کرونا جب جاتا ہے تو
از، یاسر چٹھہ
آپ صبح بیدار ہوتے ہیں تو ایسے جیسے ڈیڑھ لٹر کی سپرائٹ کی بوتل میں تین دن پہلے کا پڑا آخری بچا گلاس ہو۔ …
واک کرنے جاؤ تو…
شروع کے دنوں میں پاؤں ایسے گھسِیٹ گھسِیٹ کے چلنا پڑتا ہے جیسے عمران خان کی حکومت کے بعد معیشت چلتی ہے، یا جمہوری وقفے میں نظامِ خاک شاہی سویلین حکومت کو چلنے دیا جاتا ہے۔
واک سے واپس آؤ تو چہرہ ایسا اُترا ہوا ہوتا ہے، جیسے ڈیم والے بابا جی، جی وہی مہاجرِ لندن، جناب جسٹس ثاقب نثار کے دور کی سپریم کورٹ کے بعد نواز شریف کا… یا پھر بندہ جیسے چودھری شجاعت حسین بن گیا ہو۔
محلے کے سبزی والے کی دکان سے سبزی اٹھا کر لاؤ تو جس ہاتھ میں سبزیوں کا تھیلا اٹھایا ہو اس کی انگلیاں خدمتِ عامہ کرنے کے بعد بیرسٹر شہزاد اکبر جیسی ہو جائیں: براڈشیٹ خاکی کام کریں، مگر پھُول جائیں۔
تھوڑی گاڑی چلا کر آؤ تو کمر ایسے ہو جائے جیسے پرویز مشرف کی کمر کا سچا جھوٹ ہو … خمیدہ، خمیدہ، جُھکی جُھکی، چِٹختی ہوئی گاؤں کے گھر کے پرانے پَسار (والے کمرے) کے دروازے کی سی چرمراتی آواز نکالتی ہوئی…۔
اور ان سب احوالِ بے حال کے اوپر یہ بات کہ جب کوئی حلال دا معاشرتی سائنس دان آپ کو یہ کہے:
“کرونا شرونا کچھ نہیں ہوتا،”
“کہاں ہے کرونا، دکھاؤ کرونا، ایسے ای، بس ایویں ای!”
ایسے باتیں کرتے، ایسے خلائی اور سودائی فلسفے بگھارتے مُنھ چَھٹ کے مُنھ پر زناٹے دار تھپڑ نہ مار سکنے کی توانائی نہ موجود ہونا۔ سب دکھ بہت بڑے ہیں، پر یہ آخری دکھ تو بہت ہی بڑا ہے۔
پر، بندہ دربارِ کرونا سے ہو آنے کے دوران، اور بعد ازاں سیکھتا بہت کچھ ہے۔
اچھا، تو آپ ہنس رہے ہیں۔ ہنس لیجیے۔ ورنہ تو رُلانے کے لیے لوگ بائیس بائیس برس ضد و زہد اور ریاضت کرتے ہیں۔ ہنس لیجیے۔
You deserve some dearly earned smiles indeed.
لیکن سُنیے!
کرونا مجھ پر بھی بِیتا ہے، جانے اس بِتائی میں کون جیتا
ہے، یا اس بِپتا میں مقابلہ ہار جیت کے بَہ غیر ہی انجام کو پہنچا ہے؟
مجھے کبھی بھی کوئی ہار، شاید ہی ہار لگی ہو، اس لیے کہ میرا کرنسی کا نظام بہت عجب سا ہے۔ اس نظام میں آپ صرف کماتے ہی ہیں۔ زندہ رہیں تو آپ زندوں کو باتیں سناتے ہیں، کہانیاں سناتے ہیں۔ پردہ کر جائیں تو آپ فرشتوں کی بوریت دور کرتے ہیں۔
ویسے فرشتے کیسا بور اور یک رنگ سا جیون بِتاتے ہیں۔ آج صبح سوچ رہا تھا پردہ کرنے والے انسان فرشتوں کو کہانیاں اور باتیں سناتے ہوں گے، یا پھر فرشتے یک سانی میں ہی زندہ مردنی کا شکار پڑے رہتے ہیں؟
(نہیں، ایسے سوال اور باتیں نہیں کرتے۔) یہ تو صرف خیال آیا تھا، میں نے کون سا حلف نامہ جمع کرا دیا ہے۔ خیالِ فاسد ہے، پنجاب کے سرکاری دانش ور اس کو زیادہ سنجیدہ نہ لیجیے، دل پر سوار مت کیجیے۔ ابھی امر جلیل قبلہ کے معاملہ پر ہی یک سُوئی فرمائیے۔ پروردگار سے ہمارے تعلقات بڑے نِجی نوعیت کے ہیں، آپ کے ذرا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور کاروباری سے ہیں، آپ کی تفہیم مُعلّق ہو جائے گی، جیسے کمپیوٹر hang ہو جاتا ہے۔
تو جنابِ مَن، کرونا آیا۔ ہم میں رہا۔ اب لگ بھگ دو ہفتوں سے دل بَرِ رفتہ ہے۔ مطلب کرونا چلا گیا ہے۔ اس وقت کہ جب یہ مجھ سے چلا گیا ہے تو مجھے اس کے جانے کے بعد آڈٹ کرنا چاہیے، سٹاک چیک کرنا چاہیے۔ بس، ایسے ہی ذرا پروفیشنل ساؤنڈ کرے گا۔
کچھ حساب کے دفتر کھولتا ہوں کہ اس کرونا نے ہمیں کیا دیا؟
