جرات مند صحافی اور جیل یاترا
از، وارث رضا
میرے سامنے میرے محترم سینئر صحافی احفاظ الرحمن کی صحافتی آزادی اور اظہار کی صحافیانہ ترسیل پر مبنی کتاب سب سے بڑی جنگ ہے، جس میں مارشل لاء کے دوران عوام کی سیاسی، معاشی اور سماجی آزادی کی جنگ میں صحافیانہ قربانیوں کی وہ داستانیں رقم ہیں، جن کے مطالعے سے ہماری صحافت کے سر اب تک کسی نہ کسی طرح اٹھنے کے قابل ہیں۔
مذکورہ کتاب میں احفاظ الرحمن نے تاریخی طور پر وہ کام کیا ہے جو شاید ادارے کیا کرتے ہیں۔ احفاظ الرحمن کی کتاب سب سے بڑی جنگ میں مارشل لاء کے بعد صحافیانہ آزادی کو سَلَب کرنے کے خلاف صحافیوں کی جد و جہد کے وہ گوشے تاریخ کا حصہ بنا دیے گئے ہیں جن کا مطالَعَہ موجودہ نئی صحافتی نسل کو کرنا بہت ضروری ہے۔
سب سے بڑی جنگ کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے یَک لخت خیال آیا کہ کیا ہم ایک ایسے ملک کے باسی بنا دیے گئے ہیں، جہاں عوام کے معاشی قتل کے ذمے دار ادارے آئی ایم ایف کو اپنا پورا بیانیہ اور ہدایات شَہ سرخیوں میں دینے کی مکمل آزادی ہے، جس میں واضح طور پر عوام کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی نگرانی میں ان کی مطلوبہ شرائط پر بنا اور آئندہ بھی معاشی طور پہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا شکار ملک کے عوام ہوں گے، جس پر کسی بھی سیاسی اور عوام تک خبر کی رسائی کے بیانیے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
وہ تو بھلا ہو دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع کا کہ جس نے عوام تک دنیا کے آخری کونے کی خبر تک رسائی کو ممکن بنا دیا ہے، جس ٹیکنالوجی کی ابتدائی شکل آسٹریلیا کے جولین آسانج کا افغانستان اور عراق کی جنگ میں عالمی طاقت کے نشے میں چُور امریکا کی عوام دشمن منصوبوں اور وسائل پر قبضے کرنے کے ہول ناک طریقوں سے پردہ اٹھانا اور دنیاکے عوام کو امریکی چِیرہ دستیوں کی اطلاعات بَہم پہنچانے کے لیے وکی لیکس نامی سیریز کا اجرا کرنا ہے، گو عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں جولین آسانج عالمی طاقت کے ہرکارے برطانیہ کی قید میں ہے مگر با حوصلہ ہے۔
آزادئِ اظہار کے جدید وسیلے استعمال کرتے ہوئے ہمارے دیس میں بھی آج کل وڈیو لیکس کا کار و بار جدید ٹیکنالوجی کا مرہونِ منت خاصا اثر پذیر ہو چلاہے، مِڈ نائٹ جیکالز سے لے کر پاناما لیکس اور پھر نیب چیئرمین لیکس کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مُبینہ لیکس، جس کو مسلم لیگ کی تمام قیادت کے سامنے مریم نواز نے عوام تک پہنچایا، جب کہ صحافتی اخبارات اور چینلز نے اس زور دار دھماکا خیز مبینہ جج لیکس کی خبر کو عوام تک پہنچانے کا فریضہ ادا کیا،جو کہ صحافتی اداروں اور صحافی کی بنیادی ذمے داری اور عوام تک خبر کی رسائی کا بنیادی آئینی اور قانونی حق ہے۔
جج لیکس پر مختلف رائے اور سیاسی نکتۂِ نظر دینا بھی صحافت کے بنیادی اصول کا ایک اہم حصہ ہے، مگر ان خبروں کی مکمل رسائی کو عوام تک پہنچنے نہ دینے کی کوششیں ایک قابلِ مذمت غیر جمہوری عمل ہے، آج کل خبر کی عوام تک رسائی نہ دینے کے لیے مختلف غیر آئینی و غیر قانونی ہتھکنڈے ریاست کی جانب سے اختیار کیے جا رہے ہیں، جو کسی صورت نہ سیاست اور نہ ہی اظہار کی آزادی کے لیے نیک شگون ہے۔
مذکورہ واقعے کی حقیقت کیا ہے، اسے جاننا ملک کے عوام کا بنیادی آئینی حق ہے، جس سے کسی طور ریاست عوام کو آگہی کے حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ حال میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے جانے والے شاید ابھی اس اَمَر سے نا واقف ہیں کہ مارشل لاء کے جبر اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی اہلِ صحافت نے جہاں اپنی جان کے نذرانے دیے ہیں وہیں انھوں نے حکومتی جبر کے آگے جھکنے کے بَہ جائے قید و بند کی صعوبتیں بڑی فراخ دلی اور حوصلہ مندی سے جھیلی ہیں۔
