انصاف ، عدالتیں او ر عدالتی انصاف
(شعیب حسن)
اس حقیقت سے ہم سب آشنا ہیں کہ انصاف کی دیوی ہاتھ میں ترازو لیے اور آنکھوں پر پٹی باندھی بیٹھی ہے۔ پاکستان میں عدل و انصاف کی تشہیر زیادہ اور کام کم ہوتا ہے۔ عدل و انصاف کے حالات و اثرات کے حوالے سے میں لکھ رہاہوں یہ کیے مہیا کیا جائے کن کیلئے یہ مہیا کیا جاتا ہے۔ اس کی فراوانی میں کیا رکاوٹ نمایاں ہے اس کا فلسفہ کیا ہے۔ جنگ عظیم دوئم میں چرچل سے جب برطانیہ کی فتح و شکست کے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے شہرہ آفاق جواب دیا تھا۔جاؤ دیکھو اگر برطانیہ کی عدالتیں انصاف کررہی ہے توبرطانیہ کبھی نہیں ہار سکتا۔
عدالتی نظام کی افادیت و اہمیت اس نے وہاں بیان کرد ی تھی لیکن ہمارے ہاں لفظی حیثیت رکھتا ہے۔ اسکی اگر وضاحت کی جائی تو کچھ یوں ہو گی کہ ہم ظلم کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور اس ظلم کو جاری بھی رکھتے ہیں۔ اور ظالموں کو پالتے بھی ہیں۔ اور اس کے بعد مظلوم کیلئے ایک علامت بھی مقرر کرتے ہیں۔ اور اس کو عدالتی رہ بھی دکھاتے ہیں۔ کہ یہ راہ نجات ہے پھر اسکی فریاد کیلئے حسب توفیق وکیل بھی مقرر کرتے ہیں۔
اس وکیل کی تقرری کے ضمن میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جناب والا قانون توبڑا پیچیدہ ہوتا ہے اس لئے مظلوم اکثر اپنا مقدمہ پیش کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس کے بعد مظلوم کی دل جوئی کیلئے ثبوب کی فراہمی کا ذمہ بھی اسکے ذمے لگا دیا جا تا ہے۔ کہیں تو فراہمی ثبوت کیلئے حکومتی تنخواہ دار مقرر کردیا جاتا ہے تو کہیں اس کیلئے خود جدو جہد عمل میں لائی جاتی ہے تفتیش کیلئے وہی حکومتی ذرائع عمل میں لائے جاتے ہیں چاہئے ظالم حکومتی اہلکار ہی ہو۔
اور نمایاں بات شک کا فائدہ بھی ظالم ہی کو ملتا ہے۔اور اسکے مدمقابل انصاف دراصل مظلوم کی تشفی کا نام ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ ظلم مآخوذ ہے۔ لیکن اس کے حصول کیلئے دستک مظلوم کو ہی دینا پڑتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انصاف خود دروازے پر نہیں آتا ۔کیونکہ انصاف اندھا ہوتا ہے اور بندو ں کو بھی اندھا کردیتا ہے۔ اگر آپ ایف آئی آر درج نہیں کرواتے توواقعہ جتنا بڑا ہو آپکا مقدمہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ اس ملک میں از خود نوٹس کے تحت انصاف نہیں ملتا۔
انصاف دروازے پر نہیں آتا۔ جس کافائدہ سائل کی بجائے وسائل والوں کو ملتا ہے۔ اس ضمن تازہ ترین کمیشن پر بات کرلیتے ہیں۔ مظلوموں کو تشفی دی گئی، ان کی بات سنی گئی ، کوتاہیاں بتائی گئیں، صفارشات دگئی گئیں۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ طاقتور سامنے کھڑا نظر آیا ۔ انصاف سیاست کی نذر ہوگیا ۔ ایک بار پھر مضبوط کے سامنے عدل کمزور ہوا ہے۔ ہم وہ دن کب دیکھیں گے جب ادارے مضبوط ہونگے۔ شخصیات کا کردار ختم ہوجائے گا۔