کچھ دفتر اوپر کھولے ہیں۔ (عجب معاملہ ہے، غضب کی غربت ہے، لوگ طنز میں سے مطلب ہی نہیں نکال پاتے۔ بھئی طنز بھی بات کرتی ہے۔ غزلاں نہیں رہتی، پَر کلام کرتی ہے۔)
واک پر جانے کی بَہ حالی کے سلسلے کی رفتگی رفتگی، آہستہ خرامی کے دوران، اور زیادہ قریب سے، اور پھر سے، بَل کہ دوبارہ سے سیکھا ہے کہ ہمارے دونوں بچوں نے چلنا کیسے سیکھا۔ علم دروازے کھولتا ہے۔ سنیے تو چرخے کی میٹھی میٹھی گُھوں میں اپنے سَر بَستہ اصول بتاتا ہے، سناتا ہے، لکھواتا ہے۔
واضح ہوا، ذہن میں تصویر ابھری کہ کیسے اُن کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے؟ لیکن پھر بھی کیسے ان کے اندر اپنی دست رَس میں موجود زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر اپنے پاؤں پر چلنے کی سیکھ کی لگن تھی۔
ان کے دو چار قدم کیسے ہمارے چہروں پر مسکراہٹوں کے کھیت کھلیان اُگا دیتے تھے؟
ایسے منظر کو کوئی بھی ماں دیکھتی ہے تو تو دردِ زِہ کو فراموش کرا دینے والے گیت ابھرنے لگتے ہیں۔ اسے کہیں یاد داشتوں کے خزانے سے جوانی میں سنا گانا نئے معنوں کی چُنری اوڑھ کر یاد آ جاتا ہے:
نِی مَیں اُڈّی، اُڈّی جاواں ہوا دے نال…
نِی مَیں اُڈّی، اُڈّی جاواں ہوا دے نال۔
ماں کے یاد داشتی لمحوں کے خیمے پر بچوں کی یاد داشتوں کے لمحے کا دروازہ کھلتا ہے۔ تو بچے کیا محسوس کرتے ہیں؟
اندازے ہیں، بس اندازے!
بچوں کی آنکھیں کیسے چاند پر چلنے والے نیل آرم سٹرانگ کی آنکھ ایسی دمکتی ہوں گی۔ وہ سوچتے ہوں گے اور آرم سٹرانگ کے جملے کو بدلتے کر نہ بول کر بھی بولتے ہوں گے:
That (may be some very) small steps for (the elder) humanity, but (this is a) gigantic leap for my inner-verse.
کرونا کی بابت یہ سب صبح کی باتیں ہیں۔ دو پہر بھی تھکی ہوئی ہوتی ہے۔
شام کی باتیں بھی پتا چلتی ہیں کہ قدم کا ضُعف وقت سے آگے کی بات بھی بتاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی محنتوں اور ہمتوں پر ایسی نقّاہت، ایسی کم زوری کہ جیسے مِیلوں چل کر آئے ہوں، لیکن پھر بھی آپ کے اندر بہت فاصلے سے فاصلے ہوں۔ جیسے صدیاں بِتا کر آئے ہیں۔ یہ نقاہتیں، یہ تھکاوٹیں، یہ سب جسم اور روح کے رُوئیں رُوئیں کو سِیٹیاں بجتی آواز میں بتاتے ہیں کہ کیسے بڑھاپا آئے گا، اور وہ بڑھاپا کیا کیا کرتا ہے، کیسے کیسے کرتا ہے؟
بڑھاپے پر بات ختم کرتے ہیں، آپ ٹیڈ ہیُوز کی یہ نظم Old Age Gets up سماعتوں میں گھولیے اور جگر کی تواضع کیجیے:
Old Age Gets up
Stirs its ashes and embers, its burnt sticks
An eye powdered over, half melted and solid again
Ponders
Ideas that collapse
At the first touch of attention
The light at the window, so square and so same
So full-strong as ever, the window frame
A scaffold in space, for eyes to lean on
Supporting the body, shaped to its old work
Making small movements in gray air
Numbed from the blurred accident
Of having lived, the fatal, real injury
Under the amnesia.
Something tries to save itself-searches
For defenses-but words evade
Like flies with their own notions
Old age slowly gets dressed
Heavily dosed with death’s night
Sits on the bed’s edge
Pulls its pieces together
Loosely tucks in its shirt.