آج بھی پاکستان میں صحافتی جد و جہد اپنی تمام تَر کم زوریوں کے با وُجود ماضی کی صحافتی جد و جہد کی ان حوصلہ مند نشانیوں کی امین ہے، جس سے نئی صحافت نئے عزم کے ساتھ پھر ایک جوالا بن سکنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، لہٰذا آج کی آزاد صحافت اپنے صحافیانہ فرائض اور معاشی قتل سے نئے عزم اور نئے راستے تو تلاش کر سکتی ہے، مگر قطعی طور سے عوام کو خبر تک رسائی سے محروم نہیں کیا جا سکتا، یہی آج کی وہ حقیقت ہے جسے سمجھنا اہلِ اقتدار کا کام ہے، جب کہ عوام سب سمجھ رہے ہیں۔
ہمارے سینئر صحافی ساتھی احفاظ الرحمن نے اپنی کتاب سب سے بڑی جنگ میں یوں تو صحافتی تحریک کے سیاق و سباق پر تفصیل سے دس ابواب قلم بند کیے ہیں، مگر آج کے نو جوان صحافیوں کے عزم و ارادے کو جِلا بخشنے کی خاطر کتاب کے چوتھے باب میں ان صحافی دوستوں کے اسیری کے دوران خطوط کا چنیدہ ذکر ضروری ہے، جن سے نئے حوصلے اور عزم کے نمُو پانے کے امکانات ہیں، یہ صحافت کی آزادی اور عوام کی جمہوری آزادی کی بقا کے وہ کردار ہیں جنھوں نے معاشی تنگ دستیوں کے با وُجود جیل یاترا کے دوران نہ صرف اپنے حوصلے بلند رکھے، بَل کہ، ان صحافیوں کے عزم کو بھی زندہ رکھا جو اپنے ساتھیوں کی جدائی پر مسلسل پریشان اور فکر مند رہتے تھے۔
احفاظ الرحمن کی کتاب میں جیل سے خطوط میں پہلا خط سینئر صحافی حبیب خان غوری کا ہے، جس میں وہ جیل سے باہر کے ساتھیوں کو صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے رقم طراز تھے کہ ’’سینٹرل جیل کراچی میں آج ہمارا چھٹا دن ہے اورپروفیسر عادل بھٹی کی سربراہی میں گرفتاری دینے والا مجاہدینِ صحافت کا ایک اور دستہ جیل پہنچا ہے، گزشتہ روز جو دستہ مولانا خورشیدکی قیادت میں پہنچا تھا، اس میں شمیم اصغر بھی جیل پہنچا دیے گئے ہیں، جنھیں نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، شام جی، اشرف شاد اور دیگر نو ساتھیوں کی حیدر آباد منتقلی سے اگر چِہ پہلی والی چہل پہل نہیں رہی، تاہم دوسرے دوستوں کا دم غنیمت ہے، جیل میں قیدِ با مشقت کے قیدیوں کو کوڑے مارے گئے لیکن میں نے ان کے حوصلوں کو پست نہیں پایا، وہ اب بھی پُر جوش ہیں، انھوں نے جیل میں مختلف گیت، نغمے اور جگنیاں تیار کر رکھی ہیں، رات کے وقت محفلیں سجاتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ ہم نظر بند ہیں۔‘‘
ایک سینئر اور حوصلہ مند صحافی طاہر نجمی کا نواب شاہ جیل کی بیرک نمبر 8 کا ایک خط، جس کا عنوان ہم موت سے بھی نہیں ڈریں گے‘ ہے۔ اس میں طاہر نجمی تنہائی کے عذاب میں بھی پُر عزم ہو کر ساتھیوں سے مخاطب ہیں، ’’جیل میں آزاد اخبارات و جرائد کا داخلہ بند ہے، البتہ، مودودی اینڈ کمپنی کے جرائد کی آمد پر جیلر صاحب کو کوئی اعتراض نہیں، لانڈھی جیل سے منتقل ہونے کے بعد اب نواب شاہ جیل میں بالکل تنہا ہوں، تاہم وقت گزر رہا ہے، وہ ساتھی خوش قسمت ہیں جو دیگر جیلوں میں با جماعت نطر بندی یا سزائیں کاٹ رہے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ قائد صحافت منہاج برنا آزادئِ صحافت کے لیے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کریں گے، اگر ایسا ہوا تو پھر نواب شاہ کا یہ تنہا اسیر صحافی بھی پیچھے نہیں رہے گا، ہم جیلوں، کوڑوں اور فوجی عدالتوں کی سزاؤں سے نہیں ڈرتے اور موت سے بھی نہیں ڈریں گے۔‘‘
مذکورہ دونوں سینئر صحافیوں کے اس وقت کے حوصلے آج بھی صحافتی تحریک کو جِلا دینے سمیت مصائب و ابتلا اور گروہی کم زوریوں میں گرفتار صحافت کو ایک نئے عزم کے ساتھ یَک جا کرنے کی مکمل طاقت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ صحافت کے قلم اور معاشی آزادی کی جنگ ہی عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق دلانے کا آخری مورچہ ٹھہرے گی:
صعوبتیں جو پڑی ہیں مٹا کے دم لیں گے
جو مشعلیں نہیں روشن جلا کے دم لیں گے
روز نامہ ایکسپریس میں بھی شائع ہوا