہ لی۔ لیکن ڈیکارٹ نے اس مسئلے پر علمی غور جاری رکھا۔ آپ نے تمام موجودات کی حقیقت پر شک کیا۔ چُوں کہ ہمارے علم کی ابتداء حِسِیّات سے ہوتی ہے لہٰذا ڈیکارٹ نے سب سے پہلے حسیات سے اخذ شدہ علم پر شک کیا اور اسے نا کافی پایا۔
ہماری حسیات ہمیں دور کی اشیا کو چھوٹا دکھاتی ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ڈیکارٹ کا شک یہاں پر ہی ختم نہ ہوا بَل کہ آپ نے یہ تک سوچا کہ ہو سکتا ہے جن چیزیں کو ہم حقیقی جان رہے ہیں وہ ہمارا خواب ہوں کیوں کہ ہم خواب اور حقیقت میں تمیز نہیں کر سکتے۔ پس ہمیں ان چیزوں کی حقیقت کو یوں ہی نہیں مان لینا چاہیے بل کہ ان پر بھی شک کرنا چاہیے تا کہ ہم کسی حتمی اور نا قابل شک اصول تک پہنچ جائیں۔
ڈیکارٹ نے ان اصولوں پر بھی غور کیا جنہیں تمام انسان ہمہ وقت درست مانتے ہیں۔ جیسا کہ دو جمع دو برابر چار ایک ایسا اصول ہے جس کے سچ ہونے پر ہم میں سے کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ یہاں ڈیکارٹ ایک عجیب طرح سے شک کے اصول کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرض کریں ایک عیار اور دھوکے باز شیطان نے تمام انسانوں کے اذہان کو اپنی گرفت میں کے رکھا ہے اور اس طرح ہمیں پتا ہی نہیں چلتا اور ہم ان چیزوں اور اصولوں کو سچ مان رہے ہوتے ہیں جو در حقیقت سچ نہیں ہوتے۔
اب کیا کیا جائے؟ کیا کوئی ایسی شے بچی ہے کہ جس پر شک نہ کیا جا سکے؟ ڈیکارٹ کہتا ہے “ہاں”۔ آپ اپنے ذہن پر شک نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ شک کرنے کے لیے بھی کسی شک کرنے والے کا ہونا ضروری ہے پس آپ کا ذہن لازمی طور پر وجود رکھتا ہے۔ اسی بات سے ڈیکارٹ نے اپنے مشہور مقولہ اخذ کیا:
میں سوچتا ہوں پس میں ہوں
“I think, therefore I am.”
اب ڈیکارٹ کو ایک ایسا حتمی اصول معلوم ہو چکا تھا جس پر شک کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی ایک اصول کی بنیاد پر ڈیکارٹ نے تمام علم کی عمارت نئے سرے سے ترتیب دی۔ لیکن ابھی تک چُوں کہ صرف خود ڈیکارٹ کا ذہن ہی ثابت ہوا تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں سو ڈیکارٹ کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے ذہن اور اس سے خارج تمام اشیا کے درمیان کسی ایسے رابطے کے وجود کے قائل ہوں جس کی وجہ سے ان کے شک کے اصول کے ہوتے ہوئے نا صرف ان کے ذہن کا وجود سلامت رہے بَل کہ دیگر تمام اشیا (جن میں ڈیکارٹ کے علاوہ تمام انسان بھی شامل ہیں) کا وجود بھی مکمل سچائی کے ساتھ تسلیم کیا جا سکے۔ اس مرحلے پر ڈیکارٹ وجودِ خدا کو متعارف کراتے ہیں۔
مزید دیکھیے: مغرب میں فلسفی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں رشی منی از، نصیر احمد
برٹرینڈ رسل کے ایک مکالمے سے ماخوذ از، قربِ عباس
ڈیکارٹ نے وجودِ خدا کے لیے چند نہایت اہم اور مشہور دلائل دیے ہیں۔ لیکن میں طوالت کے ڈر سے انہیں یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ المختصر ان کے نزدیک خدا ایک کامل لا محدود ذات ہے جو سر تا سر خیر ہے۔ اور چُوں کہ دھوکا دینا ایک نقص ہے اور خدا ہر نقص سے پاک، لہٰذا خدا دھوکا نہیں دے سکتا۔
