(بی بی سی اردو)
ایک پاکستانی نژاد برطانوی لڑکی جو اپنی شادی کے بارے میں مخمصے میں پڑ گئی۔ اس کے سامنے دشوار سوال یہ ہے کہ کیا اسے اپنے کزن سے شادی کرنا چاہیے یا نہیں۔
حبا کی کہانی
میں 18 سالہ حبا ہوں میرے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ میں برطانیہ میں پیدا ہوئی اور یہی پلی بڑھی ہوں۔ کسی بھی نوجوان لڑکی کی طرح میں نے بھی اپنی شادی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے ۔ میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے خاندان میں ہی اپنے کسی کزن سے شادی کرنی چاہیے یا نہیں ۔
برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی میں تقریباً 70 فیصد کزن میرج ہوتی ہیں۔ان میں میرے دادا بھی شامل ہیں۔ میری ماں کی پہلی شادی کزن سے ہوئی تھی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔
میں نے پہلے اس مسئلے پر اپنی عمر کے نوجوان کزنوں سے بات کی لیکن کوئی بھی کیمرے پر بات کرنے کے لیے راضی نہ ہوئی کیونکہ انھیں ڈر لگتا ہے کہ میڈیا پر ان کے الفاظ کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا جائے گا۔ میں نے اپنی ماں، باپ، اور چچا یونس سے بات کی۔
میرے والد مجھے نہ تو کزن میرج کے لیے قائل کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کے مخالف ہے۔ میرے چچا یونس کزن میرج کے حق میں ہیں۔ چاچا یونس کہتے ہیں: ‘ہمارے کلچر میں، شادی صرف دو افراد کے درمیان نہیں بلکہ خاندانوں میں ہوتی ہے۔ اگر دونوں خاندانوں کی اقدار ایک جیسی ہیں تو شادی کامیاب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔’
میرا چچا نے کزن میرج کو اس خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ میں سمجھی کہ اس طرح کی شادیاں زیادہ کامیاب رہتی ہیں۔ اگر اعداد و شمار کو دیکھیں تو چچا یونس کا نقطہ نظر صحیح لگتا ہے۔ برطانیہ میں شادیوں کے ٹوٹنے کی شرح 42 فیصد ہے لیکن کزن میرج ٹوٹنے کی شرح صرف 20 فیصد ہے جو بہت متاثر کن ہے۔
میرے والد نے ہمیشہ مجھے خاندانی تاریخ اور روایت میں دلچسپی لینے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انھوں نے مجھے خاندان میں ایسی شادیوں کے بارے میں بتایا.
کزن سے بھی ملاقات کی
میرے خاندان میں میری عمر کے کزن پاکستان میں ہیں۔ میں نے ان سے ملنے کے لیے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ میر پور میں نے اپنے کزنوں سے کزن میرج کے بارے میں ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔
یہاں میں نے دیکھا کہ لڑکوں کو اس طرح کے شادیوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن لڑکیوں کو کزن میرج سے پیدا ہونی والی جینیاتی خرابیوں کے تشویش پائی جاتی ہے۔
سائنس کیا کہتی ہے؟
میرے چچا نے میری ملاقات ایک ایسے خاندان سے کرائی جن کے دو بچے معذور ہیں۔ میاں بیوی دنوں فرسٹ کزن ہیں۔ اس خاندان کے بچوں کو دیکھنا ایک درد ناک تجربہ تھا۔
میں نے یہ جاننے کے لیے کہ ہمارا مذہب اسلام کزن میرج کے بارے میں کیا کہتا ہے ایک عالم دین سے بات کی۔ اس عالم دین نے مجھے بتایا کہ مذہب کزن میرج کو منع نہیں کرتا لیکن اس چیز کی ممانعت کرتا ہے کہ کسی بالغ شخص کو اس کی مرضی کے برخلاف شادی پر مجبور کیا جائے۔
برطانیہ میں 2007 اور 2010 میں ‘بورن ان بریڈفورڈ’ کے نام سے ایک تحقیق ہوئی جن میں کزن میرج کے بارے حقائق کو سامنے لایا گیا۔
اس رپورٹ کی مدت کے دوران پیدا ہونے والے بچوں میں پاکستانی نژاد برطانوی بچوں کی شرح صرف تین فیصد تھی لیکن جو بچے جنییاتی بیماریوں میں مبتلا تھے ان میں تیس فیصد پاکستانی نژاد برطانوی بچے تھے۔
اس کے بعد میں جین کلینک کے ڈاکٹر آنند ساگر سے ملی۔ جنھوں نے مجھے بتایا کہ ہر حمل میں جینیاتی نقص کا دو فیصد امکان موجود ہوتا ہے لیکن جب یہ حمل کزن میرج میں ہو تو رسک کی شرح پانچ فیصد ہو جاتی ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ اگر دونوں کزن شادی سے پہلے اپنا ٹیسٹ کروا لیں تو اس سے رسک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے میرے خون کا نمونہ لیا جس کی رپورٹ آنے کے بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ مجھ میں کسی مورثی بیماری کو کوئی آثار نہیں ہے۔
ماں سے مشورہ
اب جب مجھے سائنس کی طرف سے کلیئرنس مل گئی لیکن میں نے حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے میں نے اپنی ماں سے بات کی۔ میری ماں نے مجھے بتایا کہ ان کی پہلی شادی فرسٹ کزن سے ہوئی تھی۔ یہ شادی صرف اٹھارہ ماہ ہی چل سکی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ اس رشتے سے نکلنے کے لیے ان کے والدین نے ان کی مدد کی حالانکہ پاکستانی کمیونٹی میں طلاق کو برا تصور کیا جاتا ہے۔
اور پھر میں اس نتیجے پر پہنچ گئی ہوں کہ میں کزن میرج نہیں کروں گی۔