یہاں اس عیار شیطان کی بات دو بارہ سے ذہن میں لائیے جس نے تمام انسانوں کے ذہن کو قبضے میں لے رکھا ہے اور انسانوں کو دھوکا دیتے ہوئے ان سے غلط باتوں کو سچ منواتا ہے۔ اب چُوں کہ ثابت ہو گیا کہ وہ شیطان موجود نہیں ہے بَل کہ ایک سر تا سر خیر خدا موجود ہے، لہٰذا ہم اشیاء اور اصولوں پر یقین کرنے میں زیادہ حق بہ جانب ہیں کیوں کہ کوئی خارجی قوت ہمیں دھوکا دیتے ہوۓ ہم سے غلطی نہیں کر وا رہی۔
چُوں کہ ڈیکارٹ کے خیال میں علم کی پوری عمارت چند نا قابلِ تردید اصولوں پر قائم ہوتی ہے اور ان ہی اصولوں کی بنیاد پر مزید سچ معلوم کیے جا سکتے ہیں اور وجودِ خدا پر یقین ان اصولوں میں سب سے اہم ہے لہٰذا خدا پر یقین سچے علم کی لازمی شرط ہے اور اگر خدا پر یقین نہ کیا جائے تو کسی قسم کا سچا اور حتمی علم ممکن نہیں۔
یہاں تک تو بات تھی ایک مشہور فلسفی اور اس کے نظریات کی۔ ہم عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ فلسفے کی باتیں تو محض کتابی ہیں اور وہ بھی کسی کو نہ سمجھ آنے والی اور فلسفی انسان نما ایک ایسی مخلوق کو کہتے ہیں کہ جس کا عام انسانوں اور ان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مگر ڈیکارٹ کی اس بات پر نا جانے کیوں مجھے اپنے والدِ گرامی یاد آتے ہیں۔ میں جب بھی کسی سادہ لوح اور مُخلص مذہبی کا تصور کرتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے والد کا خیال آتا ہے۔ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں ان کے بہت قریب رہا ہوں اور ان کی مذہبی زندگی میرے بلا واسطہ مشاہدے میں رہی ہے۔
میں نے زندگی میں کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ میرے والد کو کوئی مشکل یا کوئی امتحاں در پیش ہو جس میں انہیں خود اپنی سچائی کا یقین بھی ہو مگر انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ اللہ پر توکل رکھو۔ وہ ہمارے ساتھ ہے اور اس کے ہوتے ہمارا سچ کبھی جھوٹ نہیں ہو سکتا۔
ڈیکارٹ کا مسئلہ فلسفے میں علمیات سے متعلق تھا اور اس کی فکر کئی راہوں سے ہوتی ہوئی خدا کے وجود کے یقین پر آئی اور اس نے اسی بنا پر علم کی حتمیت یعنی سچ کے وجود کو تسلیم کیا۔ میں نے یہی رویہ اپنے والد میں دیکھا ہے کہ خدا کے وجود پر ان کے غیر متزلزل ایمان نے زندگی میں ہر جگہ ان کی دست گیری کی اور اسی ایمان کی بنیاد پر میرے والد کسی مشکل سے کبھی نہیں گھبرائے۔
آپ کو بتاتا چلوں کہ فلسفے میں حتمی سچائی کے وجود تک پہنچنا اور عملی زندگی میں مشکل سے مشکل کام کا انجام دینا کسی حد تک ایک سا ہے اور اس حوالے سے ڈیکارٹ کی خالص علمی اور فلسفیانہ خیال آرائی کا عملی مظاہر ہ میں نے اپنے والد کی سیرت میں دیکھا ہے۔
میں آج اس تحریر کے ذریعے جو شاید ان تک کبھی بھی نہ پہنچ سکے اپنے والدِ گرامی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا نازوں پالا لاڈلا بیٹا ڈیکارٹ سے متفق نہ ہو سکا اور وجود سے جلد تک کھرچ لینے والے اس اذیت ناک شک میں گرفتار ہے جس نے اس سے سب کچھ چھین لیا ہے۔۔۔۔ امید تک بھی۔